علیزےنجف( انٹرویو نگار )
سرائےمیر اعظم گڈھ یوپی
کچھ لمحے نگہت خان جتوئی کے ساتھ
ایک ادیب اپنے خیالات کا اظہار مختلف ذریعے اور اشکال میں کرتا ہے کبھی وہ مضمون کی صورت اپنے خیالات کو ظاہر کرتا ہے اور کبھی خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں اپنے احساسات کو سموتا ہے انشائیہ نگاری اور مزاح نگاری کے ذریعے بھی اکثر لوگ اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں ان میں سے ایک معروف و مقبول طریقہ انٹرویو نگاری بھی ہے ذاتی طور پہ میں اس کو پسند کرتی ہوں کیوں کہ اس کے ذریعے کامیاب شخصیات کو اپنے عمر بھر کے تجربات کو بہت ہی نفیس اور مختصر انداز میں بیان کرنے کا موقع ملتا ہے اس طرح سیکھنے کی طلب رکھنے والے ایک لمبی مسافت طئے کئے بغیر ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس خاص میدان سے متعلق ان کے تجربات و نظریات کا نہ صرف تجزیہ کرتے ہیں بعض اوقات وہ موضوع گفتگو بھی بن جاتا ہے اس تمہید کی روشنی کی لو کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے بھی ایک ایسی شخصیت کا انٹرویو لیا ہے جن کا تعلق شعبہء وکالت سے ہے یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کو کسی نہ کسی پہلو سے انسانی حقوق کا ترجمان بھی کہا جا سکتا ہے اس کے ذریعے انسانی حقوق کی حصولیابی نہ صرف ممکن ہوتی ہے بلکہ لوگوں میں قوانین کے متعلق آگاہی بھی پیدا کی جا سکتی ہے کیوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی اس کے law and order کے مثبت نفاذ کے مرہون منت ہے خیر جس وکیل شخصیت کا میں نے انٹرویو لیا ہے وہ نگہت خان جتوئی کے نام سے جانی جاتی ہیں جو کہ نہ صرف ایک وکیل ہیں بلکہ ایک لکھاری بھی ہیں انھوں نے اس دو جہتی سفر کے دوران کس کس طرح کی چیزوں کا تجربہ کیا ہے آئیے ان سے اس پہلو پہ بات کرتے ہیں علیزےنجف!
علیزےنجف؛.سب سے پہلے آپ ہمیں اپنے آپ سے متعارف کروائیں ؟.
نگہت خان : میرا نام نگہت خان جتوئی ہے میرا تعلق بہاول پور سے ہے میں نے اردو ادب میں بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے ماسٹرز کیا اس کے فورا” بعد میری شادی ہو گئی پھر خاتون خانہ کی حیثیت سے گھریلو ذمے داریوں میں مصروف ہوگئ اور 15 سال تک بچوں کو سنبھالتی ،پڑھاتی رہی اس دوران پھر سے پڑھائی کا شوق ہوا تو لاء کاج میں داخلہ لے لیا اور ایل ایل بی کیا کمپلیٹ کیا ۔چار سال تک پریکٹس کی پھر گھریلو مصروفیات کے بڑھ جانے کے باعث لاء پریکٹس چھوڑ دینی پڑی۔ اس عدیم الفرصتی کی گرفت اب ذرا ڈھیلی ہوئی ہے تو ارادہ ہے پھر سے بطور وکیل لوگوں کی خدمت کرنے کا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
علیزےنجف؛ .آپ کی پرورش و پرداخت کس طرح کے ماحول میں ہوئی اس وقت کے ماحول میں آپ نے ایسی کیا خاص چیز محسوس کی جو آج آپ کو مفقود نظر آتی ہے؟
نگہت خان؛ میری پرورش پررداخت الحمدللہ بہت اچھے ماحول میں ہوئی ماحول بھی انتہائی سازگار رہا اور گھر والوں کا تعاون بھی میسر رہا اللہ تعالی کی ہر نعمت میسر رہی اور الحمدللہ اب بھی ہے ۔
تب کے ماحول میں اور اب کے ماحول میں فرق صرف اتنا ہے اب سیاسی ،سماجی ،مذہبی رویوں میں شدت پسندی بڑھ گئی ہے ۔
اور اس وقت معاشرے میں لوگ قانون کی پابندی زیادہ کرتے تھے جس کا تناسب موجودہ وقت میں کافی کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے
علیزےنجف؛ .آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے آپ نے تعلیمی سفر کا یہ مرحلہ کس طرح طئے کیا؟
نگہت خان؛ میری تعلیمی لیاقت ایم۔اے۔ ، ایل۔ایل۔بی۔ ہے
علیزےنجف؛ .زندگی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے اور آپ کی زندگی کا اب تک کا سفر کیسا رہا ہے؟
نگہت خان! میرے خیال اور تجربے کے مطابق زندگی ایک نعمت ہے جس کی قدر کرنی چاہئے اور جب تک زندگی ہے اس میں سیکھتے رہنا چاہیے، حصول علم کے تئیں کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہئے زندگی میں کبھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم نے سب سیکھ لیا اور جو سیکھ لیا ہے یا جو جانتے ہیں وہی حرف آخر ہے ۔یہاں حرف آخر کچھ نہیں۔ اس لئے rigid behaviour زندگی کے کسی بھی معاملے میں نہیں ہونا چاہیے۔ایسے لوگ نہ خود کچھ سیکھتے ہیں نہ ہی دوسروں کو سیکھنے دیتے ہیں۔ اور انسان کو زندگی میں جو ہنر سیکھنا چاہیے وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے ایسے موقعے پر جب اختلاف رائے ہو جائے ۔اور جتنا ممکن ہو اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔میری زندگی کا سفر بس ان ہی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گزرا ہے اور گزر رہا ہے
علیزےنجف؛ آپ کے نزدیک موت کیا ہے ؟
نگہت خان؛ ۔میرے نزدیک موت ایک نئے سفر کا آغاز ہے کسی اور dimension میں ۔
علیزےنجف؛.آپ کی اب تک کی زندگی کا مقصد و حاصل کیا رہا ہے اور کوئ ایک خاص سبق جسے آپ نے تجربے سے سیکھا اور اپنی اگلی پیڑھی کو سکھانے کی خواہشمند ہیں؟
نگہت خان؛ بعض اوقات ہماری زندگی کا مقصد ہماری زندگی میں پیش آنے والے تجربات، مشاہدات متعین کرتے ہیں یوں تو میری زندگی میں بہت سے مقاصد تھے جن میں اہم ترین یہ تھا کہمجھے خدا کی تلاش تھی بہت شدت سے اس کی جستجو میری رگ و پے میں تھی اور اسی تلاش میں زندگی کا سفر گزرا اور اپنی نئی پیڑھی تک یہی پیغام ہے ہمیشہ سیکھتے رہیں ،آگے بڑھتے رہیں مثبت سوچ کے ساتھ اپنی نیتوں کو خالص رکھ کر زندگی کے سبھی مراحل کو طئے کرنے کی جدو جہد کریں کیوں کہ کسی بھی مقصد کی تکمیل محنت اور کوشش کئے بنا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے آپ کا IQلیول بہت بہتر ہونا چاہیے۔
علیزےنجف؛.آپ کا تعلق شعبہء وکالت سے ہے آپ کا کیا خیال ہے اس شعبے کے انتخاب کے وقت ایک طالب علم کو اپنی کس خاص صلاحیت کو پالش کرنے کی ضرورت ہے؟
نگہت خان؛ وکالت کے شعبے کو چننا ہے تو پھر بہت زیادہ پڑھنے کی اور بہت محنت کی عادت ہونی چاہیے اور بہت rough and tough بھی ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ بہت زیادہ مشکل شعبہ ہے ۔
علیزےنجف؛ کیا ایک منصف وکیل کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ایک ایسے کیس کی وکالت کرے جس کے مدعی کا حق پہ نہ ہونا واضح ہو اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
نگہت خان؛ ہر شعبے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔میں تو کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہ دوں مگر ایسے بہت سے ہیں جو ایسا کرتے ہیں اور اس کا جواز بھی دیتے ہیں۔بس دنیا ایسے ہی چل رہی ہے ۔اور ایسے ہی چلے گی ۔حق اور باطل کی جنگ ہر جگہ ہے
علیزےنجف؛.آپ کی اب تک کی زندگی کا مقصد و حاصل کیا رہا ہے اور کوئ ایک خاص سبق جسے آپ نے تجربے سے سیکھا اور اپنی اگلی پیڑھی کو سکھانے کی خواہشمند ہیں؟
نگہت خان؛ بعض اوقات ہماری زندگی کا مقصد ہماری زندگی میں پیش آنے والے تجربات، مشاہدات متعین کرتے ہیں یوں تو میری زندگی میں بہت سے مقاصد تھے جن میں اہم ترین یہ تھا کہ مجھے خدا کی تلاش تھی بہت شدت سے اس کی جستجو میری رگ و پے میں تھی اور اسی تلاش میں زندگی کا سفر گزرااور اپنی نئی پیڑھی تک یہی پیغام ہے ہمیشہ سیکھتے رہیں ،آگے بڑھتے رہیں مثبت سوچ کے ساتھ اپنی نیتوں کو خالص رکھ کر زندگی کے سبھی مراحل کو طئے کرنے کی جدو جہد کریں کیوں کہ کسی بھی مقصد کی تکمیل محنت اور کوشش کئے بنا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے آپ کا EQلیول بہت بہتر ہونا چاہیے۔
علیزےنجف؛.خدا سے تعلق بنانے میں لوگ مقلدانہ روش کیوں اپناتے ہیں وہ تحقیقی مزاج سے کیوں دور ہوتے جارہے ہیں یہ صلاحیت کا فقدان ہے یا تربیت کا خلا؟
نگہت خان؛ مقلدانہ روش اس لئے ہے کہ خود خدا کے بارے میں بات کرنے والے اس روش کو پرموٹ کرتے ہیں اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان کی مقلدانہ ذہنیت بھی ہوتی ہے
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسان جس مذہب کے خاندان میں پیدا ہوتا ہے اسی کی تقلید اور پیروی کرنا سیکھتا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے بہت سخت رویوں اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
اس لئے انسان کو گھر سے اور سماج سے ہی تحقیق اور تجسس نہ کرنے کی تربیت ملتی ہے ۔ اور اسے اپنی خاندانی اور سماجی روایات اور رسم و رواج کا پابند بنادیا جاتا ہے۔ یوں ان کے اندر تحقیقانہ صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے بہت کم ہی لوگ ایسے حالات میں ایسے نکلتے ہیں جو ان روایات کے خلاف بات کرتے ہیں۔اور پھر وہی معتوب بھی کئے جاتے ہیں اور مصلوب بھی ۔
علیزےنجف؛ .دین اسلام میں معرفت کو مغز کی حیثیت حاصل ہے ایک سچے متلاشی کے لئے اس کا حصول کس طرح کے خاص طرح کے مرحلے سے گزر کے ممکن ہے؟
نگہت خان؛ ہر حال میں مثبت سوچ اور اس سوچ پر مثبت عمل ہی اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرنے راستہ ہے ۔
علیزے نجف ؛کیا آپ اپنی کتاب لکھتے ہوئے کسی خاص مکتب فکر سے متاثر ہوئیں تھیں یا یہ خالصتا اس فطرت کے تحت لکھی گئ ہے جس پر کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے؟
نگہت خان؛ میں نے اپنی کتاب میں اسلام کی آفاقی حقیقت پر اور قرآن کی حکمت اور قرآن کی تاریخ پر بات کی ہے یہ وہ چیزیں ہیں جو قرآن کے اور اسلام کے حوالے سے تلاش خدا کی جد و جہد میں میری نظر سے نہیں گزری تھیںباقی جہاں تک مسالک کی بات ہے تو یہ سچ ہے ان مسالک میں کون سچا ہے اس پر اپنی ذات کی حد تک تحقیق کرتے ہوئے ہی یہ حکمت مجھ پر کھلی
اور پھر اپنی تحقیق کے مطابق غیر جانبدار رہ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی کتاب اسی تحقیق کے دوران اخذ کئے گئے نتائج پر مبنی ہے۔
علیزےنجف؛.زندگی گزارنے کے لئے اصولوں کی پاسداری کس قدر ضروری ہے کیوں کہ عموما با اختیار لوگ اصولوں کو نہیں اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں؟
نگہت خان؛ زندگی گزارنے کے لئے ریاست کے اصولوں کے ساتھ بنیادی اصولوں پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔ کیوں کہ اصول ہی کسی انسان کو تہذیب یافتہ یا تربیت یافتہ ظاہر کرتے ہیں اس لئے میرے خیال میں اصول نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔
اور یہ سچ ہے کہ ہر دور میں طاقتور لوگ اپنے مفادات کے مطابق اصول بناتے ہیں۔ جوکہ خرابی پیدا کرتا ہے مگر کیا کیا جائے ہمیشہ سے انسانی فطرت طاقت اور اقتدار حاصل ہونے پر ایسا ہی ردعمل دیتی رہی ہے اور دیتی رہے گی ۔ ہم اپنے دائرہء کار میں رہتے ہوئے اس کا تناسب بہتر بنانے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔
علیزےنجف؛ عموما لوگ پسندیدہ شعر سننے کی فرمائش کرتے ہیں لیکن میں اس روش سے ذرا ہٹ کے کہوں گی کہ اپنا کوئ پسندیدہ جملہ سنائیں؟۔
نگہت خان؛ میرا پسندیدہ جملہ ہے Tell me something that I don’t know.
علیزےنجف؛ بحیثیت ایک لکھاری اور وکیل کے اس سے بڑھ کر بحیثیت ایک انسان کے آپ لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
نگہت خان ؛ انسان کو اور انسانیت کو سمجھیں اور اچھے انسان جو کہ ہر رنگ، نسل ،مذہب میں ہوتے ہیں ان کی قدر کریں۔اور انسانیت کی فلاح ،تعلیم اور ان کے درمیان عدل وانصاف کو ترجیح دیں ۔تاکہ تمام انسان معاشرے میں امن کے ساتھ رہ سکیں ۔
***