پروفیسر عبد الرب استاد
صدر شعبہٴ اردو گلبرگہ یونیورسٹی
کرناٹک میں اردو غزل
(منتخب شعراء کے حوالے سے)
غزل اردو ادب کی محبوب و مرغوب صنف سخن رہی ہے جسے چہار دانگ عالم میں پسند کیا گیا ۔کیا شمال اور کیا جنوب ،کیا مشرق اور کیا مغرب ،کیا ایشیا ء و کیا یوروپ ہر ہر جگہ ہر ہر خطہ میں اس کی مقبولیت غیر معمولی رہی ہے کیونکہ اس نے عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کو نہ صرف انگیز کیا بلکہ ان کی کیفیات کو بہت ہی لطافت کے ساتھ شیریں لہجہ کے ساتھ کم سے کم الفاظ میں مترنم انداز میں عوام کے سامنے اس طرز میں پیش کیا کہ وہ کہنے والے کا نہ ہو کر ہر سننے والے کا اپنا ذاتی تجربہ بن گیا ۔غزل نے دکن سے شمال اور شمال سے ملک کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے ساری دنیا کو اپنے حصار میں کر لیا اتنا ہی نہیں اب تو اس نے دیگر زبانوں پر بھی کمندیں ڈال رکھی ہیں اور ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔اس نے عشق مجازی وحقیقی کو نہ صرف پیش کیا بلکہ اپنا سفر رومان سے جوڑتے ہوئے معاش اور معاشرت سے بنانے میں اسی طرح عصری تقاضوں کو خود سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے قاری کو مسحور کرتی ہوئی اپنے سفر کو جاری رکھنے میں کامیاب نظر آتی ہے غزل نے اپنے آپ کو زمانہ کے مطابق ڈھالا اور وہ زندہ ہے۔ وگرنہ اس کا حال بھی دیگر اصناف کی طرح ہوجاتا۔غزل کا نام سنتے ہی اردو ہمارے ذہن میں آجاتی ہے اور کسی نے اردو کا ذکر چھیڑا تو غزل وہاں موجود احباب کے ذہن میں آجاتی ہے۔اردو اور غزل ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ہیں۔ہمارے اسلاف اور استاد شعراء نے غزل میں جو کمالات کر دکھائے اور اسے زندگی اور زندگی کے معمولات سے جوڑ کر نہ صرف اسے لازوال شہرت عطا کی بلکہ وہ خود بھی مشہور ہوگئے اور کئی زبان زد اشعار ہر موقع کے لئے یادگار چھوڑ گئے۔ غزل نے مختلف ادوار دیکھے اس نے بلندی بھی دیکھی اور پستی بھی اس پر اعتراضات بھی کئے گئے ۔ اسے کبھی کسی نے نیم وحشی قرار دیا تو کسی نے قابل گردن زدنی ، کسی نے اسے کذب کا دفتر کیا تو کسی نے جاگیر دارانہ عہد کی ترجمان۔۔۔۔۔ حیرت ہوتی ہے اس قسم کی باتیں سننے کے بعد۔غزل نے اپنے قارئین اور سامعین کو گفتگو کرنے کا سلیقہ عطا کیا۔ شائستگی سے بہرہ ور کیا۔ اردو غزل یا شاعری کے عہد زرین پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دلی انتہائی ابتری کی حالت میں تھی میر تقی میر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لکھنو چلے گئے غالب نے غدر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بھلا کیا یہ جاگیردارانہ عہد تھا؟ایسے حالات میں انھوں نے شاہوں کی آنکھوں میں کبھی سلائیاں پھرتی دیکھیں،تو کبھی تخت وتاج کو لٹتے دیکھا،کہیںتہذیب کو اجڑتے اور کہیں جاہ و حشمت کو ملیامیٹ ہوتے دیکھا۔۔۔۔ایسے حالات میں بھلا یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جاگیردارانہ عہد کی پیداوار ہے۔۔۔۔ہاں لکھنو میں غزل نے البتہ خوشیوں کے زمانے دیکھے ،مگر دلی میں غموں کے پہاڑٹوٹ رہے تھے۔ جیسا کہ سطور بالا میں کہاگیا کے غزل نے اپنے قارئین کو شائستگی سے گفتگو کا سلیقہ سکھا یا اسی طرح نیم وحشی کا جواب غزل کے چاہنے والے نے اسی شگفتگی کے ساتھ دیا۔ کہ شعر و ادب تو اقدار ہوتے ہیں نہ کہ جنس، اور وحشی یا نیم وحشی کا اطلا ق موخر الذکر پر ہوتا ہے نہ کہ اول الذکر پر ۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک تاریخ ساز جملہ بھی ادب کے حوالے کیا کہ‘’’ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے۔‘‘ یہ کوئی اور نہیں پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ اور کسی نے یہ کہا کہ’’اب وقت آگیا ہے کہ غزل کی گردن بلا تکلف مار دینی چاہئے ‘‘۔ تو غزل کے ایک رسیا نے کہا کہ ’’غزل اردو شاعری کا عطر ہے‘‘۔ عطر وہ کہ جسے اس کی خوشبو سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔’’عطر آنست کے خود ببویدنہ کے عطار بگوید‘‘۔ بہر حال ابتداء ہی سے غزل ان ہنگامہ آرائیوں سے گذرتی اپنا سفر طے کرتی جار ہی ہے یہ بڑی سخت جان ہے اس نے زمانے اور عوام کا ساتھ دیتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئی ہے ۔ہندوستانی زبان کی یہ مقبول عام صنف دکن سے ہوتے ہوئے شمالی ہند پہنچی اور اب ساری دنیا پر چھا گئی ہے۔
غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف دو مصرعوں میں اپنی بات مکمل کرتی ہے۔ اردو کی یہ واحد صنف ہے جس نے تمام اصناف کو اپنے دامن میں سمیٹ لیاہے اس میں نظموں کے مناظر بھی ہیں اور قصائد کی مدح سرائی بھی، مثنویوں کی سحر بیانی بھی ہے اور مرثیوں کی نوحہ خوانی بھی۔ اس طرح یہ مقبول عام صنف ہے جس شاعر میں یہ وصف موجود ہو یقینا اس کی غزل، سامعین کے دلوں کو ملتفت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
غزل کیا ہے؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکیونکہ سبھی جانتے ہیں ۔ مگر جان نثار اختر کے الفاظ میں اس کی تعریف بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور ضروری بھی ۔۔۔ ؎
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے؟ غزل فن کیا ؟
چند لفظوں میں گوئی آگ چھپا دی جائے
گویا چند لفظ ہی غزل ہیں اور ان میں آگ چھپا دیناغزل کا فن ہے۔ الفاظ کے انتخاب کے لئے شعوری کیفیت ضروری ہوتی ہے جبکہ آگ یا چنگاری تو دل میں مضمر ہوتی ہے اس چنگاری کو مناسب الفاظ میں شعوری طور پر پیش کرنا ہی غزل ہے۔ یعنی غزل بیک وقت ذہن اور دل کے باہم انسلاک و اختلاط سے معرض وجود میں آتی ہے۔ اسی کو ہم حسن و عشق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اقبال کی نظم عقل و دل کے ایک شعر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دل نے عقل سے مخاطب ہوکر یہ کہا کہ ؎
ہے تجھے وا سطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
غزل کا شعر کیا اور کیسا ہونا چاہئے۔۔ جوش ؔ کے الفاظ میں ۔۔۔ ۔
شعر کیا؟ عقل وجنوں کی مشترک بزم جمال
شعر کیا ہے؟ عشق وحکمت کا مقام اتصال
شعر کیا ہے؟ نیم بیداری میں بہنا موج کا
برگ گل پر نیند میں شبنم کے گرنے کی صدا
شعر کیا ہے؟ نیم بیداری میں بہنا موج کا
برگ گل پر نیند میں شبنم کے گرنے کی صدا
تر زمانی اور خاموشی کی مبہم گفتگو
لفظ و معنی میں توازن کی نہفتہ آرزو
بادلوں سے ماہ نو کی اک اچٹتی سی ضیا
جھانکنا قطرے کے روزن سے عروس بحر کا
غزل کے معنی حکایت بایارگفتن ہے تو پھر غزل بہترین نصاب ہے خوش گفتاری کا ، خوش سلیقگی کا ، شیریں کلامی کا ، لفظ ومعنی میں توازن کا ، قلبی احساس کا ، گویا یہ عمد ہ کورس ہے personality Development کا۔ بات کس سے ،کب ،اورکتنی کریں یہ آداب ہمیں غزل سے سیکھنے کو ملتے ہیں۔کیونکہ جب عاشق اپنے محبوب سے کلام کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس سے طرز گفتگو کاخیال رکھے۔ بے ساختگی ہوکے شوخی ہو اس میں بھی خوش سلیقگی اور شیریں گفتاری کے ساتھ ساتھ الفاظ کا مناسب انتخاب بھی ضروری ہوجاتاہے۔
غزل میں کلا سیکیت بھی ہے، ترقی پسند ی بھی، رومانیت بھی ہے جدیدیت بھی اس نے ہر عہد میں زمانے کے ساتھ دیا۔ غالب نے جب یہ کہا تھاکہ ؎
گو میں رہا رہین ستم ہائے روز گار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
کیا وہاں ترقی پسندی تھی ،نہیں بلکہ غدر اور اس کے بعد کے حالات میں بھی اور اس قبل بھی وہ ستم ہائے روز گار سے جوج رہا تھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تو مشاہدہ حق بھی باد ہ و ساغر سے کر رہا تھا کہتا ہے ؎
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
اسی طرح میر تقی میر نے جب کہا کہ ؎
لے سانس بھی آہستہ کے نازک سے بہت کا
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری میں
تو وہاں کونسے کورونا کے حالات تھے۔
غزل نے زندگی اور اس کے فلسفہ کو مختلف اور نت نئے انداز میں بیان کر دیا ۔ ان کیفیات کو ہم کر ناٹک کے غزل گو شعراء میں دیکھ سکتے ہیں۔کرناٹک سے تعلق رکھنے والے شعرا میں روایتی انداز کی غزلیں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور ترقی پسندی کے چاہنے والوں کی بھی، رومانی طرز کی غزلیں بھی ملیں گی اور نئے انداز کی بھی۔ ان شعراء میں مدنامنطر، نفیس بنگلوری، عبد القادر ادیب، اسد اعجاز، رزاق افسر ، ادیب میسوری، اعجاز تما پوری، فاطمہ ردا، عبد الرحیم آرزو، سرور مرزائی، الف احمد برق، آزاد ساحری ، سردار ایاغ، انیس ابراہیم،
رشید بیدری، محسن کمال، مظہر مبارک، خمار قریشی، وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ان کے ہاں اساتذہ کا رنگ غالب ہے، بحروں اور اوزان
کاتنوع ، نغمگی ، شگفتگی ان کے کلام سے عیاں ہے ؎
یہ بھی خیال یار کا اعجاز سے نفیسؔ
اک ایک شعر نور کے سانچے میں ڈھل گیا
نفیسؔ بنگلوری
دیار حسن سے رنگیں بہار لایا ہوں
نظر سے کھینچ کے تصویر یار لایا ہوں
مدنا منظرؔ
جب کہ ہر فرد بشر کرنے لگے حکمت کی بات
اس میں کوئی شک نہیں اہل نظر خطرے میں ہے
( اسداعجازؔ)
پن گھٹ کو بھول بیٹھیں کسانوں کی بیٹیاں
جب سے زمیندار کا بیٹا جواں ہوا
( سردار باغؔ)
ان سے بچھڑے تو ہوئے غم کا نوالہ ہم بھی
خانہ دل ہی بنا دشت وبیاباں اپنا
( خماؔ ، قریشی)
کار دنیا میں ترے شرکت مجھے کرنی پڑی
تو ہی پالن ہار تھا محنت مجھے کرنی پڑی
( اعجاز ؔ تما پوری )
ان کے ساتھ ہی کچھ ایسے بھی غزل گو ہمیں ملتے ہیں جنھوں نے روایتی طرز کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوئے جدید فکری عناصر کو بیان کیا ۔ اور نئی لفظیات ، رموز اور بلاغ کو برتنے میں کامیاب ہیں۔ ان میں راہی قریشی ، محب کوثر ، سعود سراج، صغریٰ عالم، نعمت انور، شیدار رومانی ، وقار ریاض، وحید انجم وغیرہ وغیرہ۔
برا کیا ہے صدف کی آبرو بن جائیں وہ قطرے
جنھیں دریا کسی قیمت میں ضم ہونے نہیں دیتا
( راہی قریشی)
حالات میرے خیر سے جب بھی سنور گئے
کتنے ہی خیر خواہوں کے چہرے اتر گئے
( محب کوثرؔ)
جن کو معلوم نہیں آج بھی کلیوں کا حجاب
ہاتھ میں نظم گلستاں ہے خدا خیر کرے
( صغریٰ عالم)
ہر ایک منزل مقصود کا تمنائی
مگر اٹھاتا نہیں زحمت سفر کوئی
(مسعود سراج)
کتنی مشکل سے اجالوں کی نظر پائی ہے
رات کا زہر پیاہے تو سحر پائی ہے
(شیداؔ رومانی)
غزل نے اپنی ظاہری ہئیت تو نہیں بدلی، مگر اس کے موضوعات بدلتے گئے انقلاب زمانہ اور گلوبلائزیشن کے باوصف غزل کی لفظیات بدلنے لگیں، نئے استعارے اور نئی علامتیں بننے لگیں، اظہار کا انداز بھی بدلتا گیا۔ غزل بجائے لحن کے تحت میں پڑھی جانے لگی۔ ۱۹۶۰ء کے بعد کرناٹک میں جدید غزل گو شعراء کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے۔ جو معاشرے کی حقیقتوں سے متصادم اور متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ شعراء اپنے اشعار کو روحانی کرب و اضطراب کی بھٹی ہیں تپا کر نوع انسانی سے قریب ہوکر ہم کلام نظر آتے ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے کرنا ٹک نے ایک کہنہ مشق اور استاد مشاعر حمید الماس کے متعلق یہ کہا تھا کہ ’’ حمید الماس نے تو جدیدیت کو ایک وقار بخشا ہے۔‘‘ان کے ساتھ ایک اور شخصیت جن کو ہم جدیدیت کے علمبرداروں میں شمار کر سکتے ہیں وہ ہیں محمود ایاز ۔یہ دو بڑے قد آور شاعر اس ریاست کر ناٹک سے ہیں جن میں ایک نظم گو ، غزل گو اور مترجم تو دوسرے نقاد،صحافی اور شاعر۔
خوب ترکی جستجو قائم رہے گی ذہن میں
فکر وفن میں سوچ کے پکر بدلتے جائیں گے
غریب فکر ہوں اور کوئے العاش میں ہوں
چھپا ہوا میں کہیں صوت دلخر اش میں ہوں
( حمید الماس)
خیال یار بخیر تیرے کسی سے بات کریں
نگاہ یار! کوئی داد غم گساری دے
( محمود ؔ ایاز)
ان کے ساتھ اور ان کے معاً بعد جن شعراء کے نام آتے ہیں ان میں خلیل مامون، تنہا تما پوری، بدر مہدی، مظہر محی الدین، شکیل مظہری، سلیمان خمار وغیرہ ،جنہوں نے اس رجحان یا رویہ کے تحت اپنے خیالات کو غزل کے سانچے میں ڈھالا ، اشعار پیش ہیں۔
جسم کے اندر سسکتا کون ہے
ایسے ویرانے میں بستا کون ہے
( تنہاتماپوری)
ایک سورج سے جھلس جاتے ہیں انسان
کتنے سورج میرے اندر بولتے ہیں
(مظہرؔ محی الدین)
اس کی باتیں افسانوں سے لگتی ہیں
اس کا لہجہ چھا گل جیسا لگتا ہے
( بدر مہدی)
ان کے بعد جن شعرا کا ذکر آتا ہے ان میں ایک قسم کی تازگی، جوش اور ولولہ ملتا ہے۔ الفاظ کو برتنے کا سلیقہ بھی انوکھا، ہندی الفاظ ، فارسی تراکیب کا استعمال ، مختصر بحروں میں وسیع مضامین ومفاہیم جو کبھی میر کا تو کبھی ناصر کاظمی کا خاصہ رہا ، ان کے کلام سے متر شح ہوتاہے۔حالات حاضر ، پر چوٹ، کبھی رمزوایما سے تو کہیں واضح طور پر جن میں کہیں بیتے لمحوں کو قید کر دیا تو کہیں مستقبل کی نوید سنائی دیتی ہے۔ ان شعراء میں خالد سعید ، صاجد حمیدؔ، نور الدین نور، اکرم نقاش، حامداکمل وغیرہ، کے نام آتے ہیں۔ ان شعراء نے زندگی کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اسے محسوس بھی کیا، آج ہمارے معاشرے میں رشتے ٹوٹ چکے ہیں، دوستیاں بے کار محض ہوکر رہ گئیں، خلعت نصیب مکرنے حق کو بے لباس کر دیا ہے، جھوٹ دندنا تا پھر رہا ہے اور سچ سہما سہما سا ہے۔
ٹوٹ چکے ہیں آوازوں کے سب رشتے
اک سناٹا شیر یانوں میں بہتا ہے
(ساجد حمید)
ویسے بھی اب دلوں میں تعلق نہیں رہا
کیوں درمیاں اٹھاتے ہو دیوار بے سبب
( خالد سعید)
سہمے سہمے جل رہے تھے کچھ دئے
آندھیوں کا ذکر سن کر بجھ گئے
(حامد اکمل )
مری بصارت گماں کی زد میں، مرے تخیل میںبے یقینی
تجھے کبھی کتاب دیکھوں، تجھے کبھی میں سراب دیکھو
(اکرم نقاش)
ان کے علاوہ بھی بہت سے غزل گو شعرا ہیں جیسے، صبیح حیدر ، عبد الستار خاطر، جو ہر تماپوری ، صابر فخر الدین ، ماجد داغی، فضل افضل، ساحل تماپوری ، حامد تماپوری اور عبدالرب استادوغیرہ وغیرہ۔مجموعی طور پر کرناٹک میں غزل کا کارواں پوری آب وتاب سے جاری ہے۔
پروفیسر عبدالرب استاد
صدر شعبہ اردو وفارسی ،گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک