محمد ارشد کسانہ
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی
کرشن چندر کے ناول ’’ شکست ‘‘ میں پونچھ کی مقامی زبانوں کے الفاظ اور معانی
کرشن چندر کا بچپن جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں گزرا ۔ ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۲۹ء تک وہ مسلسل وہاں رہے اورپھر دسویں جماعت پاس کرکے مزید تعلیم حاصل کرنے لاہور چلے گئے ۔ ان دنوں پونچھ میں دسویں جماعت تک ہی تعلیم میسر تھی۔ ان کے والدین ۱۹۴۴ء تک پونچھ میں رہے اور پھر باقاعدہ طور پر دہلی روانہ ہوگئے ۔ یعنی ۱۹۴۴ء تک کرشن چندر کا تعلق پونچھ سے رہا ۔
ایک فن کار کی جس ماحول ، سماج اور تہذیب کے زیر اثر پرورش ہوتی ہے اس کے اثرات فن کار کے فن پر پڑنا فطری ہیں۔ کرشن چندر کی یہ پرورش جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں ہوئی اور ان کی تخلیقات پر مقامی سماج ، تہذیب اور ماحول کے اثرات واضح نظر آتے ہیں ۔ ان کے کئی ناولوں اور افسانوں کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے ۔ مگر جموں وکشمیر میں کئی تہذیبیں آباد ہیں اور ہم غیر شعوری طور پر ان کے ناولوں اور افسانوں کو کشمیری سماج اور تہذیب سے جوڑ دیتے ہیں ۔ دراصل جموں و کشمیر تین خطوں(جموں ، کشمیر اور لداخ ) پر مشتمل تھا اور یہ تینوں خطے جغرافیائی، سماجی ، تہذیبی اور لسانی اعتبار سے کافی الگ ہیں ۔ خطہ کشمیر کی اپنی تہذیب ہے جسے ’’کشمیری تہذیب ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہاں کشمیری زبان بولی جاتی ہے ، خطہ لداخ کی بھی اپنی ایک الگ تہذیب ہے اور یہاں کئی زبانوں کا رواج ہے ۔ جب کہ ان دونوں کے برعکس خطہ جموں میں کئی چھوٹی چھوٹی تہذیبیں آباد ہیں ، جیسے ڈوگرہ تہذیب ، پہاڑی تہذیب ،گوجری تہذیب وغیرہ اور اسی نسبت سے یہاں کئی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں ۔
ضلع پونچھ کا تعلق خطہ جموں سے ہے اور یہاں قدیم زمانے سے ہی گوجری اور پہاڑی تہذیبیں آباد ہیں ۔ کرشن چندر کی پرورش انہی تہذیبوں کے زیر اثر ہوئی ۔ انھوں نے جتنے بھی کشمیر کے حوالے سے ناول اور افسانے لکھے ہیں ان میں ان دونوں تہذیبوں کی ہی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ان دونوں تہذیبوں میں کافی یکسانیت ہے اس لیے اکثر لوگ اسے ’’ گوجری پہاڑی تہذیب‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ۔یہاں قدیم زمانے سے ہی گوجری اور پہاڑی زبانیں رائج ہیں ۔ اور ان دونوں زبانوں کے بے شمار الفاظ کرشن چندر نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں استعمال کیے ہیں ۔ اردو کے زیادہ تر قارئین ان زبانوں سے ناواقف ہیں اور مطالعے کے دوران یہ الفاظ قارئین کے لیے الجھن بن جاتے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہی قارئین کے لیے ان الفاظ کی کوئی لغت موجود ہے اور نہ ہی کرشن چندر نے کہیں ان الفاظ کی وضاحت کی ہے ۔ اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہر نئے اڈیشن کے ساتھ ان الفاظ کے املا میں تبدیلی آتی جا رہی ہے ۔ یعنی نیا اڈیشن تیار کرنے والے بھی ان الفاظ کے درست املا تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔ خیر میں نے اس حوالے سے کرشن چندر کے ناول ’’ شکست ‘‘ کا مطالعہ کیا اور مقامی زبانوں یعنی گوجری اور پہاڑی کے تمام الفاظ کی نشاندہی کرکے ان کے معنوں تک پہنچنے کی کو شش کی ہے ۔
ناول ’’ شکست ‘‘ ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا جب کرشن چندر لاہور میں حصول ِ تعلیم میں مصروف تھے ۔ اور ان کے والدین پونچھ میں رہ رہے تھے ۔ یعنی پونچھ سے وہ ابھی باقاعدہ طور پر وابستہ تھے ۔ اس بات کا ذکر اس لیے ضروری ہے کیوں کہ ہم یہ جان سکیں کہ ناول شکست خالص پونچھ کے پس منظر میں لکھا گیا ۔ اس بات کی تصدیق انھوں نے اپنے سوانحی ناول ’’ مٹی کے صنم ‘‘ میں بھی کی ہے ۔ وہ پونچھ کی تحصیل مہنڈر کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ مہنڈر میں میں نے پہلی بار مہاتما گاندھی کا نام سنا اور ان کی چھوت چھات
اور ذات پات کو مٹا ڈالنے والی تحریک کے سلسلے میں میرے پتا جی نے مجھ سے
وعدہ لیا کہ میں کبھی اپنی ذات پر فخر نہیں کروں گا ۔ اور کبھی اپنے نام کے آگے
اپنی ذات نہیں لکھوں گا ۔ مہنڈر کی ندیوں میں میں نے پہلی بار تیرنا سیکھا ۔
پہلا پریم مہنڈر میں کیا ۔ پہلی چار کہانیاں مہنڈر میں لکھیں ۔ ’’ جہلم میں ناؤ پر ‘‘
، آنگی ، مصور کی محبت اور یرقان ۔ میرے پہلے ناول شکست کا پس منظر بھی مہنڈر
ہے ۔ میری زندگی کی بہت سی شروعات مہنڈر سے ہوتی ہیں ۔ ‘‘
(مٹی کے صنم ، کرشن چندر،یونین پرنٹنگ پریس ، دہلی ، ۱۹۶۶ء ، ص ۱۷۱)
یہاں سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ، ایک تو یہ کہ ناول ’’ شکست ‘‘ کا براہ راست تعلق پونچھ سے ہے اور دوسری یہ کہ موضوعاتی سطح پر یہ ناول مہاتما گاندھی کی تحریک سے متاثر ہے ۔ کیوں کہ اس ناول کا موضوع بھی ذات پات کے اردگرد ہی گھومتا ہے ۔ اس ناول میں گوجری پہاڑی تہذیب کی عمدہ جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ جن رسم و رواج کو کرشن چندر نے اس ناول میں پیش کیا ہے وہ آج بھی وہاں رائج ہیں۔
کرشن چندر نے جہاں اس ناول میں گوجری پہاڑی تہذیب کی عکاسی کی ہے وہاں گوجری اور پہاڑی زبانوں کے کئی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں ۔ کئی مقامی گیت اور اشعار بھی کوٹ کیے ہیں ۔ جن کو سمجھنا عام قارئین کے لیے کافی مشکل ہے ۔ میں نے ایسی تمام تحریروں کو اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ ایک بات اور واضح رہے کہ میں نے شکست کے اس ایڈیشن کو بنیاد بنایا ہے جو ۱۹۹۸ء میں ایشیا پبلشرز دہلی سے شائع ہواتھا ۔ اس ایڈیشن کے متن میں کئی الفاظ کے املا غلط معلوم ہوتے ہیں ۔ اب یہ معلوم نہیں ہوپایا کہ یہ الفاظ مصنف نے ہی ایسے لکھے تھے یا بعد میں تبدیل ہوئے ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی پرانا ایڈیشن ہاتھ آجاتا تو بات واضح ہوجاتی ۔ میں نے قارئین کی آسانی کے لیے ہر لفظ کے ساتھ صفحہ نمبر بھی لکھا ہے ۔ چلیے اب الفاظ کی طرف چلتے ہیں۔
جونکیں ۔ ( ص۱۰) (جونک کی جمع ) ایک قسم کا کیڑا جو پانی میں رہتا ہے ، اور اگر کوئی انسان اس پانی کو پیے تو جونک پانی کے ذریعے اس کے اند چلی جاتی ہے ۔
ناخ (ص ۱۲) ناشپتی
داخ ( ص۱۵) ایک قسم کا پھل جو اکثر پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے ۔
بٹنگیوں(ص ۱۶) ( بٹنگی کی جمع ) ایک پھل دار پیڑ ، جس کے پھل اندراور باہر سے کالے ہوتے ہیں ۔ یہ درخت بھی پہاڑیوں میں ہی پائے جاتے ہیں ۔
ڈاب( ص۱۷) تالاب ۔
تلہ (ص ۱۹)میدان
منو (ص ۱۹)ایک درخت جس کے پتے مال مویشیوں کو کھلائے جاتے ہیں ۔
ترنگ (ص۲۰) ( اصل لفظ تونگ ہوتا ہے لیکن متن میں ترنگ لکھا ہے ) دیودار کا پیڑ
صافہ ( ص۲۵) پگڑی
جھنڈ ( ص ۲۶) جھاڑیاں
سنبلوں ( ص ۳۲) ایک کانٹے دار جھاڑی ۔اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے پھل لگتے ہیں ۔
باؤلی ( ص ۳۴) زمین سے پانی نکلنے والی وہ جگہ جس کے اردگرد دیواریں چڑھا کر چھت سے ڈھک دیا گیا ہو۔
بہتیرے ( ص۳۴) بہت
ساگ (ص۳۵)ہری سبزی
تاگے ( ص ۴۴) دھاگے
دینیاں ( ص ۴۷ ) (دنی کی جمع )ایک لکڑی جو آگ لگانے سے خود بخود جلنے لگتی ہے ۔ پرانے لوگ اسے دیا یا مشعل کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔
بھیگن ( ص ۴۷ ) ( اصل لفظ جھیگن ہے۔ یہی لفظ متن میں ایک جگہ جیکن کے طور پر استعمال ہوا ہے ) چیڑ کے پیڑ سے نکلنے والا گوند۔
اڑبینگ ( ص ۴۷ ) جو قابو نہ آئے
رکھ ( ص ۴۸) پہاڑی کے درمیان کا وہ علاقہ جہاں گھاس ہو
بانڈی (ص ۶۱) مال مویشیوں کا کمرہ
کائی ( ص ۸۷) ایک قسم کا گھاس جو اکثر پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے ۔
لیتری ( ص ۸۸) کئی لوگوں کا مل کر گھاس کاٹنا ، یہ ایک رسم ہے ۔
گہیلوں ( ص ۸۸ ) ( گہیل کی جمع )پہاڑی علاقے میں چوڑا راستہ ۔
کسیوں ( ص ۸۸) ( کَسی کی جمع ) پہاڑی علاقے کی نالیاں ۔
لوتھوں ( ص ۹۴ ) ( اصل لفظ دتھوں ہوتا ہے جو دتھے کی جمع ہے ) گھاس کاٹتے وقت ایک ہاتھ میں گھاس جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اسے بڑا کرکے بڑے احتمام سے رکھا جاتا ہے ۔ یہی دتھا ہے ۔
گھاڑا رچنا ( ص ۹۵) یہ دو الفاظ ہیں ’’ گھاڑا ‘‘ اور ’’ رچنا‘‘۔ کھیت کے تمام گھاس کو سلیقے سے جمع کرنے کے بعد جو امبار بنتا ہے اسے گھاڑا کہتے ہیں ۔اور رچنا سے مراد گھاس کو تہہ در تہہ رکھنا۔
ڈنگر ( ص ۹۵)بیل
نورا( ص ۱۱۴) ( اصل لفظ مورا ہے ) مشعل
بلتا ( ص ۱۱۴)جلنا
خصم ( ص ۱۱۶) شوہر
او جنے ( ۱۲۱) اے بندے
خوبانیوں ( ۱۲۸) ( خوبانی کی جمع) ایک پھلدار پیڑ
ہاڑیوں ( ص ۱۲۸) ( ہاڑی کی جمع ) یہ بھی خوبانی کے پیڑ کی طرح ہوتا ہے ۔ مگر اس کے پھل قدرے چھوٹے ہوتے ہیں ۔
جھٹ ( ص ۱۳۰) جلدی
جمگٹھا ( ص ۱۳۲)بھیڑ
مکھانے ( ص ۱۳۲) ایک قسم کی خشک مٹھائی
کوٹھے ( ص ۱۴۸) مکان
تمانچے (ص ۱۷۱) تھپڑ
مونڈھے ( ص۱۷۳)درخت کاٹ لینے کے بعد نیچے کا جو حصہ بچتا ہے اسے مونڈھا کہا جاتا ہے ۔ پرانے زمانے میں اس حصے کو بیٹھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔
کوشتی ( ص ۲۰۶)پہلوانوں کی لڑائی ۔
چناں ، ماہیا اور سپاہیا ( ص ۱۰۵) پہاڑ ی اور گوجری ادب کی شعری اصناف ہیں ۔
سیف الملوک ( ص ۱۰۵) یہ میاں محمد بخش کی ایک شاہ کار شعری تصنیف ہے جو پہلی بار ۱۸۷۰ء میں لاہور سے شائع ہوئی تھی ۔ اس میں لگ بھگ دس ہزار اشعار ہیں اور یہ مثنوی کی ہیئت میں ہے ۔ میاں محمد بخش پنجابی اور پہاڑ ی زبانوں کے معروف شاعر تھے ۔ سیف الملوک کو اکثر لوگ گایا کرتے ہیں اور اس کے گیت پہاڑ ی تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں ۔
ان کے علاوہ کچھ الفاظ وہ تھے جو اردو ، گوجری اور پہاڑی میں مشترک ہیں ۔ ایسے الفاظ کو اس مضمون میں شامل کرنا غیر مناسب سمجھا، اس لیے میں نے انھیں نظر انداز کر دیا ۔
اس ناول میں بعض پہاڑی اشعار اور گیت بھی درج ہیں ۔ ان کو بھی سمجھنا قارئین کے لیے ضروری ہے ۔ پہاڑی اور پنجابی زبانیں ایک دوسرے سے کافی قریب ہیں یا یوں مان لیجئے کہ پہاڑی زبان نے پنجابی زبان سے بے پناہ اثرات قبول کیے ہیں۔ اس لیے پہاڑی تحریروں پر اکثر پنجابی کا شبہ ہوتا ہے ۔ چلیے ناول میں درج پہاڑی اشعار اور گیتوں کو سمجھتے ہیں ۔
’’ ڈھول جانی
ساڈی گہیلے آویں تھاری مہربانی
ڈھول جانی
میں اتھے ، لے ڈھول سانسرے
مرجاساں تے کھون متھے تیرے
کھونے دیا منا منا
جی روئے دھولا ( اصل لفظ ڈھولا )
ڈھول جانی
ساڈی گہیلے آویں تھاری مہربانی
ڈھول جانی
کیوں پرچلیاں ، تیاری کی نشانی ؟ ‘‘ (ص ۹۷)
ترجمہ: میرے محبوب
میری گلی آنا تیری مہربانی
میرے محبوب
میں یہاں اور ڈھول سانسرے(جگہ کانا م ) میں
مر جاؤں تو خون تیرے ذمے
مجھے کھو نہ دینا
میرے محبوب جی روتا ہی جا رہا ہے
میرے محبوب
میری گلی آنا تیری مہر بانی
میری محبوب
تیاری بتا رہی ہے کہ تم پردیس جا رہے ہو ؟
’’ روئے۔۔۔۔۔ روئے رے رے
باغاں دے وچ روئے بلبل بولے
کسّیاں بولن پانی ای ای ای ۔۔۔
جہناں روئے ساڈے سجن نہ چھوڑے
صبر اُ نہاں دی جانی ای ای ای ۔۔۔‘‘
(ص ۱۰۵)
ترجمہ : روز ۔۔۔ روز
باغوں میں روز بلبل بولتا ہے
نالیوں سے بولتا ہے پانی
جنھوں نے رو رو کر بھی اپنے محبوب نہ چھوڑے
صبر ان کی ہمت ہے
’’ منجھیں موڑیں ، منجھیں دیاں سائیاں
سوہنے رانجھے نے مندراں پایاں
رانجھا ، رانجھا تے رانجھا دے !
ہیر سنگھ گئی دردیاں نوں چیر دے
جہنا لایاں نی توڑ نبھایاں !
( ص ۱۴۷)
ترجمہ بھینسیں لوٹ آئی ہیں ، اے بھینسوں کے محبوب
حسین رانجھے نے کنڈل ( کان کا زیور ) پائے
رانجھا ، رانجھا اور رانجھا کی
ہیر درد سے تڑپتے ساتھ گئی ہے
جو عشق کریں وہ نبھائیں
’’ سوہنے رانجھے نے مندراں پائیاں
جہناں لائیاں توڑ نبھائیاں ‘‘
( ص ۲۰۷)
ترجمہ: حسین رانجھے نے کنڈل ( کان کا زیور ) پائے
جو عشق کریں وہ نبھائیں
مذکورہ بالا گیتوں کے علاوہ ایک اور شعر بھی متن میں درج ہے مگر اس کی شرح خود کرشن چندر نے شعر کے نیچے کردی ہے ۔
یہ گیت زیادہ تر پنجابی زبان میں ہیں ۔ پہاڑی اور پنجابی زبان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا اردو اور ہندی زبان میں ہے ۔ پہاڑی لوگ اکثر پنجابی ادب سے تفریح کا کام لیتے ہیں ۔ کئی پنجابی لوک گیت پہاڑی تہذیب کا حصہ بن چکے ہیں ۔ کرشن چندر نے یہ ناول چوں کہ پونچھ کے پس منظر میں لکھا ہے اسی لیے انھوں نے مقامی کلچر کو بھی اس نا ول کا حصہ بنایا ہے ۔ یہ یاد رہے کہ کشمیری تہذیب اور کشمیری سماج کا اس ناول سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ان کا تعلق خطہ کشمیر سے ہے اور کرشن چندر نے خطہ کشمیر میں مستقل قیام کبھی نہیں کیا ۔ اس کے باوجود کئی ادیبوں اور اسکالرز نے کرشن چندر کی تحریروں کو زبردستی کشمیری سماج سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ یہاں تک کہ ایم ۔ فل اور پی۔ ایچ ۔ ڈی کا کام تک اس موضوع پر ہوچکا ہے ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی گوجری ، پہاڑی تہذیب اور پونچھ کے ہندو سماج کاذکر نہیں کیا جن پر کرشن چندر کے اکثر ناولوں اور افسانوں کا دارومدار ہے ۔
***