عرفان رشید
کشمیر کا معاصر اردو افسانہ
کشمیر میں اردو فکشن کی ایک مستحکم اور شاندار تاریخ رہی ہے بلخصوص فنِ افسانہ نگاری کی ۔ادبی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتا تاہے کہ جموں و کشمیر میں ایسے افسانہ نگار بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس صنف میں قومی سطح کے ادبی منظر نامے پر ایک گہری چھاپ قائم کی ہے ۔جن میں محمد دین فوق ،پریم ناتھ پردیسی پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ ذتشی ،علی محمد لون ،قدرت اللہ شہاب،ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ ،نور شاہ حامدی کاشمیری،وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد، ترنم ریاض ،ریاض تو حیدی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
ریاست میں اردو افسانے کی بنیاد کے تعلق سے نورشاہ لکھتے ہیں :
’’آج جب ہم ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی بات کرتے ہیں تو پریم ناتھ پردیسی کا نام سامنے آتا ہے شاید اس لیے کہ ریاست میں اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا ء پردیسی سے ہوئی اگر چہ ان سے پہلے بھی کئی افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے لیکن پردیسی کے افسانوں کی اہمیت اور انفرادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے اور تقسیم ملک کے بعد بھی ان کے افسانے معیاری جرائد میں شائع ہوتے رہے ۔۔۔پردیسی کے تین افسانوی مجموعے ’’شام و سحر‘‘ ’’دنیا ہماری ‘‘ ’’بہتے چراغ‘‘ شائع ہو چکے ہیں ۔‘‘۱؎
معاصر فکشن کی صورت حال کے تناظر میںاس مقالے میں نمائندہ افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے آیئنے میں بات کر کے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کس حد تک کشمیر میں اردو افسانے کی موجودہ صورت حال تشفی بخش ہے ۔
نور شاہ اردو افسانے کا ایک اہم باب ہے جنہوں نے ۱۹۶۰ ء کے آس پاس اپنے ادبی سفر کی شروعات کی۔تاحال ان کے نو افسانوی مجموعے بے گھاٹ کی ناو،ویرانے کے پھول،من کا آنگن اداس اداس ،ایک رات کی ملکہ،گیلے پھتروں کی مہک،بے ثمر سچ ،آسمان پھول اور لہو،کشمیر کہانی اور ایک معمولی آدمی منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔نورشاہ وادی کے ایسے تخلیق کار ہے جو تخلیقی سطح پر کسی بھی صورت میں قید وبند رہنے کے قائل نہیں ہے ان کے افسانوں میں ہر طرح کے موضو عات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کے مجموعے ’’آسمان پھول اور لہو‘‘ میں پہلی کہانی ’’کہانی اور چار کڑیاں ‘‘ایک خوب صورت کہانی ہے جس سے پڑھنے کے بعد قاری ایک گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے ایک نیم عریاں بکھاری ،ٹین کے شیڈ اور روشن کو علامتی جامہ پہناکر کشمیر کے حالات وواقعات کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔کہانی کے موضوع سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ چار کڑیاں کشمیر کے چار ادوار کی علامت ہے اور نیم عریاں بکھاری کشمیر کے ظلم وجبر کی علامت ہے اور روشن راوی کا دوست جو ایک حساس ذہن کا مالک ہے سب چیزیں خاموشی سے قلم بند کرتے ہوئے نظر آرہا ہے ۔ملاحظہ کیجئے ایک چھوٹا اقتباس :
’’میں پرانے بوسیدہ ٹین کے شیڈ کے سامنے کھڑا ہوں ،کھانے کا برتن ایک کونے میں پڑا ہے لیکن خالی ،بالکل خالی،دھوپ کی تمازت سے اس کا رنگ بگڑ چکا ہے ،سڑک کا بادشاہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے ،نیم عریاں بھکاری دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔۔۔
شاید آگ کی تپش اسے راکھ بنا چکی ہے اور وہ راکھ سڑک کے گردوغبار میں تحلیل ہوچکی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا مصور دوست اسے اپنی تصویر میں امر کر چکا ہے ۔۔ ۔تو پھر یہ مٹی آنسوکیوں بہا رہی ہے کس کے لیے ۔۔۔‘‘(افسانہ ’’ایک کہانی چار کڑکیاں ‘‘ ص ۱۲)
نور شاہ اگر چہ بہترین افسانہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے مختلف ناقدین ِ ادب نے اپنی اپنی آراپیش کی ہیں ۔لیکن یہ بات بھی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ابتدائی دور میں جو کہا نیاں موصوف نے لکھی ہیں ان میں چند ایسی کہانیاں بھی موجود ہیں جو فن پرپوری طرح سے نہیں اترتی ۔ان میں ’’ایک لمبی عمر کی تنہائی ،اور ’’آگے خاموشی ہے ‘‘جیسے افسانے شامل ہیں ۔دونوں کہانیاں کرداروں کے ساتھ متعدد جگہوں پر ناانصافی کر تی ہیں یہاں تک کہ کہانیاں صرف ایک اخباری مراسلہ لگتی ہے ۔
افسانہ ’’ایک لمبی عمر کی تنہائی ‘ ‘میں جہاں پر افسانہ نگار نے ایک کردار زینب کی خودکشی کی خبر دی ہے وہاں پر بآسانی اس کو بچایا بھی جاسکتا تھالیکن تخلیق کا ر نے ایسا نہیں کیا جس سے کہانی کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے ۔
اسی طرح سے افسانہ ’’آگے خاموشی ہے‘‘میں بھی اسی نوعیت کی ایک کہانی ہے جس میں مرکزی کردار نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہوجاتا ہے اور خود کشی کرنے پر تیار ہوجاتاہے حالانکہ وہ خودکشی کرنے میں کامیاب نہیں رہتا بلکہ آخری وقت پر اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے ۔اس کہانی میں جو کمزوری قاری کو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک نوجوان میں جن اوصاف اور حوصلوں کا ہونا چاہیے تھا وہ نہیں دکھائے گیے ہیں ۔
نورشاہ کے افسانوں میں اگر چہ ابتدائی دور میں فن کی سطح پر کچھ کمزوریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن پختگی کے دور تک آتے آتے انہیں فن پر عبور حاصل ہوتا گیا ۔ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں میں مقامی رنگ اور فضا نظر آتی ہے اور بعض اوقات فنکارانہ انداز میں یہاں کے صحت افضا مقامات کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔ان کے فن کے تعلق سے افسانے کا اہم نقادمجید مضمر لکھتے ہیں :
’’رومان سے حقیقت تک کے سفر میں نورشاہ کا تخلیقی برتائو ریاست میں اردو افسانے کو ہئیتی اور موضوعاتی سطح پر کئی نوح کے تجربات سے آشنا کرتا ہے اور افسانے کے مجموعی ،عالمی سرمائے میں یہاں کے خارجی اور داخلی منظر کر حوالے سے ایک انفراد عطاکرتا ہے ۔‘‘۲؎
’’کشمیر کہانی‘‘ نامی کتاب جو ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی ہے جس میں بیس افسانوں کے علاوہ ان کے ڈرامے بھی موجود ہیں ۔اس کتاب میں مختلف قسم کے موضوعات پر رقم کی گئی کہانیاں شامل ہیں جن میں کشمیر کے سیاسی منظرنامے سے متعلق ،یہاں کے آئے روز بدلتے سیاسی منشورات ،لوگوں کے مشکلات ،وردی اورغیروردی کے درمیان آپسی رساکشی میں عام لوگوں کی بے نام موت کا رقصاں منظر ،سفاراتی تعلقات ،ہوائی اور زمینی افوابازی ،لوگوں کی نفسیاتی الجھنوں کے تیئن کہانیاں شامل ہیں
افسانہ ’’ہیلنگ ٹچ‘‘ایک ایسی ہی کہانی ہے جس میں یہاں کے اس سیاسی منظر نامے کو دیکھا جاسکتا ہے جس کا سیاسی منشور ہی یہ ہے کہ جس گھرانے کا بھی کوئی فرد ملیٹنسی کا شکار ہواہو اس گھرانے کے ایک فرد کو healing touch کے تحت نوکری فراہم کی جائے گی یعنی ہیلنگ ٹچ بے سہاروں کا ایک آخری سہارا جس کا کوئی متبادل ہی نہ ہو ۔افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے :
’’ ایک طرف آمنہ کے بڑے بھائی کی خون سے لت پت لاش تھی اور دوسری طرف سرکار کا ایک اعلیٰ آفیسر آمنہ کو ہیلنگ ٹچ کے نام پر نوکری کا حکم نامہ دے رہاتھا لیکن اس بات کی کوئی وضاحت نہ کی گئی تھی کہ آمنہ کے بھائی کو کس جانب گولی لگی تھی ۔کیا وہ گولی وردی میں تھی یا وردی کے بغیر اور ملٹینسی سے ان کا کیا تعلق تھا ،وہ تو صرف اپنے بہنوں کا بھائی تھا ۔پھر وہ ملی ٹنٹ کب اور کیسے بنا اور کیسے ملٹینسی کا شکا رہوا ۔لیکن آمنہ اس بات سے واقف تھی کہ صرف اپنی بہن کو روزگار دلانے کے لیے اُس کے بھائی نے ایک نیا روپ اپنا لیا تھا۔۔!! (افسانہ ہیلنگ ٹچ،ص ۶۲)
اسی طرح سے اس مجموعے میں سوداگر،مجروح کافلے کی داستان،دلدل،لمبی عمر کی لکیریں ،آگے خاموشی ہے ،سرخ بستی نامی کہانیاں موجود ہیں جن میں موضوعاتی تنوع موجود ہیں ۔نورشاہ کے افسانوں میں ایک عام زبان ملتی ہیں عام زبان سے مراد وہ اسلوب جس میں نہ کوئی الجھائو ہے اور نہ ہی کوئی پیچیدگی بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ نورشاہ کشمیری لوگوں کے نبض شناس اور نفس شناس ہیں جو کم سے کم الفاظ میں اپنی بات سیدھے قاری تک پہنچاتے ہیں تو بیجانہ ہوگا ۔بقولِ علی جواد زیدی
’’نورشاہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہے کہ افسانے ذہن میں نہیں بلکہ زندگی کی کھردری سطح پر بھکرے پڑے ہیں ،اِن کو سلیقے سے چننا اور صناعی سے واقعات اور محسوسات کو ایک قصے کی صورت میں پیش کرنا نورشاہ کو خوب آتا ہے ۔‘‘
(بحوالہ نورشاہ،کشمیر کہانی،تاثرات ،ص ۱۶۲)
کہا جاسکتا ہے کہ معاصر اردو افسانہ نگاروں کی صف میں نوشاہ ایک اہم نام ہے جنہوں نے ساٹھ کے عشرے سے افسانہ نگاری کی شروعات کی اور موجودہ دور میں نئے افسانہ نگاروں کی رہنمائی کرنے میں پیش پیش ہے جس کی بنیاد پر یہ دعوی ٰ کرنا انسب رہے گا کہ نورشاہ ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی تاریخ کے حوالے سے ایک اس ادبی پل کی سی حیثیت رکھتے ہیں جس نے روایت اور جدیدیت کو ایک متوازن سنگم عطا کیا ۔
کشمیر میں اردو افسانے کی تاریخ کا ایک اہم نام وحشی سعید ساحل ہے جن کا افسانوی سفر کم وبیش چالیس سال پر پھیلا ہوا ہے اس دوران ان کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوئے ۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سڑک واپس جارہی ہے ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔دوسرا افسانوی مجموعہ ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ اور ’’سڑک جارہی ہے‘‘جیسے افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ادبی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ وحشی سعید نے کچھ سال ادبی دنیا سے سنیا س لیا ۔اس کا جواب وحشی سعید نے کچھ یوں دیا ہے:
’’میں گزشتہ چالیس برسوں سے ریاست جموں وکشمیر کے افسانوی ادب سے وابستہ ہوں ۔۔۔اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے افسانوں کی دنیا سے دور چلا گیا لیکن اس دوران بھی افسانہ میرے ذہن میں پنپتا رہا ۔میرے قلم کو قوت بخشتا رہا اور جب میں لوٹ کر آیا تو مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ نہ صرف ماضی میں میرے پڑھنے والوں نے میرا استقبال کیا بلکہ نئی نسل بھی میرے نام سے نا واقف نہ تھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک کہانی نگار کے لیے یہ سب سے اہم اور بڑا انعام ہے ۔
’’ارسطو کی واپسی ‘‘پیش ِ خدمت ہے ۔اس تعلق سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں آپ کو چالیس سال قبل کا وحشی سعید اور آج کا وحشی سعید دونوں نظر آئیں گے‘‘۔ (ارسطو کی واپسی ،وحشی سعید ،ص ۶)
ان کی ایک مشہور کہانی ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے شہکار افسانے ’’کالوبھنگی ‘‘کی یاد کو تازہ کرتی ہے لیکن کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘اور وحشی سعید کے ’’صمد بھنگی ‘‘ میں زمین آسمان کا فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔’’کالو بھنگی ‘‘ کی آخری خواہش تھی کہ ان کے اوپر کوئی کہانی لکھ ڈالے اورگائے تک ان کی دنیا محدود تھی ازدواجی زندگی کا تو سوال ہی نہیں ۔لیکن’’صمد بھنگی ‘‘کی دنیا آباد تھی اور ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ ان کے ہا ں ایک خو ب صورت بیٹا پیدا ہو۔ جو بڑا ہو کر ایک کامیاب بزنس مین بنے۔
’’نہیں بابو !وہ بھنگی نہیں بنے گا ۔ وہ آپ کی طرح بہت بڑا آدمی بنے گا ۔ میں اس کو خوب پڑھائوں گا ــ‘‘
میری ذاتی رائے کے مطابق وحشی سعید کا ’’بھنگی ‘‘کرشن چندر کے ’’کالو بھنگی ‘‘سے کئی معنوں میں اچھا افسانہ ہے ۔پہلے ہی اقتباس سے قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید میں ’’کالوبھنگی کا دوسرا پاٹ ــــ‘‘پڑھنے جا رہا ہوں ۔ملاحظہ کیجئے پہلا اقتباس :
’’بھنگی کا لفظ جب زبان پر آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہونٹوں تک ایک گالی چلی آئی ہیں ۔اگر میں نے ا ردو زبان کی لغات کو مرتب کیا ہوتا تو اس لفظ کو کبھی شامل نہ کرتا ۔۔۔جب بھی میں لال چوک کی سڑک سے ٹانگے پر سوار گھر کی طرف جاتا تو کسی نہ کسی بنگھی کو سڑک صاف کرتے ہوئے دیکھتا ۔ایسے لمحات پر اکثر آدمیوں کے منہ لٹک جاتے ہیں ۔تب میرا دل چیخنے لگتا اور میں خود سے کہتا ’’اٹھو لفظوں کاگندہ لحاف اتار پھینک دو‘‘۔۔
(ارسطو کی واپسی ،ص ۴۸)
وحشی سعید کے اس افسانے کو پڑ ھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے یہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے علاوہ ایک سماجی اصلاح کار بننا چاہتے ہیں ۔لیکن سماجی جبر کا آہنی پنجہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔
وحشی سعید کو فن پر اچھی خاصی دسترس حاصل ہے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ضخامت کے اعتبار سے مختصر سے مختصرافسانہ لکھ سکتے ہیںجس میں پلاٹ کی سطح پر کوئی کمی نظر نہیں آتی ہے ۔بلکہ بعض اوقات پلاٹ کی ایسی ترتیب عمل میں لاتے ہیں کہ قاری حیرت میں پڑجاتا ہے ۔نیز واقعات کی ترتیب کے عمل میں وحشی سعید قاری کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتے ہیں اور کہیں سطحوں پر قاری کے دل کی بات کہ لیتے ہیں ۔افسانہ ’’عورت اور مچھلی ‘‘اسی نوعیت کی کہانی ہے جس میں افسانہ نگار نے مچھلی کے سڈول جسم کو عورت کے سڈول جسم سے تشبیہ دی ہے کہانی میں مرد اساس سماج کی اس جبری حالت کو بیان کیا گیا ہے جو عورتوں پر روا رکھی جاتی ہے ساتھ ہی اس افسانے میں عورت کے صنفی جذبات کو ابھارا گیا ہے کہ جن کی وقت پر اگر تکمیل نہ کی گئی تو ایک انتشار پیدا ہو سکتا ہے :
’’کلو رام نے بیس ہزار کے اس خریدے ہوئے غلام کی آمدنی میں آسانی سے زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔لیکن سکھی عورت تھی ۔۔۔پیا ر کی متلاشی۔۔۔لیکن وہ اس کو نہ ملا ۔وہ ایسے سماج ،ایسی رسموں اور ایسے مردوں کے چنگلوں سے آزاد ہو کر آزاد فضا میں سانس لینا چاہتی تھی ،اس میں بغاوت کا عنصر پل رہا تھا۔‘‘
(حوالہ ا:عورت اور مچھلی،مشمولہ سڑک جارہی ہے ،ص ۱۲۸)
وحشی سعید زندگی کے معمولی سے معمولی مسئلے کو بھی بہترین طریقے سے کہانی بنانے کا ہنر رکھتے ہیں اور غیر معمولی واقعات کو بھی فنکارانہ انداز میں بیان کرنا جانتے ہیں ۔’’ارسطو کی واپسی ‘‘ اسی نوعیت کی ایک بہترین کہانی ہے جس میں انسانی اقدار کی پامالی کا رونا رویا گیا ہے ۔ایسے واقعات نہ جانے روزانہ بنیادوں پر فلستین اور کشمیر میں کتنے ہوتے رہتے ہیں ۔کہانی کا یہ خوب صورت اقتباس دیکھئے جس سے موجودہ صورت حال کی عکاسی ہوتی ہے :
’’وہ عام شہری جس کو فوجیوں نے بکتر بند گاڈی کے سامنے والے حصے پر باندھ لیا تھا ،اس سے سنسان شہر کی سنسان گلیوں اور سڑکوں پر گما رہے تھے ۔وہ فوجی اپنی اس فتح پر ناچ ترہے تھے ۔بگل بجا بجا کر جیت کا اعلان کر رہے تھے ۔۔۔وہ صبح بھی کالی تھی وہ شام بھی سیاہ تھی جس نے ایک عام شہری کو انسانی سپر بنتے ہوئے دیکھا ۔جس فوجی نے انسانیت کو پامال کیا اس فوجی کو اس کے کمانڈر نے بہادری کے تمغے سے نوازا ۔‘‘
(حوالہ :ارسطو کی واپسی ،ص ۲۶۔۲۷)
ریاست جموں و کشمیر میں مز احمتی ادب کی تاریخ میں کچھ اہم افسانہ نگار اہمیت کے حامل ہیں جن میں غلام نبی شاہد ،منصور احمد منصور ،ریاض توحیدی ،قابلِ ذکر ہیں ۔غلام نبی شاہد کا افسانوی مجموعہ ’’اعلان جاری ہے ‘‘جو مختلف ۲۳ کہانیوں پر مشتمل ہیں بیشتر کہانیاں کشمیر میں ہو رہے جبر و ظلم کی داستان ہے ۔خاص طور سے افسانہ ’’آجادی ‘‘ جس میںایک معصوم بچے کا جواب سن کر ڈیوٹی پر تعینات فوجی سریندر دیکھتا ہی رہ جاتا ہے :
’’سریندر یہ سب دیکھ رہا تھا ۔وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھاکر بچے کے قریب آگیا اور چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھمتے ہوئے بولا ۔یہ لو اب تو چپ ہو جاو ۔۔۔چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا ۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمنان سے پوچھا ۔’’شاباش ۔۔۔اب بو لو اور کیا چاہیے ‘‘بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمنان سے جواب دیا ۔۔۔’’آجادی‘‘۔‘‘(حوالہ ،آجادی ،اعلان جاری ہے ،ص ۵۵۔۵۴)
اسی طرح کی مختلف کہانیاں ان کے افسانوی مجموعے میں شامل ہیں ۔یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ غلام نبی شاہد کے سبھی افسانے کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں گولیوں ،بم دھماکوں ،چھاپہ ماریوں ،تلاشیوں ،شناختی پریڈوں ،پولیس حراستوں ،حراستی ہلاکتوں اور غائب نوجوانوں کی روداد قلم بند کی گئی ہے ۔کہیں کہیں استعاروں اور علامتوں جیسے کتوں ،ابابیلوں وغیرہ کے ذریعے بھی اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
برِ صغیر کے ادبی افق پر جو خواتین افسانہ نگار سامنے آئیں ان میں وادی سے تعلق رکھنے والی مشہور افسانہ نگار ترنم ریاض اہم ہے ۔ان کی افسانوی کائنات قدرے مختلف ہے ان کے یہاں ہر قسم کے احساسات ،جذبات ،مشاہدات اور تجربات کی عکاسی نہایت نازک انداز سے ملتی ہے ان کا افسانوی ڈکشن امتزاجی مزاج رکھتا ہے جس میں رومانی فضا بھی نظر آتی ہے دکھ اور غم کی داستان بھی ملتی ہے ۔موضوعاتی تنوع ان کی تخلیقات خاصہ ہے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ان کی تحریریں ملتی ہیں خاص طو ر سے عورتوں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتی ہے ۔عورتوں پر ہو رہے ظلم ،ازدواجی زندگی میں عورتوں کی حد سے زیادہ قربانیاں اس نوعیت کے نازک مسائل ہیں جن کی طرف موصوف نے توجہ دی ہے ۔’’بلبل ‘‘ اسی نوعیت کی ایک کہانی ہے ۔افسانہ’’ رنگ‘‘ میں اقدار کی پامالی کا ذکر ملتا ہے ۔
موجودہ سماج میں خونی رشتوں کے درمیان خونی لکیریں کھینچی گئی ہیں صحت مند سماج کا شیرازہ بکھر رہا ہے ۔یہاں تک کہ بیٹیاں اپنے باپ کی حفاظت میں محفوظ نہیں ۔اسی صورت حال کا تذکرہ ترنم ریاض کے افسانہ ’’باپ ‘‘ میں ملتا ہے ۔باپ جو بہت ڈراونا ہے صرف شراب پیتا رہتا ہے ۔بیوی یعنی بچوں کی امی سے بات نہیں کرتا ۔باپ اپنی لڑکیوں کو بھی نہیں بخشتا ۔ان پر طرح طرح کی نگاہیں ڈالتا ہے :
’’ناظمہ ۔۔۔جب وہ اٹھنے لگی تو باپ نے اس کے شانے کے پیچھے ایک بھاری سی تھپکی دی اور اس کی پوری پیٹھ پر باتھ پھیرا کر اس کے کندے کو انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان زور سے پکڑکر آواز دھیمی کر کے بولا’’آج ہری مرچ نہیں ہے کیا ؟‘‘۔۔۔ناظمہ نے بات کرتے ہوئے کندھا آہستہ سے چھڑا دیا اور اندر جانے لگی ۔باپ کی نگاہیں کبھی کبھی شائستہ کے ننھے سے بدن کا طواف کر کے اس کے بھرے بھرے رخساروں پر ٹھہرجاتیں ۔۔۔ وہ منہ بھر بھر اس کے گالوں کے کئی کئی بوسے بھی لے لیتا ۔۔۔ــ‘‘(حوالہ :ابابیلیں لوٹ آئیں گی،باپ ،ص ۴۸)
افسانے کا کردار باپ کی صورت میں اپنی بیٹیوں کے متعلق کیا خیالات رکھتا ہے ۔اقتباس سے ساری صورت حال واضح ہوجاتی ہے ۔ ’’شہر ‘‘ ان کا مشہور افسانہ ہے جس کے متعلق مصنفہ کی راے ہے کہ’’لکھنے کے بعد میں اس افسانے کو پڑھنے کی جرات نہ کر سکی ‘‘۔یہ افسانہ ایک عجیب فضا پیش کرتا ہے ۔ایک دلدوز کہانی ہے جس میں ایک نوجوان اپنے دو بچوں کے ساتھ شہر کی رونق اور بچوں کے مستقبل کے پیشِ نظر قصبے سے اپنا تبادلہ شہر میں کراتا ہے اور وہاں باقی لوگوں کی طرح شہر کی گہما گہمی میں کھو جاتے ہیں اور اس طرح باقی لو گوں کی طرح نوجوان کے بیوی کے موت کی خبر چودہ منزلہ عمارت میں دفن ہوجاتی ہے ۔
ترنم ریاض اردو افسانے کی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے ۔ دلی ،ممبی اور کشمیر کے امتزاجی کلچر کی نمائندہ تصویریں بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے کہ سکتے ہیں کہ موصوفہ ریاست جموں و کشمیر کی سب سے اہم خواتین افسانہ نگا ر ہے انہیں اپنی افسانوی کائنات کی بنا پر جو شہرت اردو دنیا میں ملی وہ بعض اعتبار سے قابلِ غور ہے ۔بقولِ نارنگ :
’’ترنم ریاض وادی کشمیر کا گلِ نورس ہے جس نے افسانے کی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں زمین سخت اور آسمان دور ہے ‘‘(بحوالہ :اردو افسانے کے صد رنگ جلوے،ص ۱۹۴)
کشمیر میں معاصر افسانہ نگاروں کی فہرست کافی طویل ہے جن میں ناصر ضمیر ،پرویز مانوس ،مشتاق احمد کینی ،شیخ خالد کرار ،میر ایوب ،مقبول ساحل ،ریاض توحیدی ،طارق شبنم ، راجہ یوسف ،نیلوفر نحوی نازوغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔(فہرست سازی مقصود نہیں ہے )
طارق شبنم موجودہ دور کا ایک اہم افسانہ نگار ہے جو تقریباً ہر ہفتے کشمیر عظمیٰ کے ادب نامہ میں ایک نئی تخلیق کے ساتھ چھپتے ہیں تا حال ان کے افسانوں کے تعداد ایک سو کے قریب ہے جن میں ’’بے درد زمانہ‘‘،اندھیرے اجالے ،اعتبار ،انتظار ،بیس سال بعد،درد کا رشتہ ،بغاوت ،گھر واپسی ،آیئنہ فروش اور دوگز زمین قابلِ ہیں ۔واضح رہے طارق شبنم کا کوئی افسانوی مجموعہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ان کی تخلیقات مقامی رنگ سے لے کر آفاقی سطح تک کی ہوتی ہے ۔اپنے زمینی رشتوں سے جڑ کر عصری حقائق کی عکاسی کرنا طارق شبنم کو خوب آتا ہے اپنے افسانہ ’’آیئنہ فروش‘‘میں لکھتے ہیں :
’’آخر کب تک یہ موت اور تباہی کا خونین رقص جاری رہے گا ۔۔۔
سچ یہ ہے آپ نابینائوں کی نگری کے آئینہ فروش ہو ،جہاں کے راجائوں کی بینائی مادی مفادات کی بدنما پٹیوں کے تلے دب چکی ہے ‘‘
(حوالہ:کشمیر عظمیٰ ۲۳ستمبر ۲۰۱۸)
کلام حاصل یوں رقم کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں معا صر اردو افسانے کی صورت حال کا جائزہ لے کر کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں اردو افسانے کا مستقبل روشن اور تابناک ہے جس کو مندر جہ بالاتخلیق کا رفروغ بخشنے میں پیش پیش ہے ۔
حوالہ جات:
۱:جموں و کشمیر میں اردو افسانہ ،از نورشاہ ،مشمولہ شیرارہ،جموں و کشمیر اکادمی آف آٹ کلچر اینڈ لینگویجز ،شمارہ نمبر ۴،ص ۳۷
۲:کشمیر کہانی ،نورشاہ،۲۰۱۲ء،میزان پبلیشرز سرینگر،ص۱۶۳
***