ابراہیم نثار اعظمی
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر:منفرد اقبال شناس
یوں تو اردو ادب میں بہت سارے اداباء و شعراء پیدا ہوئے ہیں ۔لیکن ہر کسی کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوا ،جو علامہ اقبا ل کو حاصل ہوا ۔بر صغیر کی ایک مایہ ناز شخصیت ’’علامہ اقبال‘‘ کسی تعارف کا محتاج نہیںہے ۔ ان کی زندگی ہی میں شہرتکا یہ عالم تھا کہ جس وقت ملک کی سرحد کو عبور کرکے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا رہی تھی۔ تواسی وقت خود ان پر اپنے ملک میںسطحی و فاسق قسم کے الزام لگائے جارہے تھے ۔ ایک طرف اقبال شناسی ،اقبال فہمی کی طرف گامزن ہوکر اقبالیات کے نئے شعبے قائم کر رہی تھی ۔ تو دوسری طرف اقبال شکنی ، اقبال دشمنی کا بازار گرم تھا ۔ایسے حالات میں اقبال پر لگائے گئے الزامات کو ثبوت کے ساتھ مٹانے اور منکرین اقبال کا دفاع کرنے والے کسی رہبر کی اشد ضرورت تھی۔اس نیک کام کو سر انجام دینے والا نہایت معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کا ہے۔ جنہوں نے اقبال پر لگائے گئے تمام الزامات کابڑی خوب صورتی کے ساتھ دفع کیا ہے ۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابردور جدید کے قد آور محقق، ادیب اسکالر اور اقبال شناسوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے بات واضح ہوتی ہے کہ وہ’ ’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ کے ذریعے سے اقبال دوستی کے دروازے میں داخل ہوکر اقبال فہمی کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
پروفیسر ایوب صابر2 جنوری ۱۹۴۰ء کو پاکستان کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک گاؤں موہری میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوئی ۔۱۹۶۳ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں بطور لکچرار تدریسی زندگی کی شروعات کی۔پروفیسر ایوب صابر کی زندگی کا محور ’’اردو زبان و ادب اور اقبالیات‘‘ ہے۔ اقبالیات سے ان کے شغف کا مظاہرہ ان کے ذریعہ سر انجام دئے گئے معیاری اور معتبر کارناموں سے ہوتا ہے۔
پروفیسر ایوب صابر نے اقبال شناسی کا آغاز ۱۹۶۲ء سے ہوتا ہے۔ ایم۔ اے کے دوران انہوں نے بہ عنوان ’’ پیام اقبال کی اساس‘‘ ایک مضمون تحریر کیا ۔جو کہ مجلہ ’’کاغان‘‘ میں شائع ہوا۔اس کے بعد ایم۔ اے فائنل میں اقبال پر ہی دوسرا مضمون ’’وحدت وجود اور اقبال‘‘کے عنوان سے شائع کرایا ۔ ۱۹۹۱ ءمیں عنوان ’’اقبال پر معاندانہ کتب کا جائزہ‘‘ جیسے معیاری موضوع پر ایم ،فل کا مقالہ لکھا۔اس کے بعدا نہوں نے ’’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات‘‘کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ چونکہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۶۲ء یعنی دوران طالب علمی سے ہوگیا تھا۔ اس لئے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوںنے تقریباً چودہ (۱۴) کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ یہاں اقبالیات سے متعلق کتابوں کا ذکر ناگزیر ہے جن کی تفصیل اسی طرح ہے۔
’’ اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ (۱۹۹۳)۔’’ معترضین اقبال‘‘(۲۰۰۳( ۔’’اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ (۲۰۰۳) ۔ ’’اقبال کا اردو کلام و زبان و بیان کے چند مباحث‘‘ (۲۰۰۳)۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ۲۰۱۰ء میں بعنوان ’’کلام اقبال پر فنی اعتراضات ایک جائزہ‘‘ شائع ہوا۔ ’’اقبال کی فکری تشکیل: اعتراضات اور تاویلات‘‘۔ ’’تصور پاکستان علامہ اقبال پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ ۲۰۰۴ء۔’’ اقبال کے فہم اسلام پر اعتراضات‘‘ ۲۰۱۶ء۔’’ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات‘‘ ۲۰۱۸ء (تین جلدیں) ۔علاوہ ازیں ’’علامہ اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ (مجموعہ مقالات) اس کو محمد سہیل عمر کے ساتھ مرتب کیا۔
اقبال شناسی کے آگے کی منزل اقبال فہمی ہے۔ اور یہاں تک کم لوگ پہنچ پاتے ہیں ۔کیوں کہ اس منزل تک پہنچنے میں بہت مشکل دور سے گزرنا پڑتاہے۔پروفیسر ایوب صابر نے اس منزل کو پانے کے لئے اپنی پروفیسری کی ملازمت سے چار برس قبل سبکدوشی لے لی۔ اور اس کے بعد پورے انہماک کے ساتھ اقبال پر لگ گئے۔ تمام طرح کے الزامات و اعتراضات کا مدلل بحث کے ساتھ مع حوالہ جواب دیا اور ضرورت کے مطابق انھیں رد بھی کیا۔
اقبال پر اعتراضات کا سلسلہ طویل عرصہ پر پھیلا ہے ۔کسی کو ان کے فارسی آمیز کلام سے دقت تھی تو کوئی خالص فارسی کلام سے نالاں تھا ۔کسی کو ان کے یہاں قواعد کا نقص نظر آتا تھا۔ تو کسی نے اقبال کی شخصیت کو ہدف ملامت بنایا۔ اقبال اپنی زندگی میں تمام لوگوں کو جواب دیتے رہے ۔باوجود اس کے مخالفین کا کاروبار روز بروز بڑھتا گیا۔ جس کا مضر نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے بڑے اقبال شناس بھی تذبذب کا شکار ہوگئے۔ لہٰذا ایسے میں کسی ایسے ماہر اقبال کی ازحد ضرورت تھی۔ جو کہ پوری یکسوئی اور توجہ سے اس کام کو سر انجام دیئے۔ کام بہت مشکل ترین اور توجہ طلب تھا۔ پروفیسر ایوب صابرنے بصد خلوص اس ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ لیا ۔اور اس کام کو زندگی کے عزیز ترین لمحوں، روز و شب اور برسوں کی قربانی دے کر سر انجام دیا۔ جس کے نتیجے میں آج ہمارے سامنے اقبال دشمنی اور اعتراضات کی رد میں صابر کی تقریباً نو (۹) کتابیں موجود ہیں۔
’’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ اقبالیات پر ایوب صابری کی پہلی کتاب ہے۔ یہ تین حصوں میں منقسم ہے۔ جس میں انھوں نے اقبال پر ہونے والے تمام اعتراضات کو رد کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حصہ اول میں ’اقبال کی شخصیت پر معاندانہ کتب کا جائزہ لیا ہے‘ ۔دوم میں اقبال کی شاعری پر معاندانہ کتب اور حصہ سوم میں اقبال کے افکار پر معاندانہ کتب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ انھوں نے اقبال دشمنی پر مبنی کتابوں اور اقبال مخالف لٹریچر کی چھان بین کرکے اقبال دشمنی کے محرکات، رحجانات اور رویوں کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے اپنے ایم۔ فل کے مقالے ’اقبال پر معاندانہ کتب کا جائزہ‘ کو نظر ثانی کرنے کے بعد ’’اقبال دشمنی ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا۔ کتاب کے پیش لفظ میں رد اقبال میں لکھی گئی کتابوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خدو خال اقبال ‘‘ میں اقبال پر اعتراضات کی بوچھار کی گئی ہے ۔’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ‘‘میں اقبال کو ظالم اور غاصب ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ دونوں کتابیں اقبال کی شخصیت کو منہدم کرنے والی ہیں۔ ’’اقبال کا شاعرانہ زوال‘‘ میں اس طرح کے اعتراضات جمع ہوگئے ہیں ۔جو اہل زبان حضرات عام طور پر کیا کرتے تھے۔ ’’مثنوی ’’اسرا لا سرار‘‘ اقبال کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی تردید میں لکھی گئی ہے ۔یہ روایتی عجمی تصوف کی ترجمان ہے۔ مجنوں گورکھپوری کی کتاب ’’اقبال کا اجمالی تبصرہ‘‘ اشتراکی اہل قلم کی نمائندگی کرتی ہے۔ بعض اشتراکیوں نے عجیب و غریب انداز سے اقبال کو منہدم کرنا چاہا ہے۔ ان میں علی عباس جلال پوری اور صائب عاصمی شامل ہیں۔۔ صائب عاصمی نے ’’اقبال قلندر نہیں تھا‘‘ میں اقبال کو معزول کرکے قلندر کے مقام پر کارل مارکس کو فائز کیا ہے۔ مکائد اقبال، خارمانہ تبدیلیاں ‘‘اور’’ مودبانہ تبدیلیاں‘‘ کتابچے ہیں۔ ان کا مختصر جائزہ اس لئے شامل کیا ہے ۔تاکہ ایک تنگ نظر اور فرقہ پرست مولوی کا پورا کام سامنے آجائے۔‘‘ ۱۳۵؎
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء، معترضین اقبال، نئی دلی: انٹرنیشنل بک ہائوس۔ ص ۵ پروفیسر صابرایوب نے مذہبی فرقہ وارانہ تعصب رکھنے والے،سیاسی، نظریاتی، مخالفین، علاقائی اور انسانی تعصب رکھنے والے لوگوں کو اقبال دشمن کہا ہے۔ اور ان کوشمشیر بے نیام بن کر دندان شکن جواب دیاہے۔ مخالفین اقبال کی باتوں کو رد کرنے والے اقبال شناسوں کو سراہتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابرایک جگہ پر لکھتے ہیں:
’’اس ضمن میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری ‘‘اور پروفیسر عبدالمغنی‘‘ کی کاوشیں خاص طور پر اہم اور قابل تحسین ہیں۔ اسلوب صاحب کے اپنے مضامین اور ان کے علمی مجلے ’’نقد و نظر‘‘ نے بھارت میں تنقید اقبال کی راست روی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ موخر الذکر نے تو کلیم الدین احمد کے جواب میں پوری کتاب لکھ کر گویا دفاع اقبال کا حق ادا کردیا ہے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، طبع اول ۱۹۹۳ءاقبال دشمنی ایک مطالعہ لاہور جنگ پبلشرز ص: ۵
اقبال کی ذات اور ان کے کلام پر جواتہام باندھے گئے ، جس طرح ان کا تمسخر اڑایا گیا ۔ان کے سبب پروفیسر ایوب صابر نے ذاتی طور پرذہنی اور روحانی کرب کو محسوس کیا۔ ان کی شفاف ذہنیت اور وضع داری سے یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ خاموش رہ جاتے ۔لیکن معاندانہ اقبال کا دفاع کرنا جتنا ضروری تھا ،اتنا ہی وقت اور توجہ طلب بھی تھا ۔لیکن اگر انسان میں عزم وحوصلہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیںہے۔ اعتراضات کا رد کرنا گویا کسی سے دشمنی مول لینا ہو۔ا اس لئے واقعی یہ کام مشکل تھا لیکن پروفیسر ایوب صابر نے اعتراض اقبال پر مبنی پورا لٹریچر کھنگال کر اس کی بکھیا بھی ادھیڑ دی۔ ایک دو نہیں بلکہ پوری نو کتابیں لکھ کر ثابت کردیا کہ کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔
اقبال پر اعتراضات کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی۔ کہ بڑے بڑے اقبال شناس بھی متاثر ہونے لگے تھے۔ پروفیسر ایوب صابر نے اس ضمن میں بے باک قلم کاری کی ۔اور مخالفین کے دماغ درست کیے۔ ان کی اس کاوش نے اقبال مخالفین کو کٹہھرے میں لا کھڑا کیا ۔ جس کے سبب معتبر اقبال شناسوںکا اقبال کے متعلق کانسپٹ کلیئر ہوا ۔
’ ’تنقید زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی کے سانس ‘ ‘
حوالہ ۔
،ٹی۔ایس ۔ایلیٹ کے انداز میں اگر کہا جائے کہ ’’معترضین اقبال کی رد کرنا اتنا ہی ناگزیرہے جتنی کے سانس ‘‘‘تو بے جا نہ ہوگا۔معترضین اقبال کے متعلق پروفیسر ایوب صابر نے جو نکتہ اخذ کیا ہے و ہ اس طرح ہے:
وہ لکھتے ہیں ’’ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے والے ان کے ارادت مند مخالفین اقبال کی مہم جوئی سے اثر قبول کرتے رہے ہیں،۔چنانچہ بعض غلط فہمیاں اقبالیات کے طلبہ ہی میں نہیں اساتذہ میں بھی عام ہیں۔ اور بعض ’’معتبر اقبال شناس‘‘ بھی ان کا شکار ہیں ۔ اگرچہ مخالفین اقبال میں سے جو شدت پسند ہیں وہ تلملا کر ردِ عمل ظاہر کریں گے۔ لیکن ان کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ اور امید کی جاسکتی ہے کہ علامہ اقبال پر لکھنے والے آئندہ مخالفین اقبال کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوں گے۔ ماہرین اقبال ہی اگر اقبال کی عمدہ و اعلیٰ شخصیت کا ادراک اور فکر اقبال کی صحت و عظمت پر اعتماد نہیں کریں گے ۔تو اقبال کی انسانی بصیرت کیوں کر بروئے کار آئے گی‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۹
واقعی پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ انھوں نے معتبر حوالوں کے ساتھ دودھ سے پانی الگ کر دیا ہے۔ اقبال کی شخصیت کے آگے مخالفین اقبال بونے نظر آتے ہیں ۔ ان کے کارنامے کے سبب مخالفین اقبال اپنی خطا پر نادم بھی ہوں گے اور سامنا کرنے سے گریز بھی کریں گے ۔پروفیسر ایوب صابر کے قلم نے اقبال کی شخصی ،فکری فنّی خصوصیات کو واضح کرکے انہیں مزید معتبر اور مستند بنا دیا ہے۔
پروفیسر ایوب صابر نے اس کتاب میں اہل زبان، روایتی عجمی تصوف کے حامی، مستشرقین، ہندی قوم پرست مسلمان، تنگ نظر اور فرقہ پرست مولوی، اشتراکی اور دہریے، حاسدین ،قادیانی، قدیمی اور جدیدی ا،ور متفرق عناوین کے تحت معترضین اقبال کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا ہے ۔ساتھ ہی حسب ضرورت ان کے اعتراضات پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ایک جگہ پر پروفیسر صابراقبال کے تصور تصوف کے متعلق یوں رقم طراز ہیں :
’’تصوف تعلیمات اقبال میں رچا بسا ہے۔ لیکن آنکھیں بند کرکے، تصوف میں شامل غیر اسلامی عناصر کو وہ صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ عملی استدلال سے ان کی تردید کرتے ہیں … اقبال ایسے تصوف کے خلاف ہیں جو عوام کی قوت عمل کو ضعف کرتا ہے۔ حقائق سے آنکھیں بند کرتا ہے اور عوام کو توہمات میں مبتلا کرتا ہے ۔ان کی فقر کا سفینہ ’’طوفانی‘‘ ہے۔ وہ ’’سوز مشتاقی‘‘ چاہتے ہیں نہ کہ ’’فسانہ ہائے کرامات۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب۔ ۲۰۰۴ء۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۴ پروفیسر ایوب صابر کی تنقید گہرا تحقیقی پہلو لئے ہوتی ہے۔ وہ جس موضوع پر بحث کرتے ہیں۔ اس کی تہہ در تہہ کھولتے ہوئے حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تصوف کے تعلق سے اقبال کے نظریہ سے آپ نے بالکل درست نتائج نکالیں ہیں۔کلام اقبال کی ورق گردانی کرنے پر کہیں بھی بے عمل ہونے کی تعلیم نہیں ملتی۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنی کتاب ’’اقبال کے فہم اسلام پر اعتراضات‘‘،میں خطبات پر اعتراضات، تصور اجتہاد پر اعتراضات، جمہوریت کے ضمن میں اعتراضات، غیر اسلامی عقائد رحجانات کا الزام، معرکۂ اسرار خودی جیسے اہم موضوع پر لکھ کر اقبال فہمی کی قابل تحسین مثال پیش کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال پر مخالفین کے ذریعہ باندھے گئے ہر اتہام کا دفاع کیا ۔ انہوںنے اس کام کے لئے اپنی زندگی کے اہم ترین لمحات کو اقبال شناسی کے لئے وقف کر دیا ۔ انہوں نے اقبال پر ایک ضخیم کتاب بعنوان ’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ‘‘ ۲۰۱۸ء مین لکھی۔ اس کام کے لئے ملازمت سے قبل از وقت استعفا دے کر کتاب کی تصنیف کے لئے کام شروع کیا ۔یہ ان کی اقبال سے شدید لگاؤ کی مثال ہے۔تقریباً 20 برس کی محنت شاقہ کے بعد کتاب مکمل ہوئی ۔مذکورہ کتاب ۲۳۳ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ جتنی ضخیم ہے اتنی ہی معتبر اور قابل داد ہے۔ اس میں مصنف نے اقبال کے اعتراضات کے حوالے سے کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ جو بھی موضوع اٹھایا اس کے اصل تک پہنچ کر قارئین کو حقیقت سے روشناس کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔
اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات: ایک مطالعہ‘‘ جلد اول گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابرنے اہل زبان، روایتی عجمی تصوف کے حامی، مستشرقین، مسلکی شدت پسند مولوی، اشتراکی اور دہر یے، حاسدین اور طالبان شہرت، قادیانی، قدامت پرست اور مغرب پرست وغیرہ عناوین کے ضمن میں تنقید اقبال کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ یوں تو اقبال پر متعدد معیاری تحقیقی وتنقیدی کتابیں لکھی گئی ہیں۔،لیکن پروفیسر ایوب صابر کی مذکورہ کتاب ثانی نہیںرکھتی ۔ پروفیسر ایوب صابرایک جگہ پر مقام اقبال کا تعین کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’عصر حاضر میں اقبال کا مقام منفرد اور بہت بلند ہے۔ جن افراد اور گروہوں نے اقبال
کو منہدم کرنے پر ذہنی توانائی صرف کی ہیں انھوں نے نہ صرف اپنے وقت اور اپنے دل و
دماغ کو ضائع کیا بلکہ انسانیت کی بھی کوئی خدمت نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ حقیقی انسانی
اقدار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ ۔جلد اول۔ ص: ۳۰
واقعی اقبال مشرق کا وہ بلند ستارہ ہے۔ جس کی چمک مغرب تک پہنچی مخالفین اقبال ان کی چمک کو منہدم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پروفیسرایوب صابر جیسے اقبال فہم یہ کیسے گوارا کرسکتے تھے؟ آخر انھوں نے مخالفین ومعترضین کابے باکی سے جواب دے کر ان تمام کے تمام کا دفاع کرکے مشرق کے ستارے کو مزید چمک دار بنا دیا۔ انھوں نے اقبال پر عائد تمام الزامات کو مدلل بحث کے ساتھ رد کیاہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جتنی بڑی شخصیت ہوتی ہے۔ امتحان بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اقبال کے ساتھ ہوا۔ ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے گئے۔ ان کے خاندان و نسل پر انگشت نمائی کی گئی۔ انھیں شرابی، عشق باز، انگریزوں کا آلۂ کار، قوم پرست، وطن بیزار اور قول و فعل میں تضاد کرنے والا جیسے غیر مہذب الزامات لگائے گئے۔ جن کا پروفیسر ایوب صابرنے مدلل بحث کے ساتھ ابطال کیا ہے۔ اقبال شکنی کا کام تسلسل سے جاری رہا ۔ نتیجتاً بڑے بڑے اقبال دوست پر بھی اس کا مضر اثر پڑا ۔اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ اقبال نشہ آورمنشیات کا شوق رکھتے تھے۔اقبال پر شراب نوشی کا الزام لگانے والوں کو جواب دیتے ہوئے کئی واقعات اور احباب کی آراء کو بروے کار لاتے ہوئے پروفیسر ایوب صابر لکھتے ہیں:
’’جو صاحبان شراب پیتے ہیں، ان کے بارے میں پکے ثبوت اور وافر شواہد مل جاتے ہیں۔
غالب، فیض اور جوش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ علامہ اقبال کے بارے میں نہ صرف
یہ کہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔بلکہ واقفانِ حال اور ان کے احباب نے اس الزام کی صاف صاف
تردید کی ہے۔ مولوی احمد دین اور نواب ذو الفقار علی خاں نے اقبال پر جو کچھ لکھا ہے۔ اس
میں شراب نوشی کا ذکر نہیں۔ سردار امرائو سنگھ ٹیرگل اور خواجہ عبدالوحید شراب نوشی کے الزام کی
تردید کرتے ہیں۔ اقبال کی ایک بھتیجی کا حلفیہ بیاں ہے کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے۔ان
کے مشاہدے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے یہ شبہ ہوسکتا کہ اقبال شراب کا شوق کر
تے تھے۔ شیخ اعجاز لکھتے ہیں ’’میں اپنے علم اور مشاہدے کی بنا پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اقبال
پرمے نوشی کا الزام ایک بہتان ہے۔‘
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ(جلداول)لاہور۔ ص: ۹
درج بالا حوالوں کے علاوہ اس سے متعلق پروفیسر ایوب صابر مزید شواہد دیتے ہوئے حجاب امتیاز علی تاج کا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں۔جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال شراب نوشی نہیں کرتے تھے۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے ۔ اپنے خطبات کے سلسلے میںعلامہ اقبال مدراس گئے تھے ۔وہاں ان کا سب سے بڑے ہوٹل میںاستقبال کیا گیا۔ملک اور بیرون ملک کی بڑی ہستیاں موجود تھیں۔شراب پیش کی گئی جس پر علامہ اقبال نے کہاکہ میں بالکل نہیںپیتا۔میں نے کبھی انگلستان میں بھی شراب نہیں لی۔ یہ سن کر آس پاس بیٹھے لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔
مذکورہ تمام ثبوتوں کے بعد شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔اور یہ ثبوت اس بات کے ضامن ہیں ۔کہ اقبال نے کبھی شراب نہیں پی۔ اقبال کے شراب نہ پینے کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ۔کہ وہ تلاوت قرآن کرتے وقت زاروقطار رویا کرتے تھے۔ ان کے آنسؤں سے تر قرآن آج بھی محفوظ ہے ۔ایک معمولی سے معمولی انسان بھی وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ جس کے اندر خوف خدا اتنی شدّت
سے ہو وہ اللہ کی حکم عدولی کبھی نہیںکر سکتا ہے۔
عبدالمجید سالک کی کتاب ’ذکر اقبال‘‘ اقبالیاتی ادب میں اہمیت کی حامل ہے۔ باوجود اس کے انھوں نے اقبال پر فرضی قصے گڑھ کرکئی طرح کے الزام لگائے ہیں ۔مخالفین اقبال نے تو اقبال شکنی میں ہر وہ دعویٰ کیا ۔جو حقائق کے برخلاف تھا ۔اقبال کورومان زدہ ، ان کی فکر و عمل میں تضاد ، بے عملی کی طرف راغب کرنے والا ، بد اعمال اور مایوس کن انسان جیسی بے دریغ باتیں اقبال سے منسوب کیںہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تباہ حال ،مایوس اور پستی کی طرف گامزن قوم کے دل و دماغ میں یقین و امید کی روشنی پیدا کرنے کے لئے اقبال نے زندگی کے آخری سانس تک قوم کی خدمت کی ۔بیماری کے باوجود، قوم اور نسل انسانی کی رہنمائی کرتے رہے۔ ان کے آخری دنوں کی نظم حضرت انسان اس بات کی ضامن ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیںایسا انسان مایوسی کا شکار کیسے ہوسکتا ہے ؟لہذا یہ کہنا کہ ان پر ناامیدی کا گہرا سایہ تھا محض غلط بیانی ہے ۔
اقبال کو جب سر کا خطاب ملا تو اس کی پرزور مخالفت کی گئی۔ عبدل المجیدسالک نے تو باقاعدہ مخالفت میں ایک نظم لکھی۔ جوکہ رسالہ’ زمیندار ‘میں شائع ہوئی ۔ حالا نکہ خطاب قبول کرنا وقت کی نزاکت اور سیاسی رخ کے پیش نظر درست فیصلہ تھا۔ جوکہ اقبال کی فہم وذکاوت کا ضامن ہے۔
اقبال کے مخالفین میں سردار عبدالقیوم، اقبال سنگ ،کے۔ ایل۔ گابا، ڈاکٹر سچانند سنہا ،ڈاکٹر رستوگی ،عبدالمجید سالک اور تنگ نظر مولوی کا کردار پیش پیش رہاہے۔ پروفیسر ایوب صابر نے پورے وثوق اور صبر کے ساتھ سب کو درجہ بہ درجہ جوابات دے کر ان کا دفاع کیا۔ اقبال پر قوم پرست ہونے کا الزام لگا یا گیا ۔اور ان کی نظم ’’ترانۂ ملی‘‘ کو ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ جس کے رد میں پروفیسر ایوب صابر یوں رقم طراز ہیں:
’’اقبال مشرق و مغرب کی شب کو سحر کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مشرق میں عالم اسلام کے ساتھ ہی اقبال کی نظر ہندوستان پر پڑتی ہے کہ ہندسامراج کا زخم خوردہ تھا۔ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں کوجگانا اور آزادی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ (جلد دوم۔ص۴۷
درحقیقت اقبال جیسا سیکولر مزاج اور تعصب سے پاک شاعر تاریخ کی ورق گردانی کرنے پرشاذونادر ہی نظر آئے گا۔نظم، ہمالہ،ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نانک جیسی مشہور زمانہ نظمیں لکھنا اقبال کا کمال ہے۔
اقبال پر قوائد و زبان کے تعلق سے جو اعتراضات کئے گئے۔ اس کے متعلق پروفیسر ایوب صابر کئی شعراء کی مثال دے کر اقبال کے
مقام کا تعین کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اقبال نے نئی تراکیب، نئے محاورے، نئی تلمیحات، نئے اشارات نئی علامات اور نئی اصطلاحات وضع کی ہیں ان سے بدلنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح تذکیر و تانیث کے ضمن میں دہلی و لکھنؤ کا فرق و اختلاف معلوم و معروف ہے۔ چنانچہ کسی ایک دبستان کی پیروی کے بجائے اقبال اپنے ذوق کے مطابق ’’غار‘‘ یا ’’پرہیز‘‘ کو مؤنث کے طور پر لیں، تو اس پر معترض ہونا ناروا ہے۔ انیس نے بلبل کو مذکر باندھا ہے۔ اور غالب و اقبال کے ہاں یہ لفظ مؤنث ہے … سب سے زیادہ اہمیت میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کو ملنی چاہئے۔ جو شاعر جتنا بڑا ہوتا ہے۔ زبان پر اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر اور غالب کا کام قواعد وزبان کی پابندی نہیں ہے …… یہ ایک صائب رائے ہے۔ اور اس کا اطلاق اقبال پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم ص: ۱۵۹۶)
وہ مزید لکھتے ہیں:
’’سیماب اکبر آبادی اور عبدالسلام ندوی نے ’’پرہیز‘‘ کی تانیث پر اعتراض کیا ہے۔ سیماب کے نزدیک ’’فکر‘‘ مؤنث ہے اور ’’غار‘‘ مذکر، جب کہ بقول اثر لکھنوی دہلی والے فکر اور سانس کو مذکر بولتے ہیں۔ نور الغات کے مطابق ’’غور‘‘ لکھنؤ میں مذکر اور دہلی میں مؤنث ہے۔ مزید ہر آن جن اشعار میں ’’غور‘‘ اور ’’نقد‘‘ کو اقبال نے مؤنث استعمال کیا ہے ۔وہ منسوخ کر دئے تھے۔ ڈاکٹر گیان چند کے اپنے بیاں کردہ اصول کے مطابق منسوخ اشعار پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ ص:۱۵۹۷)
ہر ذی شعور پروفیسر ایوب صابر کی اس رائے سے اتفاق کرے گا۔ دراصل شاعری نام ہے آہنگ کا شاعر کا کمال یہ نہیں کہ وہ قواعد کا ماہر ہو۔ بلکہ کمال یہ ہے کہ وہ کتنی بلند فکر رکھتا ہے؟ اقبال نہ صرف شاعر ہیں بلکہ بڑے شاعر ہیں۔ ان کی فکر کی بلندی نے انھیں عالمی سطح پر مشہور و معروف کیا۔قوم کو راہ راست پر لانے میں ان کا کردار کلیدی رہاہے ۔
اقبال ایسی شخصیت کا نام ہے ۔جن پر غیر جانبدارانہ انداز سے تحقیق وتنقید کی جائے ۔تو وہ عالمی سطح ُ پر بڑے شاعر ومفکر کی صف میں کھڑے دیکھائی دیتے ہیں ۔پروفیسر ایوب صابر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یکسوئی اور غیر جانبدارانہ انداز سے اقبال پر تحقیق وتنقید کی ۔انہوں نے ہر اس شخص کی باتوں کا دندان شکن جواب دیا جنہوں نے اقبال پر فاسق اتہام باندھے تھے ۔پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال کے صاحب زادے آفتاب اقبال کو بھی نہیں بخشہ ،اتنا ہی نہیں اقبال شناس کے زمرے میں شمار کئے جانے والے فرزند اقبال ،ڈاکٹر جاوید اقبال کی بات جہاں انہیںغلط لگی تو انہیں بھی معاف نہیں کیا۔انہوں نے نہ صرف معترضین و مخالفین اقبال کی تردید کی ۔بلکہ ایسے اقبال شناسوں کی اصلاح کی جو مخالفین کے ہاتھوں غلط فہمی کا شکار تھے۔پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر کے متعلق اردو اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر راشد حمید یوں رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر ایوب صابر نے تحقیق میں جواب کے بجائے تجربہ اور تحلیل سے کام لیا۔ اور اس میدان میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر ایوب صابر اقبال کے دفاع میں شمشیر برہنہ ہیں ۔لیکن جوش عقیدت میں دانائی اور بینائی کے ساتھ اقبال دشمنوں کو دلیل کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم) ص: ۱۷۵۴)
اقبال پر لگنے والے الزامات کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔لیکن ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی وقتی نہیںبلکہ فکر اقبال کے ساتھ انہوں نے زندگی کا لمبہ عرصہ گذارا ۔وہ شاہراہ اقبال کے ایسے شمشیر بے نیام سپاہی ہیں ۔جنہوں نے اقبال پر عائد شدہ ہر اتہام کا تحقیقی جائزہ غیرجانبدارانہ انداز میں لیا۔ سر اقبال کی ذات و شخصیت ،فکروفن ،فلسفئہ ونظریات اور شاعری کے حوالے سے کوئی بھی بہتان ایسا نہیں بچتا جوکہ پروفیسر ایوب صابر کے قلم کی زد میں نہ آیا ہو۔پروفیسر رفیع الدین ہاشمی ،پروفیسر ایوب صابر کی اقبال فہمی اور ان کی شخصیت پر نظر ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اڑائے جانے والے چھینٹے، پروفیسر ایوب صابر کے لئے ذہنی اذیت اور کرب کا باعث تھے۔ ان کی نفاست طبع اور وضع داری سے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تنقید اقبال کی اس پھوہڑپن اور بدہیئتی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے ہوئے اس پر خاموش رہتے، مگر مخالفین کا جواب دینا جس قدر ضروری تھا۔ اتنا ہی مشکل بھی تھا … باعث اطمینان یہ ہے کہ مشکل مرحلے کو جو ایک طرح سے عام مقام عشق بھی ہے، ایوب صابر نے بڑی جرأت اور فرزانگی سے طے کیا ہے ۔امید ہے کہ جناب ایوب صابر اپنے جائزے کو توسیع دیتے ہوئے پورے اقبال مخالف لٹریچر کو کھنگالیں گے، اور اس کی فکری گمراہیوں کی نشاندہی کے ساتھ، اس کے نفسیاتی محرکات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔‘‘
صابر، پروفیسر ایوب، (طبع اول: ۱۹۹۳ء۔ اقبال دشمنی ایک مطالعہ، ۔ ص ۱۷ )
امید و یقین ہے کہ پروفیسر ایوب صابر کی اقبال فہمی، اقبالیات سے تعلق رکھنے والے ناقدین میں ذہنی طور پر تغیر لائے گی۔ پروفیسر ایوب صابر شناسان اقبال کے لئے ایک طرف شجر سایہ دار ہیں۔ تو دوسری طرف مخالفین اقبال کے لئے شمشیر بے نیام سپاہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پروفیسر ایوب صابر کی تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے یقینا مخالفین اقبال بھی ان کے متعلق پیش کئے گئے شواہد و دلائل سے اتفاق کریں گے۔ اور آئندہ اقبال پر غلط بیانی کرنے سے اجتناب کریں گے۔ جس سے اقبالیات کے ضمن میں خوش گوار فضا قائم ہوسکے گی۔
کتابیات
۱) صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء، معترضین اقبال، نئی دلی: انٹرنیشنل بک ہائوس۔ ص ۵
۲) صابر، پروفیسر ایوب، طبع اول ۱۹۹۳ءاقبال دشمنی ایک مطالعہ لاہور جنگ پبلشرز ص: ۵
۳) صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۰۴ء۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۹
۴) صابر، پروفیسر ایوب۔ ۲۰۰۴ء۔ معترضین اقبال، نئی دہلی: انٹرنیشنل بک ہائوس، ص ۱۴
۵) صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ ۔جلد اول۔ ص،۳۰
۶) صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ(جلداول)لاہور۔ ص: ۹
۷) صابر، پروفیسر ایوب ۲۰۱۸ء اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات ایک مطالعہ (جلد دوم۔ص۴۷
۸) صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم ص: ۱۵۹۶)
۹) صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم ص: ۱۵۹۷)
۱۰) صابر، پروفیسر ایوب، ۲۰۱۸ء۔ اقبال کی شخصیت اور فکر وفن پر اعتراضات: ایک مطالعہ (جلد سوم) ص: ۱۷۵۴)
۱۱) صابر، پروفیسر ایوب، (طبع اول: ۱۹۹۳ء۔ اقبال دشمنی ایک مطالعہ، ۔ ص ۱۷ )
***