ڈاکٹر سمیہ ساجد
کاغذ
سارے کاغذ
اپنے
لِکھے جانے کے
اِنتظار میں
پُرانے ہو گئے
سفید سے پیِلے
پِھر بُھورے
اور پِھر
اِتنے بوسیدہ
کہ
ہاتھ لگاتے ہی
صفحے سے الگ ہو گئے
اُن کاغذوں پر
لِکھی عبارتیں
جو زندگی جینے کے فلسفے
بیان کرتی تھیں
وہ بھی اُنھیں ضائع
ہونے سے
نہیں بچا سکیں۔
بہت کچھ لِکھا گیا تھا
اُن کاغذوں پر
کامیاب زندگی جینے کے نسخے
مُحبّت حاصل کرنے کی ترکیبیں
انسان سے خدا
اور چاہو تو
شیطان بن جانے کا
راستہ بھی بتایا گیا تھا۔
پیغمبروں کو موصول ہوئے
احکامات بھی
درج تھے اُن میں۔
دریاؤں کی روانی
جنگلوں کی کہانی
آسمانوں کی اُنچائی سے لے کر
سمندروں کی گہرائی تک بیاں تھی۔
نسلِ آدم کا بھی ذکر تھا
حَوّا کے بہکانے سے لے کر
موجودہ زمانے تک کا۔
عبارتیں پتّھروں پر بھی لکھی گئں
اور مِٹّی کو پکا کر سخت کی گئ
تَختیوں پر بھی
چمڑے پر بھی اور بانس کی
پتلی، چپٹی لکڑیوں پر بھی
ریشم کے کپڑے پر بھی
لکھی جاتی تھیں
اور پھر کاغذ پر۔
اب نئے دور میں
اِسکرین پر لکھی جاتی ہیں کتابیں
جو پلک جھپکتے ہی غائب اور
حاضِر ہو جاتی ہیں
جہاں لکھنا اور مِٹانا
بیحد آسان ہوتا ہے
بغیر کچھ ِنشاں چھوڑے
سب کچھ بدل جاتا ہے۔
Dr. Sumaiya Sajid
S – 17/28, Nadesar
Varanasi – 221002
sumaiyasajid2@gmail.com