You are currently viewing ڈاکٹر ثروت النساء خان کے افسانوں میں اکسیویں صدی کی عورت

ڈاکٹر ثروت النساء خان کے افسانوں میں اکسیویں صدی کی عورت

.

 رُخسانہ بانو

پی۔ایچ۔ڈی اسکالر

سینڑل یونیورسٹی آف کشمیر

                          ڈاکٹر ثروت النساء خان کے افسانوں میں اکسیویں صدی کی عورت:  ایک جائزہ

               ثروت خان کا ادبی سفراکسیویں صدی کی طلوع صبح سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں اکسیویں صدی کی دہلیز پر دستک دیتے ہوئے ان گنت موضوعات کو صفحہ ٗ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ قدامت پرستی کے خلاف نڈر ہو کر صداے احتجاج بلند کی ہے۔ موجودہ سماج کی فرسودہ روایات اور نئی پرانی نسل کے بیچ حائل گھتیوں کو موضوع بنا کر متحرک کرداروں کی تخلیق کی ہے۔ڈاکٹر ثروت خان اودھے پور(راجھستان ) کی رہنے والی ایک حساس ادیبہ ہیں۔ عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی تک و دو میں لگی رہتی ہیں۔ آزاد خیال اور زندگی کو تمام سماجی بندشوں سے آزاد دیکھنے کی متمنی ہیں۔ عورت کے مسائل اور اُس کی نفسیات پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ ثروت خان بحیثیت ایک خاتون ہونے کے عورت کے اُن تمام معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کو اُبھارتی ہیں۔ جس میں ان کے شعور کی ایک سطح بہت نمایاں ہے۔اور اُن کے ہر تحریر میں اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔موجود انسانی معاشرے میں عورت کے وجود کی معنویت اس کی قسمت اور آس پاس کی دنیا میںاپنی شراکت ہے۔ ثروت خان نے اپنے تحریروں میں عورت کے دُکھ درد کی جو تصویر کھینچی ہے ۔ وہ ہمیں باربار یہ احساس دلاتی ہے۔ کہ راجھستانی معاشرے میں عورت اور خاص کر بیوہ عورتوں کے ساتھ کس قدر بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔

       ثروت خان نے اپنی کہاینوں  ( ذروں کی حرارت  ۲۰۰۴)اور (اندھیرا پگ  ۲۰۰۵) کے ذریعے اکسیویں صدی کی خواتین فکشن نگاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرالیا ہے۔ ثروت خان نے ۲۰۰۰ ء کے آس پاس سے افسانہ لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ذروں کی حرارتــ ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آیا۔ ثروت خان ترنم ّ ریاض کے بعد دوسری افسانہ نگار ہیں۔ جنھوں نے علاقائیت کو اپنے افسانوں میںفروغ دیا۔ اُردو ادب میں راجھستان اور وہاں کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں ملتا۔ ثروت خان نے ان امور پر توجہ دی ور اپنے افسانوں کا محور قرار دیا۔ان کے یہاں براہ راست  خاندانی زندگی کا بیان بہت کم ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ راجھستانی کلچر کی پیش کش کے تئیں ہے۔ ثروت خان کے موضوعات عام طور سے سیاستعام معاشرہ، تعلیم، نفسیات اور خاص طور سے عورتوں کے مسائل کی پیش کش رہے ہیں۔ان کی کہاینوں میں نسائی حسیت کی اپنی ایک انفرادی خصوصیت ملتی ہے۔ عورتوں کی نفسیات اور ذہنی کشمکش کی وہ بہ خوبی واقف کار ہیں۔ اور اس کی بہترین پیش کش ان کے اکثر و بیشتر افسانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو مختلف حادثات اوراُتار چڑھاو میں سب کا محور و مرکز کل بھی عورت تھی اور آج بھی عورت ہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے۔ کہ مختلف اور بڑی سوچ رکھنے والی خواتین افسانہ نگار نے اس کے سماجی و معاشرتی وجوہات بھی تلاش کئے اور اسے وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر بھی عورتوں کی بیجا حمایت سے وہ بھی بچ نہ سکیں اس میں ان کے عورت ہونے کا دخل ہے۔ بہر حال مرد اور عورت کائنات کی افضل ترین تخلیق کے دو پہلو ہیں۔ لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کیلے نا مکمل پھر بھی تضاد اور تصادم کیوں نظر آتا ہے؟ اگر دیکھا جائے۔ تو اسی بنیادی سوال اور مسئلہ کے اردرگرد خواتین افسانہ نگاروں کا سرمایہ بکھرا پڑا ہے۔

             ثروت خان کے افسانوی مجموعہ ’’ذروں کی حرارت‘‘ کو بھی ہم ان معاملات اور خیالات سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ اس میںاٹھارہ (۱۸) کہانیاں ہیں۔ جس میں پہلی ہی کہانی میں ’’مرد مار بھلی‘‘جس کا مرکزی کردار کیرتی کا ہے۔جو بچپن سے ہی اپنے باپ کے ذریعے اپنی ماں پر ظلم دیکھتی آئی۔ بچپن سے کیرتی کے دل و دماغ پر مردوں کے ظلم و ستم کا اتنا گہرا ہوا تھا۔کہ وہ سنبل پر ہورہے ظلم وستم کو دیکھ کر اندر سے لرز جاتی ہے۔ثروت خان نے اس لعزش کو خوبی کے ساتھ کیرتی کے کردار کو پیش کیا ہے۔ سنبل پڑھی لکھی وفا شعار اور روایتی بیوی ہے۔جو اپنے شوہر حیدر سے بے انتہا محبت کرتی ہے۔اس افسانے میں ثروت خان نے ایک ساتھ عورت کے دو روپ پیش کیے ہیں۔ ایک طرف کیرتی جو مردوں سے بے انتہا نفرت کرتی ہے۔ وہیں دوسری طرف سنبل محبت اور وفا کی دیوی بن کر اپنے شوہر کے ظلم وستم کو اپنی قسمت سمجھ کر برداشت کرتی ہے۔

            دراصل یہ افسانہ (مردمار بھلی) ثروت خان نے بنیادی طور پر عورتوں کی نفسیات اور ازدواجی زندگی میں ان کے استحصال سے عبارت ہے۔ جب سنبل کو اس کا شوہرشراب کے نشے میںزدہکوب کرتا ہے۔ اور کیرتی اسے پولیس  اسٹیشن لے جانا چاہتی ہے۔تو سنبل بیچ میں آکر کہتی ہے!

’’ نہیں کیرتی نہیں! یہ میرا مجازی خدا ہے۔ تم بیچ میں نہ آو ‘‘

)                                   ذروں کی حرارت  ص ۱۳)    (مرد مار بھلی(

کیرتی سنبل کی بات سن کر جواب دیتی ہے۔

 ’’سنبل پتی پر میشور ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب القاب ان مردوں نے ہم عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔ خود مختاری میں خدا اور پر میشورر بن بیٹھے اور ہمیں ابلا اور صنف نازک قرار دیا۔ یہ سب ڈھونگی ہیں پکے ڈھونگی‘‘

)                                       ذروں کی حرارت  مرد مار بھلی ص ۱۴(

               ثروت خان نے زندگی اور سماج کے مختلف مُسلوں پر نگاہ رکھی ہے۔ چوں کہ وہ عورتوں کی نفسیات اور ان کے احساسات و جذبات کی اچھی واقف کار ہیں۔ اس لیے ان کے افسانے میں عورت کے احساس و جذبے کی سچی تصویریں نظر آتی ہیں۔ اور خاص طور سے ثروت خان مرد اور عورت کے رشتے کو بہ خوبی سمجھتی ہیں۔اور عورتوں کی نفسیات پر مکمل دسترس رکھتی ہیں۔ جس کی مثال ہمیں افسانہ میں’’ مرد مار بھلی‘‘ میں نظر آتی ہیں۔ جب کیرتی بچپن سے ہی اپنے باپ کے ذریعہ ماں پر ظلم دیکھتی آئی۔ اور اس کی دکھیاری ماں کی یہ خواہش نفسیات کی کمان بن جاتی ہے۔!

  ’’بیٹی تجھے ایک دن بڑا افسر بننا ہے۔ سماج کے ان جواں مردوں سے کمزوروں بے بسوں اور لاچاروںکو نجات دلانا ہے۔ ایک بہادر عورت بن کر ناانصافی کے خلاف لڑنا ہے۔‘‘

)ذروں کی حرارت ؛ مرد مار بھلی  ص  ۱۵ (

 وہ پولیس آفیسر بن جاتی ہے۔اور اسے ہر مرد ظالم دکھائی دینے لگتا ہے۔ چناچہ ایسے روایتی جملے بھی درمیان آتے ہیں۔

  ’’اُف پڑھ کر بھی عورت بے وقوف کی ہے بے قوف ہے!

 یہ جملے سنبل جو اس افسانے میں دوسری نسوانی کردار اور اپنے شوہر کے ظلم و ذیادتی سہہ لیتی ہے۔ پھر بھی اپنے شوہر  کومجازی خدا سمجھتی ہے۔اس افسانے میں دو متضاد کردارایک کمزور اور دوسرا مرد مار۔ کچھ روایتی سوچ، کچھ غصہ، کچھ مرد مجرم کی ضرورت سے زیادہ پٹائی۔ جبکہ وہ یہ کہہ رہا ہے۔

 ’’میڈم آج اپن نے جرم قبول کر لیا۔تو پھر ناگہانی سزا اپن کو کیوں مل رہا ہے۔‘‘

  تبھی ثروت خان نے اپنی تنقید کی کتاب’’ شورش فکر‘‘ میں اپنے ایک مضمون ’’نئی عورت نئے مسائل‘‘ اور’’ حقیقت پسندانہ افسانہ ‘‘میں عورت کو زندگی کا مقابلہ، بہادری حوصلہ مندی اور ہوش مندی کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے موجودہ دور کی عورت کو کس طرح مخاطب کیا ہے۔

                     ’’آج عورت زندگی کے مقابل بڑی بہادری سے کھڑی ہے۔

                 زندگی کی حرارت اس کی رگوں میں شعور و آگہی بن کر دوڑ رہی

                 ہے۔ تمام جزبوں میں محبت کا جذبہ عورت کے لئے عزیز ہوتا

                 ہے۔مگر یہ پرانی بات ہے۔ اب وہ زندگی کے مقصد کے آگے

                  اپنے پیار کی بھی پرواہ نہیں کرتی کیوں کہ وہ جانتی ہے۔ کہ وہ

                 صیح ہے۔ اس کا یہی اعتماد اسے اپنے بل بوتے پر اپنے مقصد

             حیات کا تعین کرنے کی ہمت اور طاقت عطا کرتا ہے۔‘‘

                                                  شورش فکر  ص  ۲۹(

             ان کے افسانوی مجموعہ ’’ذروں کی حرارت‘‘کو موضوعاتی سطح پر دیکھا جائے تو مذکورہ مجموعہ میں شامل افسانوں میں یوں قدروں کا زوال رشتوں کی پامالی، جنسی کجروی، معاشرہ کی بدحالی، مشینی زندگی کی اذیتیں اور محبت و رومانیت جیسے موضوعات نظر آتے ہیں۔لیکن جو نکتہ ذیادہ تر افسانوں پر حاوی ہے۔ وہ ہے دور حاضر میں عورت کو چیلینج کرتا سماج اور اپنے وجود کو ثابت کرتی ہوئی عورت۔تبھی سیما صغیر نے اپنی کتاب ’’جدید ادب تنقید، تجزیہ اور تفہیم ‘‘ میں لکھتی ہیں۔

  ’’ثروت خان کی کہانیوں کا مرکزی کردار عورت ہے۔ مگر عورت کے تشخص کی یہ کوشش آج سے پہلے لکھنے والوں کی تخلیقات سے کسی حد تک مختلف ہے۔ عورت کے ذریعے خلق کی گئی عورت کی کہانی میں نسائی حسیت کی اپنی انفرادیت و خصوصیت ہوتی ہے۔اُس کا دائرہ کا ر صرف گھر نہیں ، بلکہ بازار، دفتر، سیاست فرقہ واریت وغیرہ سبھی کچھ ہے۔ لیکن زور اس بات پر ہے۔ کہ ان سب کا عورت کیسے مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ عورت ایک خاص تیور کے ساتھ سامنے آتی ہے۔یہ عورت سماج کی ناانصافیوں کو برداشت تو کرتی ہے۔ مگر وہ اُسے نوشتہ تقدیر سمجھ کر قبول نہیں کرتی۔‘‘

) جدید ادب !تنقید، تجزیہ اور تفہیم  ص    ۱۴۸۔۱۵۰(

        ثروت خان کے دوسرے افسانوں میں بھی نسائی حسیت نے ان کی ذہنی کشمکش جیسے موضوعات کو بحث بنایا ہے۔ جیسے ’’حسن کا معیار‘‘ ثروت خان کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ اس کہانی میں ایک ایسی عورت کی شبیہ ابھرتی ہے۔ جس کا شوہر اسے اپنے کاروباری فائدہ کیلے استعمال کرتا ہے۔ غیر مردوں کا دل  بہلا کر کانڑیکٹ (Contract ) حاصل کرنے پر اسے مجبور کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ سیتا پر ہر پل ہر لمحہ ظلم و ستم کرتا ہے۔اس کے جذبات و احساسات کی پروا کیے بغیر اس سے وہ سارے کام کرواتا ہے۔ جس کام کے لیے اس کا ضمیر گوارہ نہیں کرتا۔ وہ اس کے جذبات کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے۔ ثروت خان کا یہ افسانہ معاشرے پر گہرا طنز ہے۔ صدیوں سے ہمارے معاشرے میں عورتوں پر ظلم و ستم اور استحصال ہوتے رہے ہیں۔کھبی ماں کے روپ میں اور کھبی  بیٹی، بہن اور کبھی بیوی کے روپ میں اسے اپنی پاک دامنی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔چونکہ ثروت خان عہد حاضر کی بدلی ہوئی صورت حال کی باریکیوںکو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔جب سیتا کا شوہر اس پر تہمت لگا کر گھر سے باہر نکال دیتا ہے۔ تو وہ چپ ہو کر بیٹھ نہیں جاتی بلکہ تھانے جاکر رپوٹ لکھواتی ہے اورپنے شوہر کو سزا دلواتی ہے۔ سیتا پڑھی لکھی ، سمجھ دار اور حساس ذہن رکھنے والی عورت ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کوپھر سے نئے سرے سے شروع کرتی ہے۔ اور اس میں کامیاب بھی ہوتی ہے۔اسی طرح دوسرا افسانہ ’’ترشنا‘‘ میں لمبے قد والی لڑکی خاندان کے طعنے سن سن کر اپنے آپ کو سخت کرلیتی ہے۔ اور طعنہ کو چیلنج میں بدل کر مس ورلڈ(Miss World) کا مقابلہ جیت جاتی ہے۔ طعنہ کو چیلنج میں بدلنا ایک صحت مند عمل ہے۔ لیکن سخت اور بیمار پولیس افسر یا مس ورلڈ بننا کیا مسئلہ کا مستقبل حل ہے؟دراصل کرداروں کے نفسیاتی پہلو اور اُن کے پیچ و خم کی ااندھی گلیاں اور اُن گلیوں سے فراریت کا جذبہ ان دونوں کرداروں کے عمل کو مترشخ کرتا ہے۔افسانہ ’’سمرپن‘‘ اگرچہ یہ محتصر لیکن بے حد موثر کہانی ہے۔ جس میں ایک نرم ونازک ہرنی اپنے شکاری کے خوف سے پہلے تو اپنی جان بچاتی ہے۔ پھر تحفظ کا یقین ہو جانے کے بعد اس کے اندر اطیمنان و انبساط کا احساس جاگ جاتا ہے۔ بعد میں وہی شکاری اس سے اچھا لگنے لگتا ہے۔ اور وہ خود سپردگی کے جذبات سے مچلنے لگتی ہے۔ اس جملے میں ’’اب میں نے جان لیا ہے‘‘۔ جملہ بے حد معنی خیز ہے۔ لیکن اب شکاری غائب ہے۔ جب عورت اصل محبت پاناچاہتی ہے۔ تو وہ محبت غائب ہو جاتی ہے۔ اور جب وہ ایک انسان کی طرح زندگی جینا چاہتی ہے۔تو اس کا شکار کیا جاتا ہے۔۔قابل غور بات یہ ہے کہ یہ احساس گھر کے باہر جنگل اور سنگھر ش سے جاگتا ہے۔دوسری جانب افسانہ ’’سمرپن‘‘میں جہاں تک میرے پڑھنے کا انداز ہے۔استحصال کے نئے طریقے دکھائے۔ عورت کو آزادی کے نام پر نئی ذہن اور نئی چھوٹ اور استحصال کے نئے طریقے جواب بدل چکے ہیں۔ آج بھی عورت پر استحصال کیا جاتا ہے۔سماج میں گھر ، دفتر جیسے مقامات پر۔ لیکن نئے اور مختلف انداز میں، تبھی اس افسانے ’’سمرپن‘‘ پر ڈاکٹر سید مدبر علی زیدی نے یوں لکھا۔

   ’’محترمہ ثروت خان کا افسانوی مجموعہ ’’ذروں کی حرارت‘‘ میںشامل افسانہ ’’سمرپن‘‘ میں شدت جذبات اسلوب کی رنگینی،بیان کی شگفتگی اور جامعیت افسانے کے امتیازی اوصاف ہیں۔ اس افسانے کا اختتام جذباتی رنگینی پر نہیںہوتا۔ بلکہ حقیقت نگاری کی سنگلاخ زمین سے ٹکراتا ہے۔ زمانہ کی تیز رفتار میں کوئی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وفا اور بیوفائی کے پیمانے بدل رہے ہیں۔ جذبات اور عقل کی کشمکش کا ازلی افسانہ ’’سمرپن‘‘(خود سپرگی) میں نہایت دلکش سے پیش کیا گیا ہے۔‘‘

)ذروں کی حرارت   ص ۱۲۷(

  ثروت خان کا ایک دوسرا اور اہم افسانہ ’’مردانگی‘‘جس میں عورت مرد کے تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس افسانے کا کردار ڈاکٹر فرحت جو لیکچرار کے عہد ے پر فائز ہیں۔ ان کا ڈیپوٹیشن (Deputation)شہر کے دور دراز علاقہ میں ہو جاتا ہے۔ جہاں پہچنے کیلے روز بس کا سفرکرنا پڑتا ہے۔ بس کے سفر کے دوران مسافرروں کے بیچ ہونے والی گفتگو، ان کے حرکات و سکنات کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کہانی میں عورت کے دہرے کردار کی جھلک ملتی ہے۔اور دو طبقے کی عورتوںکو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر فرحت جب کسی دن پریکٹیکل ہونے کی وجہ سے دیر سے گھر لوٹتی ہیں۔ تو اُن کا شوہر مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

   ’’بیوی پر لگائے گئے اس ناگہانی کے الزام کو سن کر ڈاکٹر فرحت کو اپنے شوہر کی دوٹٹولتی ہوئی آنکھیں صاف نظر آنے لگیں۔ اکثر وہ جب بھی پریکٹیکل کی وجہ سے دیر سے گھر پہنچتی تو وہ مشکوک آنکھیں ان سے سوال کرتی نظر آتیں‘‘

)افسانہ   مردانگی(

     اس کہانی میں مانگی اور رگھو کے ذریعہ عورت کو استحصال اور اس کے احتجاج کو بھی دکھا یاگیا ہے۔ جب مانگی کے خاموش رہنے پر رگھو اس سے بلاوجہ جھگڑ پڑتا ہے۔ اور بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ کہ رگھو مانگی کو بھری بس میں ایک تھپڑ رسید کر دیتا ہے۔

  ایک اقتباس:۔

 ’’بس میں خاموشی چھاگئی۔ سب دنگ تھے۔ کچھ عورتیں خاموشی کچھ ہکی بکی اور کچھ نے ردعمل ہی نہیں کیا۔ گویا مرد سے مار کھانا  ان زندگی کا اہم حصہ ہو۔ مردہشاش بشاش اور بچے، وہ تو کچھ سمجھ نہیں پائے دھیرے دھیرے مرد آپس میں باتیں کرنے لگے ’اچھا ہوا۔۔۔ اس کی یہی اوقات تھی عورت باتوں سے باز نہیں آتی۔ سالی روز زبان لڑاتی تھی، ایک اور مار سالی کے‘‘

 لیکن اسی افسانے میں عورت کا ردعمل:۔

       کچھ مسافر عورتوں میں تجس بڑھ گیا تھاکہ دیکھیں اب کیا ہوگا۔۔۔

            کچھ نے اپنے گھونگٹھوں کو اور لمبا کر  لیا تھا اور دانت کے اندر پلو دبا

            کرگھونگھٹ سے ایک آنکھ کی جگہ بنا کر مانگی کو کچھ اس طرح سے دیکھا

            کہ گویا کہہ رہی ہوں، ’’مانگی کوئی بات نہیں۔ جو ہوا اسے پی جا،یہ سب

              تو روز مرہ کا جنجال ہے۔ مرد سے پٹنا تو اپنے نصیب میں لکھا ہے۔‘‘

)افسانہ مردانگی(

 مگر اسی افسانے میں ایک پہلو وہ بھی ہے جب مانگی احتجاج پر اتر آتی ہے۔

  ’’لیکن انہوں نے صاف محسوس کیا کہ آج مانگی کی نظروں میںبغاوت کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ مانگی کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا۔ ایک جارہا تھا۔ اور ڈاکٹر فرحت نے دیکھا مانگی کا ہاتھ ہوامیںلہراتا ہی چلا گیا۔‘‘

)افسانہ مردانگی(

           اسی طرح  افسانہ  ’’زندگی اور موت‘‘ میں ایک عورت کی بے بسی، بے کسی اور مفلسی کو پیش کیا گیا ہے۔ شوہر کی موت کے بعد رامی اپنے بیٹے کیشو کا علاج بھی نہیں کرواپاتی ہے۔ اور دن بھر جب مزدوری کر کے ٹھیکیدار سے پیسے وصول کرتی۔ تو اپنے بیٹے کیلے دوائی لے آتی۔مگر افسوس تب تک کیشو اس غربت کی نگری سے ہمیشہ کیلے سو گیاتھا۔اور رامی اس کے غم میں پاگل ہو جاتی ہے۔ مگر یہاں ماں کی ممتا کا نقطہ عروج بھی ہے۔

        ثروت خان کا تخلیقی سفر بے حد دلچسپ ہے انہوں نے ہمیشہ روایت سے یکسر انحراف کیا ہے۔ جو بہت مشکل ہوتاہے۔پھر بھی انہوں نے ’’محبت کا شجر‘‘ لگا کر جو اپنی کہانی دہراتی ہے۔اور جو شعور پروان چڑھا ہے۔اور جس سے ان کا اپنا فکری و تخلیقی کردار تعمیر ہو سکا۔ اس کے بطن سے نکلی ہوئی یہ کہانیاں نسائیت اور انسانیت کے ملے جلے آہنگ کا پتہ تو دیتی ہیں۔ لیکن اس کی شان انسانیت پر ہی ٹوٹتی ہے۔

        ثروت خان میں جمالیاتی حس بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔جس جہاں اور جس رنگ میں ملے وہ جھوم اُٹھتی ہیں۔افسانہ ’’تخلیق‘‘ میں یہ احساس شروع سے آخر تک غالب نظر آتا ہے۔ جمالیات اور رومانیت کی حسین آمیزش ان کے افسانوں میں خوش گوار تاثیر پیدا کردیتی ہے۔ ’’سمرپن‘‘ ’’وہ لاجوب تھی‘‘’’محبت کا شجر‘‘ ’’حسن کا معیار‘‘ وغیرہ اہم افسانوں میں حسن کی تزاکت و لطافت، رنگینی و رعنائی اور انداز و ادا کو بھر پور شدت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

  ثروت خان کی ایک بڑی اور اہم خوبی ان کی خود اعتمادی ہے۔وہ مصمم اور قوت ارادی کی خاتون ہیں۔ جو ٹھان لیتی ہیں۔ وہ کر کے دکھاتی ہیں۔ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ یہ جملہ ان کی زندگی کی کتاب میں کہیں درج ہی نہیں۔اپنے اسی عزم و حوصلے کے باعث آج وہ اس مقام تک پہنچ چکی ہیں۔ بلاشبہ ثروت خان اکسیویں صدی کی بے باک خاتون جو اصلاحیاور فلاحی تنظیموں سے جڑ کر معاشرے کی خدمت کرنے والی ، افسانہ نویس، ناول نگار، تنقید و تحقیق اور ترجمے کے توسط سے ادب میں اپنی ایک نمایاں پہچان بنائی ہے۔

                             ٭٭٭

حواشی:۔

    افسانہ مرد مار بھلی  (ص ۱۳)

   ایضاً    ص ۱۴

   ایضاً    ص ۱۵

   شورش فکر   ص ۲۹

  جدید ادب:  تنقید ، تجزیہ اور تفہیم   ص ۱۴۸۔۱۵۰

    ذروں کی حرارت   ص ۱۲۷

     افسانہ مردانگی    ص   ۵۳

    ایضاً    ص    ۵۸

                                                      رُخسانہ بانو

                                                   پی۔ایچ۔ڈی اسکالر

                                                  سینڑل یونیورسٹی آف کشمیر

rukhsanamajeed145@gmail.com

This Post Has 2 Comments

  1. ڈاکٹر ثروت خان

    تحقیق کا میدان سیل رواں کی مانند ہے جس میں تلاش و جستجو سراب کی مانند ہے۔ ب اکیسویں صدی نے ہمیں برقی تکنیک کے ذریعے علم و ادب کے جن آبشاروں سے روشناس کروایا وہ حیرت انگیز ہے۔
    ہماری نئ نسل کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوا جس سے انکی تحقیقی کاوشات کو ایسپوژر بھی ملا اور ان کے قلم کی روانی فہم کی بازیگری سلیقہ مندی اور تنقیدی شعور کی کارفرمائیوں سے بھی آگاہ ہونے کے راستے کھلے۔
    دل خوش ہوا ان مقالات کو پڑھ کر کہ ہمارے بچے کاپی پیسٹ جیسی تہمتوں سے پرے ہیں۔
    اللہ ان کے قلم کو اور طاقت دے تاکہ وہ اپنا اور اپنے استادوں کے ساتھ اپنے ملک کا نام بھی روشن کریں۔
    رسالہ ترجیحات اس میدان میں اہم کردار ادا کر رہا ہے
    میں اس کے مدیر اور ان کی ٹیم کو دلی مبارکباد دیتی ہوں۔

  2. ڈاکٹر ثروت خان

    تلاش و جستجو سراب کی طرح ہے۔

Leave a Reply