زیبا گلزار
ایم۔ایس اسکالر(شعبہ اردو)
جی سی ویمن یونی ورسٹی سیالکوٹ
ڈاکٹر جمیل جالبی بطور مترجم
ملخص
ڈاکٹر جمیل جالبی کو اپنے وقت کی ایک اہم ادبی شخصیت سمجھا جاتاتھا۔ادبی نقادوں کے لیے ہمیشہ ان کا ادیب یا عالم کی حیثیت سے مقام متعین کرنا مشکل محسوس ہوتا،انہوں نے ادب کو تاریخی نقاد،میگزین ایڈیٹر،محقق ،مرتب اور عالم کی حیثیت سے تخلیق کرنے کی پوری کوشش کی۔ان کی تخلیقات نے اپنے ہم عصر وں کے لیے ادبی اقدار کی راہ ہموار کی۔اس سلسلے میں ان کا ادبی رسالہ”نیا دور،کراچی“بہت معاون ثابت ہوا ۔ڈاکٹر جمیل جالبی قابل مدوّن تھے۔انہوں نے بہت سی اردو کلاسیکی ادبی عبارتوں کی تدوین کی۔ ۔اردو کا ایک نایاب کلاسیکی متن مثنوی”کدم راؤپدم راؤ“بھی انہوں نے مدوّن کیا۔یہ متن باقی مدونین کے لکھے گئے انداز میں بہت مشکل تھا لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی انتہائی مشکل متن کو آسان ترین انداز میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ان کی ایک مشہور تحقیقی کتاب”تاریخ ادبِ اردو“چار جلدوں پر مشتمل ہے۔یہ اردو ادب کی تاریخ کا مستند حوالہ ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے انگریزی نقادوں کی بہت سی اہم کتابوں کا اردو ترجمہ کیا۔ انہوں نے میرؔ کی زندگی اور ان کے کام پر بہت کچھ لکھا۔مزید یہ کہ ان کی تحریروں میں ”پاکستانیت“کی عکاسی عیاں ہے اور اس سے یہ بات یقینی ہےکہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے زندہ رہیں گے۔
لفظ ”ترجمہ“عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے لغوی معنی ایک زبان کے مواد یا کلام کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہے۔انگریزی سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کے معنی پہنچانایا منتقل کرنا Translatrioہے جو کہ لاطینی لفظTranslationزبان میں اس کا مترادف لفظ کرنا کےہیں۔مختلف ناقدین اور مفکرین نے ترجمے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
بقول مرزا حامد بیگ:
”کسی تصنیف یا تالیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ
کہلاتا ہے“۔(۱)
بقول نثار احمد قریشی:
”کسی مصنف کے خیالات کو لیا جائے،ان کو اپنی زبان کا لباس پہنایا جائے
،ان کو اپنے الفاظ ومحاورات کے سانچے میں ڈھالا جائےاور اپنی قوم کے
سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ ترجمے اور تالیف میں کچھ فرق محسو
س نہ ہو“۔(۲)
ان تعریفوں سے بڑی حد تک ترجمے کو سمجھنے میں مددملتی ہے۔کسی بھی ملک یا قوم کی زبان اور ادب کو ترویج دینے کا سب سے بہتر راستہ تراجم کا ہے۔اس سے ایک ملک کے رہنے والے لوگ دوسری زبانوں کے علوم وفنون اور مختلف خطوں کی تہذیب وثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔بہر حال تراجم ہر زبان و ادب کے لیے ناگزیز ہیں۔دنیا کی وہ قدیم زبانیں جومعدوم ہوچکی ہیں ان کا ادب ترجموں کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔مثلاً قدیم یونانی اور سنسکرت زبان وادب کے شاہکار کالی داس کی ”شکنتلا“اور ارسطو کی ”بوطیقا“آج بھی موجودہیں ۔گویا ترجمہ ماضی کو حال اور مستقبل سے جوڑنے کا عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔اردو میں فورٹ ولیم کالج سے باقاعدہ طور پر تراجم کا جو آغاز ہوا اس نے کئی دور دیکھنے کے بعد جدید دور میں بھی اپنی اہمیت کو اجاگر کیے رکھا۔نئے ترجمہ نگاروں میں کشور ناہید،مظہر حق علوی،یاسر جواد،عاصم بٹ،احمد سہیل،ڈاکٹر ضیاءالحسن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنے عہد کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے انہوں نے تحقیق،تنقید،لغت،تدوین،اور ترجمہ نگاری میں طبع آزمائی کی اور ہر شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ان کا شمار اردو ادب کی ایسی مایہ ناز ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی بدولت علم و ادب کی آبرو قائم ہے۔زبان و تحقیق اور تراجم کی دنیا میں جو کارہائے نمایاں ان کے قلم نے انجام دیےوہ اپنی مثال آپ ہیں۔انہوں نے ستر (۷۰) سال ادب کے حوالے سے کام کیا۔ڈاکٹر صاحب کی تصانیف (”قومی انگریزی اردو لغت،تاریخِ ادب اردو،تنقید وتجزیہ،نئی تنقید،ادب کلچر اور مسائل،محمد تقی میر،معاصر ادب،قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل،مثنوی کدم راؤپدم راؤ،میراجی ۔ایک مطالعہ،ن م راشد۔ایک مطالعہ،خیرت ناک کہانیاں “)وغیرہ چند اہم علمی کاوشوں میں شمار ہوتی ہیں۔
جمیل جالبی کی ترجمہ نگاری اس لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ انہوں نے مغربی تنقیدی کتابوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ناول بھی اردومیں ترجمہ کیا۔ پہلی ترجمہ کردہ یہ کتاب ”جانورستان“تھی جو۱۹۵۸ء میں منظرِ عام پر آئی ۔یہ جارج “The Animal Farm” آرول کے ناول کا ترجمہ ہے۔ترجمے کا کام یقیناً مشکل ہے اور اپنی تکمیل کے لیے محنت کا متقاضی ہے۔ترجمہ نگاری کا ایک اصول ہے کہ مترجم ترجمہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کرتا ہے وہ وہی بات قارئین تک بہم پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جو اصل متن میں درج ہولیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی فنی قابلیت سے اس متن اور اس کے معنی کو نئی تخلیقی صورت بھی عطا کرتا ہے یہی اس کی مہارت ہے۔اس ضمن میں اگر جمیل جالبی کے تراجم پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایسے ہی ترجمہ نگار ہیں جن کے ترجمے تخلیقِ نو کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔وہ اصل تخلیق کو ایسی خوبصورتی اور دلکشی عطا کرتے ہیں کہ عبارت کا اصل آہنگ اور تاثر بھی متاثر نہیں ہوتا اور ترجمے میں تخلیق کی سی خوبی بھر جاتی ہے۔
ان کی کتاب ”ایلیٹ کے مضامین“میں ایلیٹ کے چودہ مضامین کا ترجمہ کیا گیا ہے جو زیادہ تر تنقید سے متعلق ہیں۔پہلی دفعہ یہ کتاب ۱۹۵۹ء میں اردو اکیڈمی سندھ سے شائع ہوئی ۔جب کہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن جو ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا اس میں نظر ثانی کے بعد پانچ نئے مضامین بھی شامل کئے گئے۔اس کے ساتھ ساتھ نئے ایڈیشن میں ایلیٹ کے ادبی مقام سے متعلق کئی مضامین بھی اضافہ ہوئے۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے کتاب کے پیش لفظ میں ترجمہ نگاری کےضمن میں اپنے نقطۂ نظر کی تفصیلاًوضاحت کی ہے۔ان کے مطابق اچھا ترجمہ محض رواں اور سلیس نہیں ہوتا کیوں کہ بعض اوقات زبان کے پیچیدہ اور مشکل الفاظ وجملوں کو بھی ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔مترجم کے فرائض کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ:۔مترجم کا فرض ہے کہ وہ مصنف کے لہجے اور طرزِ ادا کا خیال رکھے۔لفظوں کاترجمہ قریب المعنی الفاظ سے کرے اور اگر ضرورت ہو تو نئے مرکب،بندشیں تراشے اور نئے الفاظ وضع کرے۔ایسے تراجم کا کیا فائدہ جو سلاست وروانی تو پیدا کریں لیکن مصنف کی روح،اس کے لہجےاور تیور کو ہم سے دور کردیں اور ساتھ ساتھ زبان کے مزاج کو اسی طرح روایتی روش اور اظہارِبیان پر قائم رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔اس بیان کی روشنی میں اگر جالبی صاحب کی ترجمہ شدہ کتب کو پرکھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نےاپنا فرض پوری دیانت داری سے نبھایا ہے۔
اس کتاب کے متعلق جمیل جالبی لکھتے ہیں:
”ان ترجموں سے میں نے اپنے ذہن کی تعمیر کاکام لیا ہے۔یہ ترجمے دراصل میرے
لیے ریاض کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے ذریعےمیں نے ایلیٹ کی فکر اور اس کے طرزِ
ادا کو اپنے مزاج میں سمونے کی کوشش کی ہے“۔(۳)
کتاب میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے ایلیٹ کے جن مضامین کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے وہ یہ ہیں:(”شاعری کا سماجی منصب،شاعری کی تین آوازیں،شاعری کی موسیقی،شاعری اور ڈرامہ،شاعری اور پروپیگنڈہ،بودلیئر،روایت اور انفرادی صلاحیت،کلاسیک کیا ہے؟،مذہب اور ادب،ادب اور عصرِجدید،صحافت اور ادب،تنقید کا منصب،تجربہ اور تنقید،تنقید کے حدود“)۔
جمیل جالبی کے ترجمے قاری پرپوری معنویت سے کھلتے ہیں ان میں تمام تکنیکی خوبیاں بھی بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہیں جو ان کے وسیع مطالعے،گہری نظر و سوچ کے عکاس ہیں۔ان کے ہاں ایک نیا اسلوب اور روشنی اُبھرتی ہے اور اس سے ایک ایسا زاویۂ نظر پیدا ہوتا ہےجوان کی متوازن بصیرت کا غماز ہے۔اس کتاب سے متعلق احمد ندیم قاسمی نے لکھا کہ:
”ان مضامین میں سے بعض کے تراجم اس سے پہلے بھی اردو میں ہوچکے ہیں،
مگر جمیل جالبی کا ترجمہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ معلوم ہوتا ہے،مغرب کے
ان اکابر نے اپنے یہ مضامین لکھے ہی اردو میں ہیں۔“(۴)
جمیل جالبی اپنے ترجمے میں جملے کی ایک ایسی ساخت وضع کرنے میں کامیاب رہے جو انگریزی کے لسانی مزاج کو اپنی زبان میں سمونے کی اہلیت رکھتی ہے۔وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور لہجے کی تمام تر رعنائیوں کو جملے میں اس طرح منعکس کرتے ہیں کہ انگریزی جملوں کے تمام معنی اور ان کے رنگ اپنی تہ داری کے ساتھ اردو میں منتقل ہوجاتے ہیں۔اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جمیل جالبی نے اس کتاب میں اٹھارہ مختلف ناقدین کے مضامین کا ترجمہ کیا لیکن یہ تنوع موصوف کے لیے مشکل نہیں بنا بلکہ انہوں نے تمام ناقدین کے نظریات اور اسلوب کو انصاف برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ کیا۔ڈاکٹر محمد احسن فاروقی جمیل جالبی کی اس کاوش پر رقم طراز ہیں:
”۔۔۔ان کا ترجمہ اتنا قدرتی ،رواں اور انفرادی ہے کہ اسے ‘اصل’تصنیف
کہنا چاہیے۔پڑھنے والوں کو جدید ترین تنقید کی سطح پر لانے میں پوری مدد کرتا
ہے۔۔۔اس کتاب کو پڑھ کر ہر ادبی اور تنقیدی مسلئے پر نہ صرف ضروری معلو
مات سامنے آتی ہیں بلکہ ان پر ایک زاویۂ نظر بھی ملتا ہے جو پڑھنے والے کی نظر
کو متاثر کرتا ہے۔اس طرح تنقیدی شعور بہم پہنچانے میں یہ تصنیف ایک خاص
درس بہم پہنچاتی ہے۔“(۵)
”ارسطو سے ایلیٹ تک“جمیل جالبی کی فن ِترجمہ نگاری میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پہلی بار یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن کراچی سے ۱۹۷۵ءمیں شائع ہوئی ۔یہ کتاب بھی ان کی مغربی تنقید و نقادوں سے دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے اور فلسفےکے طلبا ء کے لیے انتہائی مفید بھی ۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کتنی عرق ریزی سے یہ کام کیا۔ کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔یہ ایک ایسا کام ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ جمیل جالبی نے اس میں ارسطو کے فلسفے سے لے کر ٹی ۔ایس ایلیٹ کی تخلیقی تنقید اور باکمال شاعری کو ترجمے کے ذریعے اپنے منفرد اسلوب میں بیان کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔انہوں نے قاری کو وہ علم دیا جس کا وہ ہمیشہ متلاشی تھا۔اس کاوش کے حوالے سے پروفیسر نظیر صدیقی رقم طراز ہیں:
”ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب، ‘ارسطو سے ایلیٹ تک’اپنے تراجم اورمغر
بی نقادوں کےتنقیدی تعارف کی بنا پر اردو کی تنقیدی کوششوں میں قدرِ
اوّل کی چیز ہے۔تنقید کا طالبِ علم جتنا کچھ اس کتاب سے سیکھ سکتاہے
اتنا کسی اور کتاب سے نہیں سیکھ سکتا۔۔۔“(۶)
ڈاکٹرجمیل جالبی نے جن فن پاروں کو ترجمے کے لیے منتخب کیا وہ بھی ان کی فنی مہارت اور حسن ِخیاِل کا ترجمان ہے۔اس سے ان کی ذہنی بالیدگی اور نظر کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے اس لیے پروفیسر نظیر صدیقی کہتے ہیں کہ:۔ترجمے کےمعاملے میں ڈاکٹر جمیل جالبی سب سے پہلے موضوعات کے انتخاب کےلیے تعریف کے مستحق ہیں۔اگر بیسویں صدی کے کسی ایک مغربی نقاد کی تحریروں کو ترجمے کےلیے منتخب کرنے کا فیصلہ کیا جائے،تو مجھے یقین ہے کہ وہ فیصلہ اگر سو فیصد نہیں تو بھاری اکثریت کے ساتھ ٹی۔ایس ایلیٹ ہی کے حق میں ہوگا۔یہ اردو ادب کی خوش نصیبی ہے کہ بیسویں صدی کے مغربی نقادوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی دلچسپی کا مرکز ٹی ۔ایس ایلیٹ بنا جو اپنی شاعری اور تنقید دونوں کے اعتبار سے عہد حاضر میں سب سے بڑے عالمی اثر کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب میں جمیل جالبی نے جن ناقدین کی تنقیدی تحریروں کاترجمہ پیش کیا۔ان میں (ارسطو،ہوریسس ،لونجائنس ،دانتے،سرفلپ سڈنی ،بولو،لیسنگ ،گوئٹے،کولرج ،سانت بیو،میتھیو آرنلڈ،لیوٹالسٹائی ،ہنری جیمس،کروچے،آئی ،اے رچرڈس ،کرسٹوفر کارڈویل،ایزراپاؤنڈاور ٹی۔ایس ایلیٹ )شامل ہیں۔ انہوں نے ان ناقدین کے اہم مضامین کا ترجمہ تخلیقی آہنگ سے کیا ہے۔اور ترجمے میں فکری رویوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے جس سے نہ صرف تخلیقی جمالیات ان کے ترجمے میں آشکار ہوتی ہے بلکہ ان کا اپنا اسلوب و آہنگ بھی ترجمے کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔جمیل جالبی نے اس کتاب میں نہ صرف مغربی نقادوں کے مضامین کاترجمہ کیا ہے بلکہ ہر نقاد کا جامع تعارف بھی مہیا کیا۔ اس ترجمہ کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نےنا صرف ان تمام ناقدین کے طرزِ ادا کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمےکا عمل مکمل کیا ہے بلکہ ان کے تنقیدی تصورات کو بھی درست انداز میں قارئین تک پہنچایا ہے۔ کتاب کی نوعیت اگرچہ تدوینی ہے لیکن زیادہ اہمیت ترجمہ کے حوالے سے ہے۔اردو ادب سے وابستہ قارئین جو انگریزی تنقید و ادب سے آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے اس کتاب کی اہمیت وقتاً فوقتاً مزید بڑھتی جارہی ہے۔اس کتاب کے متعلق احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
”بظاہر مغربی تنقید کے منتخب مضامین کے تراجم ہیں مگر دراصل آئینے
ہیں جن میں جب ہم اپنے تنقیدی معیاروں کو دیکھتے ہیں تو ہم پر انکشاف
ہوتا ہے کہ ابھی تو ہم ارسطو کی”بوطیقا“ہی سے انصاف نہیں کرسکے۔
۔۔چناچہ ہمارے اہلِ ادب کا فرض ہے کہ وہ’ارسطو سے ایلیٹ تک’
کے مطالعہ سے خیرگی کی بجائے روشنی حاصل کریں اور ادب پاروں
کی تحسین اور پرکھ کے نتھرے ستھرے معیار قائم کرنے میں لگ
جائیں۔“(۷)
اس کتاب میں ترجمہ شدہ مضامین کے ماخذات کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے آخر میں اشاریہ بھی شامل ہے جس میں موضوعات کے ساتھ ساتھ کتاب میں موجود ضروری شخصیات،مقامات اور اداروں کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے درج کئے گئےہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی کی ان دونوں کتابوں میں ترجمہ نگاری کے حوالے سے جامعیت،ابلاغ،سلاست،روانی،برجستگی اور قابل فہم الفاظ واصطلاحات کے استعمال کی خوبیوں کو دیکھا جاسکتا۔اردو اور انگریزی زبان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے انہوں نے ایک ایسے اسلوب کی بنیاد ڈالی جو علمی و تحقیقی مضامین کے ترجموں کے لیے نہایت موزوں اور کارآمد ہے۔
”برصغیر میں اسلامی جدیدیت“تراجم کے حوالے سے جمیل جالبی کی ایک اہم کاوش ہے۔ڈاکٹر عزیز احمد کی کتاب
“Islamic Modernism in India and Pakistan”کا ترجمہ ہے۔عزیز احمد نے یہ کتاب نوآبادیاتی ہندوستان میں اسلامی جدید یت کے تناظر میں لکھی ہے۔ڈاکٹر عزیز احمد ،جمیل جالبی کے روبرو کتاب کےترجمے کی خواہش کا اظہار کرچکے تھے۔لیکن یہ کام پروفیسر عزیز کی وفات کے بعد ہی پا یۂ تکمیل کو پہنچا۔ترجمہ کردہ کتاب سولہ ابواب پر منقسم ہے۔اس ترجمہ کے متعلق اظہارِخیال کرتے ہوئے جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ ہمیں ذہنی و فکری سطح پر اپنے زندہ مسائل کے حوالے سے ایسی کتابوں اور ایسے ہی مطالعوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم زندگی اور معاشرے کو آگے بڑھانے والی سوچ کی طرف راغب ہوسکیں۔اس کتاب سےکوئی فرد اختلاف کرےیا اتفاق مگر یہ سوچنےاور اپنی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کی طرف مائل ضرور کرتی ہے۔
عزیز احمد نے اس کتاب میں جدیدیت پسندی اور راسخ الاعتقادی کے مابین طویل کشمکش کو اس اندازمیں پیش کیا ہے کہ دونوں مکتبۂ فکر کے نظریات اور باہمی کشمکش کا ارتقائی سفر قارئین کے سامنے مربوط انداز میں سامنے آئے۔ کتاب کے موضوع اور فکر کا محاکمہ کرتے ہو ئے پروفیسر عقیل کا کہنا ہے:
”عزیز احمد نے اس تصنیف میں ۱۸۵۷ءکے بعد تمام اہم مسلمان مفکرین
کے مذہبی اور سیاسی افکار کا نچوڑ پیش کردیا ہےاور اس موضوع سے دلچسپی
لینے والوں کےلئے اس عہد کے برعظیم کی اسلامی فکر کا تجزیہ اہمیت کا حامل
ہے۔۔۔“(۸)
مذکورہ کتاب میں مصنف نے برصغیر میں انگریزوں اور مسلمانوں کے روابط،نظریات،تہذیب وتمدن ،اس میں تبدیلی،اس دور کے لکھنے والوں کی فکرکا تجزیہ کیا ہے،اسلامی نظریات کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں،اور قیامِ پاکستان کے بعد اور اس دوران مختلف تحریکیوں کا احوال،اس کے ساتھ ساتھ اسلام کے حوالے سےمفکرین کے نظریات کا بیان بھی تفصیلاً درج اور ان تمام مباحث سے نتیجہ بھی اخذ کیا ہے۔یہ ایک علمی وتحقیقی کتاب ہے۔مختلف ماہرین ،اسکالرز،مؤرخین،دانشوروں اور محققین کی آراء بھی موجود ہیں۔
اس نوعیت کی کتاب کا ترجمہ کرنا یقیناً مشکل امرتھا یعنی ایک طرف عزیز احمد کے خیالات و اسلوب تک پہنچنا اور دوسری طرف درجنوں مفکرین،ناقدین،دانشوروں،مؤرخین کے اسلوب سے ہم آہنگی رکھتے ہوئے ترجمہ کرنا انتہائی محنت کا کام تھا۔اس میں تخلیقی شان کا ہونا بھی لازمی امر تھا۔جمیل جالبی اس کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئےاپنی تمام تر محققانہ،مؤرخانہ،اور دانشورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں۔ عزیزاحمد کے مدلل اور تہہ دار اسلوب کا ترجمہ کرکے انہوں نے اپنی علمی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔علمی ترجمے کے حوالے سے یہ کتاب جمیل جالبی کو امتیازی مقام دلاتی ہےتو دوسری طرف اردو ترجمہ نویسی کی روایت میں ایک اہم کڑی بھی ہےاور پروفیسر عزیز احمد کے تصورات کو اردوداں طبقے تک پہنچانے کے لیے یہ کتاب نہایت اہم درجہ رکھتی ہے۔
”برصغیر میں اسلامی کلچر“جمیل جالبی کی ترجمہ کردہ ایک اور اہم کتاب ہے۔یہ بھی عزیز احمد کی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے جس کا نام “Studies in Islamic Culture in the Indian Environment”ہے۔ یہ ترجمہ شدہ کتاب ۱۹۹۰ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور سے شائع ہوئی۔بنیادی طور پر کتاب اسلامی تہذیب کے مطالعہ پر مشتمل ہے۔مذکورہ بالا کتاب کی طرح یہ بھی ایک علمی وتحقیقی کاوش ہے۔اس کتاب میں ۷۱۰ء سے ۱۹۴۷ء تک ہندوستان میں جاری وساری ثقافتی تنوع،سیاسی وسماجی اور مذہبی نظر یا ت ،ادبی افکار اور باہمی (ہندومسلم)مباحث کو نہایت عمدگی سے تحقیقی وتجزیاتی انداز میں پیش کیا ہے۔ عزیز احمد نے اس میں بھی کئی محققین ، مؤ ر خین،دانشوروں اور ناقدین کی آراء درج کی ہیں۔اسی لئے پہلی کتاب کی ماننداس کو بھی ترجمہ کرنا انتہائی مشکل و محنت طلب کام تھا جسے ڈاکٹر صاحب نے انجام دیا۔ بہحیثیت مترجم انہوں نے نہایت عرق ریزی سے کام کیا اور کتاب کے علمی،تحقیقی اور فنی معیار کو کہیں بھی گرنے نہیں دیا۔اردو سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب ہندوستانی ثقافت کی تفہیم کے لیے نہایت اہم درجہ رکھتی ہے۔جس کی تمام تر ستائش کے مستحق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں۔انہوں نے اس کتاب کو بھی نہایت روانی،سلاست اور تخلیقی انداز میں پیش کرکے ترجمے کو طبع زاد بنا دیا ہے۔
ان کے اسلوب کے لئے مثال ملاحظہ ہو ترجمہ:
”اسلامی اجتماعیت کے تصور کو ایک معاشرتی وحدت کے طور پر جدید مغربی،
تصورِقوم سے مقابلہ کرنے کا خیال اقبال نے ارنسٹ رینان سے لیا ہے“۔(۹)
ڈاکٹر جمیل جالبی کے ترجمے میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ عبارت کو بالکل نیا تخلیقی رنگ عطا کرتے ہیں اور ترجمہ کرنے کے دوران اصل مصنف کے پیچیدہ،مشکل اور ثقیل الفاظ کو بھی نہایت خوبصورتی سے اپنی زبان میں ڈھالتے ہیں کہ ترجمے کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور نہ ہی معنی میں کوئی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ایک اور خوبی جو کہ اختصار اور جامعیت ہے ان کے تراجم میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ بات یا جملے کو الجھانے کی بجائے آسان اور کم لفظوں میں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ قاری پر اس کی تفہیم آسان ہو۔لیکن جہاں وضاحت درکار ہو تو فراہم بھی کرتے ہیں ۔جملے کی ساخت،تراکیب وغیرہ کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔وہ اپنی بات کو منطق اور دلیل سے پیش کرتے ہیں ۔ڈاکٹر جمیل جالبی مغربی تہذیب و زبان کے بھی مزاج شناس ہیں اور مشرقی تہذیب اور اردو زبان کے نبض شناس بھی۔انہوں نے مشرقی و مغربی کتابوں کا ترجمہ کرتے ہوئے انہیں اردو زبان ہی کی جمالیات کا جزو بنا دیا ہے۔جمیل جالبی کے تراجم کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اپنے تا ثر ا ت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر جمیل جالبی کے ترجمے تخلیقِ نو کے رنگ اور آہنگ سے عبارت ہیں
انہوں نے متن میں موجودتخلیقی اور جمالیاتی رنگ رس کو اپنی زبان کے لسانی
مزاج سے ہم آہنگ کرنے کا جتن کیا،تو تخلیق ترجمے کے لباس میں اپنی تمام
تر رعنائیوں کے ساتھ متشکل ہوئی اور اس طرح ترجمہ تکنیکی اور میکانکی عمل
کی رنگ آمیزی سے محفوظ رہا۔تخلیقی صداقتِ احساس ترجمے میں ڈھل کر
اپنے کلچر کی رنگارنگی کی ترجمان بن گئی اور اس میں ایک ایسا شعور بیدار ہوا
جو اس کے رنگ وآہنگ کی کوملتا سے رچا ہوا ہے“۔(۱۰)
جمیل جالبی کے ہاں ترجمہ نگاری کے فن میں بھی انفرادیت اور نیا پن ملتا ہے۔وہ جس انداز سےمصنف کے لہجے کی کھنک کو جملےمیں منعکس کرتے ہیں اس سے جملے کی شان بڑھ جاتی ہے۔انہوں نے مختلف اور متنوع موضوعات پر تراجم کا کام کیا جس سے ان کی سوچ اور فکر قاری پر آشکار ہوتی ہےاور ساتھ ہی ساتھ لسانی مہارت کی دھاک بھی بیٹھ جاتی ہے۔علاوہ ازیں زبان وبیان میں گہرائی وحسن ان کے تراجم کو چارچاند لگا دیتے ہیں۔وہ ترجمے میں اصل تخلیق کے اسلوب میں موجود خیالات کی گہرائی کا پتا لگاتے ہیں تو مصنف کا لہجہ وجمالیات بھی ترجمے میں اُتر آتے ہیں۔انہوں نے انگریزی زبان کے اسلوب میں اپنی زبان کے اظہار کا بالکل نیا طریقہ اور تازہ اسلوب دریافت کیا۔جس میں فنی وفکری لحاظ سے وسعت و گیرائی نمایاں ہے۔ڈاکٹر صاحب کارنامۂ خاص یہ ہے کہ انہوں نے تراجم میں مصنف کی روح کو برقراررکھتے ہوئے اپنا اسلوب نگارش بھی نمایاں کیا جس سے زبان کا لسانی دامن بھی وسعت پذیر ہوا اور لفظ کی نئی نئی صورتیں بھی معنویت سے مملو ہوئیں۔
بحیثیت مجموعی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمیل جالبی نقاد،مدوّن،محقق،ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب مترجم بھی ہیں ۔ان کے پیش کردہ تراجم اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اہم کاوش ہیں۔جمیل جالبی کے تراجم ان کے وسیع مطالعے،گہری نگاہ اورانتھک محنت کے عکاس ہیں جو رواداری میں نہیں کیے گئے بلکہ ان میں ایک ایسے نقطۂ اتصال کی تخلیق کی گئی کہ جہاں دومختلف تہذبیں باہم ملتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ان کی تحریروں میں گہرائی ،تجسس ،خیال آفرینی،خوش بیانی،فہم وادراک کی فراوانی ،تازگی،نیاپن اور وقار ملتا ہے۔ان ہی ا و صا ف کی بنا پر اہلِ علم و فن ان کی نگارشات کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔وہ ادب کو زندگی کی سب سے بامعنی سرگرمی سمجھتے تھے اور ساری عمر اس کے ساتھ شاملِ سفر رہے۔ ان کی ترجمہ شدہ تنقیدی کتابوں کی اہمیت مسلّم ہے۔اردو تنقید کے باب میں یہ کتابیں مغربی ناقدین کو متعارف کرانے کے ضمن میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کی حامل رہیں گی۔
٭٭٭٭٭٭
حوالہ جات:
۱۔حامد بیگ،مرزا،ڈاکٹر،ترجمے کا فن،مقتدرہ قومی زبان:اسلام آباد،سن اشاعت مئی ۱۹۸۰ء،ص۵۔
۲۔احمد فخری حاجی،’دورِتراجم’مشمولہ،ترجمے کا فن اور روایت،نثار احمد قریشی(مرتبہ)،مقتدرہ قومی زبان:اسلام آباد،سن اشاعت ستمبر۱۹۸۵ء،ص۴۰تا۴۱۔
۳۔جمیل جالبی،ڈاکٹر،ایلیٹ کے مضامین،سنگِ میل پبلی کیشنز:لاہور،سن اشاعت۲۰۰۴ء،ص۸۔
۴۔’ارسطو سے ایلیٹ تک’مشمولہ،ڈاکٹر جمیل جالبی۔۔ایک مطالعہ،گوہر نوشاہی،ڈاکٹر(مرتبہ)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس:دہلی،بار اوّل ۱۹۹۳ء،ص۴۱۸۔
۵۔محمد احسن فاروقی،ڈاکٹر،’ارسطوسے ایلیٹ تک’،مشمولہ ڈاکٹر جمیل جالبی۔۔ایک مطالعہ،گوہر نوشاہی،ڈاکٹر(مرتبہ)،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس:دہلی،سن اشاعت بار اوّل۱۹۹۳ء،ص۴۲۰۔
۶۔نظیرصدیقی،پروفیسر،’ڈاکٹرجمیل جالبی۔۔ایک ممتاز مترجم’،مشمولہ،گوہرنوشاہی،ڈاکٹر(مرتبہ)،ڈاکٹرجمیل جالبی۔۔ایک مطالعہ،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس:دہلی،سن اشاعت بار اوّل۱۹۹۳ء،ص۴۰۳۔
۷۔احمد ندیم قاسمی’ارسطو سے ایلیٹ تک’،مشمولہ؛گوہر نوشاہی،ڈاکٹر(مرتبہ)،ایضاً،ص۲۱۹۔
۸۔معین الدین عقیل،ڈاکٹر،’عزیزاحمد-پاکستان میں تاریخ نویسی کی منفرد مثال’،مشمولہ؛جنرل آف دی ریسرچ سوسائٹی آف :پاکستان جلد ۱۹،سن اشاعت۱۹۸۶ء،ص۱۰۴۔
۹۔جمیل جالبی،ڈاکٹر(مترجم)،برصغیر میں اسلامی کلچر،ادارہ ثقافت اسلامیہ:لاہور،سن اشاعت۱۹۹۹ء،ص۲۱۵۔
۱۰۔عبدالعزیزساحر،ڈاکٹر،”جمیل جالبی شخصیت اور فن؛پاکستانی ادب کے معمار”،اکادمی ادبیاتِ پاکستان:اسلام آباد،سن اشاعت۲۰۰۷ء،ص۱۰۴۔
***