پروفیسراخلاق آہن، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
akhlaq.ahan@gmail.com
کلام ۔ اخلاق احمد آہن
نعت
ضمیرِ ابنِ آدم کو ہے یہ ادراک صدیوں سے
“چمن میں ہر طرف جلوہ محمد مصطفی کا ہے”
غلاموں کے بنے والی، یتیموں کے ہوئے مولیٰ
سرِ ضعفاء جو ہے عُروہ، محمد مصطفی کا ہے
ہر اک انساں مساوی ہے، ہو اعرابی کہ ایرانی
یہ پندِ قدسیہ، اُسوہ محمد مصطفی کا ہے
مَسِ پاکِ محمد میں ہے پنہاں اذنِ ربّانی
شفا جس میں ہے وہ عَجوہ، محمد مصطفی کا ہے
کشیدِ جامِ یزدانی، نبوغِ جمعِ انسانی
براہیمی سنن، شیوہ، محمد مصطفی کا ہے
امامِ انبیاء، ختمِ رْسْل، خیرالوریٰ وہ ہیں
ضیائے مکّہ و مروہ محمد مصطفی کا ہے
عروجِ آدمیت کو جِلا ان کی وراثت سے
کرم، بخشش کا سب عشوہ، محمد مصطفی کا ہے
جنھیں چشمِ بصیرت ہے وہ سب ہیں عاشقِ مرسل
انھیں کے دم سے یہ ندوہ، محمد مصطفی کا ہے
نقوشِ نورِ عرفاں سے مزین ہیں قدم جن کے
مبارک ذات، وہ قَدوہ، محمد مصطفی کا ہے
۲؍نومبر۲۰۲۰ء، جے این یو
نوٹ: یہ نعت پروفیسر خواجہ اکرام کی تحریک کے نتیجہ میں کہی گئی ہے۔ خدا انھیں جزائے خیر دے۔ آمین
غزل
میں ڈھونڈتا رہا تری زلفِ سیہ میں دل
میخانہ تیرا چہرہ ہے لب جامِ انگبیں
چشمِ غزال و رشکِ قمر، گیسوئے بلند
لمساتِ جان بخش کا حامل وہ مہ جبیں
بنتا بھی کوئی کیسے مرا ہمسر و رقیب
کوچے میں دیدِ ماہ کی خاطر ہوں جا گُزیں
وہ خوابِ وصل و شوخیِٔ مہ پارہ شوخ طبع
خم ہائے پنج شیری و اندامِ مرمریں
کیا کیا بتائیں رمز و رموزِ لبِ قتیل
شیرین و سرخ و نازک و نمناک و آتشیں
میرے تپیدِ دل میں تڑپتا وہ شوقِ وصل
رفتارِ خونِ جاں میں نشستہ وہ دل نشیں
آہن بہ شوقِ دید و ملاقاتِ دلبراں
حسرت گَزیدہ، خون چکاں، چاک آستیں
۲؍ستمبر ۲۰۲۱ء، جے این یو
حرفِ دل
(جانشینانِ سرسید کے نام!)
داستانِ مرگِ ملّت ہند کی
جس پہ ہے یہ گریہ زاری رند کی
اور پھر اک شاعرِ عہدِ جنوں
لا رہا پیغامِ برہانِ دروں
اک سکونِ آگہی، عرفان کی
اک تحیّر وجد پہ، وجدان کی
خفتہ ذہنوں کو ندائے زندگی
جو خمیدہ ہیں انھیں شرمندگی
گر ہے زورِ خلق کچھ اذہان میں
کوئی چنگاری جلا ایقان میں
پھر شرارِ زندگی ایجاد کر
پھر سے نقشِ احمدی کو یاد کر
بزمِ امکاں آج شرمایا ہوا
ہر طرف دامِ سکوں چھایا ہوا
اک طرف ہیں سازشیں اغیار کی
اک طرف ہے خفتگی بیمار کی
کیا ہے کیا ہے؟ کیسے کیسے کیا کہیں؟
کس کی کسی کی داستاں تم سے سنیں؟
اے فقیرِ آستانِ لایزال!
امت مرسل ذرا خود کو سنبھال!
کس طرح روئے ہیں تیری بزم میں
سید و اقبال و حالی رزم میں
تو نہیں سنتا جو اُن کی خود کی سن
کیوں ہے ضائع ہورہا، ہے کس کی دھُن
کب تلک یونہی غریقِ خواب ہو؟
کب تلک غرقابِ نوش و ناب ہو؟
کب تلک یہ قہقہے وحشت زدہ؟
کب تلک تیری خرد فرصت زدہ ؟
کب تلک تم دشمنوں کے دْم چھلے؟
کب تلک ہم یوں رہیں بس دل جلے؟
ہیں منافق کچھ تو ہیں بیزار کچھ
کچھ عمل میں ہیں نرے، بیکار کچھ
کچھ کے سر میں ہے ہوس اسوار کی
کچھ ہیں رکھتے ذہن و دل بیمار کی
کچھ قیادت کے لیے پاگل ہوئے
کچھ انھیں کے پشت و رو بے کل ہوئے
کوئی بننا چاہتا سید مگر
ہے نہ ہی فکرِ رسا، سوزِ جگر
جامعات و درسگاہ و خانقاہ
بن گئے ہیں جہل کے عالم پناہ
کیا کہیں دانشوری کا حال اب
ان کے دم سے عقل و دانش جاں بہ لب
اور نہ شوقِ علم میں طالب کوئی
اک جمود و کم نگاہی، گمرہی
اور عوام الناس ہے غرقِ وبال
انتظارِ رہبرِ شیریں مقال
خود سے کچھ کرتے نہیں، کوشش کوئی
کوئی بھی حرکت نہیں، خواہش کوئی
امتی کا ڈھونگ ہے، ایماں نہیں
وہ بھی کیاِ؟ اقدار میں انساں نہیں
ہاں وہی قرآں کہ جو منشور ہے
اس سے کیا رشتہ تمھیں منظور ہے؟
منبعِ ایمان اب تعویذ ہے
امتی ابلیس کا تلمیذ ہے
فتنۂ عالم کا یاں چنگال ہے
اور یہ قید و اسیرِ جال ہے
ہر طرف اک ہائے و ہوئے و شور و شب
ہے شبیہ امّتِ مُرسل یہ اب
ہے فقط اسلاف کا نامِ نگیں
کچھ نہیں نسبت ذرا ان سے کہیں
ہے کوئی بیزار اسمِ دین سے
اور دیں مہجور ہے فتّین سے
قتل و غارت، شور، دیں کے نام پر
اور پھر دُشنام اس الزام پر
رہبرانِ دین و دنیا کا یہ حال
جہل میں آغشتہ ہیں ان کے مقال
ہے نہ سوزِ دل، نہ فکر و آگہی
خود دمِ ظلمت میں، ان سے گمرہی
مسجد و مکتب، کتب خانے سبھی
ہیں تہہِ گرد و غبار و بے بسی
ہے اگر دعوی تمھیں اسلام کا
ہے اگر پاسِ محمدﷺ نام کا
پھر کرو یہ آج عزمِ دل نشیں
ہاں وہی پیغامِ اوّل جاں گزیں
پھر وہی ارشادِ اقراء کا عَلَم
اٹھ کھڑے ہوں، سب ہوں اس میں ہم قدم
ہر دہات و قصبہ و اکناف میں
ہر نشان و ہر رہِ اسلاف میں
نورِ شمعِ اِقروی کو عام کر
علم کو تو پھر سے زیبِ بام کر
پھر سے افلاطونِ ثانی ہوں یہاں
بوعلی سینا مکانی ہوں یہاں
پھر سے ہو روشن چراغِ نورِ علم
زندہ ہو اخلاقِ عالی، لطف و حلم
سر غرورِ آگہی کا جام ہو
تشنگیِٔ علم ہی پیغام ہو
ہے خدا کا واسطہ تجھ کو یہی
ہے محمدﷺ کا گلہ تجھ سے یہی
چینخ کر قرآن کہتا ہے یہی
حیدری برہان کہتا ہے یہی
جانشینانِ حبیب اللہ ہو
حاملِ عشقِ محمدﷺ بھی بنو
ہے اگر ان سے کوئی نسبت تری
ہے اسی پیغام میں عظمت تری
میں ہوں مجبورِ ضمیرِ نور سے
ہوں گرفتارِ پیامِ طور سے
ایک خطرہ آ کھڑا ہے در پہ اب
دیکھ سکتے ہو تو دیکھو روز و شب
ایک تیغِ بے نیام اب اہے اٹھی
گر نہ سنبھلو گے تو آمادہ کھڑی
سازشوں کا سلسلہ صد سالہ ہے
دیکھتے ہو جو فقط پرنالہ ہے
دستِ قدرت اب عناں پر ہر جگہ
فکرِ فسطائی کا منبع دو رگہ
ایک جہلِ بے اصل، میراثِ خام
ہے بھرا افرنگ کے شر سے یہ جام
اک جنون و ابلہی، تلخابِ شور
جو کشیدِ برلن و انسان خور
اس کا ظاہر خوش نما ان کے لیے
جو سرابِ لغو میں پلتے رہے
پر حقیقت اژدہا رو ہے یہاں
اکثریت ہے خریدارِ زیاں
ہر طرف بازارِ بہتانِ عتاب
اب دھڑلّے بک رہی یہ زہرِ ناب
پی کے ہیں بدمست عام و خاص سب
رکھ کے طاقوں پر خرد، ہوش و ادب
اب سَمومِ عالمی نے یہ کیا
ایک چنگاری کو شعلہ کر دیا
یاں پہ مظلوموں کی حالت یہ ہوئی
ہر طرف ہے منتشر، بکھری ہوئی
منتشر افکار، دل بکھرے ہوئے
ہوش و جوش و جذبہ سب ٹوٹے ہوئے
ہے نہ کوئی اتحاد و آشتی
نا خلوص و جاں نثاری، راستی
کچھ ہیں جذبِ انصرامِ بد رکاب
کچھ ہیں بے حالی کی دْھن پہ محوِ خواب
بیشتر ہیں جہل کے مخروب میں
اور کچھ ہیں حالتِ مصلوب میں
دینِ احمد پر نشانہ ہر طرف
نفرتوں کا شاخسانہ ہر طرف
ترجماں ہیں جو بنے اسلام کے
سنگریزے تھامے ہیں دشنام کے
اک زوالِ آگہی مغلوبِ سر
ایک طوفانِ ہوس، خوابِ حذر
کیسا بسمل ہے کہ محوِ خواب ہے
زندگی غمازۂ خونناب ہے
فتنہ جو، تحقیر خو، حاسد منش
کیسے نسلِ نو کی ہوگی پرورش
خونِ دل مردہ، خرد فرسودہ تر
پائے ہمت دن بہ دن پژمردہ تر
وہ جو ہیں ذہن رسا، بکھرے ہوئے
منتظر ہیں کوئی دھاگہ جوڑ دے
موتیوں کے سارے دانے ایک ہوں
جاں نثار و با فراست، نیک ہوں
عزمِ مثبت، فکرِ ندرت، اضطراب
ملک و ملت میں جو لائیں انقلاب
انقلابِ علم و دانش، فکر و فن
انقلابِ بازیابِ حسن ظن
ہوش و دانش پھر ترا مشروب ہو
ایشیائی علم پھر محسوب ہو
بیتِ حکمت پھر سے احیاء کر کے دیکھ
ہو فلاطونی روش کی دیکھ ریکھ
سب زبان و علم و حکمت ہند کی
وہ خراسانی صبا سرہند کی
دکن و بلخ و بخارا و ہرات
دہلی و قزویں، دمشق و صوبجات
کر کشیدِ آبِ احمر، جوش دے
آتشِ عرفانِ جاں کو کوش دے
اٹھ دلوں کے ظلمتوں کو پھونک دے
وحشتوں کو، خوفِ شر کو دھونک دے
کچھ تو کر اے پیروِ احمد انام!
ہے یہ حرفِ دل، ذرا سن! والسلام!!
اخلاق آہن
پروفیسر، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
akhlaq.ahan@gmail.com
۲۲؍نومبر۲۰۲۰ء