You are currently viewing کارو بار نفس

کارو بار نفس

  پروین شیر

نیویارک، امریکہ

نظم 

کارو بار نفس

تو یوں ہوا ہے

کہ سب کو اپنے نفس کی قیمت چکانی ہوگی

نڈھال نظریں تلاش کرتی ہیں تاجروں کو

جو مول اس کے بڑھارہے ہیں

گمان کے جنگلوں میں لاکھوں شکستہ پیکر

 سب اپنی سانسوں کی جستجو میں بھٹک رہے ہیں

کہ صف بہ صف یہ صدا لگاتے ہیں

جن کے کشکول منتظر ہیں

کہ اپنی سانسوں کے چند قطروں کو پا ئیں

جاں کی جھلستی مٹی پہ برسیں بوندیں

 اُداس سورج

جو سر جھکائے چلا گیا تھا

 وہ رستہ بھولا ہے واپسی کا

لباس پہنے ہوئے ہیں دن کا گھنیری راتیں

چراغوں کی دھڑکنیں بجھی ہیں

یہ کیسا گاڑھا  دھواں اُٹھا ہے؟

فضا کی نبضیں رکی رکی ہیں

مرے قلم میں شکستہ الفاظ منجمد ہیں

ٹھٹھک گئے ہیں۔۔۔۔۔۔!

Leave a Reply