You are currently viewing پنجاب کا شاعر اعظم :کرپال سنگھ بیدارؔ

پنجاب کا شاعر اعظم :کرپال سنگھ بیدارؔ

ڈاکٹر اقبال احمد

پنجاب کا شاعر اعظم :کرپال سنگھ بیدارؔ

پنجاب ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جو ابتداء ہی سے شعر وادب کا گہوارہ رہی ہے اسے گیان اوردھیان کی دھرتی بھی کہاجاتا ہے ۔جہاں تک اردو زبان وادب کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی اس خطے نے کافی ذر خیزی دکھائی ہے اس دھرتی نے اردو کے بے شمار نامور شعراء و ادباء کو جنم دیا ہے جنہوں نے اردو زبا ن وادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔مسلم ادباء اورشعراء کے علاوہ اس دھرتی نے ہندو اور سکھ شعراء کو بھی جنم دیا ہے ۔اردو ادب کی تاریخ کاجب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو سکھ شعراء اور ادباء کی ایک طویل فہرست بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔پنجاب کے  سکھ شعراء اورادباء نے اردو زبان وادب میںبے شمار خدمات انجام دے کر اس کے سرمایے میں قابل قدر اضافے کئے ہیں۔

         پنجاب نے جہاں ایک طرف بے شمار نثر نگار پیدا کئے ہیں وہیں دوسری جانب ان گنت شعراء کو بھی اپنی کوکھ سے جنم دیا ہے جنہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف کو ترقی دی۔حالیؔ اقبال ؔ، حفیظ جالندھریؔ، چکبستؔ، ساحر ؔ لدھیانوی وغیرہ کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے ، جن کے رشحات ِ قلم نے اردو شاعری کو معراج پر پہنچایا۔پنجاب کے سکھ شعراء میں بابا گرونانک صاحب ، گرو گوبند سنگھ ، گنڈا سنگھ مشرقی ، گیانی نہال سنگھ، ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہؔ ، پورن سنگھ ہنرؔ،کنورمہندر سنگھ بیدیؔ، کرپال سنگھ بیدارؔ ،ڈاکٹر ست نام سنگھ خمارؔؔ اورسردار پنچھیؔ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ اور بھی ان گنت شعراء ہیں جن کا ذکراس مختصر مضمون میں کرنا محال ہے ۔

خیال ِ مرگ سے کیا کیا نہ جان پر بنتی              ہزار شکر ہمیں زیست کا مزا نہ ملا

         مندرجہ بالا شعر کے خالق کرپال سنگھ بیدارؔ کا نا م پنجاب کے نامور سکھ شعراء میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ بیدا ر ؔ کا جنم تحصیل ننکانہ صاحب کے ایک گاؤں شیخو پورہ میں ۱۹۱۶؁ء کو ہوا۔ ان کا تعلق تعلیم یافتہ گھرانے سے نہیں تھا اورنہ ہی ادبی ماحول میں پرورش ہوئی تھی مگر بیدارؔ بچپن سے ہی حددرجہ کے ذہین تھے ۔ابتدائی جماعتوں سے ہی ہر امتحان میں اچھے نمبرات لیکر پاس ہوتے رہے۔ انہوں نے منشی فاضل کا امتحان پورے پنجاب میں سب سے زیادہ نمبرات لیکر پاس کیا تھا۔ بیدارؔ نے فارسی ادب میں ایم ۔ اے کی ڈگری کے علاوہ اُردو میں بھی متعدد اسناد حاصل کیںاور لاہور کے سکھ نیشنل کالج میں استاد مقرر ہوئے ۔پروفیسر راجندر سوزؔ بیدارؔ کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

 ’’بیدارؔ صاحب گل ذات کے ایک اونچے جاٹ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی سات پشتوں میں کوئی شخص خواندہ نہیں ملتا۔ ان کے والد سردار خوشحال سنگھ ایک نیک دل سخاوت کیش اورمقبول رئیس تھے ۔ معلوم نہیں انہوں نے کس خیال اور جذبے کے تحت اپنی خاندانی روایات کے خلاف بیدا رؔکو اسکول بھیج دیا ۔ طالب علمی کی حیثیت سے بیدار ؔصاحب نہایت نمایاں رہے یونیورسٹی وظائف حاصل کئے ۔ فارسی میں فرسٹ کلاس ایم۔ اے کیا۔ سات برس تک سکھ نیشنل کالج لاہور میں فارسی کے استاد رہے۔ ‘‘     ۱ ؎

         زمانہ طالب علمی سے ہی شعر کہنے لگے تھے ۔ابتداء میں انہوں نے اخگر ؔفیروز پوری اور میلارام وفاؔ سے مشورہ سخن کیا اور بعد میں انہوں نے باقاعدہ طورپر علامہ تاجورؔنجیب آبادی کی شاگردگی اختیار کی ۔ تاجور ؔنجیب آبادی کاشاگرد ہونے پر انہیں بہت ناز تھا۔اس سلسلے میں پنڈت میلا رام وفا ؔلکھتے ہیں کہ:

’’بیدار کو جتنا فخر علامہ تاجور ؔکا شاگرد ہونے پر ہے ،علامہ موصوف کو اتنا ہی فخر بیدارؔ کا استاد ہونے پر تھا،وہ تحریر وتقریر میں میں کثرت سے اس فخر کا اظہار کیا کرتے تھے اور اپنے مؤقر ماہنامہ شاہکار میں جب کبھی بیدارؔ کا کلام شائع کرتے تھے تو اس پر بڑے بلند الفاظ میں تعریفی نوٹ لکھتے تھے۔‘‘       ۲ ؎

 بیدارؔ کی شاعری بڑے ہی پرخلوص اورادبی ماحول میں پروان چڑھی تھی۔ ان کے معاصر شعراء میلارام وفاؔ ، سیمابؔ اکبر آبادی ، اصغرؔ گونڈوی ، جگرؔ مراد آبادی، موہن سنگھ دیوانہ ، پورن سنگھ ہنر ، کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ وغیرہ تھے۔ 1947ء  کے قیامت انگیز واقعات کے بعد بیدارؔ مشرقی پنجاب چلے آئے تھے۔ کچھ عرصہ تنگدستی میں گزارنے کے بعد گھومتے گھومتے حب پٹیالہ پہنچے تواس زمانے میں سابق ریاست(PEPSU )پیپسو پنجاب کے چیف منسٹر سردار گیان سنگھتھے۔ انہوں نے بیدارؔ کے چند اشعار سن کر ان کی عظمت کا اندازہ لگا لیااور انہیں( PEPSU)کا ڈپٹی کسٹوڈین مقرر کردیا 1950ء میں جب بیدارؔ بیمار پڑ گئے تو مجبوراً ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی اورایک طویل عرصے تک اس بیماری میں مبتلا رہے۔بالآخر جب اگست1967ء میں ذرا طبیعت سنبھلی تو پنجابی یونیورسٹی  پٹیالہ کے شعبہ فارسی میں لکچرر مقرر ہوئے اورآخری دم تک بطور صدرِشعبہ کے فرائض انجام دیتے رہے ۔

کرپال سنگھ بیدارؔ کی شاعری بیداری کا ایک پیغام ہے ۔ ان کے زمانے میں جدید شاعری زور پکڑ چکی تھی جس سے وہ خودبھی متاثر ہوئے تھے لیکن انھوں نے جدید شاعری کو قبول نہیں کیا ۔ بیدارؔ کی شاعری کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک روشن ضمیر ، پختہ فکر اور شگفتہ ذہن کے شاعر تھے ۔پروفیسر ناشر نقوی بیدارؔ کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

’’بیدارؔ ایک روشن کردار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے ۔شخصیت کا یہی عکس ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔ان کے یہاں فکر کی مضبوط گرفت ہے ‘‘     ۳؎

نمونے کے طورپربیدارؔ کے چند اشعار پیش ہیں۔  ؎

جس طرح صبح کو مندر کے سہانے جلولے

نور خورشید سے کچھ اور نکھر جاتے ہیں

جس طرح شیشۂ لبریز کے ایک پرتو سے

دیدۂ دل میں کئی چاند اُتر جاتے ہیں

جس طرح جشن چراغاں کاخیال آتے ہی

ذہن میں سینکڑوں انوار بکھر جاتے ہیں

یوں تیری یاد سے روشن ہے فضا آج کی رات

               ۴؎

ہم عشق کے دیوانے بُت کو بھی خدا سمجھے

جس راز کو ہم سمجھے کوئی اسے کیا سمجھے

اس ڈر سے کہ ایماں میں رہ جائے نہ کچھ خامی

ہم  اِن  کی  خطا  کو  بھی  اپنی ہی خطا سمجھے

۵؎

دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کردیا

مجھ کو تمہاری یاد نے دیوانہ کردیا

گلشن کے پھول تھے کہ بیابان کے خار تھے

حسن کی نظر نے سب کو پری خانہ کردیا

۶؎

         بیدارؔ فطری شاعر ہیں ۔ شاعری انہیں وراثت میں نہیں ملی ان کا خاندان ہی نہیں بلکہ علاقہ بھی شاعری کے نام سے ناواقف تھا ۔ساتویں جماعت سے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوگیا تھا۔ بیدارؔ ایک صاحب علم و فضل شاعر تھے۔ اردو اور فارسی ادب پر ان کی گہری نظر تھی ۔بیدارؔ بسیار گو نہیں بلکہ کم گو شاعر تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ قارئین کسی شاعر کے تمام اشعار کوبار بار نہیں پڑھتے بلکہ صرف اچھے اشعارپر نشان لگا دیتے ہیں۔پنڈت میلا رام وفاؔنے بیدارؔ کی شاعری سننے کے بعدانہیں شاعراعظم کہنا شروع کردیا تھا اور پھر مارچ1965ء میں پنجاب حکومت نے بیدارؔ کو ـشاعرِ اعظم کے خطاب سے نوازا ۔میلا رام وفاؔ لکھتے ہیں کہ:

’’پٹیالے میں اس کے تازہ ترین شاہکار سن کر میں اس قدر محظوظ ہو ا اور یہ شاہکار مجھے اتنے پیارے لگے کہ میں نے اسے پیار سے شاعرِ اعظم کہنا شروع کردیا ۔میرے حلقہ احباب میں بھی وہ اسی نام سے معروف ہوتا گیا۔ ‘‘    ۷ ؎

ان کے خطاب کے متعلق امام مرتضیٰ نقوی لکھتے ہیں کہ :

’’۱۹۶۵ ء میں ان کی پاکیزہ شعر گوئی پر ان کو شاعر ِ اعظم تسلیم کرتے ہوئے سپاس نامہ،خلعت فاخرہ اورکیسہء زر پیش کیا‘‘      ۸؎

بیدارؔ نے نظمیں،غزلیں ،رباعیات اور طنزیات سبھی کچھ کہا ہے۔وہ جملہ اصناف ِ سخن کے ماہر تھے بالخصوص غزل میں انہوں نے وسعت پیدا کی اور روایتی غزل سے انحراف کرکے اس کی نئی نئی پرتیں کھولیں ہیں۔بیدارؔ کی نظمیں شعری نزاکتوں، شعری لطافتوں اور فنی رعنایوں سے معمور ہیں۔تازہ بہ تازہ استعارات،لطیف اندازِبیان اور وحدت تاثران کی نظموں کی نمایاںخصوصیات ہیں۔بیدارؔ نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی اشعارکہے ہیں۔جو ملک کی تقسیم سے پہلے رسائل میں شائع ہوتے رہے۔مشرقی پنجاب میں آنے کے بعد انہوں نے فارسی شاعری کی طرف توجہ کم کر دی تھی۔ انکا تمام فارسی و اردو کلام’’صفیر خیال‘‘کے نام سے ۱۹۷۷ ء میں شائع ہو اتھا۔ پنڈت میلا رام وفا ،ؔبیدارؔ کی شاعری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ :

’’ــــمیں نے بیدارؔ کو اس وقت بھی دیکھا جب وہ لاہور میں کالج کا طالب علم تھا اور آج ۱۹۷۶ء میں میں دیکھ رہا ہوں جب وہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میںفارسی کے اُستاد ہیں ۔ میری یہ ایماندارانہ رائے ہے کہ ۱۹۷۶ء کا بیدارؔ دُنیا کے زندہ وجاوید شاعروں میں سے ہے۔ ان کی شاعری میں ایک حُسن آفرینی اور نادرہ کاری ہے۔ جس کو پیغمبرانہ اعجاز کہنا بے جا نہ ہوگا۔وہ شاعرانہ عظمت کے لحاظ سے اسی صف کا شاعر ہے ۔جس میں گوئٹیـ ،حافظ ،ٹیگور اور اقبال جیسے شاعر کھڑے ہیں ۔‘‘      ۹؎

         بیدار ؔ کی شاعری کے حوالے سے ناشر نقوی یوں رقمطراز ہیں :

’’وہ ایک روشن ضمیر ،پاکیزہ فکر اور شگفتہ ذہن کے شاعر تھے‘‘        ۱۰؎

کرپال سنگھ بیدارؔ کی شاعری کے آغاز اور شاعرانہ خصوصیات کے متعلق اردو کے مایہ ناز محقق مالک رام لکھتے ہیں کہ:

’’شعر گوئی انہوں نے دیال سنگھ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شروع کی۔ابتدائی مشق کے زمانے میں کلام پرنند کشور اخگر فیروزپوری (ف۔اپریل ۱۹۶۸ء)سے بذریعہ خطوط کتابت اصلاح لی۔بعد کو پنڈت میلا رام وفا(ف۔ستمبر ۱۹۸۰)اور پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی سے بھی کچھ مشورہ سخن رہا۔لیکن بالآخر شمس العلماء مولانا احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی (ف۔جنوری ۱۹۵۱ء) کی شاگردگی اختیار کرلی۔۔۔۔۔۳۱ مارچ ۱۹۶۵ء کو پنجاب سرکار کے محکمہ السنہ نے اپنی سالانہ ادبی تقریب میں بیدار ؔ کو ادیب ِ اعلی کے اعزاز و خلعت سے سرفراز کیا ۔۔۔۔وہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں کہتے تھے ۔افسوس کہ انہیں اپنا مجموعہ کلام ’’صفیرِ خیال ‘‘ کتابی شکل میں دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔۔۔۔بیدار ؔ کا کلام بے حد پختہ اور بلند مرتبہ ہے ‘‘  ۱۱؎

افسوس کا مقام ہے کہ کرپال سنگھ بیدارؔ جنہیں پنجاب حکومت کی جانب سے شاعر اعظم کا خطاب ملا ۔تاہنوز ان پرکوئی تحقیقی و تنقیدی کام نہیں کیا گیاہے۔ایک ایسا شاعر جس کو شاعر اعظم کا خطاب ملا ہو اس پر کوئی تحقیقی و تنقیدی کام نہ کیا جانا باعث ندامت ہے۔اس سلسلے میں پروفیسر ناشر نقوی لکھتے ہیں کہ :

’’حیرت کی بات ہیکہ اردو کے عظیم شاعر کرپال سنگھ بیدار کو ناقدین ِ ادب نے وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے‘‘    ۱۲؎

بیدارؔ کی شخصیت و شاعری پر تحقیقی کام کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم نے کرپال سنگھ بیدار پر ایک مختصر سا مضمون لکھنے کی ایک ادنیٰ سی سعی ہی نہیں کی بلکہ ان پر پہلا مضمون لکھ کر اس جانب اردو محققین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش بھی کی ہے ۔مجھے یقین کامل ہے کہ میرا یہ مختصرمضمون اردو کی ادبی تحقیق کے باب میں اضافہ کرے گا اور بیدار ؔ کے متعلق تحقیق کرنے والوں کے لئے معاون و مدد گار ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی کرپال سنگھ بیدارؔ کی اردو ادب کے ساتھ دل جوئی اور ادبی خدمات کا حق جس کے وہ مستحق ہیں ادا تو نہیں ہو گا البتہ اس طرف اردو ناقدین کو ضرورمتوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ کرپال سنگھ بیدارؔ کی خدمات کے اعتراف میں شعبہ فارسی، اردو و عربی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی جانب سے ہر سال ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔

                  حواشی:

۱؎        پروفیسر راجندر سنگھ سوز ، سخنہائے گفتنی ،مشمولہ صفیر خیال ، ص ۱۵، اشاعت ۱۹۷۷ء

۲؎          پنڈت میلا رام وفا ؔ ،شاعر اعظم بیدارؔ،مشمولہ صفیر خیال، ص۹،اشاعت ۱۹۷۷ء

۳؎       ( اردو پنجاب اور سکھ شعراء،ناشر نقوی ،۱۹۹۹ء ،ص ۱۸۴)

۴؎       کرپال سنگھ بیدار ؔ،  صفیرِخیال،  صفحہ نمبر۲۰۶

۵؎        کرپال سنگھ بیدارؔ،   صفیرِخیال،  صفحہ نمبر۳۲۱

۶؎         کرپال سنگھ بیدارؔ،   صفیرِخیال،  صفحہ نمبر۳۱۹

۷؎          پنڈت میلا رام وفا ؔ ،شاعر اعظم بیدارؔ،مشمولہ صفیر خیال، صفحہ نمبر۱۱،اشاعت ۱۹۷۷ء

     ۸؎        (اردو ادب میں سکھوں کا حصہ ،امام مرتضیٰ نقوی،ص۲۶،اشاعت۱۹۷۰ء)

     ۹؎           صفیر خیال ص۱۰

     ۱۰؎        ( اردو پنجاب اور سکھ شعراء،ناشر نقوی ،۱۹۹۹ء ،ص ۱۸۵)

         ۱۱؎  (تذکرہ معاصرین ۔جلد ۔۴مرتب مالک رام ۔ص ۴۸۲)

    ۱۲؎ ( اردو پنجاب اور سکھ شعراء،ناشر نقوی ،۱۹۹۹ء ،ص ۱۸۵)

Dr.Iqbal Ahmed

Lecturer Deptt. of Urdu

Gandhi Memorial College(J&K)

India

Pin 190002

Email:eyekay9111@gmail.com

Mob:9419109197,9682619937

Leave a Reply