You are currently viewing پانی کی ہیئت: ایک جائزہ

پانی کی ہیئت: ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد نور الحق

شعبۂ اردو، بریلی کالج، بریلی

پانی کی ہیئت: ایک جائزہ

         ظاہری طور پر پانی نو ابواب پر مشتمل ہے ہر باب مختلف عنوان سے شروع ہوتا ہے بلکہ ابواب کی فہرست تیار کی گئی ہے اور انہیں اس طرح سے لکھا گیا کہ تمام ابواب مختلف داستانوی کہانیاں معلوم ہوتے ہیں۔ پانی کو دیکھ کر بھی نذیر احمد کے ناول آنکھوں کے سامنے پھر جاتے ہیں ایک طرف باضابطہ عنوانات ہیں تو دوسری طرف عنوان مزاج کے اعتبار سے بالکل داستانوی ہیں۔پہلے باب کے عنوان پر بھی نظر ڈالیں تو الیسا لگتا ہے جیسے نسیم کی مثنوی کا عنوان ہے مثلاً

         ’’داخل ہونا بے نذیر کا بیابان میں‘‘ یہ پہلے باب کا عنوان ہے۔ اس کی ابتداء علامتی انداز میںہوتی ہے کیونکہ یہ ناول ہے ہی علامتی۔لیکن اس میں بیانیہ کی تکنیک اور مکالماتی انداز کا ہی سہارا لیا گیا ہے۔بیانیہ کا بیان کرنے والا خود مصنف ہے جو حسبِ ضرورت کرداروں کو زبان عطا کرتا ہے اور جہاں ضرورت ہوتی ہے تبصرہ کرتا ہے لیکن تبصرہ بالکل بیانیہ کا جز ہے۔کہیں بھی پیچیدگی کو دخل نہیں۔

         پہلا باب استعاراتی انداز لئے ہوئے ہے جس میں ایک ماں کی پچکی ہوئی چھاتی ہے تو دوسری طرف پیاس سے اس کے بچے کی بلبلاہٹ۔ماں کی پچکی ہوئی چھاتی کا عالم یہ ہے کہ ٹھیکرے سے دبانے پر اس میں سے چند پیلے اور پتلے دودھ کے بوند ٹپکتے ہیںاور بچے کی پیاس کا عالم یہ ہے اسے سیاہ سفوف چٹا کر سلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔نہ بچے کی پیاس بجھتی ہے اورنہ ماں کی چھاتی میں دودھ۔ماںہر طرح سے کوشش کرتی ہے چھاتی کے بجائے منھ کے لعاب میں نیند آور دوا دیتی ہے وہ بھی دیر پا ثابت نہیں ہوتی تو حضرت اسمعیل اور آب زم زم کا قصہ سنا کر بچے کو بہلاتی ہے اور پھر ماں غائب ہوجاتی اور بچہ بیابان میں پہنچ جاتا ہے۔بیابان میں بے نظیر کی تشبیہ دریا سے باہر گرم ریت پر تڑپتی ہوئی مچھلی سے دی گئی ہے بیابان میں بھٹکتے ہوئے اسے تالاب نظر آتا ہے تو اس کی حالت دیکھئے۔

’’ایک تالاب دکھائی پڑا ہونٹوں کی پیڑیوں میں بہتے ہوئے پانی کی سرسراہٹ محسوس ہوئی لڑکھڑاتے ہوئے پیروں میں چاک و چوبند بیساکھیاںبند ھ گئیں وہ تالاب کی طرف دوڑ پڑا۔ ‘ ‘ ۱؎

         یہ ایک پیاسے انسان کی بہترین تصویر کہی جاسکتی ہے جو پانی دیکھ کر ہوسکتی ہے۔تالاب کے چاروں طرف پیاسے ہی پیاسے نظر آتے ہیں لیکن سب کے سب ہاتھ باندھے کھمبوں کی طرح نظر آتے ہیں اور بے نظیر انہیں دیکھ کر حیران و پریشان نہیں ہوتابلکہ وجہ معلوم کرتا ہے پتہ چلتا ہے کہ تالاب میںایک نہنگ راج کررہا اورکسی کو پانی چھونے تک نہیں دیتا بے نظیر نہنگ سے برسرپیکار ہوکر پانی پینا چاہتا ہے تو کھڑے ہوئے پیاسے اس پر طنز کستے ہیں کہ ’’بڑے آئے رستم خاں کے خاندان سے جو پتھر مارکر اسے بھگا دیں گے۔‘‘بے نظیر کو یہ طنز اس کے عمل میں مزاحم ہونے کے بجائے جوش دلا دیتے ہیں وہ پتھر برسانے لگتا ہے تو تالاب میں طوفان کا نظارہ اٹھتا ہے جس سے بے ہمت اور بے عمل پیاسوں میں دہشت پیدا ہوتی ہے اور نفسیاتی طور پر بے نظیر بھی خوف زدہ ہو اٹھتا ہے لیکن جب وہ پھر کمر کستا ہے تو ایک پیاسا بوڑھا جو اسے مشورہ دیتا ہے وہ قابلِ غور ہے۔

’’مگر میرے بچے ! میری ایک بات یاد رکھو! اگر واقعی تم اپنی پیاس مٹانا چاہتے ہو تو اپنے اعصاب کی یہ طنابیں ڈھیلی کردو،آنکھوں کی چنگاریاں بچھا دو، ماتھے سے تنی ہوئی لکیریں مٹا دو۔۔۔اور چپ چاپ یہاں آکر کھڑے ہوجاؤ۔۔۔یہاں۔۔۔ہمارے پاس۔۔۔اور انتظار کرو ان چوکنی آنکھوں کے جھپکنے کا۔۔۔ ورنہ۔۔۔ ‘‘  ۲؎

         یہ بے عملی ظاہر ہے نہنگوں کی طاقت سے مرعوب ہونے کی وجہ سے ہے۔اوراسی مرعوبیت میں ایک طرف نہنگوں کے سر پر تاج رکھا ہے تو دوسری طرف ہاتھ پر ہاتھ رکھے پیاسے کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔لیکن بے نظیر اپنی پیاس بجھانے کے لئے اکیلا ہی لڑتا ہے اور نہنگ شکست کھا کر پانی کے نیچے تو چلا جاتا ہے لیکن اس کو زہرآلود کردیتا ہے اور ایک پیاسے کی موت بھی ہوجاتی ہے۔

         اس حصے میںبے نظیر اور بوڑھے کے درمیان جو گفتگو ہے وہ دراصل اس باب کا پورا فلسفہ ہے جو آج کی سیاسی حالت کو ظاہرکرتا ہے بلکہ سیاسی نظام کو ظاہرکرتا ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے کس کس طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرناہوسکتا ہے اوراس نظام میں عادی ہوئے لوگ بھی سامنے آتے ہیںجو جمود و تعطل سے سمجھوتا کرچکے ہیں اور وہ اس نظام میں خوش ہیں حالانکہ فطری طور پر اس نظام کی غلطیوں کو بھی سمجھتے ہیں یہ ایک مکمل کہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔

         دوسرا باب  ’’لانا کاٹ کر پہاڑ زہر مہرہ کا ‘‘

         اس باب میں تالاب کے زہر کو دور کرنے کے لئے بوڑھے کے مشورے کے مطابق زہر مہرہ لانے اور اسے تالاب میں ڈال کر پانی کو پینے کے لائق بنانے کا بیان ہے۔ لیکن آخر میں تالاب کے محافظوں سے کہانی کو آگے بڑھانے کا جواز ڈھونڈ لیا گیا ہے جو بادشاہت اور ریاست کے وجود کا فلسفہ ہے۔

         تیسرا باب ’’ تشنہ لبوں کا استعجاب‘‘ہے

اس میں تالاب کے گرد اونچی چہار دیواری بن جاتی ہے۔پہلے والے محافظ غائب ہوجاتے ہیں اور تالاب میں پھر مگر مچھ آجاتے ہیں جو انسانوں جیسی آوازیں نکالتے ہیں۔ اس میں طلسمی ماحول بھرا پڑا ہے اور داستانوں جیسی بلکہ منظوم داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔مرصع فقرے اورجملے بحر و وزن کے سہارے اشعار معلوم ہوتے ہیں کیونکہ بے نظیر خیالوں کی دنیا میں جل پریوں سے ملاقات کرنے لگتا ہے جو اس تالاب کے اندر دکھائی دیتی ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جل پریوں کی دنیا کو دکھانے کے لئے یا ان کا تاثر قائم کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔

چوتھا باب:۔’’ پہنچنا دارالتحقیقات میں ‘‘

         دارالتحقیقات یہ ایک بیابان وادی میں ہے جہاں ایسے لوگ ہیں جسے مصنف نے محیر العقول کہا ہے۔چونکہ ان کے سر گھڑوں جیسے اور دھڑ عجیب الہیئت ہیں۔اس دارالتحقیقات میں موجودات کا مطالعہ، غیر موجودات کی کھوج، اشیاء کی ماہیئت اور کائنا ت کے اندرہونے والے تغیرات کے اسباب و عمل کا پتہ لگایا جاتا ہے۔دارالتحقیقات کا نقشہ واقعی کسی سائنسی اور ٹیکنا لاجی کی لباریٹری کی یا ہندوستانی فلموں میں ویلنوں کے خفیہ تجربات گاہ معلوم ہوتا ہے۔جہاں رموٹ کنٹرول سے سب کچھ دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔بے نظیر یہاں پہنچ کر اپنا مسئلہ رکھتا ہے اس کی پیاس فوری طور پر آبیازسے بچھا دی جاتی ہے لیکن اس کے آگے کے بیانات ایک طرف ایسے علامات کو سامنے لاتے ہیں جسے مصنف ہی سمجھ سکتا ہے دوسری طرف بلو فلموں ، کیبرے اور جادو گری کا نظارہ دکھانے لگتا ہے اور ساتھ ہی تخیل میں جنت بس جاتی ہے۔کبھی دنیا کی سائنسی ترقی تو کبھی نغمہ و طرب، رقص و سرود کی بہترین محفل سج جاتی ہے اور بے نظیر ان رنگینیوں میں جب تک پیاس بجھی رہتی ہے کھو جاتا ہے اور پھر پیاس کی شکایت پر آبیازہ حاصل کرتا ہے۔اس درمیان وہ خواب بھی دیکھنے لگتا ہے آنکھیں کھلتی بند ہوتی رہتی ہیں اور مناظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں آخر میں وہ اپنے سوال کا جواب نہ پاکر ناامیدہوجاتا ہے کیونکہ اسے انتظار کرتے رہنے کو کہا جاتا ہے۔اس کے لئے وقت کی کوئی اہمیت نہیں۔

پانچواں باب :۔

         اس میں ایسے بزرگوں کا ذکر ہے جو دنیا ہی کو سراب اور واہمہ سمجھتے ہیں اور پیاس یا تشنگی کو حوض کوثر سے بجھانے کی تلقین کرتے ہیں۔بے نظیریہاں بھی خیالی دنیا میںجنت کی سیر کر آتا ہے لیکن کوثر کے پیالے تک لپ پہنچاتے ہی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور حوض کوثر دیو ہیکل پہاڑ نظر آتا ہے اور بزرگ کی دی ہوئی تسبیح سانپ بن جاتی ہے اس حصہ میںسوائے مختلف پھولوں کے نام کے اور کوئی فضا ایسی نہیں بن پانی جو پوری طرح متاثر کرے۔بزرگ کی گفتگو میں وہ قوت نہیں جس سے اس عقیدے کا فلسفہ پوری طرح واضح ہوسکے۔

چھٹا باب:۔

         اس باب میں بے نظیر سے کئی منزلیں سیر کرائی گئیں ہیں غار سے پہاڑ ، پہاڑ سے گھاٹیاں، گھاٹیوں سے پہاڑیاں، پہاڑیوںسے پٹھار، پٹھار سے کوہستانی سلسلہ اور آخر میں ریگزار اورریگزار کی مناسبت سے سراب لیکن ریگزار کو چھوڑکر مصنف نے کوئی بھی منظرنہیں دکھایا ہے۔سراب کو دیکھتے ہی  بے نظیر مانند غزال پانی سمجھ کر دوڑتا ہے۔اس کے تاثر میں اضافے کے غرض سے ایک حقیقی غزال بھی لایا جاتا ہے جو خود پیاس بجھانے کے لئے سراب کا پیچھا کررہاہے لیکن سراب کا منظرکچھ پھیکا پھیکا ہے۔کیونکہ پچھلے حصوں میں جس طرح اس کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں جنت وغیرہ کے نقشے ابھرتے ہیں اس سے اس کی شدت تاثر بڑھائی جاتی ہے لیکن بے نظیر کی آنکھوں میں سراب کو پانی سمجھ کر چمک بھی پیدا نہیں ہوسکتی؟ بلکہ محض’’بے نظیر ریگزار کو روندتا ہوا جھلملاتی ہوئی شے کے پاس پہنچا۔جھلملاہٹ دور چلی گئی۔بے نظیر دوڑ پڑا۔پائوں جھلملاہٹ سے قریب ہوئے لیکن آب رواں دو ر ہٹ گیا۔وہ دوڑ کر پھر قریب ہوا پانی بہہ کر پھر دور چلا گیا۔‘‘   ۳؎

         اس تصویر میں تشنگی کی سفاکی جو پیچھے دکھائی جارہی تھی وہ بھی غائب ہے لیکن عملی قدم زیادہ متحرک ہے۔اس میں حضرت اسمعیل کے واقعے کو دوہرا کر کہ پیاس کی شدت میں ان کی ایڑیوں کی رگڑ سے آب زم زم نکل آیا تھا بے نظیر کی ایڑیوں کے پاس سے بھی چشمہ پھوٹتا ہوا محسوس ہوا لیکن اس کی ایڑیاں لہو لہان تھیں۔ اس منظر میں کافی دم ہے مگر جذباتی اس وقت اس کا آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اٹھانا اور غیبی امداد والے واقعات کو دوہرا کر مصنف رومانیت کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے لیکن آسمان کی خاموشی اور دھرتی کی تپش اسے ریگزار پر بھی دوڑا دیتی ہے۔

ساتواں باب:۔’’ دیکھنا منظر امرت پان کا۔‘‘

         اس حصے میں بے نظیر ریگزار سے نکل کر میدانی علاقے میں پہنچتا ہے جہاں دور کچھ سائے لہراتے معلوم ہوتے ہیں اس سے اس کی رگوں میں رمق کا احساس ہوتا ہے اور اس کے ڈگمگاتے قدم تیز ہوجاتے ہیں۔ اس دفعہ بے نظیر خود کسی کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ اسے آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر امر پیالے منھ سے لگائے دیوتا اسے روکتے ہیں۔اور اس کی ویرانی کی وجہ پوچھتے ہیں اور بے نظیر پانی کی تلاش ، جواب دیتا ہے لیکن دیوتا کا یہ سوال کہ تم منشیہ ہو۔

         اور بے نظیر کا جواب کہ

         ’’ہاں میں منشیہ ہوں اور بہت پیاسا ہوں۔‘‘   ۴؎

بہت ہی پھسپھا ہے لیکن امرت اور دیوتائوں کو لیکر بے نظیر اور دیوتا میں جو مکالمہ ہے وہ کافی متاثر کرتا ہے۔ اور یہ حصہ تو اور پر اثر ہے جس میں دیوتا بتاتے ہیں کہ

’’اچھا وہ !۔۔۔وہ دشٹ راکشس ہیں ان میںسے کچھ نے راکشس شکتی اور مایاوی شڈینتر سے دیوتائوں کے ساتھ چھل کیا اور تھوڑا سا امرت پراپت کرلیا۔‘‘       ۵؎

         یہاں بے نظیر کی شدت اور دیوتا کی دقت دونوں کا تضاد کافی خوش گوا ر ہے لیکن اس حصے کی یہ کیفیت کہ بے نظیر دیوتا اور دانی کے جھوٹے پیالوں کو چاٹتا ہے تاکہ دو بوند بھی مل جائے تو بات بن سکتی ہے اگلے حصے میں اس کی نفی ملتی ہے۔

         آٹھواں باب:۔

آب حیات اور خضر سے ملاقات ہے جہاں بے نظیر اپنی تشنگی کا سوال پھر اٹھاتا ہے خضر اسے چشمۂ حیواں یا آب حیات کی طرف لے کر چلتے ہیں۔لیکن بے نظیر کا یہ کہنا کہ

’’لیکن مجھے آبِ حیات نہیں پانی چاہیے صرف پانی۔میں امر ہونا نہیں چاہتا میں تو زندہ رہنا چاہتا ہوں صرف زندہ۔‘‘   ۶؎

اوپر والے حصے میں جیسا کہ میں نے کہا جو شخص امرت کے پیالے کو چاٹتا ہے تاکہ بات بنے وہی شخص آبِ حیات پینے سے کیونکر

انکار کرتا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیںآتی۔دوسرے یہ کہ یہاں خضر کو حیران و پریشان دکھا کرزبردست تاثر قائم کیا گیا ہے کیونکہ جس چشمے تک وہ جاتے ہیں اب اس میں مگر مچھوں کا بسیرا ہے اور وہ بھی آبِ حیات پی چکے ہیں۔

         نواں باب:۔گونجتے ہوئے قہقہوں کی صدائیں۔‘‘

         آخری باب اور زیادہ علامتی ہے خضر کے پاس سے بے نظیر خواب سے بیدارہوکر اپنے آپ کوایک خندق میں پاتا ہے اور خون آلود ہوتا ہے وہاں سے بھاگتے ہوئے وہ تمام راستے اسے پھر ملتے ہیں جن سے گزرتا ہوا وہ وہاںتک پہنچا تھا۔ وہ اسی دیوار استم کے پاس پہنچ جاتا ہے جس کے گھیرے میں تالاب گھرا ہوا تھااس کی دیواریں اب اور اونچی ہوچکی تھیں۔ انسان چھپکلی نما ہوکر اس دیوار پر رینگ رینگ کر چڑھنے کی کوشش کرتے اور گرجاتے۔یہاں منظر تابناک بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔اب اس تشنہ شخص اس طرح سے اپنی یاس بجھاتا کہ انسان جانور سے بھی بدتر درندہ بن جاتا ہے کوئی کسی کا خون چاٹتا نظر آتا ہے کوئی کسی کے گلے میںدانت گڑا کر خون پیتا نظر آتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔

’’ گرتے ہی وہ آدمی زمین پر ڈھیر ہوگیا۔سر سے خون رسنے لگا ان دونوں جسموں کے خشک ہونٹوں سے اینٹھی ہوئی زبانیں نکل کر اس ساکت بدن کی خون آلود پیشانی کے پاس لپلپانے لگیں۔ ‘‘    ۷؎

         آخر میں جنگلات کے تحفظ کا بھی ایک نعرہ سنائی دینے لگتا ہے۔ ملاحظہ کریں

’’ بادل قریب آکر دور جارہے تھے

جنگل کے درختوں کی شاخیں کٹ چکی تھیں

پورا جنگل ٹھنٹ پڑا ہوا تھا۔اور۔۔۔۔پیڑوں سے بہت سے مگر مچھ لپٹے ہوئے تھے ان کے منھ سے گرم پھونکیں نکل رہی تھیں۔ ‘‘۸؎

         یہاں مگرمچھ پانی سے نکل کر جنگل میں آجاتے ہیں۔

         یہ علامتی ناول مختلف طرح کے منازل سے گزرتا ضرور ہے لیکن جو اس کا مقصد ہے وہ سمجھ میں اس لئے نہیں آتا کہ تکرار سے پیچیدگی بڑھ جاتی ہے مثال کے طور پر حوض کوثر کا پانی، امرت اور آب حیات بالکل ایک ہی چیز ہے اور تینوں میں تین مناظر سے بے نظیر گزرتا ہے۔ایک میں لب بڑھاتا ہے تاکہ چھوئے، دوسرے میں جھوٹا پیالہ چاٹتا ہے تاکہ بات بن جائے اور تیسرے میں آب حیات پینے سے انکار بھی کرتا ہے ایک ہی شخص میں تین تضادات پیدا کرنے سے کوئی خاص مقصد حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اگر جدیدیت کے فلسفے کے نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو محض یہ نقشہ ابھرتا ہے کہ جدیدانسان ہر طرح کی مایوسیوں کا شکار ہے۔اس کی پیاس کا علاج نہ سیاست کے پاس ہے نہ مذہب،نہ سائنس اور نہ ہی توہمات و عقائداوراس کی حالت اس طرح کی ہوگئی ہے جیسے ریگزار میں غزال کی۔

         غرض پانی ہیئت کے نقطہ نظر سے پرانی ہیئت کی تجدید کرتا نظر آتا ہے۔ جس میں مرصع اور مسجع جملے طلسمی اور داستانوی

فضا بھی پیدا کردیتے ہیں۔زبان و بیان کے لحاظ سے یہ رومانی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ جو شاید جدیدیت کی ایک خصوصیت بھی ہے

جیساکہ جوزف وارن ہیچ نے بھی لکھا ہے۔

” In general  the  new  feature  of  their  technique  one  expresion  of  what  is  called  the  romantic  as  opposed  to  the  classic s  pirit in  art . ”    ۹؎

حواشی

۱۔       ص ۱۱ ،  پانی

۲۔      ص ۵۱،  ایضاً

۳۔      ص  ۲۸ ، ایضاً

۴۔      ص ۷۸، ایضاً

۵۔      ایضاً

۶۔      ص۶ ۹، ایضاً

۷۔      ص ۲۰۱، ایضاً

۸۔      ایضاً

۹۔        Twentieth  Century  Novel   Page  334

***

Leave a Reply