You are currently viewing پنچ تنتر : عالمی  زبان و ثقافت کی ترقی کے لیے پیش خیمہ

پنچ تنتر : عالمی  زبان و ثقافت کی ترقی کے لیے پیش خیمہ

شاہ خالد مصباحی

امعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

پنچ تنتر : عالمی  زبان و ثقافت کی ترقی کے لیے پیش خیمہ

ہندوستان ازمنۂ قدیمہ سے اپنی تہذیب و تمدن، رہن سہن، طریقۂ خط و کتابت میں پوری دنیا کی ثقافت و روایت سے ممتاز ، اور اس تناظر میں اپنی بے مثال خدمات پیش کرتی رہی ہے۔

متحدہ ہند کی سرزمین سے مرسوم ثقافت، ہڑپا سیویلازیشن یا دیگر عالمی ثقافت مثلاً مصر و یونانی، رومی، چینی اور  میسوپوٹیمیا نے جہاں ثقافت و سیاحت، علوم و فنون، سائنس و معرفت ، اور ٹیکنالوجی و ایجادات، معاشرتی فلاح و بہبود،  میں قابل قدر پیش رفت کی ، ان سبھی زمروں میں ہڑپا تہذیب  اپنی مختلف خوبیوں کی بناء پر دوسری تہذیبوں سے قدرے مختلف ہے۔ جیسے شہری طرز آبادی، پانی کی ترسیل کے ذرائع وغیرہ۔

آج ملک ہندوستان اپنی تجارت و صنعت کی قرار داد میں جہاں عالمی تجارت و معیشت میں بے پناہ اضافہ گر ثابت ہورہی ہے یا زمانہ قدیم میں ثابت ہوئی، وہیں پر اپنی قدیم و جدید عدیم النظیر ادبیاتی خدمات سے پوری دنیا کو مکمل طور پر متاثر کی۔ اور انہیں قضیوں میں سر فہرست، قدیم ترین و زمانۂ وسطی و اخروی ادوار میں ہندوستان میں لکھی گئ کتابوں میں سے قابل ذکر کتاب، پنچ تنتر ہے، جس کو ہندوستان کی قدیم زمانہ کی ایسی آب و ہوا میں لکھی گئی جو اخلاقی اسباق سے لیس تھی اور یہ چیز واضح رہے کہ ویشنو شرما نامی شخص نے اس کتاب کو، اپنے زمانے کے  راجکماروں کی پند و نصیحت کے لیے لکھی تھی، جس میں انہوں نے حکمران و شاہی فرمان داروں کی نصیحت و پند پر مشتمل اسباق پر توجوں کو مرکوز کرائی ۔ راج کماروں کی جمع لانے کی وجہ اس چیز کی وضاحت کرنی ہے کہ جس بادشاہ کے صاحبزادے کے لیے یہ کتاب لکھی گئی اس کے تین صاحبزادے تھے، جیسا کہ دست یاب پنج تنتر کی کتاب کے دیباچہ سے اس چیز کی وضاحت ملتی ہے، اور اردو نویسندگان نے اس چیز کی وضاحت کرنے سے آنکھ مچولی کی ہے۔ یہ چیز حق ہے کہ یہ کتاب در حقیقت کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں عام طور پر جانوروں اور ان کے طرز عمل سے  اخلاقی اسباق کی تخریج کی گئی ہے اور ان سے لوگوں کی ہدایت کے حصول لیے  تمثیل بیان کی گئی ہے۔

اور اس کتاب کے لکھنے میں اس چیز کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے تاکہ یہ کہانیاں صرف لفظوں و استعارات کا کھیل بن کر نہ رہ جائے، بلکہ اس کے اندر حکمت و دانائی ، عقل و دانش اور زندگی جینے کے متعلق ایسی لا زوال اسباق سموئے ہوئے ہیں، جو ایک انسان و معاشرہ کی زبان و ادب، اور ثقافت و تہذیب کی مجموعی ترقی کے واسطے ضروری ہے۔

      جیسا کہ جناب  نریندر نیر صاحب اپنے مضمون “دی ریلیونس آف دی پنچ تنتر” میں اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کتاب  افسانوں کا مجموعہ ہے جو پانچ ابواب پر مشتمل ہے، اور ان کہانیوں کو وشنو شرما نے ایک بادشاہ کے تین غیر روشن خیال ،  بیٹوں کو سنائی تھی، جو ان ناموں کے ساتھ منقسم ہے: دوستوں کا نقصان (دوسترابیدھا) جو شیر اور بیل جانور کی مثال دے کر اس کی وضاحت پیش کی گئی ہے ۔ دوستوں کی جیت (دوست سمپرپتی) یعنی دوستی کا حاصل کرنا، جس میں کبوتر، کوا، چوہا، کچھوا اور ہرن جانوروں کا کردار پیش کیا گیا ہے۔  کوے اور الّو ( کاکولوکیم) اس سے جنگ اور امن کے فوائد و نقصانات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔  فائدے کا نقصان (لاب دھاپرانشا) اور دانش اور اس جیسے مختلف دانش اور غیر دانش مندانہ کارروائی و عمل کی حکایت سے بھر پور بندر اور مگرمچھ جانور کے ذریعہ اس چیز کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

    اور اس کتاب کی سن تصنیف کے بارے میں یہ بات لکھی جاتی ہے کہ یہ کتاب تیسری صدی قبل مسیحی دور میں لکھی گئی ۔اور اپنی تصنیفی دور سے لے کر آج تک یہ کتاب پوری دنیا میں اخلاقی اقدار و روایات کے لیے مشہور ہے۔ اور سنسکرت زبان میں یہ کتاب لکھی گئی، جو کہ اس وقت کی ملکی زبان تھی، ہندوستان میں بولی جاتی تھی اور علما و اسکالر ، ارباب حکومت و اقتدار کی یہی زبان تھی۔ اسی زبان یا ١٠٠٠ بی سی اے تک کے دور میں سنسکرت زبان کی فروعی زبانوں جیسے پالی ، پراکرت، شورشینی ، اپھابھرش وغیرہ میں ہندوستان میں لکھنے ، پڑھنے کا رواج تھا ۔

سنسکرت زبان میں لکھی گئی یہ کتاب عالم کے ثروت مند کلچر و زبان کو اتنا متاثر کیا کہ ایران و عراق ، عرب  ممالک کے سمیت دیگر ممالک کے لوگوں نے اس کتاب میں شامل اخلاقی اصولوں پر مشتمل اسباق کو اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا، تاکہ ان کے شہریوں و باشندوں تک باآسانی یہ سبق و نظر  پہونچے، اور انسانی زندگی کے ادبی و علمی، اخلاقی پہلوؤں کو متاثر کرے ، جس کا ماخذ و منبع ہندوستان کی قدیم تہزیب و فکر ہے اور جس کی جڑیں سنسکرت زبان و بیان سے مرصع ہیں۔

کسی بھی چیز کی عمومیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ باشندگان اور عوامی و ریاستی  زبانوں میں اس چیز کا وجود ہو، جس سے اس چیز کی اہمیت و افادیت واضح ہوتی ہے کہ “نغمهٔ ساز دو عالم را صدای پا کنم” خاص اسی زاویہ نظر و نظریات سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس کے اصل مفہوم و موضوع کو دیگر عالمی زبانوں و بیان میں ترجمہ ہونے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں نصائح کے تحت ایسی کون سی چیزیں درج ہیں جس نے عرب و عجم،  یورپین ممالک کو یکسر طور پر متاثر کیا۔ سینٹرل ایشیا، ایشیائی وسطی کی زبانوں میں جیسے ازبک، قازق، کرغیز، تاجک، ترکمان اور دیگر بشمول زبان، مثلاً ترک، فارسی انگریزی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، اطالوی، روسی وغیرہ مختلف عالمی زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوچکا ہے جو  ہندوستانی ثقافت و تہذیب اور یہاں کی تاریخی تنوعات کی بخوبی عکاسی کررہی ہے۔

یہ کتاب ہندوستان کی زمان قدیم‌ کی ان اولین کتاب میں شمار کی جاتی ہے جس کا ترجمہ دنیا کے مختلف زبانوں میں کیا گیا۔ اور مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فی الوقت اس کتاب کا ترجمہ پچاس زبانوں میں ہوچکا ہے، جس سے ان زبانوں کی ادبیاتی ترقی کے تناظر میں بے بہا خدمت کو زندگی بخشنے کے لیے یہ کتاب پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کتاب کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی دری زبان میں، برزویہ برزجمہر ایرانی بادشاہ کے زمانہ میں کیا جاتا ہے۔ پھر جب عربوں کی حکومت نویں صدی میں ایران پر قائم ہوتی ہے، تب اس کتاب کے ترجمہ عربی کا کام ، خلیفہ منصور کے عہد میں عربی و فارسی کے مشہور عالم، عبد اللہ ابن مقفی کے ذریعہ انجام پزیر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں اس کتاب کو وسیلہ بناکر ابوالفضل کے ذریعہ ہندوستان کے مغول  بادشاہوں میں ممتاز نظر، علم و فضل سے حد درجہ شغف رکھنے والا بادشاہ، اکبر کے دور میں “عیار دانش” کے نام سے فارسی زبان میں کیا جاتا ہے۔ ملا حسین کاشفی نے بھی “انوارِ سھیلی” کے نام سے اس کتاب کا ترجمہ فارسی زبان میں کرکے اپنی تخلیقی شعور کے ساتھ وفا کیا۔

اس ضمن میں پروفیسر امیر حسین عابدی، شعبۂ فارسی دہلی یونیورسٹی ، دہلی اپنے ایک مضمون ” دوسری زبانوں سے فارسی میں تراجم” عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

     “چھٹی صدی عیسوی میں مشہور ساسانی بادشاہ انوشیروان عادل کا ایک درباری طبیب بوزویہ ہندوستان آیا اس نے ہندوستانی کلاسک پنچ تنتر حاصل کی۔  جسے ویشنو شرما نے سنسکرت میں تالیف کیا تھا۔  یہ ایرانی طبیب اس  ہندوستانی مایہ ناز تالیف کو اپنے ہمراہ ایران لے گیا، اور اپنے زمانے کی ایرانی زبان یعنی پہلوی میں اس کا ترجمہ کیا۔ برزویہ کی اس کوشش نے درحقیقت پنچ تنتر کو دنیا کے ادب میں متعارف کرایا۔  پنچ نتر کے اسی پہلوی ترجمے کے بعد دنیا کی اہم زبانوں میں اس کے ترجمہ کیے گئے۔”( ہندوستانی فارسی ادب، از پروفیسر سید امیر حسن عابدی، ص نمبر ٣٣، سال طباعت ١٩٨٤ ، ناشر انڈو پرشین سوسائٹی)

بالآخر مختلف زبانوں میں اس کتاب کی ترجمہ نگاری کے ذریعہ عالمی زبانوں و بیان کو اخلاقی اقدار کے تحت بے حد فائدہ پہونچا ہے۔  اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان، ثقافت و تہذیب، علم و ادب کی پرورش کرنے  میں  غایت درجہ کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کیا، اور مختلف زبانوں، مذاہب، فرقہ واریت اور ثقافتوں کا گہرا خزانہ ہونے کے باوجود، جس قدر امن و روحانیت کے ساتھ عالمی زبانوں و بیان، علم و فضل کی شاخوں، اور مختلف ممالک کے لوگوں کو متاثر کیا، اس کی مثال ان خصوصیات کی شرطوں کے ساتھ کسی اور ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اسی سرزمین نے، ٹکشیلا، نالندا، اور وکرم شیلا جیسے جامعات دے کر عالمی سطح پر لوگوں کی نظر ہندوستان کی طرف ڈالنے پر مجبور کیا، اور جس قدر مختلف علوم و فنون کی قدردانی اور علم و ادب دانوں کی تربیت ہندوستان نے کی، اور جس زاویے سے ہم اس کے تقاضوں کے تحت چل رہے ہیں، اس کی نظیر عالم میں پانا مشکل تھا/  اور ہے ۔ اپنی اس قدیم ورثہ “تعلیم ، اخلاقی اقدار و روایات کے سایہ میں” اس کی حفاظت و ترجمانی کرنا، ہم ہندوستانیوں کی زندگیوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ اور حکومت ہند کی اعلی ترین کوشش، کہ ہماری ہر روایت و درایت، علم و ادب کو وہ مقام حاصل ہو جو عالم کی نظر میں پنچ تنتر کو حاصل ہوا، اور ہماری ہر کوشش اسی طرح عالم کو بھائے، جیسے اس کتاب نے سب کو اپنی طرف راغب کیا، اور وہاں کی آب و ہوا، فکر و نظر، فلسفہ و منطق کو متاثر کیا۔ اور ہمارے عہد کا ہندوستان بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے ۔ اور ہم سبھی کو “واسودایوا کوتومباکام” یعنی دنیا ایک خانوادہ کے مانند ہے، اس ہندوستانی روایت کو جلا بخشنے کی کوشش کرنی چاہئیے، اور پنچ تنتر کتاب پر میری تجزیہ نگاری کا خلاصہ اور موجودہ ماحول کے تناظر میں سبق بھی یہی ہے کہ یہ کتاب لفظ بہ لفظ اس چیز کی ترجمانی کررہی ہے اور ہندوستانیوں کے دلوں میں عالمی قیادت کرنے کا جوش بھر رہی ہیں ۔ جس کے لیے ہم سبھی کو ہمیشہ آمادہ خاطر رہنا چائیے ۔

***

Leave a Reply