You are currently viewing کہانی متاشا کی اور غالبؔ کے دو شعر

کہانی متاشا کی اور غالبؔ کے دو شعر

 دائم محمد انصاری ،  کلکتہ ۔

کہانی متاشا کی اور غالبؔ کے دو شعر ۔

غم ہستی کا اسد! کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

         مجھے اس بات کو ماننے میں تامل ہے کہ متاشا اگر لڑکی کے بجائے لڑکا ہوتی تو بھی قاری کے مجموعی تاثرات یکساں رہتے ۔ ایسی صورت میں متاشا اس شمع کی علامت کی صورت میں ہمارے سامنے وارد نہیں ہوتی جو مذکورہ بالا شعر کا خاصہ ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ شمع محفل شعر و سخن کی شمع سے بہت مختلف ہے ۔ یہ شمع حیات ہے جو ایک مفلس کی کٹیا کی دہلیز پر رکھی گئی ہے اور اس پر ستم یہ کہ ہوا ساکت بھی نہیںہے ۔ متاشا کی زندگی صرف پندرہ سال کی عمر میں جنسی زیادتی کے روح شکن تجربہ سے گزرتی ہے اور متاشا ، جس نے ابھی سن بلوغ میں قدم رکھا ہی تھا ، اپنی زندگی کے اس زہریلے سچ کو قبول تو کرلیتی ہے لیکن اس کربناک احساس کو وہ خود سے بھی چھپائے رکھنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ناول کے ارتقا میں متاشا کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہونے کے سبب وہ اپنی زندگی کے سب سے اندوہ ناک لمحے کو بھول گئی ہے ۔ اس نے بڑی حسن و خوبی سے وہی کیا جو ایک ہوشمند شخص کرتا ہے ۔ وہ بس خاموش رہی ۔ اس نے کسی کو یہ بات بتانی ضروری نہیں سمجھی ، حتی کہ اپنے سننے والوں کو بھی ۔ بہت آگے چل کر ناول کے ایک مقام پر وہ اپنی عصمت دری کے اس واقعہ کا دوبارہ ذکر کرتی ہے۔ متاشا کی قوت برداشت کا ایک بہت بڑا وصف یہ ہے کہ وہ اپنے اس سانحہ کو sensationaliseنہیں کرتی ہے اور نہ اپنے قاری /سامعین سے خواہ مخواہ کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ شاید اس کی ایک وجہ ہم یوںسمجھ سکتے ہیں کہ ایک لڑکی کے لئے کسی طرح روا نہیں کہ وہ اپنے زنا کی خبر کی تشہیر کرے ۔ لیکن چونکہ متاشا نے اپنی رودداد حیات کا کوئی بھی گوشہ چھپانے سے گریز کیا تھا اس لئے کہانی کے آغاز میں ہی اس کا زنا کے سانحہ کو بیان کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ متاشا کے دل میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اپنی زندگی کے بھیانک ترین تجربہ کا بھی ذکر کرنے سے نہ ڈری ۔ سیدھے سادے جملے میں اس کا یہ کہنا کہ ’’ میں چیختی رہی ، پاپا کو آوازیں دیتی رہی اور پاپا کے برابر مرد سے اپنی عزت لٹاتی رہی ‘‘، دراصل قاری کے دل کو دستک دیتا ہے کہ کیا صرف اتنا کہہ دینے سے اس کے دل میں متاشا کے تئیں ہمدردی اور اس کے کاکا کے تئیں نفرت کا جذبہ بیدار ہوجائے گا یا پھر اس کے لئے ناول نگار کو لمبی چوڑی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ جب تک کسی بھی واقعہ کو sensationaliseکر کے ہمارے سامنے پیش نہیں کیا جاتا ہے ، ہم پر اس کا خاطر خواہ تاثر نہیں ہوتا ۔ متاشا کے ساتھ کئی مرتبہ جنسی زیادتی کی کوشش کی گئی لیکن ناول کا بیانیہ کسی بھی واقعہ کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیںکرتا۔علی گڑھ میں اس کے انکل کا بدفعلی کرنے کی کوشش کرنا ، سوتیلے بیٹے انکت کا اس کے ساتھ جنسی جبر کا معاملہ ، یہ سارے واقعات اسی تیزی کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں جس طرح سے یہ متاشا کی زندگی میں پیش آئے ، فرق بس اتنا ہے کہ کسی بھی مقام پر راو ی / ناول نگار نے رک کر از خود متاشا سے ہمدردی جتانے کی کوشش نہیں کی ۔ اور نہ ہی متاشا نے اپنے سامعین سے ہمدردی کی طلب کی ۔

         اور میں سوچتا ہوں کہ ایساکیوں نہیں ہوا ۔ کیا ناول نگار کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ وہ چند لفظوں میں ہی سہی ، موریشور کاکا کے ساتھ عصمت دری کے واقعہ کے بعد متاشا کی ذہنی کیفیت کو قاری کے سامنے پیش کرتیں تاکہ ہم یہ جان پاتے کہ پندرہ سال کی اس لڑکی پر جو پیدائش کے بعد ہی سے اپنے ماں باپ کی نفرت کی شکار تھی ، کیا گذری ؟ بالخصوص جب کہ اس باپ ہی کہیں نہ کہیں اس واقعہ کا ذمہ دار تھا ۔ جیسا کہ آگے ناول میں اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اس کے باپ نے کبھی ایک باپ کا فریضہ ادا نہیں کیا ۔ متاشا کے لئے وہ بس ایک مرد تھا ، جس کا مقصد عورت کی ذلت کے سوا اور کچھ نہ تھا ، خواہ وہ اس کی اپنی بیٹی ہو یا بیوی ۔ لیکن ناول نگار متاشا کو ایک ایسی شمع بنانا چاہتی تھیں جو سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلے ۔ جنسی زیادتی کا معاملہ متاشا کی زندگی میں اس کے کردار کا ایک بہت بڑا Turning Pointہے ۔ گو کہ ناول کے بیانیہ سے ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا کیونکہ واقعات یکے بعد دیگرے تیزی سے ہمارے سامنے چلے آتے ہیں لیکن سچ پوچھئے تو اگر متاشا اس واقعہ کے بعد خود کشی کرلیتی یا پھر اس کا ذکر دوسروں سے کرتی تو پھر وہ متاشا کہاں رہتی جس کے نام یہ ناول منسوب کیا گیا ہے ۔ متاشا کی پراسرار خاموشی اتفاقیہ نہیں ہے ۔ وہ ایک جست میں زندگی کا سارا شعور و ادراک پالیتی ہے ۔ زنا بالجبر کے واقعہ کا تذکرہ کسی سے بھی نہ کرکے اور اپنی پڑھائی کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ اس مردانہ سوچ پر قوت سے وار کرتی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ لڑکی کے ساتھ زبردستی بد فعلی کر کے اسے مکمل طور پر توڑکر زندگی میں آگے بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے ۔متاشا ٹوٹتی تو کیا ، وہ ہر ایک چوٹ پر مضبوط تر ہوتی چلی گئی ۔جب سدھی دا اسے آکر بتاتا ہے کہ ’’بیڈ لک ، متاشا !‘‘ تو وہ فوراً کہتی ہے:

          ’’کیوں ؟ میں فیل ہوگئی ؟‘‘میں نے فوراً سے پیشتر قبول کرلیا ۔ ‘‘

         ہم اپنی زندگی میں عموماً ناکامی کو خوشدلی سے قبول نہیں کرتے ہیں لیکن متاشا فتح و شکست سے ماورا تھی ۔ بمبئی آکر اسے جوں ہی اسے نوکری میں اپنی ناکامی کی خبر ملتی ہے وہ فوراً کمر باندھ کر کھڑی ہو جاتی ہے ۔

         ’’ میں نے ٹھان لیا تھا کہ میں اب علی گڑھ خالی ہاتھ نہیںجائوں گی ۔ ویسے بھی کرفیو کی وجہ سے ممی بھی کام پر نہیں جارہی تھیں ۔ میرا بھی اسکول بند تھا ۔ ورجینا کو کرائے پر آدھا گھر دینے سے آدھے کرائے کا بندوبست ہوجاتا تھا ، باقی آدھا کرایہ اور دوسرے خرچ ! میں لوٹ کر بھی کیا کرتی ؟ نہیں میں لوٹ نہیں سکتی ۔‘‘

         تانیثی نقطہ نظر سے بھی اس ناول کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اول تا آخر ، متاشا کا کردار اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اسے ایک انفرادی حیثیت دی جائے ۔ اس پر کسی قسم کا ترس کھانے کے بجائے اسے ایک انسانی وجود سمجھا جائے ۔ پونا میں گوتم جب اسے اپنی بیوی کے مظالم کے متعلق بتا تے ہوئے اچانک رو پڑتا ہے تو متاشا فوراً ہی اسے سنھبالتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گی ۔ متاشا کا گوتم کے کندھے پر ہاتھ رکھنا بہت معنی خیز ہے کیونکہ تمام عمر متاشا کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ کر اسے یہ احساس نہیں دلا یا کہ کوئی اس کے ساتھ بھی ہے ۔ اور اگر لاگ لپیٹ کے بغیر میں بات کروں تو اس مقام پر متاشا کا کرداربیدی کے اندو کے کردار سے بہت آگے نکل جاتا ہے جو اپنے شوہر مدن کے گھر کو سنبھال کر محض ایک ذمہ دار بیوی کا فریضہ ادا کرتی ہے ۔ نہ تو مدن اپنی بیوی کا ستایا ہوا اور پانچ بچوں کا باپ تھا اور نہ ہی اندو بچپن سے اپنے دکھو ں کی ماری ہوئی لڑکی ۔ میں اب تک سمجھ نہیں پایا کہ اندو نے اپنی ازدواجی زندگی کے فرائض اداکر مدن کے ایسے کون سے دکھ اپنا لئے تھے جو بحیثیت بیوی صرف اندو کی شخصیت کا ہی خاصہ تھا ۔ اگر اس نہج سے دیکھا جائے تو ’کفن ‘ کی بدھیا میں ہمیں جذبہ ترحم اور جذبہ ایثار اندو کے مقابلے کہیں زیادہ نظر آتا ہے اور قاری کو اندو کے برخلاف بدھیا سے زیادہ ہمدردی اس لئے ہونی چاہئے کیونکہ وہ بیچاری اپنی کوکھ میں زندہ بچے کے ساتھ ایڑیاں رگڑ کر مر گئی ۔

         لیکن متاشا مذکورہ بالا دونوں کرداروں سے بہت آگے نکل گئی ۔ کیونکہ انفرادی سطح پر متاشا خود اپنے مصائب کی شکار تھی لیکن کسی مرد کو یارا نہ تھا کہ اس کے نزدیک آکر اس سے یہ کہتا کہ ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ (یوں بھی اردو فکشن میں ایسے مردوں کی تعداد بہت قلیل ہے)۔ متاشا نے گوتم سے بس اتنا کہا ’’فکر مت کیجئے ، میں آپ کا ساتھ دوں گی ۔‘‘ اور گوتم کے مرنے تک وہ ہر لحاظ سے نہ صرف اس کے ساتھ رہی بلکہ اس نے گوتم اور اس کے بچوں کے تمام دکھو ں کو اپنا یا ۔ یہاں ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ متاشا کوئی اعلی تعلیم یافتہ لڑکی نہیں تھی جس کے لئے ہم یہ جواز پیش کریں کہ اس کی اعلی ظرفی اور بلند ہمتی کا سبب اس کا علم ہے ۔ ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ ہی زندگی کی درس گاہ میں داخل ہوجاتا ہے لیکن جس طرح کلا س کا ہر طالبعلم سنجیدہ نہیں ہوتا اور اپنے استاد کے بتائے ہوئے سبق سے کچھ بھی نہیں سیکھ پاتا اسی طر ح یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر انسان اپنی زندگی کے تجربات سے کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لے۔ متاشا نے ایک سنجیدہ طالبعلم کی طرح زندگی سے وہ سب کچھ سیکھا جو زندگی نے اسے سکھایا اور وہ بھی جو اسے نہیں سکھایا گیا ۔ یہ ناول نگار کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ایک کم پڑھی لکھی لڑکی کے کردار کو انفرادی سطح پر اتنا بلند کردیا کہ وہ دوسروں کے لئے ایک مثا ل بن گئی ۔ اور اگر میں تمثیلاً اپنی بات کہوںتو یہ ناول حیات انسانی کا ایک نیا عہد نامہ ہے جس میں انسان کو رزم گاہ ہستی میں بطور ایک جنگجو پیش کیا جاتا ہے جہاں آخر میں اسی کی فتح یقینی ہے ۔

         متاشا نے بہت کم وقت میں اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ اب اسے دشت حیات میں آگے بڑھتے جانا ہے ۔ وہ پیچھے لوٹنا تو درکنار ، پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا بھی سوچ نہیں سکتی تھی کہ کون جانے پیچھے مڑ کر دیکھنے سے وہ پتھر کی بن جائے ۔ متاشا کے شعور میں یہ بات داخل ہوگئی تھی کہ غم ہستی کا سوائے موت کے اور کوئی علاج نہیں ہے ، اس لئے تب تک اسے ہر رنگ میںجلنا ہوگا یا خود کو جلائے رکھنا ہوگا ۔

رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج        مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

اس ضمن میں بس ایک اقتباس دیکھیں :

         ’’میں نے پیشانی زمین پر ٹیک دی اور کہا ، ’’کہاں جائوں ؟ ‘‘ دھرم کیا ہے ؟ خدا کیا ہے ؟ خدا ! تیرے اتنے نام کیوں ہیں ؟ تو نے ہر موڑ پر مجھے بچایا ، میرا دھیان رکھا ۔ کس کس روپ میں تو میرے سامنے آیا ۔ میں سب کچھ چھوڑ جائوں گی ۔ نونیتا کو میں نے یوں ہی لوٹا دیا ۔ غلط لوٹا دیا ۔ میںاسے لوٹا لوں گی ۔ کیا ہوا کہ دیپو چھوٹا ہے ۔ میں دیپو کو اس کے حوالے کردوں گی اور انسانیت کی خدمت کروں گی ۔ مجھے یہ بیڑیاں اتارنی ہوں گی ۔

         اوہ ! مجھے بڑی بے چینی محسوس ہو رہی ہے ۔ میں پسینے میں تر بتر ہو رہی ہوں ۔ سوچ رہی ہوں کہ شاید نہانے سے بے چینی دور ہوجائے ۔ میں اٹھ کر واش بیسن تک جاتی ہوں ۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہوں پھر باتھ روم کی طرف بڑھتی ہوں ۔ میرے سینے میں شدید درد اٹھ رہا ہے ۔ میںدوبارہ بڑی مشکل سے اپنی کرسی کی طرف بڑھتی ہوں ۔ کرسی میں مجھے اپنا پورا جسم وزنی محسوس ہورہا ہے ۔ میرے ہاتھ کرسی کے ہینڈل پر جمے جارہے ہیں ۔ پیروں کو زمین جیسے پکڑے ہوئے ہے ۔ شاید میری روح نکل رہی ہے ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ ٹائلٹ جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے ۔ لوگ مجھے دفنا دیں گے یا پھر جلانے کے لئے دعوی کریں گے ۔ میں مرگئی ہوں ۔ میں اپنے چہرے پر کسی کی سانسیں محسو س کررہی ہوں ۔ گہری گہری سانسیں ۔‘‘

         اگر یہاں تک بھی ناول ختم کردیا جاتا تب بھی متاشا کے کردار کی عظمت پہ حرف نہیں آتا کیونکہ موت بہر حال ہر ذی روح کا لازمی انجام ہے اور شاید اس موقع پر اگر متاشا مر جاتی تو اس کی موت ایک epic heroinکی طرح ہوتی ۔ لیکن ، کلائمکس کی توسیع کے ذریعہ ناول نگار نے یقینا متاشا کو زندہ جاوید کردیا ۔ عین اس وقت جب متاشا کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ قریب المرگ ہے ، نونیتا اس کے پاس آتی ہے جسے متاشا گلے سے لگاکر یہ خبر سنتی ہے کہ وہ دیپو کے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔ متاشا اس خبر کو تحمل سے سنتی ہے اور کہتی ہے :

         ’’دیپو جانتا ہے ؟‘‘

         ’’ہاں ، گرا دینے کو کہتا ہے ۔‘‘

         ’’پھر ؟‘‘

         ’’زیادہ دن ہو گئے ہیں ۔ جان کو خطر ہ ہے ۔‘‘میری نظریں چھت کی طرف اٹھ گئیں ۔ میں کرسی پر گر گئی ۔ وہ میرے گھٹنے پر سر رکھے بیٹھی تھی ۔

         بڑے کٹھن لمحے بیت رہے تھے ۔ پھر میں نے آنکھیں کھولیں اور کہا ۔

         ’’ اس سے کہنا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ پھر بھی نہیں مانتا ، تو بچہ مجھے دے کر کہیں اور اپنی زندگی بسالینا ۔ میں تمہیں اپنے بیٹے کی ذمہ داریوںسے آزاد کرتی ہوں ۔‘‘

         میںنے اس کے چہرے پر ایک سکون دیکھا ۔ پل ہی پل میں وہ ایک ہمکتے ہوئے بچے میں تبدیل ہوگئی اور ہاتھ بڑھا کر اپنی توتلی زبان میں کہنے لگی ۔

         ’’اب کیسے جائو گی دادی ۔۔۔۔!!!‘‘

         جنسی خواہش کی تکمیل میں سب سے بڑا مسئلہ عورت کے غیر ارادی طور پر ماں بننے کا ہوتا ہے ۔ مرد تو خود کو تمام معاملات سے بری الذمہ سمجھتا ہے اس لئے زندگی کی کسی بھی سطح پر وہ عورت کا اندرونی کرب سمجھ نہیںپاتا ۔ یہ صرف ایک عورت ہی محسوس کر سکتی ہے اور سمجھ سکتی ہے ۔ نونیتا اپنی مرضی سے حاملہ نہیں تھی ،

 اور نہ ہی دیپو کو اس سے کوئی فرق پڑتا تھا ۔ مرد کے لئے عورت سے یہ کہہ دینا بڑی آسان سی بات ہے کہ بچہ گرادے ۔ لیکن کوکھ میں بیج پڑ جانے کے بعد عورت خود اپنی مرضی کی تابعدار نہیں رہتی ۔ نونیتا میں متاشا کو اپنے عکس کی ایک جھلک سی نظر آتی ہے اور وہ بخوبی سمجھتی ہے کہ یہ کمسن عمر ماں بننے کی نہیں ہے ۔ صرف بچہ پیدا کردینا ہی ماں بننا نہیں ہوتا ، ماں دراصل جذبہ ترحم کا نام ہے جس سے فی الوقت نونیتا عاری نظر آتی تھی ۔ اسی لئے متاشا کی اس پیشکش پر کہ وہ اپنا بچہ اس کے یہاں چھوڑ کر کہیں اور اپنی زندگی بسا لے ، نہ صرف نونیتا کو ایک نئی زندگی دیتا ہے بلکہ ساری زندگی مشکلات جھیلتے ہوئے متاشا کی مری ہوئی زندگی میں ایک نئی روح بھی پھونک دیتا ہے ۔ ناول کا اخر ی جملہ معنی خیز ہے ۔ یہ جہاں ایک طرف متاشا کو دادی بننے کی خوشی دیتا ہے وہیں متاشا کے پوتے /پوتی کے ساتھ تیسری نسل کو بھی ناول کا حصہ بنا دیتا اور یوں کہانی ختم ہونے کے بجائے ایک نئے آغاز کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ۔

         ’کہانی کوئی سنائو ، متاشا ‘ اپنی ایک منفرد روایت قائم کرتا ہے ۔ یہ اردو کے ان معدودے چند ناولوں میں سے ایک ہے جہاں منظر نگاری پر ایک بھی سطر خرچ نہیں گئی ہے۔ ضروری تھا کہ اس ناول پر بھی الگ انداز سے گفتگو کی جائے سو غالبؔ کے دو اشعار کو موضوع بنا کر اس ناول پر مختصر گفتگو کی گئی ہے ۔اس طرز انداز کے سبب شعر اور افسانہ میں فنی روابط و تضاد نیز کسی بھی قسم کی ضروری اور غیر ضرور ی بحث کے در آنے سے میرا کوئی سروکار نہیں۔ نثری تخلیق کے تمام فنی لوازمات کو بروئے کار لاتے ہوئے اور زبان و بیان کو اس کی پوری معنویت و ممکنات کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے صادقہ نواب سحر نے اس ناول میں زندگی کو ہر رنگ و روپ میں سمیٹنے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔اس میں مصائب و آلام ، کشمکش حیات ، موت کے ساتھ ساتھ زندگی کی ترنگیں بھی ہیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ آج ہمارے اردو ادب میں جہاں ایسے بھی ادیب ہیں جنہیں انسانی مصائب اور موت سے کمال درجے کی انسیت ہے اور اکتا دینے والے مونولاگ کے ساتھ ایک بیمار ، گلے سڑے ذہن کی منظر کشی اور بے ربط بیانیہ مع زبان و بیان کی شر پسندی جن کی تخلیقیت میں شمار ہوتی ہے ، صادقہ نواب سحر کا مذکورہ بالا ناو ل ہمیں زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے کا حوصلہ دیتا ہے ۔ متاشا، آشا اور نراشا کی ایک ایسی بھاشا ہے جسے بلاتفریق رنگ و نسل ، مذہب وشہریت ہر کوئی سمجھ سکتا ہے ۔ متاشا کی کہانی زندگی کی کہانی ہے ۔ ایسی زندگی جس کے پیروں کو موت احتراماً چھوتی ہے ۔

                                                      ٭٭٭٭٭

                  دائم محمد انصاری ، ( گیسٹ لکچرار، شعبہ اردو ، کلکتہ گرلس کالج )

                  رابطہ :    8777834566

                  ای میل :         dayemansari68@gmail.com

Leave a Reply