ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا
ڈاکٹر کلیم عاجز — یہ طرزِ خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
وطن عزیز ہندوستان میں بہت سی نابعہ بروزگار شخصیتیں پیدا ہوئیں۔ ایسی ہی عہد آفرین ہستیوں میں شمار ہوتا ہے عالمی شہرت یافتہ شاعر، باعث افتخار، استاد الشعراء جناب ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کا۔ جن کے بغیر اردو غزل کا تصور تقریباً ناممکن ہے۔ اردو شاعری میں صنف غزل کو جلا بخشنے ، تقویت دینے اور پروان چڑھامیں ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کا بہت بڑا رول ہے۔
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کی پیدائش11 اکتوبر 1926 ء میں پٹنہ کے تلہاڑا میں ہوئی۔ 1946ء میں جب وطن عزیز ہندوستان بحرانی دور سے گذر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ ایسے ماحول میں کلیم عاجزؔ صاحب نے آنکھیں کھولیں تھیں اور اس ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب ان کے عزیز شہید ہوگئے۔ اس خونچکاں واردات کا اثر کلیم عاجزؔ پر ایسا ہوا کہ اس واردات کے کرب نے اور اس ہولناک منظر نے کلیم عاجزؔ کو ڈاکٹر کلیم عاجزؔ ، پدم شری ایوارڈ یافتہ ، عالمی شہرت یافتہ شاعرڈاکٹر کلیم عاجز کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قدرت کا کیا خوب کرشمہ ہے کہ وہ جسے چاہے اور جب چاہے نواز دیتا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے کلیم عاجزؔ صاحب کو غضب کی ذہان اور بلا کی فطانت عطا کی تھی۔
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب رقم طراز ہیں :
’’میری غمگینی ، الم آفرینی، اس میں لہجے کا جو دھیماپن ہے۔ اس میں جو نازک نازک سے آبگینے کے پگھلنے کی کیفیت بھی ہے۔ اس میں جو نرم نرم پھپھولوں کے پھوٹنے کا آہنگ ہے۔ اس میں جو زخموں کے رسنے کی سر سراہت ہے۔یہ مریضانہ پن نہیں ہے ۔ ان میں صحت مندی ہے۔ ان میں جینے اور رجلانے کا فن ہے جو بڑی بڑی للکار والی شاعری میں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ ‘‘ ( وہ جو شاعری کا سبب ہوا)
ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کی ایک خوبصورت غزل کے چند اشعار قارئین کے فن شناس نظروں کی نذر کررہی ہوں۔ جس سے صاف پشتے کی مانند عیاں ہے کہ موصوف کا دل کیسے درد و کرب ،رنج و آلام سے لبریز تھا۔ اور ان کی نظروں سے کیسے درد ناک منظر دیکھے تھے جس کا ذکر ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب نے اپنے اس خوبصورت غزل میں درد بھرے لہجے میں کی ہے۔ ملاحظہ کریں :
وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے
اس ے کیا خبر کہ وفا ہے کیا
تو اس کو پیار کرے ہے کیوں
اے کلیم تجھ کو ہوا ہے کیا
تجھے سنگِ دل پہ پتا ہے کیا
کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہی کیا
کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا
تو امام شہر ستم گراں میں گدائے کوچہ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں ہوں تو برا ہے کیا
تو جفا میں مست ہے روز و شب
میں کفن بدوش غزل بلب
تیرے رعب حسن میں چپ ہیں سب
میں بھی چپ رہوں تو مزا ہے کیا
اور حالات حاضرہ کے تناظرسے ان کا یہ شعر بالکل صحیح نظر آتا ہے ۔ جس کی پیش قیاسی ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کی دور اندیش نظروں نے بہت پہلے کی تھی۔
ابھی تیر عہدِ شباب ہے
ابھی کیا حساب و کتاب ہے
ابھی کیا نہ ہوگا جہاں میں
ابھی اس جہان میں ہوا ہے کیا
اور ایک خوبصورت غزل کے چنداشعار پیش ِ خدمت ہیں :
بڑے خلوص سے محفل میں جام آیا ہے
کہ آج دور سے ایک تشنہ کام آیا ہے
چلو سخنورو ! بزم مشاعرہ کہ وہاں
کلیم عاجزؔ شیریں کلام آیا ہے
تمام شہر کے پیاسوں کو دو خبر کہ وہ آج
غزل میں لے کے محبت کا جام آیا ہے
قفس میں چھوڑ کر آئے ہیں جس کو اہل چمن
انہیں کا لے کے پیام و سلام آیا ہے
جگر پہ چوٹ جنہیں ہر قدم پہ لگتی ہے
انہیں شکستہ دلوں کا امام آیا ہے
تمام لالہ و گل خوب جانتے ہیں اسے
اسی کا خونِ جگر سب کے کام آیا ہے
مگر اٹھا کے جو تاریخ گلستاں دیکھو
نہ ذکر ، نہ کہیں اس کا نام آیا ہے
وہ کلیم سنانے غزل کے پردے میں
حکایتیں ستم صبح و شام آیا ہے
کہتے ہیں لیکن یہ لوگ غلط ہی کہتے ہیں
کہ جناب میرؔ کا قائم مقام آیا ہے
نازشِ دبستان ِ عظیم ، آفتاب سخن، آبروئے غزل حضرت کلیم عاجزؔ صاحب کی شخصیت عظیم تھی۔ آج عظیم آبادی کی دھرتی کو اس عظیم شاعر پر بے حد ناز ہے۔ اور ان کی شاعرانہ عظمت کا معترف سارا زمانہ ہے۔ ان کے گوہر افکار کی وسعت اور بلندی اپنے آپ میں مثال ہے۔ شاید ایسا کلیم عاجزؔ اب سر زمین عظیم آباد کو نہ ملے جس کے لیے اس دھرتی کو تڑپنا پڑے گا۔ ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب پٹنہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور پھر ریڈر رہے۔ انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ دین و شریعت کے سخت پابند تھے۔ درویشانہ زندگی تھی۔ فطرت میں سادگی اور حق پرستی تھی۔ اردو زبان اور علم و ادب کا فروغ و اصلاح ِ معاشرہ ان کا نصب العین تھا۔ زندگی کے سارے غم جو ان کے ر وح میں پیوست تھے۔ اشعار کا آبشار بن کر بہنے لگے۔
زندگی کے دکھ درد ان کی شاعری بن کر دنیا کو احساس ِغم کی لذت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن اردو شاعری کی تریخ میں کلیم عاجزؔ جیسا کوئی اور نظر نہیں آتا۔
حب الوطن کا ثبوت دینے والے بیشتر لوگ ہیں۔ بڑے بڑے سیاستداں ایوانِ بالا میں بیٹھ کر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھا اور بظاہر یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ذہن و دل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ لیکن اصل جذبۂ حب الوطنی تو وہ ہے جو ہندوستان کے معروف آسمان ِ شاعری کے درخشاں تابندہ ستارہ باعث افتخار شاعر ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب نے پیش کی تھی۔ جہاں انہوں نے اپنے گاؤں کے کنویں کو ماؤں، بہنوں اور بچوں کی لاشوں سے بھرا دیکھا تھا۔ تلہاڑا کی زمین گنج شہداں ہوگئی۔ علم و عرفاں و آگہی کی قوت نے ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب کو جینے کا سہارا دیا۔ اور شاید یہی وہ turning point تھا جو کلیم عاجزؔ کو ڈاکٹر کلیم عاجزؔ بحیثیت عالمی شہرت یافتہ شاعر، معروف غزل گو اور پدم شری ایوارڈ یافتہ کی شکل میں پیش کیا۔درد و کرب ، مصائب و آلام سے لبریز ڈاکٹر کلیم عاجز ؔ صاحب کی یہ غزل قارئین کے فن شناش نظروں کی نذر کرتی ہوں :
میرے لئے سے لئے وہ ملائیں گے کیا
جو روئے نہیں ہیں وہ گائیں گے کیا
خزاں میں تڑپنا نہ آیا جنہیں
بہاروں میں وہ مسکرائیں گے کیا
جنہوں نے اجاڑا نہیں اپنا گھر
وہ اوروں کی بستی پہ سوئیں گے کیا
جنہیں درد دل پہ لگی ہی نہیں
مرا دردِ دل آزمائیں گے کیا
اگر محبت ہم نے دیں اپنا خونِ جگر
وہ آئیں گے کیا ہم بلائیں گے کیا
اگر ہم نے دیں اپنا خونِ جگر
وہ ہاتھوں میں مہندی لگائیں گے کیا
ایک اور غزل کے چند اشعار قارئین کے لیے ملاحظہ کریں :
کلیم آئے بھی اپنا ہنر دکھا بھی گئے
الاپ بھی گئے ، رو بھی گئے ، رلا بھی گئے
کلیم آئے غزل بھی پڑھ گئے
محفل کو سنسنا بھی گئے
اک آگ لائے بھی ، لے بھی گئے ، لگا بھی گئے
وہ چوٹ کھائی جگر پہ کہ تلملا بھی گئے
مگر تھے وضع کے پابند مسکرا بھی گئے
سنا گئے کسی پردہ نشین کا افسانہ
وہ شوخ پردہ نشین کون ہے بتا بھی گئے
وفا شعاروں کو کیا پوچھو ہو زمانہ ہوا
وہ چھوڑ بھی گئے ، بستی کو گھر جلا بھی گئے
زمانہ دنگ ہے عاجزؔ کہ اس زمانے میں
جو کہہ رہے تھے وہی کر کے ہم دکھا بھی گئے
ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کا انداز منفرد، لہجہ منفرد، آواز منفرد جس کی جھلک اس شعر میں نظر آتی ہے ۔
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
غزل میں کون نئی چاشنی چکھائے گا
اگر کلیم نہ ہوگا مزہ نہ آئے گا
غموں کے بوجھ سے کانپے گا تھرتھرائے گا
مگر مزاج جو پوچھے گے مسکرائے گا
کوئی نہ دردِ جہاں کو غزل بنائے گا
یہ بوجھ اسی پہ پڑا ہے وہی اٹھائے گا
زمانہ لاکھ اسے تڑپائے گا رلائے گا
وہ مرثیہ نہ کہے گا غزل ہی گائے گا
اس نے دل کو جلایا ہے روشنی کے لیے
جو دل جلانہ سکا شمع کیا جلائے گا
یہ طرزِخاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
اتنے بڑے عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بہار ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کے نام پر یونیورسٹی میں چیئر قائم کرے۔ ان کے نام پر اسکالرز کو ایوارڈ دئیے جائیں اور جس طرح سے غالب اکیڈمی قائم کی گئی ہے ۔ اسی طرح کلیم عاجز اکیڈمی قائم کیا جائے۔تب اس عظیم شاعر کو خراج ِ عقیدت پیش کرنا اصل مقصد ہوگا۔ تاکہ اس عظیم شاعر کو اردو والے رہتی دنیا تک یاد رکھیں۔
In short, I would like to say that Dr. Kalim Aajiz Saheb was the world renowned Urdu poet and Padam Shri awardee from the government of India. I request the higher authorities of Patna University and Government of Bihar to creat a chair in his name and establish Urdu Academy under the name of this world renowned Urdu poet & Padam Shree awardee Dr. Kalim Aajiz Sb. The only way we can pay homage or tribute to this great poet.
کلیم عاجز صاحب کا یہ شعر بذات خود ان کی غزل گوئی کی داد دیتا ہے۔
بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانے میں کیا مزہ دے ہے
غزل کچھ ایسا پڑھے ہے دل ہلا دے ہے
غزل کے چند خوبصورت اشعار ملاحظہ کریں ـ:
کلیم آئے بھی اپنا ہنر دکھا بھی گئے
الاپ بھی گئے رو بھی گئے رلا بھی گئے
کلیم آئے بھی غزل بھی پڑھ گئے
محفل کو سنا بھی گئے
اک آگ لائے بھی لے بھی گئے لگا بھی گئے
وہ چوٹ کھائی جگر پر کہ تلملا بھی گئے
مگر تھے وضع کے پابند مسکرا بھی گئے
سنا گئے کس پردہ نقش کا افسانہ
وہ شوخ پردہ نشیں کون ہے بتا بھی گئے
زمانہ دنگ ہے عاجزؔ کہ اس زمانے میں
جو کہہ رہے تھے وہی کر کے ہم دکھا بھی گئے
کلیم عاجز صاحب نے بہت ہی آسان اور سادہ لفظوں میں غزل کہی ہے ۔ ملاحظہ کریں :ـ
یہ بات صبا کہو ان سے وہ جن کی کملیا کالی ہے
اب ان کے غلاموں کے گھر کی دیوار الٹنے والی ہے
کہو کہ انہوں نے اپنی نظر کیوں ہم سے الگ فرمائی ہے
ہم نے تو انہیں کی زلفوں کی زنجیر گلے میں ڈالی ہے
دل بھی ہے بڑا سونا سونا رات بھی کالی کالی ہے
کہو کہ وہی تو ساقی ہے کہو کہ وہ یہ بھی جانے ہے
رندوں کو لگی ہے پیاس بہت اور سب کا پیالہ خالی ہے
٭٭٭
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com
پدم شری کلیم عاجز کی شاعری کے تعلق سے محترمہ مظفر نازنین نے اچھا مضمون لکھا ہے ۔۔۔۔انھیں مبارکباد