ڈاکٹر صالحہ صدیقی
الہٰ آباد
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
خالقِ کائنات نے انسانی بقا کے سلسلے کو برقرار رکھنے کے لئے زن و فرد کی تخلیق کی۔ دونوں کے تعاون اور میل جول کے ذریعے خاندان اور پھر سماج کی تشکیل ہوئی، صرف سماج ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کی بقا اور فروغِ تہذیب و تمدن کے لئے دونوں ہی لازمی چیز ہیں۔ فطرت سے عورت کے قلب میں ممتاز، گداز و ایثار اور قربانی کے جذبات سمو کر اسے مرد کے لئے راحت و سکون کا ماخذ بنایاہے۔ وہ اپنی ان صفات کے زیر سایہ نسل انسانی کی پرورش کرتی ہے۔عورت کے اس عمل میں مرد ایک معاون بھی ہے، حیات زن کا محافظ بھی ہے اور خاندان کی کفالت کا ذمے دار بھی۔عورت اور مرد کی صنفی صفات کے پیش نظر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فرائض فطرت کے قانون توازن کے عین مطابق ہیں۔ لیکن انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں نے اس توازن کو براقرار نہیں رکھا۔ سماجی حیثیت و مرتبہ تسلی بخش نہیں رہا۔بقول صغرا مہدی’’ہندو مذہب میں بے شمار عیوب عورتوں سے منسوب کردیے گئے ہیں، ان کو بھی شدروں کی طرح ویدوںکو پڑھنے کی اور قربانی میں حصہ لینے کی ممانعت ہے۔ ’’منو دھرم شاستر‘‘ کی رو سے پچپن میں عورت کو باپ کے زیر فرمان رہنا چاہئے، جوانی میں شوہر کی اور شوہر کے انتقال کے بعد بیٹوں کے، وہ خود مختار کبھی نہیں رہ سکتی۔‘‘ اس عبارت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورت کے مذہبی حقوق بھی ختم ہوگئے تھے۔ اسے کسی مذہبی تقریب میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی، بلکہ اس کا شمار ’’شودر‘‘ کے درجہ میں کیا جاتا تھا۔
عورتوں کے حقوق سے متعلق اٹھنے والی آوازوں میں ایک اہم مسئلہ حصول تعلیم بھی رہا ہے ۔انیسویں صدی کے نصف آخر میں عورتوں کی آزادی ، فلاح و بہبود کے علمبردار کی حیثیت سے ایشور چند ودیا ساگر ؔکا نام اہمیت کا حامل ہے ۔انہوںنے جن مسائل کواُٹھایا ان میں بیواؤں کی شادی اور تعلیم شامل تھا۔وہ عورتوں کی تعلیم کے زبردست حامی تھے ۔اس سلسلے میں انہوںنے لڑکیوں کے لیے پینتیس( ۳۵)اسکول کھولے ،جن میں بیشتر کے اخراجات وہ خود برداشت کرتے تھے ۔عورتوں کی تعلیم سے متعلق عیسائی مشزیوں نے بھی کوششیں کیں،لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا زیادہ زور تعلیم سے زیادہ عیسائی تعلیمات پر تھا ۔اس لیے یہ کوششیں زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوئیں ۔عورتوں کے حقوق کے متعلق اُٹھنے والی صداؤں میں ’’ینگ بنگال ‘‘ تحریک کا رویہ منصفانہ رہا ۔اس تحریک کا رہنما ایک اینگلو انڈین ہنری وویا دروزیوؔ تھا ،اس نے بھی تعلیم نسواں کی پر زور حمایت کی ۔۱۸۴۸ء میں کچھ طالب علموں نے ’’اسٹوڈنس لائبریری اینڈ سائنٹفک سوسائٹی ‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔اس سوسائٹی کے مقاصد میں لڑکیوں کے لیے اسکول کھولنا بھی شامل تھا ۔’’بیتھون اسکول ‘‘کا قیام بھی ۱۸۴۹ ء میں کلکتہ میں عمل میں آیا تھا جو بعد میں تعلیم نسواں کے مرکز کی حیثیت اختیارکر گیا تھا ۔مسلم عورتوں کی اصلاح ،فلاح و بہبود کے لیے سرسید اور ان کے رفقاء نے نمایاں کردار ادا کیا ،وہ معاشرے میں عورتوں کو ان کا صحیح مقام دلانے کی حمایت میں سر سیّد نے تعداد ازواج،پردے کی بے جا رسم اور بہ آسانی طلاق دیئے جانے کی مخالفت کی ۔تعلیم نسواں کے بھی وہ بہت بڑے ہم نواتھے ۔انھوں نے ۱۸۷۰ء سے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ میں عورتوں کی تعلیم دفاہ عورات،اور کثرت ازواج وغیرہ کے عنوانات سے مختلف مضامین تحریر کیے ۔سرسیّد کے رفقاء میں خاص طور پر نذیر احمدنے مسلم عورتوں کی اصلاح کے لیے متعدد ناول لکھے جن میں ’’مرأۃالعروس ‘‘اور ’’بنات النعش‘‘کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ الطاف حسین حالی ؔنے بھی عورتوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرسید کے بعد عورتوں کی تعلیم کو لے کر سنجیدگی سے کسی نے اس موضوع پر توجہ کی تو وہ حالیؔ ہے ۔خواتین پر لکھی گئی کتابوں میں ’’مناجات بیوہ‘‘،’’ چپ کی داد‘‘ اور’’مجالس النساء‘‘کا نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔انھوںنے یہ کتابیں لکھ کر سماج و معاشرے کی توجہ عورتوں کی بے بسی و لاچاری کی طرف منعقد کی ۔انھوںنے نثر ہو یا نظم ہر طریقے سے قوم کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا۔لڑکیوں کی تعلیم کے جانب عملی اقدام کے ساتھ ساتھ حالیؔ نے خواتین کے مسائل کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ۔اور عورتوں کی زبوں حالی پر قصے کے انداز میں ’’مجالس النساء ‘‘ لکھی ،یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اردو تنقید اور سوانح کی طرح ہندستان کی حقیقی عورت سے ہماری ملاقات بھی حالی ؔ کی تخلیقات میں ہوتی ہے۔ہے۔صالحہ عابد حسین کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ :
’’ حالی سے پہلے اردو شاعری میں عورت کا کوئی خاص مقام نہ تھا ۔اس کا زکر بھی آتا تو محض محبوب کی حقیقت سے اور بھی کوئی اونچے کردار اور اخلاق کی حامل نہیں ہوتی بلکہ اس کی حرکتوں میں شریف عورت سے زیادہ طوائف جھلکتی ہے ۔اس کی اصل صفات ایثار ،قربانی،جفاکشی،محنت ،وفا،پرستش،محبت، خدمت،کا کہیں زکر نہیں ملتا۔ماں ،بہن ،بیوی،اور بیٹی،کی حیثیت سے اس کا جو بلند کردار ساری دنیا کی تاریخ میں عموماً اور ہندستان میں خصوصاً رہا ہے ۔اس کا اشارہ بھی شاید کہیں مل سکے ۔‘‘(مقد مہ مجالس النساء)
حالی ؔعورت کو انسانیت کا بلند ترین مقام عطا کرتے ہے۔وہ ایک عورت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ عورت کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں اور ہنر مندی کو بھی بہت اہم مانتے تھے۔خصوصاً اس بات پر کہ عورتوں کے لیے بعض اوقات علم سے زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے ۔حالیؔ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ:
’’ علم بادشاہ ہے اور ہنر اس کا وزیر ہے،جیسے بادشاہ بغیر وزیر نکما ّہوتا ہے اسی طرح علم بغیر ہنر کے دنیا میں کام نہیں آتا ‘‘
اس کے علاوہ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے بھی اپنے ناولوں مثلاً ’’فسانۂ آزاد، سیر کوہسار،جام سرشار،کامنی،‘‘وغیرہ لکھیں جن میں انھوںنے دیگر مسائل کے ساتھ عورتوں کی تعلیم کو بھی اہم قرار دیا ۔تعلیم نسواں کی اہمیت ان لفظوںمیں بیان کرتے ہیں ـ:
’’ عورت اگر تربیت یافتہ ہوگی تو اپنے بچوں کو ابتدأ ہی سے عمدہ تعلیم دے گی ،اخلاق سکھائے گی ،اچھی اچھی باتیں بتائے گی ،کیونکہ دس بارہ برس تک بچے کنار مادر میں پرورش پاتے ہیں اور ماں کی خو بوان میں زیادہ اثر کرتی ہے ۔اگر ماں تعلیم یافتہ ہوئی تو اوائل عمر ہی میں جس قدر عمدہ تعلیم لڑکے اس سے پا سکتے ہیں اس قدر اور کسی طرز پر ممکن نہیں ۔‘‘ ( فسانۂ آزاد ’’ جلد اوّل ‘‘ صفحہ ۳۲۶)
اس کے علاوہ ممتاز علی ؔنے ۱۸۹۶ء میں لاہور سے ایک ہفتہ وار رسالہ ’’ تہذیب نسواں ‘‘ کے نام سے جاری کیا ۔جس کی ایڈیٹر خود ان کی بیوی محمدی بیگم تھیں ۔یہ رسالہ عورتوں میں بہت جلد مقبول و معروف ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رسالے میں توہمات ،فضول رسوم ،اور عورتوں کے دیگر مسائل پر مضامین ہوتے تھے جن سے اس وقت ہندوستانی عورتیں دوچار تھیں ۔ عورت کی ترقی اور اس کی اصلاح بھی تب تک ممکن نہیں جب تک وہ تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہونگی ۔اور ان پر ظلم ستم کا سلسلہ بھی تب تک نہیں تھم سکتا جب تک ہر ایک لڑکی کو تعلیم نہیں مل جاتی۔کیوںکہ عورت کی تعلیم کے بنانہ تو ایک خوشگوار سماج اور گھر کا تصور ممکن ہے اور نہ ہی آگے آنے والی نسلوں کی تربیت صحیح طریقے سے ممکن ہے لہٰذا ایک عورت کے لیے تعلیم ہر حال میں لازمی ہے ۔بھلے وہ گھر ہی میں کیوں نہ ہو لیکن اس کے لیے اپنے بچوں کی صحیح تربیت اور پرورش کے لیے بھی تعلیم ضروری ہے اس کے علاوہ زندگی کے ہر موڑہر قدم پر عورتوں کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا لازمی ہے ورنہ سماج ہو یا معاشرہ،تہذیب و معاشرت ہو یا ادب ،گھر ہو یا گھر کے باہرکی زندگی اس کی مکمل ترقی ممکن نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا اس طرح تعلیم عورت کے ساتھ مردوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے،جتناکہ کھانا،کپڑا اور مکان۔ ایک عورت اپنی تعلیم سے صرف خود تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس سے متا ثر کرتی ہیں ۔جواہر لال نہرو نے کہا بھی ہیں کہ :
” When you educate a man you educate an individual when you educate a women you educate a whole family. “
ا س طرح جواہر لال نہرو نے’’ ایک مرد کی تعلیم کو ایک فرد کی تعلیم ،جب کہ ایک عورت کی تعلیم کو پورے خاندان کی تعلیم قرار کیا ‘‘۔
ایک زمانہ وہ تھا جب ہندوستانی معاشرے کی لڑکیاں اور خاص کر مسلم لڑکیاں دبی دبی اور سہمی سہمی سی رہتی تھی، برقعہ کے اندر ہوں یا باہر چادر اور چہار دیواری بہر صورت ہر جگہ ان کا پیچھا کرتی تھی، اگر پڑھ لکھ گئیں اور قلم اٹھانے کی جسارت بھی کی تو ’’اخلاقی کہانیوں یا اصلاحِ تمدن‘‘ جیسے موضوعات سے آگے نہیں بڑھتی تھیں، مگر زمانہ نے جب کروٹ بدلی، صدیوں کا جمود ٹوٹا، معاشرے میں رائج فرسودہ رسم و رواج کے خود ساختہ اصول ریزہ ریزہ ہوئے، آزادی نسواں نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا، تو ظاہر ہے کہ عورتوں نے اپنے احساسات و جذبات کو مختلف اصناف کے ذریعہ ادبی دنیا میں اس شان سے لایا کہ دنیائے ادب کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔بیشک اردو شاعری اور نثر نگاری دونوں کے ارتقاء میں بھی خواتین نے مردوں کے دوش بدوش حصہ لیا، لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ ان کی کاوشوں کو ترتیب اور تغیر کے ساتھ کہیں نہیں پیش کیا گیا۔
دور حاضرمیں عورتوں کی صورت حال کا جائزہ لے تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں جہاں عورت کو آزادی حاصل نہیں تھی وہیں اکیسویں صدی کی عورت کو آزادی کی نفی تو ہوئی ساتھ ہی اس کے سامنے نئے مسائل کی نمائندگی نے دیگر مصائب میں بھی مبتلا کر دیا۔ جس میں سب سے بڑا مسئلہ اس کی حفاظت کا پیدا ہوگیا ،کیو نکہ عورت کو آزادی تو مل گئی لیکن اس کے ساتھ اس کو وہ حفاظت نہیں ملی کہ گھر سے باہر نکلنے پر وہ بے خوف اپنے کام پر جا سکے اور اس کی عصمت و عزّت محفوظ رہ سکے ۔آج ہر روز عورت کی عصمت دری کے قصے سنائی دیتے ہے اور اخباروں ونیوز چینلوں کی زینت بنتے ہے اب تویہ ہر روز کا معمول بنتا جا رہا ہے ۔اسکے علاوہ عورت کا گھر سے باہر نکلنے کا بہت بڑا نقصان گھر کے داخلی نظام کو ہوا ،بچے والدین کے لاڈ و شفقت سے محروم ہو گئے ، والدین خصوصاًایک ماںاپنے بچوں کو وہ تعلیم وہ اخلاق اور وہ پیار دینے سے محروم ہوگئی جو اس کی پہلی زمہ داری تھی۔ جس کے برُے نتائج ان کو آگے کی زندگی میں برداشت کرنے پڑتے ہے ۔ آج جوائن فیملی کا سسٹم ختم ہونے کی وجہ سے بھی بچے اپنے تہذیب و معاشرت اورکلچرکے ساتھ رشتوں کی اہمیت و افادیت سے بھی کوسوں دور ہوتے جا رہے ہے ۔ ماں باپ کے درمیان گھر کے باہر کام کرنے کے باعث بڑھتی دوری کے سبب بچے ان کے پیار کے لیے ترستے ہے اور اس طرح بچے ہر روز اپنے ماں باپ سے دور ہوتے چلے جاتے ہے اور اپنی ایک نئی دنیا بنانے لگتے ہے جس میں وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہے اورجب وہ شام کو تھک ہار کر جب گھر لوٹتے ہے تو ان کو گھر کی کوئی خبر نہیں ہوتی کیونکہ گھر تو ان کے گھر کام کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔اس طرح آج جرائم کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ناجائز رشتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے میاں بیوی کا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں طلاق میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک گھر تباہ و برباد ہو جاتا ہے جس میں سزا ان کے معصوم بچوں کو ملتی ہے ۔بچوں کا یہ حال کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم آج ان کے دل و دماغ پر اس طرح حاوی ہیں کہ ان کی زندگی ،ظاہری و باطنی نشو نما سوشل میڈیا ٹرنڈ طے کر رہا ہے۔
آج دن بدن تجارت کے بازاروں میں نوجوان لڑکیوںکی مانگ بڑھتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں’’ سیلزگرل ‘‘اور ’’ماڈل گرل ‘‘ کا فیشن عام ہوتا جا رہا ہے ۔آج ایک صابن اور بچوں کی ٹافی سے لے کر ہوائی جہاز تک کار سے لے کر ایک سوئی تک فروخت کرنے کے لیے لڑکیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ مردوں سے متعلق اشیاء فروخت کرنے کے لیے بھی عورتوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ آج بے شرمی کو فیشن کا نام دے کر عورتوں سے وہ تمام کام کروائے جا رہے ہیں جو اس کی عصمت و عزت کو تار تار کر رہے ہیں ۔آج عورتوں سے فیشن کے نام پر ان کی اصل خوبصورتی اور حسن و جمال کو چھین لیا گیا ہے ۔شرم و حیا ، طہارت و پاکیزگی، عزت و عصمت و حسن پردہ، یہ تمام اشیاء کو آج ایک عورت سے چھین کر ننگا بازاروں میں سر عام پیش کیا جاتا ہے اور ان کو اس طرح سے اس کام کے لیے فیشن کے نام پر راضی کرلیا جاتا ہے کہ عورت بخوشی اس کام کو سر انجام دیتی ہے نتیجتاًعریانیت کا بو ل بالا عام ہوتاجارہا ہے۔ان حقیقتوں سے انکار یقینا ممکن نہیں ۔
اسی طرح اگر لکھنے بڑھنے کے میدان پر نظر ڈالے تو آزادی کے بعد بڑی تعداد میں آج تک ادب میں تعلیم یافتہ ،با شعور عورتیں نظر آنے لگی ہیںاور جو بنی نوع انساں کے سماج میں اپنی شناخت چاہتی ہیں۔’’نسائی ادب‘‘ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اہمیت کا حامل رہا ہیں۔جس میں تہذیب و تمدن کے بدلتے رنگ،ہندوستانی رنگ،عورت کے تجربات واحساسات و مشاہدات کا عکس رونما ہیں ۔اس طرح نسائی ادب کی بھی اپنی اہمیت و افادیت ہیں جس کو نظر انداز کرنا ادب کے ایک بہت بڑے سرمائے کو فراموش کرنا ہیں۔ادب میں عورتوں نے بھی اپنی گراں قدر خدمات سے ادب کے دامن کو گر انبار کیا ،اور ادب کے دامن کو وسعت بخشی ہیں ۔عورت اور اس سے جڑے مسائل یقینا ایک وسیع موضوع ہے جسے مختصر مضمون میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہونگی کہ خواتین کے ادبی ،علمی ،سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی کارناموں اور ان کے گراں قدر سرمایوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور ا نہ ہی ان کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔میں اپنی باتوں کا اختتام اقبال کے اس شعر کے ساتھ ختم کرنا چاہونگی کہ :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اسکی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں!
***