علیزے نجف
تبصرہ :
کتاب : کچھ دل نے کہا۔ منزہ ہاشمی
یوں تو احساسات و جذبات ہر رنگ و روپ میں ہی قیمتی ہوتے ہیں، اس سے ہی رشتوں کی آبیاری ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ احساس رشتوں کا حسن ہوتا ہے۔ زندگی میں سارے ہی رشتے خوبصورت ہوتے ہیں بشرطیکہ انسان میں رشتوں کو سنبھالنے اور ان کو نبھانے کا ہنر ہو، انھیں میں سے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو کہ فطری طور سے اپنے اندر جُداگانہ کشش رکھتے ہیں، گردش حالات کا کوئی بھی لمحہ اس تعلق کی خوبصورتی کو ماند نہیں کر سکتا وہ ہے والدین اور اولاد کا رشتہ، اگر ذکر باپ اور بیٹی کے رشتے کی کی جائے تو اس تعلق کی تہیں عمر بھر پرت در پرت کھلتی رہتی ہیں کچھ اس طرح کہ آخر میں بھی بہت کچھ نہ کہہ پانے کی کسک دل میں رہ جاتی ہے۔ پھر یہ کسک کبھی کسی تحریر میں ڈھل کر سفید صفحات کو سیاہ کرتی ہیں، کبھی کسی ویران سے لمحے میں یاد بن کر اسے آباد کر دیتی ہیں اور کبھی دوستوں اور اپنوں کے درمیان گفتگو کا ایسا موضوع بن جاتی ہیں جس پہ گھنٹوں بات کر کے بھی تشنگی ختم نہیں ہوتی، “کچھ دل نے کہا” نامی کتاب میں ایک بیٹی کی ایسی ہی سرگوشیوں کی بازگشت ہے جس کے لیے اس کا باپ صرف باپ ہی نہیں بلکل کل جہان تھا۔ اس بیٹی کو آپ اور ہم منیزہ ہاشمی کے نام سے جانتے ہیں اور ان کے والد یعنی فیض احمد فیض کو اردو ادب کی دنیا میں ایک عظیم شاعر کے طور جانا پہچانا جاتا ہے، جنھوں نے نہ صرف ادب کی آبیاری کی ہے بلکہ دنیا والوں کو اپنے نظریات و خیالات سے متاثر بھی کیا ہے ، جس کی قیمت انھیں جیل کی صورت چکانی پڑی اور عمر کا ایک بڑا حصہ شہر نوردی اور ملک بدری کی حالت میں گذارا، اردو ادب کی بساط پہ ان کا نام غالب و اقبال کی طرح انتہائی عقیدت سے لیا جاتا ہے، ہم میں سے ہر کوئی انھیں بطور شاعر جانتا اور ان کی عظمت کا اعتراف کرتا ہے، “کچھ دل نے کہا” کو پڑھتے ہوئے ہمیں ان کی شخصیت کا دوسرا رخ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بطور باپ کیسے تھے یہ کتاب ان کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اپنے بچوں لکھے تھے، اس کتاب میں خاص طور سے ان کے وہ خطوط شامل ہیں جو انھوں نے اپنی چھوٹی صاحبزادی منیزہ ہاشمی کو لکھے تھے، منیزہ ہاشمی ایک باوقار و باوضع شخصیت کی حامل انسان ہیں، انھوں نے پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر چار دہائیوں سے زیادہ عرصے تک بہترین خدمات انجام دی ہیں وہ ایک کامیاب میڈیا پرسن کے طور پہ مشہور ہیں، ان کی اعلی کارکردگی کو ‘پرائڈ آف پرفارمنس’ اور دیگر اعزازت سے نواز کر سراہا جا چکا ہے، ان کے مزاج میں کئی رنگ کئی شیڈ شامل ہیں، زندگی کے تجربات اور پروفیشن کے تقاضوں کے تحت انھوں نے خود پہ اصول پسندی کا ایک سخت خول چڑھا تو لیا تھا لیکن ان کے اندر ہمیشہ ایک معصوم بچہ سانس لیتا رہا۔ وہی بچہ اس کتاب میں سرگوشیاں کرتا اور ہمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کتاب کو دراصل منیزہ ہاشمی نے انگریزی میں Conversation with my Father کے نام سے لکھا ہے “کچھ دل نے کہا” اس کا اردو ترجمہ ہے، نیر رباب نے اس قدر سلیس اور رواں ترجمہ کیا ہے کہ یوں لگتا ہے درحقیقت یہ اردو میں ہی لکھی گئی ہے۔
انسان حالات و تجربات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا حالات انسان کی خواہش کے ماتحت کبھی نہیں ہوتے بلکل اسی طرح منیزہ ہاشمی کی بھی زندگی کے حالات رہے ہیں، فیض احمد فیض اپنے فن کی دنیا کے بےشک ایک پہنچے ہوئے انسان تھے لیکن ساتھ ہی وہ ایک باپ بھی تھے، ایک بچے کو ہمیشہ اپنا باپ اپنے پاس چاہئے ہوتا ہے جس کی گود میں وہ سر رکھ کر سو سکے، جب اسے اپنے احساسات شیئر کرنے ہوں تو وہ اسے میسر ہو، جب اسے کوئی دکھ پہنچے تو وہ اسے اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لئے موجود ہو، وہ ہمیشہ اپنے باپ کے نقش پا کی رہنمائی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے، بڑے ہونے کے بعد یہ خواہش ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ یہ اور بھی شدید ہو جاتے ہیں فقط اس کے اظہار کی صورت و ہیئت تبدیل ہو جاتی ہے۔ میری اس بات کا ثبوت منیزہ ہاشمی کے سرگوشی کرتے یہ الفاظ ہیں جو انھوں نے اپنی کتاب کے کور پہ لکھا ہے
” یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے آپ کی توقع سے کافی مختلف ہے، میری زندگی اس پچھتاوے میں گذری ہے کہ جب ابا ہمارے پاس تھے تب میں ان سے اتنی باتیں کیوں نہ کر سکی، اس وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ تب سے اب تک جو بتانا چاہتی تھی سب کہہ دوں۔ میں نے خالی جگہوں کو ہر کرنے کی کوشش کی ہے ساتھ ہی اس شخص کے سامنے اپنے جذبات کھول کر رکھ دیا ہے، جو میرے پاس تھا تو مجھے سب سے زیادہ عزیز تھا دور چلا گیا تو بھی میرے دل میں بستا ہے۔ اس تعلق میں وقت کوئی فاصلہ نہیں رکھتا، نہ ہی اس کی کوئی اہمیت ہے، یہاں ایک بیٹی اپنے باپ سے باتیں کر رہی ہے یہ وہ محبت ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے جو فاصلوں سے بے نیاز ہے جسے جسمانی لمس کی ضرورت نہیں، یہ تعلق طبعی حالت سے ماورا ہے یہ خیالات کا ادغام ہے روحوں کا ملاپ ہے جسے محبت نے اپنی بانہوں میں گھیر رکھا ہے”
فیض احمد فیض کے حالات زندگی سے کون واقف نہیں ان کی پوری زندگی ایک نظریاتی جدوجہد میں گذری ہے، جس کی ذاتی سطح پہ انھوں نے ایک بڑی قیمت بھی ادا کی، اس قیمت کی کئی شکلیں رہی ہیں، انھوں نے اپنے خاندان پر قوم کی خدمت کو ترجیح تو ضرور دی لیکن اپنی خاندانی ذمےداریوں سے ہمہ وقت آگاہ رہتے تھے اور اس کی ادائیگی کا شدید احساس بھی رکھتے تھے اس کی تلافی کی ہمیشہ بھرپور کوشش تاعمر کرتے رہے جس میں خطوط لکھنا بھی شامل ہے۔
“کچھ دل نے کہا” میں صرف ان کے خطوط ہی نہیں بلکہ ان کی بیٹی یعنی منیزہ ہاشمی کے وہ احساسات بھی شامل ہیں جو کہ وہ اپنے ابا سے کہنا چاہتی تھیں۔ اس راہ میں کبھی دوری حائل رہی تو کبھی وقت کی کمی آج جب کہ وہ دونوں دو مختلف دنیاؤں کے باسی ہیں یہ کتاب ان کے درمیان ایک پل کی تعمیر کرنے کی کوشش میں لکھی گئی۔
“کچھ دل نے کہا ” کی سرگوشیوں میں منیزہ ہاشمی کی پوری زندگی ایک سوانح کی صورت میں موجود ہے ایک طرف ہم ان کے اندر موجود معصوم بچے سے روبرو ہوتے ہیں جو کہ اپنے شفیق باپ سے محبت جتاتا ہے، اپنی زندگی کے ہر اس لمحے کا ذکر کرتا ہے جب اسے اس کی بیٹی ہونے کی وجہ سے قابل فخر کلمات سننے کو ملے ہیں۔
منیزہ ہاشمی نے اس میں اپنی زندگی سے جڑی ہر تلخ و خوبصورت یادوں کا ذکر سرگرشی کی صورت میں کیا ہے ان کے ایام طفلی سے لے کر کالج کا زمانہ، پھر ان کی پروفیشنل لائف کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ان اسفار کا بھی ذکر موجود ہے جو کہ انھوں نے مختلف موقعوں پہ کیا تھا۔ ان کا ہر سفر قاری کو تفریح فراہم کرتا ہے اور اس کی سوچ کے اندر کئی نئے در وا کر دیتا ہے۔ اس کتاب میں انسانی نفسیات کے نشیب و فراز کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کے وہ نمایاں کردار جنھیں ہم آئیڈیلائز کرتے ہیں ان کی زندگی پھولوں کی سیج پہ نہیں گذرتی، وہ بھی ان پھولوں کے ساتھ موجود کانٹوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، ایک جہد مسلسل کے بعد وہ اس مقام کو پہنچتے ہیں جہاں لوگ انھیں نظریں اٹھا کر دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، سچ ہے زندگی کو یوں ہی نہیں گزارا جا سکتا ہے بلکہ زندگی کو جینے کے قابل خود بنانا پڑتا ہے۔
اس کتاب کی خوبصورتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ منیزہ ہاشمی نے اپنے احساسات کو بہت دیانت داری کے ساتھ بیان کیا ہے، تکلفات میں ڈوب کر بےجا لفاظی سے وہ حقائق سے چشم پوشی برتنے سے وہ گریز کرتی نظر آتی ہیں، وہ ایک جگہ لکھتی ہیں:
” اس سفر میں زیادہ تر آپ میرے ساتھ ساتھ رہے، کبھی اچھے دن ہوتے کبھی برے دن، کبھی انتہائی مایوسی گھیر لیتی تو کبھی جوش کا پارہ اوپر جا رہا ہوتا۔ ایسے بھی دن ہوتے جب سخت محنت کے جواب میں تعریف و ستائش ملتی اور ایسے بھی دن ہوتے جب خوب ڈانٹ پڑ جاتی کیوں کہ میں پبلک میں غلط انسان سے غلط وقت کچھ کہہ دیا ہوتا۔
آپ مجھے جانتے تو ہیں۔ آپ سے کیا چھپا ہے؟ آپ جانتے ہیں میں ہمیشہ کی منہ پھٹ۔۔۔۔۔ مگر اب زندگی کی 70 ویں برس میں، میں باتوں کو بنا کر بولنا سیکھ رہی ہوں! آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ میں پبلک میں کس قدر cool اور dumb نظر آتی ہوں “
یہ کتاب اپنے مختلف شیڈز کے ساتھ قاری کی توجہ کو آخر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے، 197 صفحات پہ مشتمل اس کتاب کے ہر پہلو کو چند سطروں میں سمیٹنا ناممکن ہے، لیکن مختصراً میں یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ یہ کتاب قاری کی فیض شناسی اور منیزہ شناسی میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی انسان شناسی میں بھی اضافہ کرے گی۔
***