You are currently viewing ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ:ایک فراموش کردار

ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ:ایک فراموش کردار

حکیم فخرعالم

ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن،علی گڑھ

ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ:ایک فراموش کردار

         تاریخ نویسی میں بد دیانتی صرف یہ نہیں ہے کہ غلط اور خلافِ واقعہ باتیں لکھی جائیںیاکسی بات کی بے جاتعبیر کی جائے، حقیقت کا کتمان اور بالقصدکسی چیز کو تاریخ سے نکالنے کی کوشش بھی اسی زمرہ میںآتی ہے ۔تاریخ نویسی میںکوئی جانب داری نہیں ہونی چاہیے ،بلکہ واقعہ اور کردار کو اس کی اصل صورت میںپیش کرنا ہی دیانت داری کا تقاضا ہے،مگر یہ قبح بہت عام ہے کہ اپنے پسند کے شخص کواہم کردار بنادیاجاتاہے،اسی طرح کسی معاملہ یاواقعہ کو صرف اس لیے چھپادیاجاتا ہے کہ وہ ناپسندیدہ ہوتا ہے،ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ کاایسا ہی ایک ستم رسیدہ نام ہے جو عصبیت کا شکاررہاہے۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ اپنی خدمات اور کارناموں کے لحاظ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ ساز شخصیتوں میںتھے مگر المیہ ہے کہ نہ کہیں ذکر ہوتا ہے، نہ کوئی ان کا نام لیواہے۔

         ہندوستان کی دوسری جامعات کے مقابلہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی ہے کہ تاریخ کو سجونے اور منضبط کرنے کا جیساکام یہاںہوا ہے ایسا اہتمام اور کہیں نہیں ملتا ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاہرچھوٹابڑا کردار کسی نہ کسی حیثیت سے تاریخ میں رقم ہے،ایسی جگہ پر اگر کوئی بہت بڑااور اہم کردار تاریخ کے صفحات سے غائب ہو تو ضرور معلوم کرناچاہیے کہ اس کے ساتھ یہ زیادتی کیوں اور کیسے ہوئی!

         علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مذہبی اور مسلکی گروہ بندی اور جماعتی و نظریاتی تنظیموں کی سرگرمی ہمیشہ دیکھی گئی ہے،یہ عطاء اللہ بٹ کے زمانہ میں بھی تھی اور آج بھی موجود ہے۔۱۹۲۷ء میںطبیہ کالج علی گڑھ کا اجراء عمل میںآیا توڈاکٹر عطاء اللہ بٹ جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میڈیکل آفیسرتھے انہیں اس کی پرنسپلی تفویض ہوئی ،ایک یونانی درس گاہ کی سربراہی کسی طبیب کے بجائے ماڈرن میڈیسن کے ڈاکٹر کو دیے جانے پرحکماء کے ایک طبقہ میں بے چینی تھی،اس کے اظہار کے اور بھی مناسب طریقے ہوسکتے تھے، لیکن ان طریقوں سے شاید انہیں زیر نہیں کیا جاسکتا تھااس لیے کہ وہ بڑی دم دار اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے، لہٰذا ان کے عقیدے کوہدف بناکرمحاذآرائی کی گئی۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ عقیدتاً قادیانی تھے اور بڑے راسخ العقیدہ تھے،اس زمانے میں قادیانیت کے خلاف بڑے معرکے رہے ہیں،مخالفین نے عطاء اللہ بٹ کے خلاف جس حربہ کا استعمال کیاتھا وہ علی گڑھ میں ہمیشہ کارگر رہاہے،اس کا نتیجہ ہوا کہ عطاء اللہ بٹ کو سماجی طور پر حاشیہ پر ڈال دیا گیا اور اسی بنیاد پریہاں کی تاریخ سے بھی وہ نظر انداز رہے ہیں۔تعلیمی اداروں میںایسی عصبیتوں سے اجتناب ضروری ہے ،اس سے اداروں کا بڑا نقصان ہوتاہے،جامعات تعلیم کے لیے ہوتی ہیں،ان کے کسی کردار کا جائزہ تعلیم کے حوالہ سے ہی ہونا چاہیے۔

         علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اجمل خاں طبیہ کالج کے بارے میں لکھنے والوں نے عطاء اللہ بٹ کے ذکر سے ہمیشہ پہلو تہی کی ہے جوحقیقت کا کتمان ہے،یہ تاریخ نویسی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

          ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے ساتھ ایک زیادتی یہ بھی ہوئی کہ بہت سے کام جوڈاکٹر بٹ نے بلاشرکتِ غیر بحیثیت پرنسپل انجام دیے ہیںان کاسہرا دوسروں کے سر منڈھنے کی کوشش کی گئی ہے،یہ صریح علمی بددیانتی ہے،چونکہ ڈاکٹر بٹ کے بارے میں لکھنے سے احتراز کیا گیا ہے اس لیے ان کے سوانحی حالات کم ملتے ہیں۔عطاء اللہ بٹ کا جو ذکر ہوتا بھی ہے تو طبیہ کالج کے اولین پرنسپل کے طور پر،لیکن اس سے پہلے وہ یونیورسٹی میں میڈیکل آفیسر تھے۔

         اخبار دبدۂ سکندری میں ’’مسلم یونیورسٹی میںطبیہ کالج کا اجراء ‘‘کے عنوان سے ایک خبر شائع ہوئی ہے،اس میں لکھا ہے کہ :

’’مہینوں کے سخت انتظار کے بعد علی گڑھ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ مسلم یونیورسٹی میںطبی کالج قیام کے انتظامات مکمل ہوگیے ہیںاور آئندہ یکم اکتوبر سے طلبہ کا داخلہ اس میں شروع ہوجائے گا۔اسٹاف کے لیے قابل اشخاص کو منتخب کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وائس چانسلر،پرووائس چانسلراور میڈیکل آفیسر مسلم یونیورسٹی کے علاوہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں صاحب،شفاء الملک حکیم عبد الحمید صاحب سکریٹری تکمیل الطب کالج لکھنؤ،حکیم عبد الحسیب صاحب دریابادی اور حکیم غلام کبریاصاحب دہلوی شامل ہوں گے،یہ کمیٹی ۱۵ /ستمبرتک ارکانِ اسٹاف کو منتخب کر لے گی اور اس کے بعد مسلم یونیورسٹی کی طرف سے ان کا تقرر حسبِ قاعدہ عمل میں آئے گا۔پہلے سال ۲۵ طلبہ ابتدائی جماعت میں لیے جائیں گے،جن کے تعلیمی اوصاف یہ قرار پائے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کی مولوی،عالم یا کسی معتبر درس گاہ کی اس کے مساوی سند رکھتا ہواور انگریزی زبان میں کافی دستگاہ ہویالکھنؤ یونیورسٹی کی دبیرکامل کی سنداور انگریزی و عربی کاعلم بقدر ضرورت رکھتا ہو،کسی یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کا سند یافتہ یا کسی معتبر کالج میں اس درجہ تک تعلیم یافتہ ہواور عربی بطور زبانِ ثانوی اس نے لی ہو،عربی یا انگریزی کی کوئی معتبر سند نہ ہونے کی صورت میںان دونوں زبانوں میں امتحانِ داخلہ لیاجائے گا،مدتِ تعلیم پانچ سال ہوگی‘‘۔(۱)

          اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کا باضابطہ پرنسپل کے طور پر انتخاب نہیں ہوا تھابلکہ وہ یونیورسٹی میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمت انجام دے رہے تھے،تبھی یونیورسٹی نے انہیں کالج کے خدو کھال وضع کرنے کی ذمہ داری دے رکھی تھی،ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ نے داخلہ کی اہلیت اور مدتِ تعلیم وغیرہ کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے وہ اپنے زمانہ کے طبی کالجوں سے ہٹ کر کچھ نئے انداز میں یہاں تعلیم کا ارادہ رکھتے تھے،اس وقت ملک میں جتنے طبی کالجز تھے ان میں ڈپلومہ سطح کی تعلیم ہوتی تھی اور مدتِ تعلیم تین یا چار سال ہوتی تھی،ان میںکئی جگہوں پر میٹرک پاس طلبہ بھی داخلہ پالیتے تھے۔یہ بات وضاحت طلب ہے کہ درج بالا اعلان میں یکم اکتوبر سے داخلہ شروع کرنے کی خبر ہے جب کہ کالج کے قیام کے سلسلے میں۲۲جون۱۹۲۷ء کو منعقداگزیکیٹیو کونسل کی میٹنگ میںایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی،اس میں وائس چانسلر،پرووائس چانسلر،ٹریژرراور یونیورسٹی میڈیکل آفیسر کے علاوہ پندرہ حکماء بھی شامل تھے،کمیٹی نے یہ تجویز پاس کی تھی کہ۱۵/اکتوبر۱۹۲۷ء کو طبیہ کالج کے افتتاح کی رسم ہوگی اور ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کالج کے پرنسپل ہوں گے۔(۲)

         عطاء اللہ بٹ کو تاریخ کے صفحات سے دور رکھنے کی بھلے سازش کی گئی ہو مگر کام بولتے ہیں،عطاء اللہ بٹ نے جو کام کیے ہیںوہ مرئی صورت میں آج بھی موجود ہیں،انہیں دیکھ کر ان کی خدمات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے جن شعبوں کے لیے ملکی سطح پر جانی جاتی ہے ان میں اجمل خاں طبیہ کالج بھی ہے ،اس کالج کی تعمیر و ترقی میں جو لوگ شامل رہے ہیں ان میں پہلانام ڈاکٹرعطاء اللہ بٹ کا ہے، ان کا نام صرف اولیت کے لحاظ سے اہم نہیں ہے بلکہ اس پہلو سے بھی قابل ذکر ہے کہ ادارہ کے سربراہ کے طور پران کی خدمات کا دورانیہ سب سے طویل رہاہے،وہ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۴۹ء تک طبیہ کالج کے پرنسپل رہے،جو ۲۲ برس کا زمانہ بنتا ہے،اتنے لمبے عرصہ تک اب تک کوئی اس کالج میں پرنسپل نہیں رہا ہے۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کو جہاں اس کالج میں سب سے زیادہ کردار ادا کرنے کا موقع ملا وہیں بحیثیت پرنسپل ان کا دور صدارت دوسروں سے اس لیے اہم ہے کہ انہیں صرف منزل کی طرف گامزن نہیں رہنا تھابلکہ نشان راہ بھی متعین کرنا تھا،جو مشکل بھرا کام تھا،عطاء اللہ بٹ نے اس مرحلے کو بڑی خوش اسلوبی سے سر کیا ہے۔عطاء اللہ بٹ کے سوانحی حالات بھلے کم ملتے ہوں لیکن مختلف شکلوں میں ان کے کاموں کے جو آثار موجودہیںوہ ان کی شخصیت اور کارناموں کو  بہت حد تک اُجاگر کرنے میں مددگار ہیں،یہ درج ذیل قسم کے ہیں:

         تعمیراتی آثار

         تعلیمی و تربیتی آثار

         تصنیفی آثار

تعمیراتی آثار:

         تعلیمی اداروں کے لیے تعمیرات کی بڑی اہمیت ہے اور یہ بیسک انفرااسٹرکچر کا درجہ رکھتے ہیں،ان کے بغیر تعلیم وتحقیق کے کام صحیح طور پر انجام نہیں پاسکتے ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جب طبیہ کالج قائم ہوا تو ذاتی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی دنوں میں یہ خانہ بدوشی کی حالت میں رہا،کبھی اولڈ بوائزلاج میں،کبھی کانفرنس ہائوس تو کبھی صاحب باغ میں،تعلیم کہیں ہورہی تھی،عملی اور تجربی مشق کے انتظامات کہیں اور تھے،اس صورت میں ضروری تھاکہ نجی عمارت کا نظم ہوتاکہ درس و تدریس کے کام سکون سے انجام پاسکیں،ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کی کوشش سے تصویر محل کے سامنے طبیہ کالج کی بلڈنگ کی تعمیر ہوئی،۲۲/مارچ۱۹۳۶ء کواس کا سنگ بنیاد حیدرآباد دکن کے پرنس نواب میر حمایت علی خاں نے رکھاتھا،رسم تاسیس کے وقت شہزادی در شہوار بھی موجود تھیں،اس موقع پر ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ نے پرنس نواب میر حمایت علی خاں کی خدمت میںجو سپاس نامہ پیش کیا تھا،اس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نقل کیا جائے(۳):

سپاس نامہ

میجر جنرل والا شان پرنس نواب میر حمایت علی خاں

(اعظم جاہ بہادر ولی عہد سلطنت ِآصفیہ و کمانڈر اِن چیف افواج باقاعدہ ،حیدرآباد دکن)

         ’’جنابِ والا!

                  یونانی طب کی یہ خوش بختی ہے کہ اس نازک دورمیں جب کہ اس کے خیمۂ زندگی کی طنابیں شکستہ ہورہی تھیں ،ایک طرف حکومتِ وقت نے اس کی سر پرستی کی،یعنی مختلف مقامات پر طبی درس گاہیں قائم کر کے یونانی طب کی اساس کو مضبوط و مستحکم کیا ،منجملہ ان درس گاہوں کے طبیہ کالج علی گڑھ بھی ہے جو سنہ ۱۹۲۷ء میں معرضِ وجود میں آیااور دوسری طرف علم پرور سلطنتِ آصفیہ نے مثل دیگر علوم و فنون کے یونانی طب کی ترقی کے لیے اعلیٰ معیار پر ایک طبیہ کالج کے قیام کی اسکیم مرتب کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔

         حضور والا!

         طبیہ کالج علی گڑھ نو سال سے قائم ہے اور یونیورسٹی کے زیرِ نگرانی پرورش پا رہا ہے ،اس میں یونانی طب کی مدد کے لیے علومِ ِجدیدہ کے تمام شعبے بر سر کار ہیں ،علاوہ اس کے تحقیقاتِ ادویہ کا ایک شعبہ بھی شامل ہے۔طبیہ کالج کی ذاتی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے جن دقتوں کا سامنا رہتا ہے ان کے دور ہونے کے بعد اس کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔اس میں شک نہیں کہ ریاست حیدرآباد دکن کی عالم پروری اطرافِ ملک کے لیے عام ہے،مگر علی گڑھ کی شہرت و عظمت میں دولتِ آصفیہ کی بے دریغ فیاضی اور دست گیری کو خاص دخل ہے ۔اگر آج تاجِ برطانیہ کا سب سے درخشاں ہیرا ہندوستان ہے تو یہ بھی امر واقعہ ہے کہ تاجِ دکن کا گوہر شاہوار علی گڑھ ہے۔

         حضورِ والا!  علی گڑھ جن پاکیزہ جذبات کا حامل ہے ،ان کی بنا پر میں نہایت ادب و اعتماد کے ساتھ عرض کروں گا کہ طبیہ کالج کا قیام اور اس کا عروج ہماری قومی خدمات کا ایک جزو ہے،جن سے سبکدوشی اتنی مشکل ہے جتنی کہ اہم اور قابلِ توجہ ہے۔خدا کا شکر ہے کہ آج ہماری کوششیں بار آور ہوئیں اور ہمارے جواں سال و جواں بخت شہزادۂ عالی مقام کے مبارک ہاتھوں سے طبیہ کالج کے سنگِ بنیاد رکھنے کا مسعود دن آگیا،جس کی یادخصوصیت کے ساتھ طبیہ کالج کی تاریخ میں ہمیشہ تازہ رہے گی۔ہمارے شہریارِ دکن خلد اللہ ملکہٗ نے ہماری ذہنی و اخلاقی اصلاح کا انتظام فرمایا کہ شہزادۂ دکن ولی عہد بہادر ہماری جسمانی تکالیف کی چارہ سازی کا سنگِ بنیاد نصب فرمانے والے ہیں ۔ہم کو یقین ہے کہ اب ہم اور ہماری قوم اور دیگر ابنائے وطن ہر قسم کی روحانی و جسمانی کلفتوں سے نجات پا جائیں گے اور یونانی طب بہت جلد اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کر لے گی۔درحقیقت یہ سلطنتِ آ صفیہ کے احسانات میں ایک اور عظیم الشان احسان کا اضافہ ہو گا ،جو کہ سرکارِ عالی کی آئندہ نسل کے لیے زندہ یاد گار رہے گا۔میں جنابِ والا کی خدمت میں طبیہ کالج کی عمارت کا سنگِ بنیاد نصب کرنے کی استدعا کرتا ہوں اور یہ میری خوش قسمتی ہے اور مسلم یونیورسٹی کے لیے باعث ِ فخر ہے کہ اعلیٰ حضرت نے حضورِ والا کو ہماری درخواست قبول کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے،لہٰذاامید ہے کہ آپ ہماری درخواست قبول فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائیں گے۔

عطاء اللہ بٹ

 (پرنسپل طبیہ کالج،مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)‘‘

         طبیہ کالج کی یہ عمارت چار سال میں بن کر مکمل ہوئی ،۲۹ نومبر۱۹۴۰ء کو اس کا افتتاح عمل میں آیاتھا،یہ سرشاہ سلیمان کی وائس چانسلر شپ کا زمانہ تھا۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے عہد پرنسپلی میں ہی طبیہ کالج ہاسپیٹل کی بلڈنگ بھی تعمیر ہوئی تھی،ان کے زمانے میں تعمیر پانے والی یہ دونوں عمارتیں نہایت پرشکوہ ہیں،اب تک ان کے معیار کی کوئی دوسری عمارت طبیہ کالج میں نہیں بن سکی ہے(۴)۔ان عمارتوں کو دیکھ کر ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے شاہ جہانی ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔

نیو بلاک کی تعمیر میں عطاء اللہ بٹ کے بیٹے کاتعاون:

         کالج اور ہاسپیٹل کی عمارت کے درمیان واقع ڈاک خانہ سے متصل بلڈنگ نیو بلاک کے نام سے جانی جاتی ہے ،۲۸/ فروری۲۰۱۹ء تک اس میں سی سی آریوایم،نئی دہلی کا علاقائی تحقیقاتی ادارہ تھا،اب یہ بلاک طبیہ کالج کی تحویل میں ہے،اس کی تعمیر ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے صاحبزادہ محمودبٹ کے تعاون سے ہوئی ہے۔دراصل زمین کایہ ٹکڑا متنازعہ تھا،یونیورسٹی کے ساتھ ایک سرکاری ایجنسی کی بھی اس پر دعویداری تھی،پروفیسر حکیم محمد طیب نے ہنگامی طور پر اس پر نیو بلاک کی تعمیر کرکے یونیورسٹی کے قبضہ کی شکل پیدا کی،اس کے لیے انہوں نے طبیہ کالج دواخانہ سے قرض لیا تھا،پھر محمود بٹ کے تعاون سے اترپردیش سرکار سے بلڈنگ کے لیے گرانٹ حاصل کی۔محمود بٹ صوبہ میں چیف انجینئر تھے اور بڑے رسوخ دار تھے،پروفیسر حکیم محمد طیب نے لکھنؤ میں ان سے ملاقات کرکے صورت حال بتائی اور گرانٹ کے حصول کے لیے تعاون کی درخواست کی،ظاہر ہے محمود بٹ نے یہ تعاون صرف اس لیے کیا تھا کہ یہ طبیہ کالج علی گڑھ کا معاملہ ہے،جس کی آبیاری ان کے والدِ مرحوم نے بطور پرنسپل کی ہے۔

تعلیمی و تربیتی آثار:

         ہندوستان کی طبی درس گاہوں میں اجمل خاں طبیہ کالج تعلیم و تربیت کے حوالہ سے زمانۂ قیام سے ہی ایک امتیاز رکھتا ہے،جب طبی کالجوں کے لیے حکومت کی طرف سے نصاب اور تعلیم کا کوئی ضابطہ نہیں تھا اور کالجوں کو اپنا نصاب طے کرنے کی آزادی حاصل تھی،اس وقت ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کی پرنسپلی میں یہاںجو نصاب شروع  ہواوہ اجملی فکر سے مستفاد تھا،اس میں قدیم اور جدیدکے درمیان توازن رکھنے کی خاص کوشش کی گئی تھی،جس میں التزام تھا کہ کلاسیکی طبی ادب کی تفہیم میں معاونت کے لیے بقدر ضرورت ماڈرن میڈیکل سائنسز سے استفادے کی گنجائش ہو۔علی گڑھ کے فارغین میں یہ وصف عام ہے کہ یہاں تعلیم کے دوران طلبہ میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کا مزاج ازخود پیدا ہوجاتا ہے،یہاں تعلیم کے ساتھ تحقیق کا شعبہ اس وقت سے قائم ہے جب یونانی طب میں تحقیق کی باتیں عام نہیں تھیں۔یونانی ادویہ اور جڑی بوٹیوں پر تحقیقات کے لیے کالج میں ریسرچ کا ایک شعبہ قائم کیا تھا ،جس کا ذکر سپاس نامہ میں بھی ہے۔ڈاکٹر بٹ نے طلبہ کی تحریری مشق کے لیے ایک ماہنامہ رسالہ’طبیہ کالج میگزین‘ جاری کیا تھا،طب یونانی کو جدید طب سے ہم آہنگ بنانااور جدید تحقیقات کوطب قدیم میں جذب کرلینااس رسالہ کے اہم مقاصد میں تھا(۵)۔

         ’طبیہ کالج میگزین‘ کا اجرا ء ۱۹۳۲ء میں ہواتھا،ابتدا میں اس کی اشاعت کا دورانیہ سہ ماہی تھا،ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ اس کے نگراں تھے،ادارتی ذمہ داریاں طلبہ کو تفویض تھیں،اپریل ۱۹۳۳ء سے اس کی اشاعت ماہانہ ہونے لگی،۱۹۴۷ء میں طلبہ تنظیم ’طبی سوسائٹی‘ کے قیام کے بعداس کی تمام ذمہ داریاں سوسائٹی کے حوالے کردی گئیں،اس رسالہ نے طلبہ کے تصنیفی ذوق کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے۔

تصنیفی آثار:

         ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ امراض چشم کے ماہر تھے،ophthalmologyمیں انہوں نے’ کتاب العین‘ تالیف کی تھی،کتاب کے سرورق پر درج تعلیمی کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پنجاب سے بی ایس(بیچلرآف سائنس)اور برلن سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی،برلن جرمنی کادارالحکومت ہے،اس کا شماریورپی سیاست،ثقافت اورسائنس کے اہم مراکز میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر بٹ جرمنی کے ماہرین امراضِ چشم مجلس کے ممبر بھی تھے،اس زمانہ میں ہندوستان میں پنجاب یونیورسٹی اور عالمی سطح پر سائنسی علوم کے لیے جرمنی کی جامعات کو اعتبار کادرجہ حاصل تھا۔

         یہ کتاب ان کی اہلیہ کے نام معنون ہے،شریکِ حیات کے نام اس کا انتساب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ’’رفیقۂ حیات امیر النساء بیگم،جن کی محبت ،وفاشعاری اور رفاقت نے مجھ میں فن کے سیکھنے اور برتنے کا ولولہ پیدا کیا اور میں اس قابل ہوا کہ مرض کو سمجھوں،مریض کے کام آؤںاور حکیم مطلق اور شافیٔ برحق کا شکریۂ احسان بجا لاؤں‘‘(عطاء اللہ بٹ)(۶)

         ڈاکٹر عطاء اللہ  بٹ ’کتاب العین‘ کا مقصدِ تالیف اور اسلوب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’طبیہ کالج کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اردو میں فن طب پر مفید اور مستند کتابیں تصنیف و تالیف کی جائیں۔ملک و ملت کو ان سے روشناس کرایا جائے اور موجودہ دورِ ترقی میںاس فن کو جدید ترین اکتشافات و نظریات سے متوازن اور ہم آہنگ رکھا جائے۔طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی نے انہیں مقاصد کو پیش نظر رکھ کر مختلف موضوع پر مفید اور مستند لٹریچر کی فراہمی کی مسلسل کوشش کی ہے۔

         جس موضوع پر صفحاتِ آئندہ میں بحث کی گئی ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس فن پر اب تک یورپ کے مشہوراور مستند اربابِ فن نے جو مختلف تصانیف پیش کی ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایک ایسی جامع تالیف پیش کی جائے جو فنی اعتبار سے قطع نظر درس و تدریس میں بھی مفید ہو،چونکہ طبیہ کالج کے نصاب میں بھی یہ مضمون داخل ہے اس لیے وقتاً فوقتاً جتنے مقالات اپنے طلباء کے افادہ کے لیے مرتب کیے، ان کو مزید تشریح و اشارات کے ساتھ مدون کردیا،یہی آج ’کتاب العین‘کی صورت میں اربابِ فن کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں‘‘۔(۷)

         ’کتاب العین‘اردو زبان میں ophthalmologyکی بے حد جامع تالیف ہے۔تشریح و منافع الاعضاء،معائنۂ چشم،انعطافی طاقت کے نقائص اور طاقتِ توفیق کی خرابیاں،امراضِ چشم،آنکھ کی حرکات کی خرابیاں،آنکھ کے اعمالِ جراحیہ،علاج و حفظانِ صحتِ چشم،شرکی التہابِ چشم اور شرکی خراش،التہابِ کل العین،صدیدی التہاب اندرونِ چشم،نسخہ جات و ضمیمہ،انڈکس اورفرہنگ کے ذیلی عنوانات کے ساتھ یہ کتاب۸۹۷ صفحات پر مشتمل ہے۔علم العین پر اردو زبان میں ایسی کوئی کتاب اب تک تالیف نہیں ہوئی ہے،ophthalmologyکی انگریزی کتابوں کے ترجمے تو ملتے ہیں،مگر علم العین کے طبی مباحث اور جدیدophthalmologyکے انطباق کے ساتھ ایسی کوئی تالیف نہیں ملتی جو یونانی طب کے طلبہ کی درسی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی ہو۔

         ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کی ایک اور علمی یادگار ’رسالہ قوت مناعت‘ہے،یہ دراصل ڈاکٹر بی ٹی ڈکسن کی ماہیت الامراض(پیتھالوجی)کااردو ترجمہ ہے،52صفحات پر مشتمل ہے۔اس میںمناعت(immunity)کی ماہیت، اقسام اور طریقوں کوبڑے جامع انداز میں پیش کیا گیاہے ،زبان و بیان کے پہلو سے بھی یہ خوب ترہے،انگریزی مصطلحات کو اردو زبان میں خوب صورتی سے جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔

علامہ اقبال سے مراسم:

         ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ اور علامہ اقبال کے درمیان گہرے مراسم تھے،اقبال تین دفعہ علی گڑھ آئے ہیں ،پہلی بار ۹/فروری ۱۹۱۱ء کو،دوسری بار  ۱۸ نومبر۱۹۲۹ء کو اور تیسری بار ۱۸/دسمبر ۱۹۳۴ء کو تشریف لائے تھے،دوسری بار اقبال ڈاکٹر ظفر الحسن صدر شعبۂ فلسفہ کی دعوت پر خطبات دینے کے لیے آئے تھے،وہ یہاں ہفتہ بھر ٹھہرے تھے،ان کا بیشتر قیام ڈاکٹر ظفر الحسن کے ساتھ رہالیکن ڈاکٹر بٹ سے تعلق خاطر کی وجہ سے ایک روز ڈاکٹر بٹ کے بھی مہمان رہے اور میرس روڈ پر واقع ان کے دولت کدہـ’ بٹ ہاؤس ‘پرقیام کیا تھا،اس سے دونوں کے ربط و تعلق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے(۸)۔’بٹ ہاؤس ‘ میرس روڈ پر آج بھی موجود ہے،مگر اب یہ کوٹھی ’بھگت واٹیکا ‘کے نام سے جانی جاتی ہے۔

قادیانیت سے توبہ:

         ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کو اپنے عقیدہ کی وجہ سے زندگی بھر علی گڑھ کے سماج میں مطعون بھی رہنا پڑا ،لیکن آخر عمر میں اس عقیدے سے تائب ہوکرانہوں نے اہلِ سنت والجماعت کا مسلک اختیار کر لیا تھا،اس کی شہادت ڈاکٹر مظفر احسن اصلاحی مرحوم نے دی ہے، ڈاکٹر مظفر احسن اصلاحی اجمل خاں طبیہ کالج کے فارغین میں ہیں،وہ اسٹوڈنٹ یونین کے سکریٹری رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ ڈاکٹر مظفر احسن اصلاحی کو کافی عزیز رکھتے تھے،اصلاحی صاحب کا ان کے گھر پربرابر آناجانا تھا۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے حالات سے تاریخ خالی ہے اس لیے لوگ قادیانیت سے تائب ہونے کے واقعہ سے بھی لاعلم ہیں اور اب تک انہیں قادیانی ہی تصور کر رہے ہیں،اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے،آمین!

اِنَّ اللہَ یُحب التَوّابین

احوال و کوائف:

         ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ کے سوانحی تذکرے سے چونکہ سے پہلوتہی کی گئی ہے ا س لیے ان کی زندگیحلات و واقعات ہمارے سامنے نہیں آسکیں،تاہم ڈاکٹر بٹ کے نواسے میجر جنرل سید علی حامدکی ایک تحریر جس میں انہوں نے ڈاکٹر بٹ سے متعلق اپنی یادداشت قلم بند کی ہے جو راقم کے مطالعہ میں رہی ہے،اس سے ڈاکٹر بٹ کی زندگی کے کئی پہلو جو پردۂ خفا میں تھے،سامنے آتے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر بٹ کے والدین کشمیری تھے ،وہاں سے منتقل ہوکر سیال کوٹ میں سکونت اختیار کر لی تھی،وہیں عطاء اللہ بٹ کی ولادت ہوئی،سیال کوٹ علامہ اقبال کی رہائش بھی تھی۔ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان سے تعلق رکھتے ،اس زمانہ میں جب پڑھے لکھے مسلمانوں کی اکثریت مدرسوں کی روایتی تعلیم تک محدود تھی ڈاکٹر بٹ نے لاہور یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا ،مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے برلن کی Friedrich-Wilhelms Universityمیں داخلہ لیا،یہ یونیورسٹی ۱۸۱۰ء میں قائم ہوئی ہے،اُس وقت اس کا شمار جرمنی کی بڑی جامعات میں تھا۔یونیورسٹی کے دفتری ریکارڈ میں ان کا رجسٹریشن نمبر۱۱۳/ ۴۷۹۰اور داخلہ کی تاریخ ۳۰/اپریل۱۹۲۳ء درج ہے،انہوں نے”Tuberculosis of Lacrimal gland”پر مقالہ لکھ کر۲/مئی۱۹۲۴ء ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،اسی زمانہ میں ڈاکٹر بٹ کے برادر نسبتی خلیفہ عبدالحکیم نے جرمنی کیHeidelberg University سے فلسفہ سے ڈاکٹریٹ کیاتھا،علامہ اقبال کی سفارش پر وہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے بانی پروفیسر مقرر ہوئے ،۱۹۲۵ء سے۱۹۴۳ء تک صدر شعبہ کے طور پر انہوں نے وہاں خدمت انجام دی۔ڈاکٹر بٹ کی شادی ۱۹۱۰ء میں لاہور میں ہوئی تھی،۱۹۴۷ء میں تقسیم کے وقت ان کی دو بیٹیاں طاہرہ اور آمنہ پاکستان چلی گئی تھیں،ایک بیٹی،دو بیٹوں اور اہلیہ کے ساتھ ڈاکٹر بٹ ہندوستان میں رہ گئے تھے،۱۹۴۹ء میں طبیہ کالج کی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد وہ علی گڑھ میں مقیم رہے ،مگر۱۹۶۷ء میں اہل خانہ کے ساتھ وہ بھی پاکستان چلے اور یہاں صرف چھوٹے بیٹے محمود بٹ رہ گئے ،وہ یہاں مختلف اعلیٰ عہدوں پر رہے اور ترقی کرکے اترپردیش میں چیف سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے ،اس بلند منصب تک پہنچنے والے وہ پہلے مسلمان تھے،انہوں نے ساڑھے چار سال عہدے پر خدمت انجام دی ،لیکن سنجے گاندھی سے اختلافات کی وجہ سے انہوں اس سے علاحدگی کا فیصلہ کرلیااور ملازمت سے سبک دوش ہوگئے اور علی گڑھ کے موروثی مکان کو فروخت کرکے بنگلور چلے گئے۔۱۹۶۹ء میں ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ نے پاکستان کے راؤلپنڈی شہر میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئے۔

 حوالہ جات

         ۱۔اخبار دبدبۂ سکندری ریاست رام پور،۱۲ ستمبر ۱۹۲۷ء ،ص ۲۳

         ۲۔روئیداداجلاس اگزیکیٹیو کونسل منعقدہ ۲۲/جون۱۹۲۷ء،مخزونہ آرکائیوسرسید اکیڈمی،علی گڑھ

         ۳۔علی گڑھ انسی ٹیوٹ گزٹ علی گڑھ،۲۶/مارچ سنہ۱۹۳۶ء،ص۱۶

         ۴۔افتخارعالم خاں(۲۰۰۶ء)مسلم یونیورسٹی کی کہانی عمارتوں کی زبانی (۱۹۲۰ء  تا  ۱۹۴۷ء)،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،ص ۴۸۔۱۴۲

         ۵۔علی گڑھ انسی ٹیوٹ گزٹ علی گڑھ،۱۲ /ستمبر سنہ ۱۹۳۵ء،ص۳۔ ۲

         ۶۔عطاء اللہ بٹ(غیر مورخ)،کتاب العین،طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،ص  صفحۂ انتساب

         ۷۔عطاء اللہ بٹ(غیر مورخ)،کتاب العین،طبیہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،ص  صفحۂ اعتراف و تعارف

         ۸۔ اصغر عباس(۱۹۸۷ء ) ،سرسید،اقبال اور علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،،ص۱۷، ۱۶،۱۴

***

Leave a Reply