ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ
ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂ اردو
سمراٹ پرتھوی راج چوہان، گورنمنٹ کالج ،اجمیر
گلدستہ سلور جوبلی مشاعرۂ اجمیر۔ ۱۹۳۵
زیر نظر مضمون سے قبل ماضیٔ قریب میں راقم الحروف نے ’’ اجمیر کا مشہور طرحی مشاعرہ ‘‘ کے زیر عنوان ایک مضمون سپرد ِ قلم کیا تھا جس میں ۷؍ اگست ۱۹۶۵ء کو منعقدہ مشاعرے کی رو داد ( کتابچہ ) کی روشنی میں مشاعرۂ ہذا کے متعلق تفصیلات پیش کی تھیں ۔ چونکہ اجمیر محافل ومجالس آراستہ کرنے والا شہر ہے تاہم یہاں متعدد ایسی تقریبات انعقاد پذیر ہو تی رہیں جن میں بعض تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ۔ واضح ہو کہ راقم نے مذکورہ مشاعرے ( ۱۹۶۵ء ) کے علاوہ آغا حشرؔ کاشمیری کے انتقال پر منعقد ہونے والی تقریب سے متعلق ایک تحقیقی مضمون تحریر کیا تھا جو سہ ماہی ریسرچ جرنل ’’ جہانِ اردو ‘‘ ( دربھنگہ ) کی اشاعت اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۰ء میں شائع ہو چکا ہے ۔
فی الوقت راقم کے پیشِ نظر اجمیر میں ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو منعقدہ سلور جوبلی مشاعرے کی روداد موجود ہے جو کنگ جارج پنجم اور اُن کی اہلیہ کی سلور جوبلی کے موقع پر بطور تہنیت منعقد ہوا تھا ۔ اس مشاعرے میں اردو اور فارسی کے شعراء کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور ہندی کے کوی حضرات نے بھی اپنا کلام پیش کیا تھا ۔ اس مشاعرے کے انعقاد کی تیاریاں اس طرح کی گئیں تھیں گویا کسی تقریب شادی کا اہتمام کیا جا رہا ہو ۔ اس مشاعرے کے متعلق بعض بزرگوں کی زبانی یہاں تک سنا گیا ہے کہ رفیعیؔ اجمیری ، فضالیؔ ٹونکی، عبید اﷲ قدسیؔ اور قیسی رام پوری ثمّ الاجمیری اور بعض دیگر غیور طبیعت شعراء نے اس لیے مشاعرے میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کہ ایک طرف پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف غم وغصے کا جذبہ کارفرما ہے ، آزادیِ وطن کی تحریک زوروں پر ہے تاہم کوئی بھی غیرت مند اور خوددار شخص انگریزوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اُن کی چاپلوسی اور جی حضوری کیسے کر سکتا ہے ۔ برٹش حکومت کے خلاف لکھنے والوں نے اسی لیے اس مشاعرے سے دوری بنا کر سچے اور پکے ہندوستانی ہونے کی نظیریں پیش کیں ۔
مذکورہ مشاعرہ چونکہ ایک تہنیتی مشاعرہ تھا تاہم اسے ’’ دیرٔ میجیسٹیز سلور جوبلی مشاعرہ ‘‘ کا نام دیا گیا تھا جو کیپٹن ایل ۔ اے ۔
جی ۔ پہنے آئی ۔ ا ے اسٹنٹ کمشنر اجمیر میر واڑہ کی سر پرستی میں منعقد ہوا تھا ۔ مشاعرے کے ممبران کی فہرست بہ عنوان ’’ ممبرانِ سلور جوبلی مشاعرہ کمیٹی ‘‘ اس طرح تشکیل دی گئی تھی :
(۱) سید اقبال علی شاہ صاحب ، نصیر آباد
(۲) خاں صاحب رستم جی فرام جی ، آنریری مجسٹریٹ، نصیر آباد
(۳) مسٹر غلام علی مانیؔ بی۔ اے ۔ یی ۔ ٹی ، اجمیر
(۴) سیٹھ محمد ابراہیم صاحب، میونسپل کمشنر، اجمیر
(۵) مولانا حکیم محمد صدیق صاحب شوقیؔ ، اجمیر۔ صدر جوبلی شعراء کمیٹی
(۶) صاحبزادہ سیداسرار احمد صاحب ، اجمیر
(۷) خان صاحب اے ۔ ایل ۔ ڈیوڈ، بی ۔ اے ، ایل۔ ٹی ، ہیڈ ماسٹر ایچ ۔ ایم ہائی اسکول وآنریری مجسٹریٹ، اجمیر
(۸) مسٹر آر، خان ، اے ۔ایم آئی لوکوائی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، لوکو اینڈ کیرج شاپ ، اجمیر
(۹) لفٹنٹ صاحبزادہ سید عبدالسلام صاحب، سب رجسٹرار ،اجمیر
(۱۰) رائے بہادر مہامہوبا وہیا پنڈت گوری شنکر اوجھا سپرنٹنڈنٹ محکمۂ آثارِ قدیمہ ، اجمیر
(۱۱) ڈاکٹر آر مہلوترا ڈی ( ایس ، سی ) کیرج اینڈویگن شاپ، اجمیر
(۱۲ ) سردار بہادر بھگوان سنگھ صاحب بارایٹ لا، اجمیر
(۱۳) صاحبزادہ سید محمد حسین صاحب چشتی، ممبر درگاہ کمیٹی ، آنریری مجسٹریٹ ، میونسپل کمشنر ، اجمیر
(۱۴) رائے بہادر سیٹھ بھاگ چند سونی ، ایم ۔ ایل ۔ اے ، اجمیر
(۱۵) صاحبزادہ سید ظہور الحسن صاحب ، وکیل خدام صاحبان درگاہِ معلّیٰ ، امین مشاعرہ کمیٹی ، اجمیر
(۱۶) مولانا حمید اﷲ خاں صاحب یوسف زئی ، پروفیسر گورنمنٹ کالج ، آنریری مجسٹریٹ صدر مشاعرہ کمیٹی ، اجمیر
(۱۷) مولانا خواجہ عبدالباری معنی ؔ اجمیری ، سیکریٹری جوبلی مشاعرہ کمیٹی ، اجمیر
اسی طرح ’’ ممبران شعراء کمیٹی ‘‘ میں مندرجہ ذیل چوبیس ’’ ۲۴‘‘ حضرات کو شامل کیا گیا تھا ۔ جس کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں :
(۱) سید عنایت علی صاحب رضویؔ، بی ۔ اے ( علیگ ) اجمیر
(۲) منشی عبدالغفور خاں صاحب بیکلؔ اجمیری
(۳) مولوی محمد ایوب صاحب احسنؔ اجمیری
(۴) مرزا مغل بیگ مغلؔ اجمیری
(۵) مسٹر ایس ۔ وی ۔ جون صاحب اجمیری
(۶) ڈاکٹر محمود خاں صاحب آثمؔ اجمیری
(۷) سید اختر حسین صاحب اخترؔ اجمیری
(۸) پنڈت شنکر دت صاحب شاستری
(۹) مولوی محمد ایوب صاحب منشؔ، اجمیر
(۱۰) منشی سرفراز علی صاحب رازؔ، اجمیر
(۱۱) محمود الحسن خاں صاحب بہارؔ، اجمیر
(۱۲) شیخ محمد علی صاحب میری احدیؔ اجمیری
(۱۳) ڈاکٹر محمد عثمان صاحب سہیلؔ اجمیر
(۱۴) خان صاحب مسٹر اے ۔ این ۔ ڈیوڈ صاحب ، اجمیر
(۱۵) سید محمد محمود صاحب عرشی، پروپیگنڈا سیکریٹری مشاعرہ کمیٹی
(۱۶) منشی محمد عبدالحفیظ صاحب کاتبؔ اکبر آبادی ، اجمیر
(۱۷) خواجہ سید اکبر حسین صاحب اکبرؔ، اجمیر
(۱۸) حافظ عبدالغفار صاحب سونشؔ، اجمیر
(۱۹) پنڈت ودہیا بھوشن صاحب شاستری ؔ
(۲۰) مسٹر غلام علی خاں صاحب مانیؔ ، اجمیر
(۲۱) ایس محمدوزیر صاحب بصرؔ ، اجمیر
(۲۲) مولانا عبدالباری صاحب معنی ؔ سیکریٹری جوبلی شعراء کمیٹی
(۲۳) مولانا حکیم محمد صدیق صاحب شوقیؔ ، اجمیر
(۲۴) مولانا حمید اﷲ خاں صاحب یوسف زئی ، اجمیر
اِس مشاعرہ سے متعلق ایک روداد کلکتہ آرٹ پریس، دہلی سے طبع ہو کر منظرِ عام پر آئی تھی جس کا دیباچہ مولانا عبدالباری معنیؔاجمیری، آنریری سیکریٹری جوبلی مشاعرہ کمیٹی نے تحریر کیا تھا جس سے مشاعرے سے متعلق اہم تفصیلات کا علم ہوتا ہے ، مولانا معنیؔ اس بابت رقم طراز ہیں کہ :
’’ دیئر مجسٹریٹ سلور جوبلی مشاعرہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو اجمیر میں آنا ساگر بند پر منعقد ہوا ۔
جلسہ کا افتتاح یونین جیک کے لہرائے جانے سے ہوا ‘ ‘۔
’’یہ رسم بوائے اسکاؤٹس نے زیرِ نگرانی جناب غلام علی خاں صاحب ادا کی جو سرکاری محکمۂ تعلیم کے ایک قابل فرد ہونے کے علاوہ میدانِ اسکاؤٹنگ کے ایک ممتاز افسر بھی ہیں ، اس کے بعد بی ۔ بی اینڈ سی آئی ریلوے بینڈ بجایا گیا ۔ جو ہمیں جناب سی ۔ جی ۔ کوٹس ورتھ صاحب ایم ۔ اے سپرنٹنڈنٹ کیرج اینڈ لوکو شاپ، اجمیر کی خاص عنایت سے اس موقعہ کے لیے حاصل ہوا تھا ، اس کے بعد خاص موقعہ کے لیے سیکریٹری مشاعرہ کمیٹی نے تصنیف کی تھی ۔ حاضرین نے فن موسیقی کے کمالات اور نظم دونوں سے حظ حاصل کیا ۔ ابھی محفل پر موسیقیت کے اثرات باقی تھے کہ اسی مترنم فضا میں کیپٹن ایل ۔ اے ۔ جی پہنے اسسٹنٹ کمشنر اجمیر میرواڑہ سرپرست جوبلی مشاعرہ کمیٹی اجمیر کے گوہر افشانی شروع فرمائی ۔ اس افتتاحی تقریب کے بعد صدر مشاعرہ کمیٹی پروفیسر جناب مولانا حمید اﷲ خاں صاحب یوسف زئی نے اپنا خطبۂ صدارت پڑھا ۔ بعد ازاں شعراء نے یکے بعد دیگرے اپنی اپنی نظم سے سامعین کو محظوظ کیا ۔ چنانچہ وہ سب نظمیں اسی ترتیب کے ساتھ اس موقعہ پر شائع کی جاتی ہیں جس ترتیب کے ساتھ مشاعرہ میں پڑھی گئیں ہیں ۔ آخر میں سیکریٹر مشاعرہ کمیٹی نے رپورٹ پڑھی جس کے بعد جناب غلام علی خاں صاحب مانیؔ ۔ اے ۔ بی ۔ ٹی ۔ نے بحیثیت ممبر مشاعرہ کمیٹی انگریزی اور اردو میں تقریر کی ۔ رپورٹ میں جو الفاظ تعریف ان کی نسبت استعمال کئے گئے تھے ان کی بناء پر انہوں نے سیکریٹری مشاعرہ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے منجانب کمیٹی تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا ، جنہوں نے اپنا قیمتی وقت صرف کرکے جلسۂ مشاعرہ میں شرکت فرمائی پھر اردو تقریر میں تمام حاضرین کو سلور جوبلی کے تمام ان جشنوں کی جانب توجہ دلائی جو آئندہ منعقد کئے جانے والے ہیں اور کہا کہ آپ اپنے جذبات خلوص ووفاداری کو ظاہری کرتے ہوئے ہر جلسۂ جوبلی کو پوری کوشش کے ساتھ شاندار طریقہ پر کامیاب بنائیں اور جناب چیف کمشنر صاحب بہادر کی اپیل کا حوالہ دیتے ہوئے پرزورالفاظ میں جوبلی فنڈ کو چندہ دینے کی اپیل کی ۔ اس تقریر کے بعد سرپرست مشاعرہ نے جلسہ کو ختم فرمایا ۔‘‘ (۱)
’’ دیئر میجیٹیز جوبلی مشاعرہ ‘‘ ص ۵ مطبع کلکتہ آرٹ پریس دہلی ۱۹۳۵ء
سیکریٹری جوبلی مشاعرہ کمیٹی نے جس دعائیہ نظم کا ذکر مذکورہ تحریر میں کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے جسے غلام نجف قوال درگاہِ معلّیٰ اجمیر شریف نے پیش کیا تھا : ؎
الٰہی دہر میں جب تک کہ دورِ ماہ رہے
یہ سلطنت ، یہ حکومت ، یہ بادشاہ رہے
رہیں جہان میں جب تک یہ آسمان وزمین
یہ تخت وتاج ، یہ دولت ، یہ عزّ وجاہ رہے
جہاں پناہ، شہنشاہ، جارج فِفتھ کی ذات
دعا یہ ہے کہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
الٰہی دولت واقبال روز افزوں ہو
ہمیشہ جیت میں برطانوی سپاہ رہے
ہرایک سر پہ رہے ظلِّ مہرِ قیصرِ ہند
ہر ایک قلب میں کنگ ایمپرر کی چاہ رہے
جو نامراد ہیں دشمن، وہ نا مراد رہیں
رہے وہ شاد جو برٹش کا خیر خواہ رہے
خلوص دل سے ہے اپنی دعا یہی معنیؔ
کہ شاہ پر کرمِ حضرت الٰہ رہے ‘‘ ( ۲)
’’ ایضا‘‘ ص ۷
سلور جوبلی مشاعرہ کے سرپرست کیپٹن ایل ۔ اے ۔ جی ۔ پہنے نے اپنی افتتاحی تقریر میں جو مختصر خطاب کیا تھا اسے رودادِ مشاعرہ میں من وعن شامل کیا گیا ہے اس تقریر میں چند کار آمد معلومات موجود ہیں اس لیے اس تقریر کی تحریر کو پیش کرنا ضروری معلوم ہورہا ہے :
’’ مولانا حمید اﷲ خاں یوسف زئی ومولانا خواجہ عبدالباری معنیؔ اور حاضرینِ جلسہ! مجھے آج بے انتہا مسرت ہے کہ میں اس جلسہ کا صدر ہوں جو دیئر میجیسٹیز سلور جوبلی کے جشن منانے کی تقریب میں منعقد ہوا ہے ۔ اس مشاعرہ کا خیال سب سے پہلے آپ کے سیکریٹری مولانا خواجہ عبدالباری معنیؔ کے ذہن میں آیا ۔ اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں نے ان کی کوششوں کا ہمت افزا الفاظ میں خیر مقدم کیا ۔ بد قسمتی سے مصروفیات کار کے باعث میں اس جلسہ کے انتظامات میں کسی قسم کا کوئی حصہ نہیں لے سکا ۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ جلسہ کے تمام مدارج بڑی خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ صدر کمیٹی مولانا حمید اﷲ خان صاحب اور سیکرٹری مولانا عبدالباری معنیؔ نے انجام دیے ہیں ۔
مشاعرہ ایک بہترین ذریعہ ہے اپنی اس احسان مندی اور وفاداری کو ظاہر کرنے کا جو ہمیں ملک معظم کی ذات گرامی سے ہے ۔ اس مشاعرہ میں وہ شعراء نظمیں پڑھیں گے جو شاعرانہ اقتدار اورادبی ذوق رکھتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تمام نظمیں جو آج پڑھی جائیں گی ان کے صحیح جذبات کا بین ثبوت ہوں گی ۔
میں شاعر نہیںہوں نہ مجھے فن شاعری سے واقفیت ہے اس لئے میں نظموں کے معیار کو ان صاحبانِ فن پر چھوڑتا ہوں جو اس کے زیادہ اہل اور ماہر ہیں ۔
مجھے اپنی جانب سے سے نذر کرنے کے لیے اس وقت مناسب موقعہ ومحل مشہور شاعر شیخ سعدیؔؒ کا یہ مشہور مصرعہ یاد آتا ہے ۔
ع سالے کہ نکوست از بہار بہارش پیداست
اس سال کی بہار ملک معظم اور ملکۂ معظمہ کی سلور جوبلی کا جشن دیکھ رہی ہے اور یہ بہت ہی مبارک اور ہمایوں موقع ہے ۔ ہم سب دعا کرتے ہیں کہ یہ سال بہت سے مبارک ومیمون ہو ۔ آمین ‘‘ ۔’’ ایضاً ‘‘ ص ۸
پروفیسر حمید اﷲ خاں یوسف زئی متخلّص بہ عرشیؔ نے اپنا طویل خطبۂ صدارت پیش کیا جسے طوالت کے خوف سے من وعن پیش کرنے کے بجائے یہاں صرف وہی اقتباسات نقل کئے جا رہے ہیں جو متعلقہ مشاعرے اور اجمیر کے شعری ادب سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں :
’’ اجمیر کو شعر وسخن کے اعتبار سے ہمیشہ ایک ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے گذشتہ ۲۵ ۔ ۳۰ سال سے قبل یہاں چند مایۂ ناز شعراء بزمِ سخن کی مسند آرا رہ چکے ہیں، جو آج ہمارے فخر ومباہات کا معقول ذریعہ ہیں میر کرامت علی خلشؔ ، ڈپٹی امام الدین صاحب اثرؔ ، نواب عبداﷲ خاں صاحب مطلب ، مولانا عبدالصمد کلیمؔ، بسملؔ وغیرہ اجمیر کے گذشتہ شعراء کی تاریخ میں نہایت مہتم بالشان ہستیاں نظر آتی ہیں ، لیکن محض گذشتہ عظمتوں پر فخر کرنا ضرورتِ وقت کے موافق نہیں ۔ اسی لیے ہم پر عظمت ماضی کی یاد گار یعنی اجمیر کے موجودہ شعراء کے کارنامے اس عہد کے ترقی کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں اور اس پر ہم کو فخر ہوتا ہے کہ اس زمانے کے شعراء ذیل نے بھی روحِ ادب اور جو ہر سخن کو محفوظ کیا ہے ۔
(۱) رضویؔ صاحب (۲) بیکلؔ صاحب (۳) احسن صاحب (۴) مغل ؔ صاحب (۵) ذبیح صاحب (۶) آثمؔ صاحب (۷) اختر ؔ صاحب (۸) پنڈت شنکر دت صاحب (۹) رازؔ صاحب (۱۰) منشؔ صاحب (۱۱) بہار ؔ صاحب (۱۲) میر احدی صاحب (۱۳) سہیلؔ صاحب (۱۴) ڈیوڈ ؔ صاحب (۱۵) عرشیؔ صاحب (۱۶) کاتبؔ صاحب (۱۷) اکبر صاحب (۱۸) سونشؔ صاحب (۱۹) پنڈت کرپا شنکر صاحب (۲۰) مانیؔ صاحب (۲۱) بصرؔ صاحب (۲۲) معنیؔ صاحب (۲۳) شوقیؔ صاحب (۲۴) عرشیؔ صاحب ۔
ہندوستان میں آج کل جو ترکیب مشاعروں کی پائی جاتی ہے بظاہر یہ ہی کہ اہلِ مذاق اور اربابِ سخن ایک جگہ جمع ہو جائیں اور غلام کے سننے سنانے سے لطف اندوز ہوں لیکن حقیقت میں مشاعرہ ادب اردو زبان کا محافظ ہے یہی مقام ایسا ہے جہاں الفاظ وزبان کے رائج الوقت سکے مقبولیت کی سند حاصل کرتے ہیں اور کھوٹے یا ناقص مسترد کئے جاتے ہیں ۔ اگر یہ تحفظ نہ ہوتا تو زبان اور ادب میں مبتذل خیالات اور سوقیانہ مضامین شامل ہوجاتے ادبِ اعلیٰ اور لٹریچر کا امتیاز زبان سے اٹھ جاتا۔ نہ کلام میں تاثیر ہوتی نہ الفاظ میں زور پیدا ہوتا۔ شعراء نے رجز ۔ مدح ۔ غزل وغیرہ میں شعر سے جیسا موقعہ ہو اس کے مطابق ہمیشہ مختلف قسم کے کام لئے ہیں ۔ یہ مشاعرہ جو آج ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو عالی جناب کیپٹن ایل ۔ اے ۔ جی پہنے ۔ آئی ۔ اے ۔ اسسٹنٹ کمشنر بہادر اجمیر میرواڑہ کے سرپرستی میں حضور ملک معظم جارج پنجم قیصرِ ہند و شہنشاہ مملکت برطانیہ خلد اﷲ ملکہ کے سلور جوبلی کے مبارک موقعہ پر معرضِ وجود میں آیا ہے ۔ اس کی غایت وغرض یہ ہے کہ ہم وفادار جاں نثار اور فرمانبردار عیسائی ، پارسی ، سیکھ ، ہندو مسلمان رعایا اپنی ان خلوص اور ایثار کے جذبات وکیفیات کا اظہار کریں جو حضور شہنشاہ معظم بالقابہ کے عہد حکومت کے تمدنی ، علمی، سیاسی ، اقتصادی حالات کے برکات وفیضان سے ہمارے دلوں میں موجزن ہیں ذیل کے دعائیہ الفاظ ہماری دلوں کے ترجمانی کرتے ہیں ۔ ع
گرچہ محتاج دعا نامدہ مسعود ازل
دعا
خدا وند کریم قیصر وقصری کو عمر خضر عطا فرمائے ، خدائے برتر وتوانا ان کو حفظ وامان میں رکھے ۔ قادرِ مطلق ہم ہندوستان کے باشندوں کو آنحضورین کے وفاداری میں ثابت قدم رکھے ۔ ہمارے شہنشاہ کے راج کو خدائے کریم کامیاب اور موجبِ برکت بنائے ۔ اے خدائے برتر قیصر وقصریٰ کو عزت ودولتِ دائمی عطا فرما ۔ اور شاہ خانوادے کے ممبروں کو بھی اعزاز اور شادمانی دائمی عطا کر ۔
نا چیز۔ حمید اﷲ خاں یوسف زئی عرشی ؔپروفیسر گورنمنٹ کالج، اجمیر ‘‘ (۱) ’’ ایضاً ‘‘ ص ۲۰
عرشیؔ صاحب نے مذکورہ خطاب میں غلامی، چاپلوسی اور جی حضوری کا جو انداز روا رکھا ٹھیک ویسی غلامانہ ذہنیت ان کے حسبِ ذیل فارسی اشعار سے بھی ظاہر ہوتی ہے : ؎
تاجدارِ ذی حشم ، شاہنشہ گرداں خیم
جملہ سلطانانِ عالم، بردرش مثلِ خَدَم
در اروپا، شانِ او با شوکت وذی اقتدار
فیضِ اودر ہند آمد، مایۂ لطف وکرم
ہنر میجسٹی جارج پنجم قیصرِ اقلیم ہند
در ربودہ گوئے سبقت راز کے کاؤس و جم
نو بہارِ گلشن دولت، گلِ باغِ جہاں
مہرِ دنیائے معارف، ماہ دنیائے حِکَم
گلشنِ علم وہنر از فیضِ وے شاداب شد
در زمانِ عدل وے ببریدہ شددست از ستم
تاج می نازد کہ از فرقش شدہ عالی وقار
تخت می بالدکہ از پالیش شدہ والا حشم
آنکہ دست جودش، آمادہ تراز ابرِ مطیر
ظلِّ چتر عالیش گستردہ بر فرقِ اُمم
میکند عرشی دعا، ہموارہ از قلب صمیم
چرخ بادا چاکرش، اقبال ودولت سر بخم
زندہ وپایندہ بادا ذاتِ شاہنشاہِ ما
تابود رسمے کہ گویند ایں حدوث وآں قدم ( ۲)
’’ ایضاً ‘‘ ص ۴۴
سلور جوبلی مشاعرے کی رپورٹ تحریر کرتے ہوئے عبدالباری معنیؔ نے یہ واضح کیا کہ اس مشاعرے کے انعقاد کا خیال سب سے پہلے انہیں کو آیا تھا اس لئے انہوں نے اپنے چند ہم خیال حضرات کی مدد سے اپنی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا ۔ اس بابت معنیؔ صاحب رقم طراز ہیں :
’’ جبکہ شہنشاہِ معظم حضور جارج پنجم فرمانروائے انگلستان اور ملکۂ معظمہ کی مبارک سلور جوبلی کے سلسلہ میں شاندار تیاریاں صرف ہندو انگلستان ہی نہیں بلکہ دوم سلطنت برطانیہ میں کی جا رہی تھیں جس میں حضور ملک معظم کی وفاد ار اور عزیز رعایا کا ہر فرد اپنی وفاداری وخلوص عقیدت کے اظہار کا ہر ممکن طریقہ سوچ رہا تھا ۔ میرے خیال میں بے لوث جذبات کے ما تحت یہ بات آئی کہ ایسے مہتم بالشان ، مبارک وہمایوں موقع پر اپنے دلی جذبات مسرت وعقیدت کے اظہار کے لیے شعراء کی جماعت سے بہتر کوئی ترجمان نہیں ہو سکتا ۔ جیسا کہ مشرقی دنیا میں ہمیشہ تخت نشینی ، سالگرہ اور علی ہذا القیاس اسی قبیل کی دوسری شاہی تقاریب میں شعراء کے طبقہ نے اپنی خداداد الہامی قابلیتوں سے کام لے کر اپنے ملک ووطن، اور اپنے ابنائے وطن کی طرف سے ترجمانی کا حق ادا اور اپنے حقیقی تاثرات ِ قلبی اور جذباتِ اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے ، اور آج وہ سب کچھ عربی وفارسی، اردو وغیرہ کئی زبانوں میں قصائدوقطعاتِ تاریخ اور نظموں کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے ۔
لہٰذا اپنے شہنشاہ معظم اور ملکۂ معظمہ کے اس پچیس سال دور حکومت وفرمانروائی کے اس جشن کے سلسلے میں جو مئی کے مہینے میں منایا جانے والا ہے ۔ ایک عام مشاعرہ منعقد کرنے کی تجویز سب سے پہلے میرے ذہن میں آئی چنانچہ سب سے پہلے میں نے اپنی قومی جماعت یعنی انجمن فخریہ چشتیہ خدام خواجہ اجمیر کے بعض ارباب حلّ وعقد ارکان سے مشورت اور گفتگو کی تو میری ہمت اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے عملی قدم آگے بڑھایا یعنی اپنے ضلع کے ہر دل عزیز مہربان حاکم جناب کیپٹن ایل ۔ اے ۔ جی ۔ پہنے ، اسسٹنٹ کمشنر بہادر اجمیر میر واڑہ کے رو برو اس تجویز کو پیش کرنے کا اتفاق ہوا کیونکہ صاحب ممدوح اگر ایک طرف اپنی ذمہ داریوں کی کما حقہ ادائیگی میں مصروف منہمک ہیں تو دوسری جانب فارسی اور اردو ادب کے ساتھ بھی کافی دلچسپی اور شغف رکھتے ہیں چنانچہ انعقاد مشاعرہ کی اس تجویز کو پسند کرتے ہوئے صاحب موصوف نے حوصلہ افزا الفاظ میں خوشنودی کا اظہار فرمایا اور جوبلی مشاعرہ کی سرپرستی قبول فرمائی ۔ اس کے بعد باب میں مولانا حمید اﷲ خانصاحب یوسف زئی پروفیسر گورنمنٹ کالج و آنریری مجسٹریٹ اجمیر سے گفتگو کی نوبت آئی اور مولانا نے میری اس تجویز کا پر جوش خیر مقدم کیا ۔‘‘ (۱)
’’ ایضا‘‘ ص ۵۰، ۴۹
سلور جوبلی مشاعر ے کی روداد کی طباعت کے سلسلے میں معنیؔ صاحب نے یہ اطلاع بھی پیہم پہنچائی کہ :
’’جوبلی مشاعرہ کا یہ اجلاس آج ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۵ء کو جشن جوبلی کی تاریخ معینہ سے ڈیڑھ ماہ پہلے اس لیے منعقد کیا گیا کہ جشن جوبلی کے موقع پر یہ مشاعرہ ایک کتاب کی صورت میں چھپوا کر حضور ملک معظم اور ملکۂ معظم کے حضور میں انگلستان بھیجا جا سکے اور انگلستان وہندوستان میں اس کی بر وقت اشاعت ہو سکے نیز یہ بھی خیال ہے کہ شاید ہمارے مشاعرہ کو انہیں دنوں میں منعقد کرنے سے جشنوں کے پروگرام میں کہ جس کا وزنی ہونا ضروری ہے ایک خلل انداز اضافہ نہ ہو جائے ۔ ‘‘ (۲)
’’ ایضاً ‘‘ ص ۵۰
چونکہ یہ مشاعرہ ایک تہنیتی تقریب تھی اس لیے شعرائے کرام نے جو کلام پیش کیا اس میں تعریف وتوصیف کا انداز وطرز روایتی قصیدہ نگاری جیسا ہی تھا اس سلسلے میں سب سے پہلے اجمیر کے معروف اور ہر دل عزیز شاعر مرزا مغل بیگ مغلؔ اجمیری کے درجِ ذیل اشعار ملاحظہ فرمایئے : ؎
ہند قربان ہے سرکار اسے کہتے ہیں
ملک حیران ہے دربار اسے کہتے ہیں
نظرِ لطفِ شہنشاہ معظم کے نثار
نظرِ رحمتِ غفار اسے کہتے ہیں
عدل کسریٰ کا نمونہ ہے یہ عدلِ قیصر
ایک ہی شان کی تکرار اسے کہتے ہیں
بکری وشیر کو اک گھاٹ پلایا پانی
ہم تو انصاف کا معیار اسے کہتے ہیں
خوب کی اپنے شہنشاہ کی تعریف مغلؔ
جذبۂ قلبِ نمک خوار اسے کہتے ہیں
سید اختر حسین، اخترؔ مودودی نے جو مادۂ تاریخ ۱۹۳۵ء کی نسبت سے برآمد کیا اس کے اشعار ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہیں ، چند اشعار اس بابت اس طرح ہیں : ؎
اے منبعٔ سخاوت ، فضلِ خدا کے مظہر
ظلِّ پناہِ عالم، سلطان ہفت کشور
اے صاحبِ عدالت خورشید چرخ حکمت
نو شیروان ثانی، غیرت دہِ سکندر
اقبال وعقل ودانش ، جاہ جلال وشوکت
ہر وقت دست بستہ رہتے ہیں تیرے درپر
شاہوں کا شاہ ہے تو ، سب کی پناہ ہے تو
بے شک ہے تیرا جھنڈا سب سے بلند وبرتر
تاریخ کہہ یہ اخترؔ ، دشمن کا سراڑا کر
اب شاہ تیرے دشمن دنیا میں ہیں نگوں سر
مولوی سید محمد ایوب منشؔ مودودی نے جشن تہنیت کے دوران جو لوازمات پیشِ نظر رہے اُن کی بھر پور عکاسی اپنے مندرجہ ذیل اشعار کے حوالے سے کی ہے : ؎
یہ کیسی خوشی اور یہ کیسی ہے مسرت
دنیا میں ہے اس جوبلی کے جشن کی شہرت
جلسے ہیں کہیں اور کہیں ڈانس کی مجلس
ہے بینڈ کہیں اور کہیں محفلِ بہجت
بجلی کی وہ ضو جس سے خجل ماہِ منور
شرمندہ کواکب ہیں چراغوں کی وہ کثرت
بندوقوں کی باڑیں ہیں تو تو پوں کی دنا دن
پلٹن کی قواعد ، تو رسالے کی ہے کسرت
وہ کون ؟ شہنشاہ زماں ، جارجِ پنجم
دنیا کے ہر اک گوشہ میں ہے جن کی حکومت
یہ جشنِ خوشی تم کو کوئن میریؔ مبارک
خالق نے دکھایا تمہیں یہ روزِ حسرت
دل سے یہ منشؔ کی ہے دعا دہر ہے جب تک
زندہ رہیں میریؔ، تو رہیں جارج ؔسلامت
بعض شعرائے کرام نے مروجہ قصائد کی تشبیب میں پیش کیے جانے والے بہاریہ موضوعات کے بعد اصل موضوع پر اظہار خیال کیا ہے جس کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعرائے اجمیر قصیدہ گوئی کے فنّی تقاضوں سے واقفیت رکھتے تھے ۔ جوبلی مشاعرے میں پڑھی گئی غزلیہ تخلیقات در اصل مختصر قصیدے کی صورت میں پیش کی گئی ہیں اس بابت چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں : ؎
ہزار شکرِ خداوند ایزدِ غفار
ہزار شکر کہ آئی چمن میں تازہ تازہ بہار
شمیم بانٹتی پھرتی ہے عطر پھولوں کا
سرور وعیش سے شاداں ہیں ساکنِ گلزار
یہ بے سبب کہیں خوشیاں ہیں باغِ عالم میں
حضور جارج کی جوبلی ہے آج گوہر بار
ادا سے بلبلیں کہتی ہیں لطف جب آئے
کہ تہنیت میں پڑھوں کوئی مطلعٔ انوار
ادائے شکر میں سرگرم خواجہ اکبر ہے
کہ اور اس سے سوا شکوہ وعزّ ووقار
( خواجہ سید اکبرحسین اکبر )
عجب پُر محبت ہوا چل رہی ہے
زباں پر ہر اک شخص کے جوبلی ہے
ہے غنچے کے لب پر ترانہ خوشی کا
نسیمِ بہار آج اٹھلا رہی ہے
کہیں بج رہے ہیں مسرت کے باجے
کہیں شان سے برق کی روشنی ہے
مبارک ہو تم ہو شہِ جارج پنجم
کہ اﷲ نے یہ دکھائی گھڑی ہے
تجھے فکرِ تاریخ ،سونشؔ ہے کیا ، لکھ
سِی و پنج و نہ دہ سنِ عیسوی ہے
( حافظ عبدالغفار سونشؔ )
نغمہ زن ہے بلبل صحنِ چمن
وجدمیں ہے سنبل نازک بدن
اے پالو! مطرب دلکش نوا
لا تری رنگینیاں ، محفل میں آ
کیف میں ڈوبا ہوا ہے آسماں
بھر رہی ہیںمستیاٍں مدہوشیاں
چھیڑ دے تو بھی ذرا مضراب لے
ہمنوا مانیؔ، مبارکباد دے
کر عنایت اے میرے ربّ جلیل
دیرٔ میجیٹیز کو عمر طویل
( مسٹر غلام علی خاں مانی ؔ )
مسرت کا زمانے کے لیے پیغام آتا ہے
بہار آئی ہے اب دَورِ مئے گلفام آتا ہے
مبارک ہو مبارک ہو کاغل ہے باغِ عالم میں
یہی نغمہ مرے کانوں میں صبح وشام آتا ہے
مبارک ہو کہ عہدِ جشن سلور جوبلی اے دل
بصد تعظیم آتا ہے ، بصد اکرام آتا ہے
دعا دیتا ہوں میں دل سے شہنشاہ معظم کو
دعا گو ہوں دعا گو کو یہی اک کام آتا ہے
رعایا کیوں نہ پھر دل شاد ہو سید نظام الحق
عطا پاشی پہ شہ کا ابرِ فیض عام آتا ہے
( شاہ سید نظام الحق )
رقص میں ہیں کس لئے لیل ونہار
وجد میں ہے کیوں ضمیرِ روز گار ؟
دوڑتی ہے پھر ہے کیوں موجِ نسیم
جوش میں ہے کیوں شبابِ برگ وبار ؟
قیصرِ ہندوستان کنگ ایمپرر
جارج پنجم خسروِ عالی تبار
ہمچو سعدی مے کند عبدالعظیم
ایں دعائے برق رو درویش وار
دولتِ نوئین اعظم شہر یار
باد تا باشد بقائے روزگار
( منشی شیخ عبدالعظیم برقؔ )
پھر جانفزا بشارت بادِ نسیم لائی
آئی بہار آئی ، آئی بہار آئی
ہرشاخِ گل چمن میں شاعر بکف ہے گویا
ہر پھول تاج برسر اور زر بکف ہے گویا
سب جشنِ جوبلی کی خوشیاں منا رہے ہیں
نغموں میں یہ دعائیں طائر بھی گارہے ہیں
ہوں کامراں ہمیشہ کنگ ایمپرر کا سایا
معمور مملکت ہو، مسرور ہو رعایا
( صاحبزادہ منشی سید محمد عالم ، عالم ؔ)
مبارک ہے یہ جشن جوبلی سرکار برٹش کا
کہ ہر سو سلوری گلہار ہے گلزار برٹش کا
ہر کہ سو چہچہے ہیں عندلیبانِ رعیت کے
ہر اک نغمہ علمبردار ہے سرکار برٹش کا
رہیں منت نکہت فقط ہندوستان کیا ہے
معطّر کر رہا ہے ورلڈ کو گلزار برٹش کا
ہمیشہ جوبلی ہو، جارج پنجم شاہِ اعظم کی
رہے تا حشر یا رب یہ مہ ضو بار برٹش کا
گیا رہ شعر میں تعریف برٹش کیا لکھوں کاتبؔ
ہتھیلی پر دکھاؤں کس طرح گلزار برٹش کا
( منشی محمد عبدالحفیظ کاتبؔ اکبر آبادی )
میکشو مژدہ ! کہ بدلی ہے زمانے کی فضا
انجمن آراء ہوا ہے ساقی فرخندہ فال
بادہ نوشوں کے لیے پھر رینتِ پیمانہ ہے
وہ شراب کہنہ جس کو ہو گئے پچیس سال
آج تک باقی ہے جس کے دورِ اول کا خمار
آج تک جس کا تصور ہے ہم آغوش خیال
چار دانگِ مملکت میں جوبلی کی دھوم ہے
اہتمام جشن میں سرگرم ہیں اہل کمال
تاجِ دولت کا مبارک ہو یہ سلور جوبلی
خسرو عالی گہر دیکھے مکرر جوبلی
( ڈاکٹر محمد عثمان سہیل ؔ )
چل رہی ہے آج جو بادِ سحریوں مشکبار
کیا کسی صورت سے شبکو کھل گئے گیسوئے بار
مچ رہا ہے تہنیت کا ہر طرف کیوں غلغلہ
جارہے ہیں سوئے لندن آج کیوں دنیا کے تا
بارک اﷲ مدتوں کے بعد آئی وہ گھڑی
جس کے نظارہ کووا تھی اپنی چشمِ انتظار
ہے حضور جارج پنجم کی یہ سلور جوبلی
باغِ عالم میں زرِ گل کیوں نہ برسائے بہلا
میرؔ بھی لایا ہے بہرِ نذر کچھ نقدِ سخن
اے شہِ ذی اقتدار وائے شہ عالی وقار
( شیخ محمد علی میرؔ احدی اجمیری )
ساقیا دیر نہ کر پاؤں بڑھا جلدی چل
وقت ٹل جائے نہ یہ ہاتھ سے ہاں لا بوتل
جارج پنجم کی خدا رکھے ہے سلور جوبلی
عیش وعشرت کا ہر اک سمت ہے چھایا بادل
احسنِ خستہ کی یہ دل سے دعا ہے ہر دم
روز افزوں ہو مرے شہ کا الہٰی کس بل
عمرو اقبال میں ہو اس کے ترقی دائم
شاد و آباد تو رکھ جارج کو اے عزّ وجل
خیر خواہوں کو میسر ہوں ہمیشہ خوشاں
اور دشمن کا سدا آکے گلا گھونٹے اجل
( مولوی محمد ایوب احسنؔ اجمیری )
جس طرف دیکھئے اٹھا کے نظر
گوشہ گوشہ ہے غیرتِ گلزار
غنچے ہنستے ہیں، پھول کھلتے ہیں
جھوم کر گار ہے ہیں آج ملہار
چل رہی ہے نسیمِ عیش وطرب
کہہ رہا ہے ہر اک درودیوار
’’ تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار‘‘
نقرئی جوبلی ہے آج ان کی
ہیں اسی جشن کے یہ سب آثار
( ڈاکٹر محمود خاں آثم اجمیری )
صبا پیغامِ سلور جوبلی لائی گلستاں میں
نمایاں ہے اثر ہر غنچہ وگل پر تبسم کا
پرندے نغمہ زن ہیں شاخ گل پر فرطِ بہجت ہے
بپا ہے حشر میدانِ گلستاں میں ترنم
جہانِ آب و گل کا ذرہ ذرہ کیف ساماں ہے
لبِ تصویر پر بھی ہے اثر موجِ تبسم کا
بہار ِ خوشنوا اک بندۂ بے دام ہے ان کا
دعا دیکر انہیں غالب ہوا ہے پھر ترنّم
فلک پر دور ہے جب تک کہ مہر وماہ انجم کا
ستارہ اوج پر چمکے الٰہی جارج پنجم کا
( محمود الحسن خاں بہار کوٹی )
مذکورہ مثالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوبلی مشاعرے میں پیش کردہ غزلیات میں شعرائے اجمیر نے ذوقؔ دہلوی کی قصیدہ نگاری سے کسبِ فیض کرتے ہوئے موسمِ بہار، شراب، شہاب ، رباب ، باد نسیم، مہ وانجم، گُل وبلبل ، برق وباراں، عندلیب ، موسیقی وغیرہ کی اصطلاحات کا سہارا لے کر تمہید باندھی اور بعد ازاں مدحیہ اشعار تخلیق کیے ۔ کہیں کہیں گریز کا پہلو بھی نظر آیا ۔ کہیں مادہ تاریخ نکال کر تخلیق کو تاریخ حیثیت دی گئی اور مبالغہ آرائی بھی اپنا جلوہ دکھاتی رہی لیکن اس کے بر عکس بعض شعراء برراہ راست اظہار مقصد پر آتے ہوئے اپنا ما فی الضمیرپیش کیا مثلاً : ؎
لائی ہے اﷲ اکبر کیا مقدر جوبلی
جوبلی ہے جارج پنجم کی یہ سلور جوبلی
ہو کے شاہنشاہ اعظم کی یہ سلور جوبلی
بن گئی اپنے مقدر کی سکندر جوبلی
منتظر جس جوبلی کی آمد آمد کے تھے ہم
آگئی ہے آج عالم میں سلور جوبلی
منعقد ہے آج بزمِ جوبلی ہر ہر جگہ
بن رہی ہے رشک فردوس وارم ہر جوبلی
آرہی ہے ہر طرف سے آج شوقیؔ یہ صدا
ہو مبارک جارج پنجم کو یہ سلور جوبلی
( مولانا حکیم محمد صدیق شوقیؔ )
جشن جبلی تجھے مبارک ہو
اے شہنشاہ ہند و انگلستاں
اے سکندر حشم فریدوں فر
اے فلک آستاں، شہ ذیشاں
علم وتہذیب وسائنس جو کچھ ہے
تیری شاہی کا ہے یہ سب فیضاں
ہو تجھے شاہ عمرِ خضر نصیب
اور زیر نگیں ہو کل یہ جہاں
ہے شہِ وقت کی اطاعت فرض
جانتے بوجھتے نہ بن انجاں (۱)
ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ شعر بصر اکبر آبادی نے ان شعرائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہوگا جو اس وقت اجمیر میں موجود تھے اور سلور جوبلی مشاعرے میں اس لیے شریک نہیں ہوئے تھے کہ انگریزوں کی تعریف مادرِ وطن سے غداری اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے ۔( شاہین ؔ)
( ایس محمد وزیر نصرؔ اکبر آبادی )
آئی پیغامِ سرور و عیش لے کر جوبلی
ہو مبارک بادشاہِ ہفت کشورجوبلی
یوں تو ہوتی رہتی ہے دنیا میں اکثر جوبلی
پر نہیں دیکھی ہے ہم نے اس سے بڑھ کر جوبلی
ہندو، مسلم ، پارسی ، عیسائی ، سکھ سب شاد ہیں
من رہی ہے گہری دلچسپی سے گھر گھر جوبلی
گولڈن پیغام لائی ہے یہ دنیا کے لئے
ڈائمنڈ جبلی کی قاصد ہے یہ سلور جوبلی
قلبِ عرشی کی دعا ہو یا الٰہی مستجاب
یعنی مسعود و مبارک ہو یہ سلورجوبلی
( سید محمد محمود عرشی اجمیری )
اے شہنشاہِ معظم ذی حشم
حق نے شاہوں پر عطا کی برتری
ہفت کشور ہیں تیرے زیر نگیں
زیبِ سرتاج وکلاہ سروری
ہے یہ جشن جوبلی کا احتشام
ہیں جلو میں شہ کے سارے لشکری
اخترِ اقبال چمکے یا ابد
ہو مبارک، ہو مبارک قیصری
باریابی اس لئے حاصل ہے رازؔ
رنگ لایا تیرا رنگِ شاعری
( منشی سید سرفراز علی رازؔ اجمیری )
جوبلی مبارک ہو ، کنگ جارج ففتھ کو
خاندانِ شاہی کو، یہ دعا ہے بر زباں
دور ساری آفتیں ، دور ساری کلفتیں
ہوں حصول راحتیں، اپمپرر کو بے گماں
ہاں کرم کر اے خدا، عمر شاہ کی بڑھا
راج یہ رہے سدا، ہو رعایا شادماں
اے الہ العالمین ، لا مکان کے مکین
ہو یہ تاج ، یہ نگین، اور ہو یہ حکمراں
خوش رہے یہ ایمپرر، کنگ جارج خوش سیر
اے خدا تو فضل کر، بخش عیشِ جاوداں
(خان صاحب مسٹر اے ۔ این ۔ ڈیوڈ )
شاہ کا نام لے ، دعائیں دے
تہنیت نامہ دے ،بلائیں لے
جس کا لشکر سپاہِ انجم ہے
وہ شہنشاہ جارج پنجم ہے
اہلِ ہندوستاں وانگلستاں
ہو رہے ہیں تمام تر شاداں
خوش رہیں اے خدائے پاک مدام
ملکۂ اور شاہزادے تمام
شاہ کو یہ خوشی مبارک ہو
نقرئی جوبلی مبارک ہو
(مولوی سید اعجاز علی اعجاز اجمیری )
ریل میں، اسکول میں ، دفتر میں جشن جوبلی
ہے مسرت خیز دنیا بھر میں جشن جوبلی
شاہ کی پچیس سالہ حکمرانی کے سبب
ہو رہا ہے آج کل گھر گھر میں جشن جوبلی
قیصر وجمشید ودارا ہی پہ کیا موقوف ہے
ہو رہا ہے آج کل گھر میں جشن جوبلی
ہے یہ خلاقِ دو عالم سے ہماری التجا
ہو ابد تک شاہ کا گھر گھر میں جشن جوبلی
کوئی بے خود ہے کوئی مد ہوشِ عشرت ذبیحؔ
جوش دکھلا نے لگا ہر سر میں جشن جوبلی
( مسٹرایس۔ ڈی ۔ جون ذبیحؔ )
شاہنشہہِ ہندوستاں زیبا ہے تجھ کو افسری
اﷲ نے بخشی تجھے سارے جہاں پر برتری
صولت میں تو بہرام ہے ، ملکوں میں تیرا نام ہے
ہے آج تیرے نام سے خورشید ومہ کو تھرتھری
سلطانِ عالی جاہ کا ہے جشن سلور جوبلی
تحفہ مبارکباد کا کر پیش پیش سروری
دورِ حکومت میں ترے ، حکام ہیں جو جو یہاں
ان افسروں کی شان کے شایاں کی بے شک افسری
سُن مضامین کو ترے بیکلؔ سخنور کہتے ہیں
مضمون ایسے ہوتے ہیں کہتے ہیں اس کو شاعری
( منشی عبدالغفور خاں بیکلؔ اجمیری )
اے شہنشاہ جارج ففتھ ترا
ہوبلند آفتابِ اوج وکمال
تیری پچیس سالہ جوبلی ہے
ہے رعیت تری خوشی سے نہال
کوششِ امن سے ہے تیری شہا
یورپ اور ایشیا میں استقلال
ہے دعا دل سے تیرے رضویؔ کی
تو سلامت رہے ہزاروںسال
سلطنت تو کرے بہ کرّ و فر
روز افزوں ہو تیرا جاہ وجلال
( سید عنایت علی رضویؔ سابق سب ایڈیٹر راجپوتانہ گزٹ ، اجمیر )
سلور جوبلی کے مذکورہ مشاعرے میں بعض شعراء نے اردو اورفارسی میں ملے جلے اشعار کہے تو کچھ نے صرف فارسی میں اپنے قلبی جذبات کا مظاہرہ کیا ۔ پچھلی سطور میں پروفیسر محمد حمید اﷲ خاں یوسف زئی عرشیؔ کی فارسی غزل سے اشعار پیش کیے جا چکے ہیں ۔ اس مشاعرے کی کمیٹی کے آنریری سیکریٹری معنیؔ اجمیری نے بھی اپنا تہنیت نامہ جارج پنجم کے حضور بزبانِ فارسی ایک غزل کی صورت میں پیش کیا تھا جس کے چند مرصع اشعار ملاحظہ کیجئے : ؎
ترازیبد جہاں داری ، تراز بید جہانبانی
بایں تختِ شہنشائی بایں الجبل سلطانی
جہانگیری، جہانداری ، جہانبانی ، جہاں شاہی
بذات با صفات تو ، خدا فرمود ارزانی
شہنشاہِ معظم، جارج پنجم خسرو ذیشاں
بجا باشد گر گو یم تراب مثل ولا ثانی
مبارکباد اے فرمانروائے ہندو انگلستاں
بعمر خویش افزوئی بملک خود فراوانی
سراپا باغِ اوصافش، بہار بے خزاں دارد
چہ گہا چینم اے معنیؔ بایں کوتاہ دامانی
فارسی واردو کے شعرائے کرام کی طرح سنسکرت کے کوی پنڈت ودیا بھوشن کرپا شنکر شاستری اور پنڈت شنکردت شاستری نے بزبانِ ہندی اپنے تاثرات کا مظاہرہ کیا ۔ اس ذیل میں کرپا شنکر شاستری کی سسنکرت تخلیق سے یہ مثال ملاحظہ فرمائیں : ؎
آسنّنتیوویک بدّھی وِشدا پراپتا پر تشٹھانم پرام
سمراگّئی سکل پرجاہت رتا ودِوّدجنا ہلادِنی
وکٹوریوتی شبھ بھسداں مہتیا کھیاتے انگلینڈ یپُرا
یسّیا شاشن پدِتی ہا سِم دّھرا تادّیاپی وِسماریتے
ان سطور میں تخلیق کار نے روایتی انداز میں اردو اور فارسی کے شعراء کرام کی طرح برٹش حکومت کے طرزِ نظامت کی تعریف کی ہے ۔ اسی طرح کے خیالات اپنی ہندی کویتا میں کرپاشنکرشاستری نے اس طرح ظاہر کیے ہیں : ؎
دیش میں تھے وَن جہاں اب بس گئے سُردھام ہے
لوٹ کا بازار تھا پر آج لکشمی ٹھام ہے
رکشکوں کی بھیڑ ہے نِت، دیش رکشن کام ہے
سُورن گرتا مارگ میں تو آ ملے ندھام ہے
برٹش شاسن میں سبھی ہم مود بہو وِدھا پا رہے
جارج پنجم بھوپ کی اِتی کیرتی گادھا گا رہے
ہو چرنجیوی ہمارے راجرانی سَرودا
راجیہ ان کا ہو امر جگ ونش بھی پھیلے سدا
دیش کے دھیکش سارے چھتر چھایا میں رہیں
شاستوں اور شاسکوں میں پریم کی دھارا بہے
ہے ونیہ شنکر سناوے اِیش! یہ سن لیجئے
جارج پنجم کی سُو سلور جوبلی شوبھِت کیجئے
مذکورہ سسنکرت اور ہندی کویتاؤں میں تخلیق کاروں کا جوش وخروش اور اسلوبِ شاعری فارسی اور اردوکے مذکورہ شعراء کی طرح اپنی قادر الکلامی کی کو بحسن وخوبی پیش کرنے کی مثالیں فراہم کرانے میں کامیاب معلوم ہوتا ہے ۔
سلور جوبلی مشاعرہ کو خطۂ اجمیر میں انعقاد پذیر ہونے والے مشاعروں اور تقریبات میں اس لیے بھی انفرادیت اور امتیاز حاصل ہے کہ اس سے قبل اور اس کے بعد اس قدر منظم طریقے سے کسی مشاعرے کے اہتمام کا انتظام نہیں کیا گیا ۔ با قاعدہ کمیٹیاں بنا کر وقتاً فوقتاً ان کی میٹنگز کی گئیں ۔ اراکین کے باہمی تبادلۂ خیال کی روشنی میں مشرقی ومغربی روایتوں کے پیشِ نظر مشاعرے کو کامیاب بنانے کی حتی الامکان کوششیں کی گئیں ۔ مشاعرے کے بعد اس کی روداد اور پیش کردہ کلام کو کتابی صورت میں منظرِ عام پر لایا گیا ۔ لیکن صد افسوس کہ اس کے با وصف اس تاریخی مشاعرے کا ذکر مشاعروں کی تاریخ اور تذکروں میں نا پید ہے ۔ راقم الحروف نے اسی مقصد کے پیش نظر یہ مضمون سپرد قلم کیا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی شخص راجستھان اور خصوصاً اجمیر میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی تاریخ مرتب کرے تو سلور جوبلی مشاعرۂ اجمیر ۱۹۳۵ء کو نظر انداز نہیں کیا جائے ۔
***