خان حسنین عاقب
نظم :
چاند نے اپنی کھڑکی کھولی
(چندرایان 3)
لمبا راستہ منزل دور
پھر بھی مسافر ہیں مسرور
کتنی صدیوں کی چاہت
کتنے برسوں کی محنت
چاند جسے ہم کہتے ہیں
تنہائی میں روتا تھا
داغ تھے اس کے چہرے پر
اِس کا اُسے دکھ ہوتا تھا
روپ بھی اس کا ہلکا تھا
رنگ بھی اس کا پھیکا تھا
چاند کے عاشق جب پہنچے
دینے اس کے در پر دستک
چاند پہ پہنچی اپنی ڈولی
چاند نے اپنی کھڑکی کھولی
چاند نے جب اوپر سے دیکھا
بام سے اپنے نیچے جھانکا
دیوانوں کی ٹولی کھڑی تھی
دھرتی سے ایک ڈولی چلی تھی
چاند پہ پہنچی پھر یہ ڈولی
چاند نے اپنی کھڑکی کھولی
اب تک رہتا تھا جو گم سم
چاند کے ہونٹوں پر ہے تبسم
دور ہوئی ہے اب تنہائی
چاند پہ ہم نے بستی بسائی
اس بستی میں ہم سب مل کر
آؤ بولیں پیار کی بولی
آؤ بولیں پیار کی بولی
چاند پہ پہنچی اپنی ڈولی
چاند نے اپنی کھڑکی کھولی
***