You are currently viewing ہندوستان کی آزادی میں’’ اردو‘‘ اور’’صحافت ‘‘

ہندوستان کی آزادی میں’’ اردو‘‘ اور’’صحافت ‘‘

میمونہ تحسین محمد اِسمٰعیل

پی ۔ایچ۔ڈی۔ریسرچ اِسکالر،

ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر یونیورسٹی ،اورنگ آباد، انڈیا۔

ہندوستان کی آزادی میں’’ اردو‘‘ اور’’صحافت ‘‘

          اردو زبان میں استعمال ہونے والا لفظ”صحافت ”  عربی زبان کے الفاظ صحف سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی صفح کتاب یا رسالہ کے ہیں۔ انگریزی میں یہ لفظ جرنل سے ماخوذ ہے جسے ہماری روزمرہ کی عام بول چال میں جرنلزم کہتے ہیں اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق, صحیفے کے لغوی معنی وہ چیز ہے جس پر لکھا جا سکے اسی مناسبت سے سے درخت کی ایک جانب یعنی صفحہ کو بھی صحیفہ کہتے ہیں۔جدید عربی میں صحیفہ بمعنی جریدہ اور اخبار بھی مستعمل ہے۔قرآن مجید میں نامہ اعمال، خط یا مکتوب،حکم نامہ یا فرمان اور کتب آسمانی، سچے رسولوں پر نازل کی جانے والی کتابوں اور احکام اور ہدایت کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ایک غلام ملک کے لیے آزادی سے بڑھ کر اور کون سی بات اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔

           جب ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا تو اس بات سے گنگا جمنی تہذیب کو بڑھاوا ملا۔ یوں تو آزادی سے پہلے اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کی عام زبان تھی لیکن تقسیم کے بعد اردو کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ اور ایسے کہ اس کو تعثب کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس کے ساتھ بھید بھاؤ کیا جانے لگا۔کئی ایسے شعبے ہیں جہاں اردو بولنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں ان کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ سرکاری دفتروں میں اس کا چلن ختم کردیا گیا۔ڈاکٹر محمد اس سلسلے میں لکھتے ہیں،

” وطن پرستی کے نام پر قومی عصبیت،جارحیت،امن دشمنی اور قومی یک جہتی کے نام پر اقلیتوں کی زبان، تہذیب اور وجود کو خطرہ لاحق ہونے لگا۔”(۱)

          اردو صحافت نے اٹھارہ سو ستاون کی پہلی جنگ آزادی کے دوران اپنی نو عمری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اردو صحافت کے ساتھ ملک کی آزادی کے بعد ہندوستان کے آئین کی بنیاد سیکولرزم پر رکھی گئی جہاں تمام مذاہب کو مکمل آزادی کا یقین دلایا گیا۔

          ایسی صورت حال میں جب مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی سرپرستی کا فقدان ہوگیا تھا اس وقت اردو صحافت پر ایک بڑی ذمہ داری آن پڑی۔ اخبارات و رسائل کے ذریعے سے اردو صحافت کو بڑھاوا ملا۔

اردو صحافت کے آغاز سے پہلے اردو نثر پروان چڑھی اس کا کوئی وقار قائم نہ رہ سکا بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی،

” اردو نثر کہیں شاعری سے قدم ملاتی نظر آتی تو کہیں خطابت کے قریب پہنچ جاتی۔”(۲)

          اردو صحافت کا آغاز جن اخبارات سے ہوا وہ اس طرح ہیں،

”قومی آواز” نے ہر ہفتے میگزین پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ہفتہ وار میگزین میں ادب شعر و شاعری، بچوں کا گوشہ، فلم ریویو،دنیا کا حال،کتابوں کی باتیں وغیرہ شائع ہوئیں۔

” عزائم لکھنؤ ” میں پندرہ اگست انیس سو پچاس کو ہفتہ وار عزائم شائع ہونا شروع ہوئے۔

اردو صحافت میں ”انقلاب ممبئی” نے بھی آزادی حاصل کرنے میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔

”سیاست حیدرآباد” یہ  اپنے طرز کا ایک اخبار تھا۔ جس کی تحریر نے حیدرآباد کے باشندوں کے دل میں جگہ بنا لی تھی۔

”آزاد ہند” کلکتہ مغربی بنگال کا سب سے مقبول اخبار جس میں میں زیادہ تر لکھنؤ کا رنگ نظر آتا ہے۔

”ملاپ” دہلی, یہ اخبار مشن کے تحت شروع ہوا جس کا رسم الخط اردو تھا۔

اس طرح ان اخبارات نے آزادی حاصل کرنے میں صحافت کا آغاز کرکے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

          جب آزادی کا جذبہ پیدا ہوا تب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ صحافت کے میدان میں آگے آئے۔ ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی اور ظفر علی خاں جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات نے اس وادی میں قدم رکھا۔ اس کے علاوہ سر سید کی عقلیت اور علمیت کے خلاف صحافت اور ادب میں ردعمل رونما ہوا۔ اس دور کی صحافت میں باغیانہ عصر نمایاں ہو گیا۔ آزادی ہند کی تحریک کے یہ اخبارات ترجمان ہو گئے۔ لکھائی چھپائی ترتیب ہر اعتبار سے اردو اخبارات نے ترقی کی۔

          شروع میں اردو اخبار میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘,”اودھ اخبار‘‘۔ ’’مخزن ”، اردو معلی”، ”تہذب نسواں” اور” ہمدم لکھنو” موجود تھے۔ اس کے بعد وکیل امرتسر، پیسہ اخبار لاہور، الہلال والبلاغ کلکتہ، مدینہ بجنور،اس طرح اردو صحافت نے اس صدی کے وسط تک انقلاب آفریں رول ادا کیا۔

          الہلال اخبار سولہ صفحات کا یہ اخبار اردو صحافت میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔اس کے متعلق مولانا آزاد نے صحافت کو ایک مشن کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔انہوں نے الہلال میں اعلان کیا کہ،” ہم اخبار کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فرض الہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں.”

          آزادی ہند کے بعد اگر چہ اردو کو ناسازگار حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہت بڑی تعداد میں مختلف شہروں سے اردو اخبارات و رسائل نکلتے رہے اور انھوں نے ملک کے مختلف مسائل میں عوام کی رہنائی کا فریضہ انجام دیا۔ آزادی کے بعد اردو صحافت کا اسلوب خاصا عام فہم اور لب و لہجہ عوامی ہو گیا۔

شیلے کے الفاظ میں،

”قاصد نقیب شعراء اکرام، کافی ہاؤس میں ہونے والے اجتماعات اور ان کے تحریری روداد،کلیسا کے پادری ڈھنڈورچی وغیرہ سب ایسے ذرائع تھے جو انسان کی اطلاعات ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے لیے موجود تھے۔”(۳)

          دوسری زبانوں کے الفاظ کو کثرت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ مبالغہ آرائی اور ہجو کے بجائے توازن و وقار کے ساتھ ہر مسئلہ پر مدلل نثر میں اظہار خیال کیا جانے لگا۔ علماء و اہل علم کی توجہ اگر صحافت کی طرف نہیں رہی اور اردو کے ادیبوں نے بھی اسے لائق اعتنا سمجھنے میں تکلف سے کام لیا لیکن بمبئی و حیدر آباد اور لکھنو کے موقر اردو روزناموں سے اردو کے ممتاز اور صاحب طرز اہل قلم وابستہ رہے۔ غرض اردو صحافت ڈیڑھ سو سال کے سفر کے بعد بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں اسلوب اور اظہار و ابلاغ کے اعتبار سے ایک مقبول عام کار آمد اور عوام و خواص دونوں کے دلوں کو جیتنے والی نثر کو فروغ دینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔اب وہ آزاد ہندوستان کے ہندوستانیوں کو متحد رہنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

      حواشی

   ۱۔(صحافتی زبان۔   ڈاکٹر سہیل وحید۔     صفحہ 166)

۲۔ (پاکستان و ہند میں مسلم صحافت۔  مسکین صجازی    صفحہ 85)

۳۔(ڈکشنری آف ورلڈ لٹریچر۔   شیلے 1943ء)

Leave a Reply