You are currently viewing گہرا سمندر

گہرا سمندر

ریاض اکبر – آسٹریلیا

گہرا سمندر

       ساری ڈگریاں پاس کر گئی، مگر کبھی کتابوں میں پڑھا  نہ کسی نے بتایا کہ جب ملوں تو کیسے تمہیں پہچانوں؟  یونہی زندگی کے چند روز تمہارے ساتھ گزار کر گزر گئی۔ میرے پاس وہ پرکھ ہی نہیں تھی کہ تمہیں اتھاہ  تک جان سکتی۔ ستم تو یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایسی پرکھ مجھے جاننے کے لئے تمہارے پاس بھی نہیں ہے۔ شاید یہ کسی کے لئے کسی کے پاس بھی نہیں ہوتی۔  اگر میں جانتی تو کم از کم یہ تو ممکن تھا کہ ہم ایک دوسرے کے ماتھے سے ماتھا ملا کر مان لیتے کہ جو ہم جان گئے ہیں وہی ہمارے ساتھ ساتھ دیر تک جینے کے لئے بہت ہے۔ گہرے سمندر کی مچھلیوں اور کیکڑوں کی وہ نت نئی اقسام جو اس ریسرچ کے بحری جہاز سے بندھے ہوئے جال میں کھنچ کر عرشے تک آتی تھیں بس انہیں میں مگن میرے چار مہینے گزر گئے۔ نئی ریسرچ تھی اور میرا پہلا بحری سفر۔ راتوں کو جاگ جاگ کر کام کیا تھا میں نے۔ اس تھوڑے سے وقت میں ہر زاوئیے سے ان کی تصاویر لینا، ان کی ساخت، سائز، اعضا کا تناسب سمجھنا، ساحل پر پہنچنے کے بعد کے تفصیلی تجزیئے کے لئے انہیں محفوظ کرنا، پھر سب ریکارڈ لکھنا، سوچنا، اور بار بار پڑھنا، یہ سب کچھ کم ذمہ داری تو نہیں تھی۔ سو ایسے ہلکوروں میں جھولتے جھومتے گاہے گاہے بیمار پڑنا بھی تو حق بنتا تھا نا میرا۔ میں میرین بیالوجسٹ تھی اور تم جہاز کے میڈیکل ڈاکٹر۔ یوں تو جہاز کے چھوٹے سے عملے میں میل جول سبھی کے ساتھ ہی تھا، مگر تھکن اور سمندری سفر میں میرے یوں بار بار بیمار ہونے پر تمہاری وہ توجہ جانے کہاں بہا کر لئے جا رہی تھی مجھے۔ ایسے لگتا تھا کہ بیمار میں ہوتی ہوں اور پریشان تم۔ راتوں کو جاگ کر وہ تمہارا میرے بستر کے پاس تک آنا۔ خیریت پوچھنا، دوا دینا،  کھانے اور کافی کا اہتمام کرنا، کبھی کبھی سہارا دے کر اٹھانا، یہ سب کچھ مجھے ڈاکٹری سے کچھ بڑھ کر گہری دوستی اور دیرپا ساتھ کی طرح لگنے لگا تھا- پھر سوچتی کہ شاید یہ تمہاری پروفیشنل لگن ہے۔ شاید سبھی کے ساتھ ہی تم ایسے ہو، اور میرے لئے کچھ خاص نہیں۔ پھر تم نے بھی تو کھل کر کچھ نہیں کہا تھا۔ بعد میں کئی بار یہ خیال آیا کہ ہم دونوں ہی پہل کرنے سے ہچکچا گئے۔
اس بندرگاہ پر جہاں میرا ریسرچ کا یہ سفر ختم ہوا تھا جہاز ایک ہفتہ تک ٹھہرا۔ چاہتی تو اتر کر جلد ہی میں اپنے ملک کی فلائٹ لے سکتی تھی، اور یونیورسٹی میں میرے لیکچر بھی شروع ہونے

کو تھے، مگر میں رکی رہی۔ تاہم عملے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ آئیندہ سفر کی تیاری میں تم بہت مصروف تھے، سو ہم بس دو ایک بار ہی تھوڑا سا مل سکے۔ بعد کی زندگی میں اور کئی ریسرچ کے جہازوں میں گئی، کچھ بیمار بھی ہوتی رہی، اور عملے کے ڈاکٹروں نے توجہ بھی دی۔ مگر وہ احساس جو تمہاری توجہ پر جاگا تھا وہ نہیں تھا۔ مجھے اندازہ  ہوا کہ دور سمندر کی سطح پر کی ہوئی دوستیاں بہت رسمی بھی ہو سکتی ہیں اور بہت گہری بھی۔ اب ہمیں ہی دیکھ لو، وقت نے کچھ اس طرح  بِتایا ہے ہم دونوں کو کہ اندازہ ہی نہیں ہوا اور ایک دوسرے کو یوں جانے ہوئے پینتیس برس بیت گئے۔ ہم خط لکھتے رہے، تصویریں بھیجتے رہے اور پچھلے کچھ سالوں سے فون پر میسج بھی۔ میں اپنی ریسرچ، گہرے سمندر کی مخلوقات، اور ڈپٹی وائس چانسلر بننے کے بعد یونیورسٹی میں بڑھتی ہوئیانتظامی مصروفیات کے بارے میں لکھتی،  اور تم نئے نئے شہروں، سمندری طوفانوں،جہازوں میں پھوٹنے والی وبائوں، اور جہاز رانی کے بدلتے ہوئے انداز کی بابت۔ ہاںتم نے ریسرچ کے جہازوں کو چھوڑ سمندری تفریح کے ایک بہت بڑے جہاز کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔

 اب مڑ کر دیکھیں تو کتنی آسانی سے ہم دوبارہ مل بھی سکتے تھے۔ میں تمہارے ساتھ کسی ایک بندرگاہ سے  دوسری بندرگاہ تک چند ہفتے سفر کر لیتی، یا تم اپنی چھٹیاں گزارنے یہاں آ جاتے۔مگر چھٹی تو شاید کبھی تم نے لی ہی نہیں۔ ایک بار جب میرے شہر کے ساحل پر رکے بھی تو میں اپنی ریسرچ کے بحری سفر پر تھی۔ اس ہفتے تم جو پین میرے لئے آفس میں چھوڑگئے تھے، تیس برس بیت گئے، وہ اب تک میرے پاس ہے۔ یونہی بس یونیورسٹی کے ہوسٹل سے ملحق ایک فلیٹ ہی میں رہتے اتنے برس گزار دئے میں نے۔ ایک بار تو تمہیں لکھ بھیدیا تھا کہ میری ریسرچ اور تمہارے میسج ہی میرے لئے کافی ہیں- تم نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔

         اب مانو یا نہ مانو، تمہارے فون پر ملنے والے اس میسج نے پچھلے پانچ گھنٹے میں مجھے اتنا مصروف رکھا ہے کہ اس سے پہلے کسی کام نے نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ میرے اس پہلے بحری سفر کی ریسرچ نے بھی نہیں جب ہم ملے تھے۔ یہ میسج تم نے خود نہیں بلکہ جہاز سے تمہارے عملے کےایک ڈاکٹر نے تمہارے فون پر  لکھا ہے۔ تم مر گئے ہو۔ دو ہفتے سے بیمار تھے۔ اور اب بے حس و حرکت ایک تابوت میں بند سرد کمرے میں ہو۔ تمہاری وصیت، جو تم نے (مجھے بتائے بنا) کبھی سے لکھ چھوڑی تھی، اس کے مطابق تمہارا سب ساز و سامان اور ایک لفافے میں بند کچھ قانونی کاغذات مجھے وصول کرنے ہیں۔ اور جیسا کہ تم نے اپنے کولیگز کو کہا تھا، تمہیں وہ اس پہلی بندرگاہ پر جہاں یہ جہاز رکے گا تدفین کے لئے اتار دیں گے۔

 سنو۔ میں نے اپنی جاب سے استعفی لکھ دیا ہے۔ کمپیوٹر پر ٹائپ کر رہی تھی مگر رک گئی، پھر پرنٹر سے ایک کاغذ نکالا اور تمہارے ہی دئے ہوئے پین سے اسے لکھا۔ لکھنے سے پہلے اپنے ڈیسک سے اٹھی تھی میں۔ تمہاری ہی طرح کا برس ہا برس کا ساتھ اپنی ریسرچ سے بھی تو ہے۔

دیواروں پر کئی تصویریں آویزاں تھیں۔ سمندروں کی گہرایوں میں جانے کیسے کیسے تخلیق دی ہوئی جیتی جاگتی زندگی کی تصویریں- زندگی کی وہ اقسام جن کی پہلی دریافت کے ساتھ میرا نام بھی آتا ہے- ان میں سے ایک ایک کے پاس رکی اور پھر آئینے کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ اس وقت  اپنا عکس بھی یوں لگا کہ جیسے میں نہیں تم میرے سامنے ہو اور ابھی ہاتھ بڑھا کر اس پہلے سفر کی طرح میرے نڈھال بدن کو تھام لو گے۔ سوچا کہ ہمارا پیار بھی ایک گہرے سمندر ہی کی طرح ہے۔ایک ایسی گہرائی جہاں چاند کی چاندنی اور سورج کی دھوپ نہیں پہنچتی۔ مگر دن رات کےآنے جانے اور سطح کے رنگ برنگ طلاطم کے سب استعاروں سے بے نیاز ایک خوبصورت زندگی وہاں بھی تو بس رہی ہے۔ سوچ کے اسی ایک لمحے میں مَیں تمہاری بڑھی ہوئی بانہوں میں سمٹ گئی۔ ہاں، میں نے ہوائی جہاز کی بکنگ کر لی ہے، سفر طویل تو ہے مگر امید ہے کہ تمہارے آنے سے چند گھنٹے پہلے بیونس آئرس ارجنٹائن کی بندرگاہ تک پہنچ جائوں گی۔ وہاں چاکاریٹا کے نواح میں ایک چھوٹے سے خوبصورت قبرستان میں ساتھ ساتھ دو قبروں کی جگہ بھی مل گئی ہے۔ کچھ دورہی ایک مکان خالی ہے، سوچ رہی ہوں کہ لے لوں تو پیدل آ جا سکوں گی تمہارے پاس، مگر جا کر دیکھوں گی۔  توبہ، آج پہلی بار کتنا تھکا دیا ہے تم نے مجھے۔ جائو نہیں بولتی۔
Hearts are deeper than rivers and oceans, so who can fathom their secrets? (Sultan Bahu, Punjab 1630-1691)

***

Leave a Reply