You are currently viewing گوہرجان گوہرؔ  :  ایک مغینہ ،ایک شاعرہ

گوہرجان گوہرؔ  :  ایک مغینہ ،ایک شاعرہ

ڈاکٹر شاہد ساز

گوہرجان گوہرؔ  :  ایک مغینہ ،ایک شاعرہ

         گوہر جان گوہرؔکے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ انیسویں صدی کی مشہور گلو کارہ اور شاعرہ تھیںاور جن کی شہرت و مقبولیت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔

         گوہر کا اصل نام Agelina Yeoward تھا۔ ماں کا نام Adeline Victoria اور باپ کا نام Robert Welliam Yeowart تھا۔ گوہر کی پیدائش ۱۸۷۳ء میں اعظم گڑھ میں ہوئی۔ گوہر کی ماںکی شادی ۱۸۷۲ء میں رابرٹ ولیم سے ہوئی تھی لیکن ۱۸۷۹ء میں طلاق ہوگئی تھی۔ اس وقت گوہر کی عمر ۶؍ برس کی تھی۔ گوہر کی ماں نے گوہر کے ساتھ ۱۸۸۱ء میں بنارس میں سکونت اختیار کرلی اور یہیںمذہب اسلام قبول کیا۔اس طرح وہ Angelina Yeoward سے گوہر جان بن گئی اور ماں نے اپنا نام ملکہ جان رکھا۔ ملکہ جان اپنی تصنیف ’مخزن الفت ملکہ‘ ۱۸۸۶ء کے باعث دائمی شہرت کی مالک بن گئی۔

         گوہر اپنی ماں کی طرح بہت حسین اور خوبصورت تھیں۔ وکرم سمپتھ نے گوہر کا خاکہ یوں کھینچا ہے:

“Meanwhile little Gauhar was growing up to be a pretty girl with a broad face, curly hair and distinct Anglo-Indian features.”                                                       (My Name is Gauhar Jaan, Pg.: 28)

         گوہر جان ایک طوائف تھیں لیکن وہ اس زمانے کی طوائف کی طرح نہ تھیں۔ جیسا کہ ہندوستان میں آزادی سے پہلے طوائف کو موسیقی اور جنسی تلذذ کو ایک ساتھ دیکھا جاتا تھا بلکہ گوہر جان کا تعلق صرف موسیقی سے تھا۔ اس ضمن میں عزیز الدین چشتی نے گوہر جان کی شخصیت پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے:

’’ جس طبقہ سے میر اتعلق تھا، اس میں کسی ’طوائف‘ سے ملنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ۱۹۲۹ء میں ایک دوست نے مجبور کردیا۔ اپنے مکان پر اسے مدعو کیا اور زبردستی مجھے اس سے ملا دیا۔

میرا خیال تھا کہ ایک سِن رسیدہ عورت کو دیکھوں گا مگر مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ بوڑھی نہ تھی۔ شباب کی تازگی اور حسن کی رعنائی ہنوز اس پر جلوہ گر تھی۔

قارئین تصور کریں۔ ایک مشہور طوائف اگر کسی سے اس حال میںملے کہ تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو اور خشیت الٰہی کے آثار اس کے بے ریا بشر ے سے عیاں ہوں تو اس شخص کا استعجاب کس قدر عظیم الشان ہوگا؟ گوہر جان کو میں نے اسی حال میں دیکھا۔ وظیفہ میں غرق تھیں۔ ان کے ایک رفیق سے معلوم ہوا کہ نماز کبھی قضا نہیں ہوتی۔ تلاوت سے کبھی سیری نہیں ہوتی۔ زہد و تقویٰ شعار بن گیا ہے۔ اللہ سے لو لگی ہے اور ہمہ وقت آخرت کی فکر دامن گیر ہے!

ہمارے دوست، جن کے مکان پر دعوت تھی، گوہر جان کو تیس برس سے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ خاتون کبھی بھی ’طوائف‘ نہ تھی۔ اس کی خودداری، شرافت نفس، فیاضی، تقویٰ و طہارت کے انہوں نے ایسے ایسے واقعات بیان کئے کہ حیرت ہوگئی!گوہر جان سے گفتگو اور اس کی حلاوت شاید عمر بھر نہ بھولے گی۔ فصاحت و بلاغت کا ایک دریا موجزن ہوگیا تھا۔ از حد شائستہ باتیں، نپے تلے لفظ، قند سے زیادہ شیریں بول، کہاوتیں، ضرب المثلیں ، اشعار، حسن و عشق پر محققانہ تبصرے، دنیا کی بے ثباتی کے نقشے، نعیم اخروی کی آرزوئیں۔ غرضیکہ کوئی موضوع نہ تھا جس پر اس نے تقریر نہ کی ہو۔ وہ باتیں کررہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ خاتون ہندوستان کی سب سے بڑی مغنیہ ہی نہیں بلکہ فاضل ترین عورتوں میں سے ایک ہے۔‘‘

(مرحومہ گوہر جان، پیام، ۲۳؍ مارچ، ۱۹۳۱ء، ص: ۱۰)

         گوہر جان کی ماں ملکہ جان کو شاعری اور موسیقی کے رموز و نکات سے واقفیت تھی۔ وہ بنارس کی مشہور طوائف بڑی ملکہ جان کے نام سے مشہور تھی۔ گوہر نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنی ماں سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد پنڈت مشرا سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی ، جو بنارس کے مشہور گھرانے میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

         ۱۸۸۳ء میں نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ والیِ دکن کی ایما پر ملکہ جان اور گوہر جان نے کلکتہ میں قیام کیا اور اس وقت سے کلکتہ کو اپنا وطن ثانی بنا لیا۔ گوہر جان کا کلکتہ آنا اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ گوہر جان کے گانے کی شہرت و مقبولیت کلکتے سے نکل کر دوسرے ممالک تک پہنچ گئی تھی۔ گوہر جان نے واجد علی شاہ کے دربار میں ایک مجرہ پیش کیا تھا۔اس مجرے کے متعلق عبدالحلیم شرر رقم طراز ہیں:

’’آج سے ۴۰؍ سال پیشتر لکھنؤ کی ایک مشہور رنڈی منصرم والی گوہر نے کلکتے میں جا کے نمود حاصل کی تھی۔ میں نے ایک محفل میں اس کا یہ رنگ دیکھا کہ کامل تین گھنٹے تک ایک ہی چیز کو ایسی خوبی سے بتاتی رہی کہ حاضرین محفل (جن میں مٹیا برج کے تمام باکمال ڈھاڑی اور معزز لوگ موجود تھے) اوّل سے آخر تک محوِ حیرت و سکوت تھے اور کوئی بچہ بھی نہ تھا جو ہمہ تن غرق نہ ہو۔‘‘

                                    (گذشتہ لکھنؤ، عبدالحلیم، ۲۰۱۱ء، ص: ۲۴۸- ۲۴۷)

         گوہر گانے کی وجہ سے دائمی شہرت کی مالک بن گئی۔ گوہر کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے مدراسی، برمی، تیلگو، بنگالی، پیشاوری، عربی، ترکی، فارسی، پنجابی اور ہندوستانی زبانوں میں اپنی گائیکی سے شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ فصیح الدین بلخی، گوہر کی موسیقی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’جوا ن ہونے پر گوہر نے گانے میں وہ شہرت حاصل کی کہ جب اول اول ہندوستانی گانوں کے ریکارڈ س بنائے گئے تو گرامو فون کمپنی نے گوہر سے خاص طور پر درخواست کرکے اس کے گانے کے ریکارڈ س تیار کئے جو اس کے زمانہ میں بے حد مقبول و مشہور تھے۔ فی الواقع اس کی آواز نہایت خوشگوار تھی۔ بڑی بڑی محفلوں میں گاتی تھی تو دور دور تک اس کا گانا صاف سنائی دیتا تھا۔‘‘                          (تذکرۂ نسوانِ ہند، فصیح الدین بلخی، ۱۹۵۶ء، ص: ۱۲)

         عزیز چشتی نے ایک محفل میں گوہر جان کا گانا سنا تھا۔ گوہر جان کے گانے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

’’کس کے قلم میں طاقت ہے کہ ان نغموں کی حلاوت ضبط تحریر میں لا سکے؟ گرامو فون میں ان کے جو گانے ہم نے سنے تھے، وہ ہم فوراً بھول گئے۔ گمان ہوتا تھا کہ مرزا میر دائود مترنم ہوگئے ہیں۔ رات کا سناٹا، اثر میں ڈوبی ہوئی مناجات اور گوہر جان کی موسیقی! قلب و روح کے سواحاضرین کا کوئی حواس بھی گویا زندہ باقی نہ تھا۔ غضب کی محویت طاری ہوگئی تھی۔ ہم سب عالم خود فراموشی میں پڑے تھے اور گوہر جان اپنے الحان سے ہماری روحوں کو رقص میں مصروف کئے ہوئے تھیں۔

مناجات گائی جاچکی مگر گوہر جان کے مطرب اعصاب مشتعل ہوچکے تھے۔ اب انہیں کون روک سکتا تھا۔ مجلس میں کئی عرب موجود تھے۔ ایک ترک بھی تھا۔ گوہر جان نے سب کو لٹانا شروع کردیا۔ عربی گانا گایا مگر کس طرح گایا ہم مشہور عرب مغنیوں کے گانے سن چکے ہیں۔ گمان ہوتا تھا کوئی عرب استاذ گارہی ہے مگر عرب استاذ کو بھی گوہر جان کی آواز کہاں نصیب؟ پھر ترکی گانا ہوا۔ ترک دوست بے اختیار اُٹھ کھڑا ہوگیا اور زور زور سے تالیاں بجانے لگا، پھر فارسی گانا ہوا۔ پھر پشتو گانا ہوا۔ پشتوجیسی کرخت بولی شاید ہی دنیا میں کوئی ہو مگر ہماری مغنیہ کی زبان سے اس کے لفظ ایسے پاک اور شیریں ہوکرنکلتے تھے گویا کوثر میں دھو دئیے گئے ہیں۔ متعدد زبانوں کے گیت گائے گئے مگر کیا مجال کہ اصلی لہجے میں کوئی تبدیلی ہوجائے۔ عجیب بات یہ دیکھی کہ گاتے وقت چہرے اور منھ میں کوئی ادنیٰ فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ دونوں اپنی اصلی حالت پر رہتے تھے۔ ہونٹوں میں ذرا بھی کجی پیدا نہ ہوتی تھی۔ یہ وصف ہم نے کسی دوسرے مغنی یا مغنیہ میں نہیں دیکھا۔

یہ واقعہ مرحومہ کی وفات سے غالباً چھ مہینے پہلے کا ہے۔‘‘

(ہفتہ وار ’مصور‘، پیام، ایڈیٹر: ملّا جان محمد، ۲۳؍ مارچ ۱۹۳۱ء)

         گوہر جان کلکتہ میں بڑی ٹھاٹ باٹ سے رہا کرتی تھی۔ یہاں کے شرفأ، امرأ اور عمائدین شہر سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ انہیں بڑی بڑی محفلوں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے کلکتہ میں ’فینی فیئر‘ کے نام سے ایک میلہ منعقد کیا تھا جس میں انگریزوں کے گورنروں اور رئیسوں کی شرکت ہوتی تھی۔ گوہر جان بھی اس میلہ میں بہت ہی زرق برق لباس زیب تن کرکے جاتی تھی جس کے متعلق فصیح الدین بلخی رقم طراز ہیں:

’’گوہر بھی زرق برق لباس فاخرہ پہنے اور قیمتی زیورات سے آراستہ ہو کر ایک اعلیٰ درجہ کی فٹن پر سامنے سے گذری اور ہاتھ اُٹھا کر گورنر کو سلام کیا۔ لاٹ صاحب نے اس کوکوئی بڑی ریاست کی رانی سمجھ کر سلام کا جواب دیا اور فوراً پولیس کمشنر سے پوچھا کہ یہ کہاں کی رانی ہے؟ کمشنر نے کہا کہ یہ کلکتہ کی مشہور طوائف ہے۔ لاٹ صاحب دل میں پشیماں ہوئے اور دوسرے سال سے میلہ میں عورتوں کے آنے کی ممانعت ہوگئی ۔ گوہر کے ہواخواہوں نے علی الرغم انہیں دنوں میں دوسرا میلہ قائم کیا جس کا نام موہن میلہ تھا۔ یہ میلہ بھی بہت کامیاب رہا۔‘‘

 (تذکرۂ نسوانِ ہند، فصیح الدین بلخی، ۱۹۵۶ء، ص: ۱۳)

         گوہر جان کے تعلقات داغ دہلوی اور اکبر الٰہ آبادی سے گہرے تھے۔ داغ نے ’زبان داغ‘ میں گوہر کا ذکر کیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے گوہر کے لئے ایک شعر کہا تھا جو زبان زد ہوگیا ہے:

مطمئن کون زمانے میں ہے گوہرؔ کے سوا

سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

         گوہر جان اگست ۱۹۲۸ء کو مہاراجہ میسور کے دربار سے وابستہ ہوگئی۔ اور اس زمانے میں انہیں ماہانہ ۵۰۰؍ روپیہ انہیں ملتا تھا۔ ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۰ء کو گوہر جان نے میسور میں انتقال کیا اور وہیں سپرد خاک ہوئیں۔ ۲۸؍ جنوری ۱۹۳۰ء کو کلکتہ کے اخبار ’’دی اسٹیٹس مین‘‘ نے گوہر جان کے متعلق بھرپور تبصرہ کیا :

“A loss has been sustained by the death in Mysore of Madame Gauhar Jan, where she was court singer and danseuse to H.H. the Maharaja of Mysore. Born in 1873, of European parentage — her father being Mr. Robert William Yeoward, planter and engineer, and her mother, Adeline Victoria Hemmaings, Gauhar Jan was christened Eileen Angelina Yeoward. At the age of 6, Miss Eileen embraced Islam at Benaras, with her mother. The mother adopted the name of Malka Jan, and the daughter that of Gauhar Jan. It was in 1883 that Gauhar Jan first came to Calcutta under the patronage of H.H. the late Nizam of Hyderabad, and she had lived practically all her life here, with the exception of two years in Bombay and occasionally tours of the country, and the last two years in Mysore.

Her fame as a songstress earned her the title of ‘Indian nightingale’ and when gramophone records were first made of Indian songs, she was the first to be approached. When Maud Allan, Madame Anna Pavlova and Madame Calve of Paris visited India, they were entertained by Gauhar Jan. Pavlova’s praise of Indian saris brought her from Gauher a most expensive sari and a choli (jacket) which she still treasures. Sir Harry Lauden was also introduced to Gauhar Jan and was delighted by her singing. She leaves a number of pupils in India to perpetuate her art.”     (The Statesman, Tuesday, 28th January, 1930)

         گوہر جان کو مقبولیت ان کا کمپوز کیا ہوا گانا ’’رس کے بھرے تورے نینا‘‘ وجہ سے مشہور ہوئی تھی۔

         گوہر جان نہ صرف خوش آہنگ گلوکارہ تھیں بلکہ ایک شاعرہ بھی تھیں۔ ان کی رس بھری آواز اور موسیقیت سے متاثر ہو کر لوگوں نے ’’بلبل ہند‘‘ کا لقب دے ڈالا۔ وہ اپنی ماں ملکہ جان سے مشورۂ سخن کرتی تھیں لیکن مالک رام نے تلامذۂ غالب میں گوہر جان کو غالب کی شاگردہ بتایا ہے ، جو درست نہیں ہے کیونکہ غالب کی وفات ۱۸۶۹ء میں ہوئی اور گوہر جان کی پیدائش ۱۸۷۳ء میں ہوئی تھی ، پھر وہ غالب کی شاگردہ کیسے ہوسکتی ہیں؟مختلف تذکروں میں گوہر جان کے ایک دو شعر ہی تذکروں میں ملتے ہیں۔ اس لئے ان تذکروں سے جتنے متفرق شعر دستیاب ہوسکے ہیں، انہیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

غزل

دل میں بے چینی سرِ بستر راحت ہوگی

اس قدر وصل کی مشتاق طبیعت ہوگی

لاکھ ارمان بھرے حشر میں ہوں گے پامال

چھوٹے سے سِن میں بھی رفتار قیامت ہوگی

دو بھی بوسے جو مجھے نام خدا پر دو گے

اس سے کچھ کم تو نہیں حسن کی دولت ہوگی

چٹکیاں لے کے جو پہنچی کبھی وہ زلفِ سیاہ

دردِ دل اُٹھنے کی ضامن شبِ فرقت ہوگی

قیصر ہند لقب بخشے گی گوہرؔ امید؟

ہم کو تفویض جو ملکہ کی وزارت ہوگی

مناجات

یاخدا محو ثنا گبر و مسلماں ہیں ترے

کون عالم میں ہے جس پر نہیں احساں ہیں ترے

جن و انسان و ملک بحر و بر و ارض و سماء

تو وہ سلطان ہے کہ سب تابعِ فرمان ہیں ترے

صبح دم گلشن ایجاد میں مرغان چمن

ہیں چہکتے نہیں دراصل ثنا خواں ہیں ترے

پھنس گیا آ کے تباہی میں ہے بس اپنا جہاز

اپنی رحمت سے بچا لے سبھی قرباں ہیں ترے

کوئی ہندو ہو مسلماں ہو نصاریٰ کہ یہود

سب کے سب اپنی زبانوں میں ثنا خواں ہیں ترے

کشتیِ گوہرؔ خستہ کو بھنور سے تو نکال

اے خدا قلب و جگر میرے یہ قرباں ہیں ترے

تاریخی قطعات

لکھ کے ملکہ نے جو چھپوایا یہ دلچسپ کلام

لبِ حاسد پہ بھی ہے سوز ترنم لاریب

فکر تاریخ کی جب ہونے لگی گوہرؔ

رنگ لائے گی بہت موج تبسم لاریب

نہ ملے گا کہیں تاریخ کا کوسوں جو پتا

ہوں گے اس راہ میں سب ہوش و خرد گم لاریب

نکتہ چین بن کے پھریں گی جو تمنائے دل

ماہر علم و ہنر سمجھیں گے ہر دم لاریب

بند ہو جائے گی ہاتف کی ندا کے لب سہی

ہے زبان دانی میں وہ شیریں تکلم لاریب

  ۱۳۰۳

——×——

شاید کہ یاد بھولنے والے نے پھر کیا

ہچکی اسی سبب سے ہے گوہرؔ لگی ہوئی

(غیرمطبوعہ)

٭٭٭٭٭

  1. SHAHID

24B, Abdul Halim Lane, Kolkata-700016

Mobile : 9831365009

Leave a Reply