You are currently viewing کہانی کا پلاٹ

کہانی کا پلاٹ

مترجم: صابررضا رہبر

ہندی سے اردو میں ترجمہ

کہانی کا پلاٹ

شیو پوجن سہائے

میں کوئی کہانی کارنہیں ہوں۔ کہانی لکھنے والی صلاحیت بھی مجھ میں نہیں ہے۔ کہانی کار کواپنے فن میںمہارت ہونی چاہئےاور میں ایک عام فن کاربھی نہیں ہوں لیکن مجھے ماہر کہانی لکھنے والوں کے لئے ’پلاٹ‘ ملا ہے۔ امید ہے کہ اس’پلاٹ‘ پر وہ اپنی خوبصورت عمارت کی تعمیر کریں گے۔

میرے گاؤں کے پاس ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ گاؤں کا نام بڑاگنواروہے ،سن کر آپ ناراض ہواٹھیں گے۔ وہاں ایک بوڑھے منشی جی رہتے تھے، اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کا نام بھی عجیب تھا ’نیمل آخرارتھ نہ جاپو‘‘

اس لئےاسے ادیبوں کے سامنے بتانےسے ہچکچاتاہوں،خیر !

ان کی ایک بیٹی تھی جو اب تک موجودہے۔ اس کا نام؟ جانے دیجیے!آپ سن کرکیا کیجیےگا؟ میں بتاؤں گا بھی نہیں۔ہاں !چوںکہ اس سے متعلق باتیں بنانے میں کچھ آسانی ہوگی اس لئے اس کا ایک خیالی نام رکھ لینا ضروری ہے۔

مان لیجیے! اس کا نام ہے ’بھگجوگنی‘۔ دیہات کا واقعہ ہے اس لئے دیہاتی نام ہی اچھا رہے گا ۔ خیر پڑھیے!

منشی جی کے بڑے بھائی پولیس داروغہ تھے۔ اس زمانے میںجب انگریزی جاننے والوں کی تعداد اتنی ہی تھی جتنی آج دھرم شاستروں کے جاننے والوں کی ہے ۔ اس لئے اردوداں لوگ ہی اونچے عہدے پاتے تھے۔

 داروغہ جی نے آٹھ دس پیسے کی کریما، خالق باری پڑھ کرجتنا روپیہ کمایا تھا اتنا آج کالج اورعدالت کی لائبریریاںچاٹ کر وکیل بننے والے بھی نہیں کماتے ۔

لیکن داروغہ جی نے جوکچھ کمایا اپنی زندگی میں ہی پھونک تاپ ڈالا۔ ان کے مرنے کے بعد صرف ان کی ایک گھوڑی بچی تھی جو تھی تومحض سات روپے کی مگر کان کاٹتی تھی ترکی گھوڑوںکی ۔ کمبخت بارودکی پڑیا تھی ۔ بڑے بڑے انگریزافسر اس پر دانت گڑائے رہ گئے مگر داروغہ جی نے سب کونبوا  نون چٹادیا ۔اسی گھوڑی کی بدولت ان کی ترقی رہ گئی لیکن آخری دم تک وہ افسروںکے گھپلے نہ آناتھانہ آئے۔ ہرطرح سے قابل، محنتی ،ایماندار ،ہوشیار ،دلیر اورمستعدآدمی ہوتے ہوئے بھی وہ داروغہ کے داروغہ ہی رہ گئے ؛ صرف گھوڑی کی محبت میں ۔

مگرگھوڑی نے بھی ان کی اس محبت کا اچھانتیجہ دکھایا ۔ ان کے مرنے کے بعدخوب دھوم دھام سے ان کا شرادھ کردیا ۔ اگرکہیں گھوڑی کوبھی بیچ کھائے ہوتے تو ان کے نام پر ایک براہمن بھی نہ آتا۔ ایک گورے کے ہاتھ خاصی رقم پر گھوڑی کوہی بیچ کر منشی جی اپنے بڑے بھائی کے قرض سے آزاد ہوئے۔

داروغہ جی کے زمانے میں منشی جی نے بھی خوب گھی کے دیے جلائے تھے۔ گانجے میں بڑھیا سے بڑھیا عطر ملاکر پیتے تھے۔چلّم کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پاتی تھی ۔ ایک جون بتیس بٹیر اورچودہ چپاتیاں اڑاجاتے تھے۔نتھونی اتارنے میں توداروغہ جی کے بھی بڑے بھیا تھے۔ ہرسال ایک نیا جلسہ ہواہی کرتا تھا۔

لیکن جب بہیا بہہ گئی تب چاروں جانب ویرانی نظرآنے لگی ۔ داروغہ جی کے مرتے ہی ساری امیری گھس گئی ۔ چلّم کے ساتھ ساتھ چولہاچکی بھی ٹھنڈی ہوگئی ، جوزبان ایک دن بٹیروں کاشورباسُڑکتی تھی وہ اب سراہ سراہ کر مٹرکا ستو سرپوٹنے لگی ۔ چپاتیاں چبانے والے دانت اب چندچنے چباکر دن گزرانے لگے ۔ لوگ صاف کہنے لگ گئے ’ تھانیداری کی کمائی اورپھوس کا تاپنا‘ دونوں برابرہے ۔

ہرسال نئی نتھونی اتارنے والے منشی جی کوگائوں جوارکے لوگ بھی اپنی نظروں سے اتارنے لگے ۔جومنشی جی کے چلّو کے چلّو عطر لے کر اپنی پوشاکوں میں ملاکرتے تھے ؛انہیں کواب اپنی روکھی بھوکی جسم میں لگانے کے لئے چلّو بھر کڑوا تیل ملنا بھی محال ہوگیا تھا۔ شاید قسمت کی پھٹی چادر کاکوئی رفوگرنہیں ۔

لیکن ذرا قسمت کی دوہری مار تودیکھئے ! داروغہ جی کے زمانے میں منشی جی کے چار پانچ لڑکے ہوئے مگرسب کے سب صبح کے چراغ ہوگئے ۔ جب بے چارے کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں تب تو کوئی کھانے والانہ رہا اورجب دونوں ٹانگیںتنگی کے دلدل میںآپھنسیں اوراوپرسے بڑھاپا بھی کندھے دبانے لگا تب کوڑھ میں کھاج کی طرح ایک لڑکی پیدا ہوگئی  اورتعریف یہ کہ منشی کی بدقسمتی بھی داروغہ جی کی گھوڑی سے کچھ کم صحت مند نہ تھی۔

سچ پوچھئے تو اس تلک جہیز کے زمانے میں لڑکی پیدا کرنا ہی بہت بڑی حماقت ہے مگریوگ دھرم کا کیا علاج ہے؟اس زمانے میں عورت ہی مردہورہی ہے ۔مردوںکی ٹولی کو نسوانیت کھدیڑے جارہی ہے ۔بے چارے منشی کاکیا قصور؟ جب گھی اورگرم مسالے اڑاتے تب توہمیشہ لڑکاہی پیداکرتے رہے مگراب مٹرکے ستو پر بے چارے کہاں سے لڑکی نکال لائے۔ سچ مچ امیری کی قبر پر پنپی ہوئی غریبی بڑی زہریلی ہوتی ہے ۔

’بھگجوگنی‘ چوں کہ منشی جی کی غریبی میں پیدا ہوئی اور پیدا ہوتے ہی ماں کے دودھ سے محروم ہوکر ’ٹو َر ‘ کہلانے لگی اس لئے وہ گارجین سے آزاد تھی۔ اس میں شک نہیں کہ خوبصورتی میں وہ اندھیرے گھرکاچراغ تھی ۔آج تک ایسی شوخ اورخوبصورت لڑکی کسی نے کبھی کہیں نہ دیکھی تھی۔

بدقسمتی سے میں نے اسے دیکھا تھا ۔ جس دن پہلے پہل اسے دیکھا وہ تقریباً ۱۱۔۱۲؍ برس کی تھی ۔مگرایک جانب اس کی انوکھی نازکی وشوخی اوردوسری جانب اس کی قابل رحم غریبی دیکھ کر سچ کہتا ہوں کلیجہ کانپ گیا ۔ اگرکوئی جذباتی کہانی کار یادل رکھنے والا شاعر اسے دیکھ لیتا تو اس کی تحریرسے شفقت کی دھارپھوٹ نکلتی ۔ مگرمیری تحریر میں اتنی طاقت نہیںہے کہ اس کی غریبی کی دل دوز تصویر کومیرے دل کی تختی سے اتار کر ’سروج‘ کے اس نازک پتے پر رکھ سکے اور سچا واقعہ ہونے کے سبب فقط پراثربنانے کے لئے مجھے بھڑکیلی زبان میں لکھتےبھی نہیں بنتا۔ زبان سے غریبی کا سراپا کھینچنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہوتی ،بھلے ہی وہ راج محلوں کی ایشوریہ،لیلا ،ولاس اوروبھو کی تفصیلات بنانے کے قابل ہو۔

آہ! بے چاری اس عمر میں بھی کمرمیں صرف پتلاسا چیتھڑا لپیٹے ہوئے تھی جو مشکل سے اس کی لاش ڈھکنے کے قابل تھا۔اس کے سر کے بال تیل کے بغیر بری طرح بکھر کر بڑے ڈرائو نے ہوگئے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میںایک عجیب طرح کی دردبھری کسک تھی۔ غربت نے اس کی خوبصورتی اور شوخی کاگلاگھونٹ دیا تھا۔

کہتے ہیں فطری خوبصورتی کے لئے کسی بناوٹی سنگار کی ضرورت نہیںہوتی کیوںکہ جنگل میں پیڑکی چھال اورپھول پتیوں سے سج کر شکنتلا جیسی خوبصورت معلوم ہوتی تھی ویسے دشینت(ہندی دیومالاکاکردار) کے راج محل میں سولہ سنگار کرکے بھی وہ نہ جچی مگرشکنتلا تو فکراور مصیبت کے ماحول میں نہیں پلی تھی ۔اس کے کانو ںمیں پیٹ کے راکشش کاہاہا کار کبھی نہ گونجاتھا۔ وہ امن اور سکون کے آغوش میں پل کرسیانی ہوئی تھی۔تبھی تووہ مہا کوی شووال جال کے’’لپت کملینی ‘‘میں استعارہ کے طورپراستعمال ہوسکی مگر بھگجوگنی تو غریبی کی چکی میں پسی ہوئی تھی ؛بھلا اس کی خوبصورتی کب کھِل سکتی تھی ،وہ تو دانے دانے کو ترستی رہتی تھی ۔ ایک گزکپڑے کےلئے بھی محتاج تھی ۔سر میں لگانے کے لئے ایک چلّو اصلی تیل بھی خواب ہو رہا تھا ۔ مہینے کے ایک دن بھی پیٹ بھر اناج کے لالے پڑے تھے۔ بھلا ہڈیوں کے کھنڈر میں خوبصورتی کے دیوتا کیسے ٹکے رہتے ۔

اف ! اس دن منشی جی جب روروکراپنا دکھڑا سنانے لگے تو کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔

 کہنے لگے’کیا کہوں بابو صاحب ! پچھلے دن جب یادآتےہیں تو غشی آجاتی ہے ۔ یہ غریبی کی مار اس لڑکی وجہ سے مزید دشوار ہوجاتی ہے ۔دیکھیے! اس کے سرکے بال، کیسے خشک اورگورکھ ڈھنڈھاری ہورہےہیں ۔ گھر میں اس کی ماں ہوتی توکم سے کم اس کا سرتو جوئوں کااڈہ نہ ہوتا ۔ میری آنکھوں کی روشنی اب ایسی ماندپڑگئی کہ جوئیں سوجھتی نہیں اورتیل توایک بوندبھی میسر نہیں ۔ اگراپنے گھرمیں تیل ہوتا تودوسرے کے گھر جاکر بھی کنگھی چوٹی کرالیتی ۔ سرپر چڑیوں کاگھونسلہ تونہ بنتا ۔ آپ توجانتے ہیں یہ چھوٹا ساگائوں ہے ۔ کبھی سال چھ ماہ میں کسی کے گھر بچہ پیداہوتا ہے تواس کے روکھے سوکھے بالوں کے نصیب جاگتے ہیں ۔ گائوں کے لڑکے اپنے اپنے گھر بھرپیٹ کھاکر جوجھولیوں میں چناچبینالے کرکھاتےہوئے گھر سے نکلتے ہیں تویہ ان کی باٹ جوہتی رہتی ہے۔ان کے پیچھے پیچھے لگی پھرتی ہے توکبھی مشکل سے دن میں ایک دومٹھی چنامل پاتا ہے۔ کھانے پینے کے وقت کسی کے گھر پہنچ جاتی ہے تو اس کی ضدلگ جانے کے خوف سے گھروالیاں دُردُرانے لگتی ہیں۔ کہاں تک اپنی مصیبتیں بیاں کروں ۔ بھائی صاحب کسی کی دی ہوئی مٹھی بھربھیک لینے کے لئے اس کے تن پر پھٹی آنچل بھی تونہیں ہے ۔ اس کی چھوٹی انگلیوں میں جوکچھ سماجاتا ہے اسی سے کسی طرح پیٹ کی جلن بجھالیتی ہے۔ کبھی کبھی ایک آدھ پھانک چنا چبینا میرے لئے بھی لے آتی ہے ۔ اس وقت دل دوٹکڑے ہوجاتا ہے۔ کسی دن دن بھر گھر گھر گھوم کرجب شام کومیرے پاس آکر دھیمی آواز سے کہتی ہے کہ بابوجی بھوک لگی ہے ،کچھ ہوتوکھانے کودو ، اس وقت آپ سے ایمان سے کہتا ہوں جی چاہتا ہے کہ گلے میں پھانسی لگاکر مرجائوں یا کسی کنوئیں تالاب میں ڈوب مروں ۔ مگر پھرسوچتا ہوں کہ میرے سوا اس کی خبرخیریت لینے والا اس دنیامیں اب ہے ہی کون۔ آج اگراس کی ماں بھی زندہ ہوتی توکوٹ پیس کر اس کے لیے مٹھی بھر اناج جٹاٹی ۔ کسی طرح اس کی پرورش کرہی لے جاتی اوراگرکہیں آج میرے بڑے بھائی صاحب ہوتے توگلاب کے پھول سی بچی کوہتھیلی کاپھول بنائے رہتے۔ ضرورہی کسی رائے بہادر کے گھر میں اس کی شادی کرتے ۔ میں بھی ان کی اندھادھندکمائی پر ایسی بے فکری سے دن گزارتا تھا کہ آگے آنے والے ان برے دنوںکی متعلق خبرنہ تھی ۔ وہ بھی ایسے خرچیلے تھے کہ اپنے کفن دفن کے لئے بھی ایک پائی نہ چھوڑگئے۔ اپنی زندگی ہی میں ایک ایک چپہ زمین بیچ کھائی ۔ گائوں بھر سے ایسی عداوت بڑھائی کہ آج میری اس درگت پر بھی کوئی رحم کرنے والانہیں ہے۔ الٹے سب لوگ طعنہ کے تیربرساتےہیں ۔

 ایک دن وہ تھاکہ بھائی صاحب کے پیشاب سے چراغ جلتا تھا اورایک دن یہ بھی ہے کہ میری ہڈیاں مفلسی کی آنچ میں موم بتیوں کی طرح گھل گھل کر جل رہی ہیں۔ اس لڑکی کے لئے آس پاس کے سبھی جواری بھائیوں کے یہاں میں نے پچاس پھیرے لگائے ،دانٹ دکھائے، ہاتھ جوڑکر بنتی کی ،پائوں پڑا ۔یہاں تک کہ بے حیا ہوکر کہہ ڈالاکہ بڑے بڑے وکیلوں ،ڈپٹیوں اورزمینداروں کی چنی چنائی لڑکیوں میں میری لڑکی کھڑی کرکے دیکھ لیجیے سب سے خوبصورت لگتی ہے یانہیں ۔ اگر اس کے جوڑ کی ایک بھی لڑکی کہیں نکل آئے تو اس سے آپ لڑکے کی شادی مت کیجیے ۔ مگر میرے لاکھ گڑگڑانے پربھی کسی بھائی کادل نہ پگھلا۔کوئی یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ لڑکے کی ماں ایسے گھرانے میں شادی کرنے سے انکارکرتی ہے جس میں نہ ساس ہے نہ سالا اور نہ بارات کی خاطر داری کرنے کی حیثیت ۔ کوئی کہتا کہ غریب گھر کی لڑکی چٹوراورکنجوس ہوتی ہے ، ہمارا خاندان بگڑجائے گا ۔ زیادہ تر لوگ یہی کہتے ملے کہ ہمارے لڑکے کواتنا تلک جہیز میں مل رہا ہے توبھی ہم شادی نہیں کررہےہیں پھر بغیرتلک جہیز کے توبات کرنا بھی نہیں چاہتے۔ اسی طرح جتنے منہ اتنی باتیں سننے میں آئیں۔ دنوں کا پھیر ایسا ہے کہ جس کا منہ نہیںدیکھنا چاہئے اس کا بھی پچھاڑدیکھنا پڑا۔ محض معمولی حیثیت والوں کوبھی پانچ سو اورایک ہزار تلک جہیز فرماتے دیکھ کر جی کُڑھ جاتا ہے۔ غصہ چڑھ آتا ہے مگرغریبی نے توایسا پنکھ توڑدیاہے کہ پھڑپھڑابھی نہیں سکتے ۔

 سالے ہندوسماج کے اصول بھی عجیب ڈھنگ کے ہیں ۔ جو لوگ مول بھائو کرکے لڑکے کو فروخت کرتے ہیں وہ بھلے آدمی سمجھے جاتےہیں اورکوئی غریب بے چارا اسی طرح مول بھائو کرکے لڑکی کوبیچتا ہے تو وہ کمینہ کہلاتا ہے ۔ میں اگرآج اسے بیچنا چاہتا تواتنی کافی رقم اینٹھ سکتا تھاکہ کم سے کم میری زندگی توضرورآرام سے کٹ جاتی ۔ لیکن جیتے جی ہرگزایک مکھی بھی نہ لوں گا چاہے یہ کنواری رہے یاجوان ہوکرمیرا نام ہنسائے۔

 دیکھیے نا! جوان توقریب قریب ہوہی گئی ہے ، صرف پیٹ کی مار سے ابھرنے نہیں پاتی ۔ نشوونمارکی ہوئی ہے۔ اگرکسی خوشحال گھر میں ہوتی تو اب تک پھوٹ کر سیانی ہوجاتی ۔ بدن بھرنے سے ہی خوبصورتی پربھی روغن چڑھتا ہے۔بیٹی کی نشوونما بیٹے سے جلدی ہوتی ہے۔ اب زیادہ کیاکہوں بابو صاحب ! اپنی ہی کرنی کا نتیجہ بھوگ رہاہوں۔ موتیا بند،گٹھیا اوردمّا نے نکما کردیا ہے۔ اب میرے پچھتاوے کے آنسوئوں میں بھی ایشورکوپگھلانے کا دم نہیں ہے۔ اگرسچ پوچھئے تو اس وقت صرف ایک ہی امید پر جان اٹکی ہوئی ہے ۔ ایک صاحب نے بہت کہنے سننے سے اس کے ساتھ شادی کرنے کاوعدہ کیا ہے ،گائوں کے کھوٹے لوگ انہیں بھی بھڑکاتے ہیں یامیری جھانجھری نیّاکوپارلگانے دیتے ہیں ۔لڑکے کی عمرکچھ زیادہ ضرور ہے ۔ ۴۱؍ ۴۲؍ سال کی ؛ مگراب اس کے سواکوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔ سینے پر پتھر رکھ کر اپنی اس راج کماری کو۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد منشی جی کا گلارندھ گیا۔ بہت بلک کر رواٹھے اور بھگجوگنی کواپنی گود میں بیٹھاکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئے ۔ لاکھ کوششوںکے بعدبھی میں ان کوکسی طرح کی یقین دہانی نہ کراسکاجس کے پیچھےمصیبت بھی ہاتھ دھو کر پڑجاتی ہے اسے تسلی دینامذاق نہیں ہے۔

منشی جی کی داستاں سننے کے بعدمیں نے اپنے کئی کنوارے دوستوں سے گزارش کی کہ اس آسمان کی پری غریب دوشیزہ سے شادی کرکے ایک کم نصیب بھائی کا بھلا اوراپنی زندگی کوکامیاب بنائیں لیکن سب نے میری بات ان سنی کردی ۔ ایسے ایسے لوگوںنے بھی آناکانی کی جو سماج سدھار جیسے موضوعات پر بڑے شان وشوکت سے لکھتے پھرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ پختہ عمرکوپہنچے رنڈوے دوست بھی راضی نہ ہوئے ۔ آخر وہی جناب ڈولااٹھاکر بھگجوگنی کواپنے گھرلے گئے اوروہیں شادی کی ۔ کل رسمیں پوری کرکے منشی جی کوفکرکے دلدل سے باہرنکالا۔ بےچارے کے سینے سے پتھرکا بوجھ تو اترگیا مگرگھرمیں کوئی پانی دینے والابھی نہ رہ گیا ۔ بڑھاپے کی لکڑی جاتی رہی ، جسم لڑھک گیا ۔ سال پورا ہوتے ہوتے اچانک ٹن بول گئے ۔ گائوں والوں نے گلے میں گھڑا باندھ کر ندی میں ڈبودیا۔

بھگجوگنی زندہ ہے ۔ آج وہ مکمل جوان ہے ۔ اس کا جسم بھراپورا اورپھولاپھلا ہے ۔ اس کی خوبصورتی اس کے موجودہ نوجوان شوہر کی جنتی دولت ہے ۔ اس کا پہلا شوہر اس دنیا میں نہیں ہے ۔ دوسرا شوہر ہے اس کا سوتیلا بیٹا۔

lll

Md Sabir Raza c/o Md Firoz Ahmad

White House Naugharwa Sultanganj Patna6

94707 38111

8804542020

***

Leave a Reply