You are currently viewing یاخدا:ایک تجزیاتی مطالعہ

یاخدا:ایک تجزیاتی مطالعہ

محمد طارق

ریسرچ اسکالر

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

یاخدا:ایک تجزیاتی مطالعہ

  قدرت اللہ شہاب کی شخصیت بر صغیر میں اردو ادب کے حوالے سے تعارف کی محتاج نہیں۔ سرحدی تفریق سے پرے ان کا شمار اردو ادب کے مشہور و معروف ادباء اور دانشوران میں ہوتا ہے۔ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے ان کی خدمات پہلے غیر منقسم ہندوستان بعد ازاں پاکستان مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سے منسلک رہیں۔ ادب سے ان کا تعلق جزوقتی رہا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اردو ادب کے دامن میں کئی لازوال فن پاروں کا اضافہ کیا ۔بیوریکریسی سے ان کے انسلاک اور عوام سے براہ راست رابطے کے باعث ان کی تخلیقات حقیقت و صداقت کی عکاس ہیں، جن میں ان کی خودنوشت ’’شہاب نامہ‘‘ اور ان کے افسانوں کو سرفہرست مقام حاصل ہے ۔ان کے علاوہ ان کی دیگر تخلیقات بھی سماجی،سیاسی اور اقتصادی مسائل سے بحث کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

’نفسانے‘ (۱۹۵۰)اور ’ماں جی‘(۱۹۸۶) سے قبل قدرت اللہ شہاب کا مشہور زمانہ افسانہ ’’یاخدا‘‘ ۱۹۴۸ء میں شائع ہوچکا تھا۔ ممتاز شیریں نے اسے دیباچے سے مزین کیا ۔بارِد گر جب اس کی اشاعت عمل میں آئی ، تو قدرت اللہ شہاب نے ممتاز شیریں کے دیباچے کی جگہ اپنی تحریر ’اس کہانی کی کہانی‘ شامل کردی۔ اس مضمون میں شہاب نے ’یاخدا‘ افسانے کی وجہ تحریر بیان کی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جو قافلے لٹی پٹی حالت میں پاکستان پہنچ رہے تھے۔واگہہ بارڈر پر ایک ازدحام رہتا تھا۔ کچھ پہنچ رہے تھے ۔کچھ وہاں عزیزوں کا انتظار کر رہے تھے۔ قدرت اللہ شہاب بھی انہیںمنتظرین میں تھے۔ انھیں اپنے چچازاد بھائی کا انتظار تھا۔نعمت اللہ شہاب کا۔ وہ چچازاد بھائی جس کے ساتھ شہاب کا بچپن گذرا تھا، جو شہاب کا لنگوٹیا یار تھا۔ اب وہ کہیں بچھڑ گیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب کو معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ زندہ ہے یامر گیا۔ اس کی تلاش میں شہاب واہگہ بارڈر آتے اورمایوس لوٹ جاتے۔ ایک دن وہ مل گیا، لیکن نعمت اللہ وہ نعمت اللہ نہیں تھا۔ نعمت اللہ پاکستان پہنچنے کے بس چند گھنٹے بعد ہی اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔ شہاب اپنے بھائی کی تلاش میں واہگہ بارڈر اور کیمپوں میں گھومتے رہے، اس دوران ان کے اندر موجود افسانہ نگار نے بہت سے کردار تلاش لیے تھے، جن کرداروں میں دلشاد کا کردار بہت نمایاں تھا، اور یہی کردار بعد میں ’یاخدا‘ کا مرکزی کردار بنا ۔شہاب لکھتے ہیں:

’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لارنس روڈ کے ایک بنگلے میں رہتا تھا۔ رات بھر اس کی روشنیاں جلتی رہیں اور رات بھر میں بیٹھا کہانی لکھتا رہا۔ نعمت اللہ کی کہانی۔ اپنے گائوں چمکور کی کہانی۔ اپنے گائوں کے ملا علی بخش کی بیٹی دلشاد کی کہانی۔ کیمپوں کا حال جو میں نے لکھا ہے، لاہور میں دیکھا۔ مہاجر بہنوں کا شکار کرنے والے بہت سے بھائی جن کے چہرے یاخدا میںنظر آئیں گے، مولوی ۔خدامِ خلق، قوم کے لیڈر اور سیاست داں سبھی اصلی کردار ہیں۔ میں نے ان کے نامنہیں لکھے۔ ان میں ایک صاحب کو تو خدانے وزیر مملکت بھی بنایا۔ خدا جسے چاہے عزت دے ۔ اس کی مصلحتیں وہی جانے۔‘‘

’یاخدا‘کے بارے میں تکنیکی اعتبار سے ناقدین کی مختلف رائے ہیں۔ کچھ اسے افسانہ بتاتے ہیں، کچھ طویل افسانہ توکچھ ناولٹ۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو افسانہ اور طویل افسانے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ صرف طوالت کا فرق ہے۔ اگر افسانہ کی طوالت بڑھ جائے تو اسے طویل افسانہ کہہ دیاجاتا ہے البتہ افسانے کا جزوِ لاینفک وحدت تاثر سے، خواہ افسانہ ہو یاطویل افسانہ، کسی صورت میں فرار ممکن نہیں۔ اب رہی بات ’یاخدا‘کے ناولٹ ہونے کی ،تو تکنیکی طور پر بھی وہ ناولٹ کے زمرے میں نہیں آتا، اورسوائے چند ایک نقاد کے کسی نے اسے ناولٹ کہا بھی نہیں، البتہ جمہور ناقدین کی رائے اس کے افسانہ یا طویل افسانہ ہونے کے بارے میں ہے۔ اس کے ناولٹ ہونے کا مسئلہ دراصل قدرت اللہ شہاب کے ایک اقتباس کے باعث وجود میں آیا ہے۔ شہاب لکھتے ہیں:

’’یہ طویل افسانہ سب سے پہلے’نیا دور‘ کے فسادات نمبر میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد احباب کا اصرار ہوا کہ ناولٹ کے طور پر اسے کتابی صورت میں بھی ضرور چھاپنا چاہیے۔ محترمہ ممتاز شیریں مرحومہ نے ایک دیباچہ تحریر فرمادیا اور یا خدا کا پہلا ایڈیشن کراچی سے جون ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔ عام قاری کو یہ اتنا پسند آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چھ ایڈیشن نکل گئے۔ لاہور کے ایک پبلشر نے اس ناولٹ کا نام ’’یاخدا‘‘ کی جگہ ’’آزادی کے بعد‘‘ رکھ کر بھی کچھ کاروبار کیا۔‘‘

(کچھ یاخدا کے بارے میں، قدرت اللہ شہاب،مشمولہ شہاب نامہ ص ۳۲۶)

لیکن اس اقتباس کو اگر بغور پڑھا جائے تو یہ شبہ تو ختم ہوجاتا ہے کہ شہاب نے ’یاخدا‘ کو ناولٹ کہا ہے۔ اقتباس میں ناولٹ کا لفظ آنے سے کچھ لوگوں کے ذہن میں اس کے ناولٹ ہونے احساس ہوا۔ جبکہ یہاں ناولٹ ایک الگ کتابی صورت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ بالکل اس سے پہلے والے جملے میں شہاب اس کو طویل افسانہ کہہ چکے ہیں۔

شہاب قدوائی نے ’یاخدا‘ کے حوالے سے ایک طویل بحث کی ہے ، کہ ناول ہے، ناولٹ ہے یا طویل افسانہ ہے۔ ان کے مضمون کا موضوع بھی ’یاخدا۔ناول، ناولٹ یا طویل افسانہ‘ ہے۔ شہاب قدوائی نے مختلف شخصیات کے حوالے بھی فراہم کیے ہیں، کہ کس نے’’ یا خدا‘‘ کو ناول کہا ہے، کس نے ناولٹ کہا ہے اور کسنے طویل افسانہ۔ ان کے مطابق’’ تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان و ہند‘‘ اور’’ اردو ناول سمت و رفتار‘‘ (از سید حیدر علی) میں ’یا خدا‘ کو ناول گردانا گیا ہے۔ سرسیدین، ’پاکستانی ادب میںتنقید‘ میں ’یاخدا‘ کو ناولٹ کے ذریعے پکارا گیا ہے جب کہ ’یا خدا‘ کو افسانہ یا طویل افسانہ کس کس نے کہا ہے، اس بارے میں وہ خاموش ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ناقدین اور خود افسانہ نگار نے اس کو طویل افسانہ کہہ دیا ہے۔ ابواللیث صدیقی ،ممتاز شیریں ،شفیق انجم، آغا سہیل ،حسن عسکری، ابوالفضل صدیقی اور فوزیہ اسلم وغیرہ نے ’یاخدا‘ کو افسانہ یا طویل افسانہ کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ شہاب قدوائی بھی پوری گفتگو کے بعد افسانہ نگار کی رائے پر ہی مہر لگاتے ہیں اور ان کا اختتامی جملہ یوں ہوتا ہے:

’’الغرض یا خد جب بھی معرض بحث میں آئے گا تو یہ سوال اٹھے گا کہ یہ صنف کے اعتبار سے ناول ہے، یاطویل افسانہ۔ لیکن خود مصنف نے اسے طویل افسانہ کہا ہے۔‘‘

یاخدا۔ناول، ناولٹ یا طویل افسانہ، شہاب قدوائی۔ مشمولہ قومی زبان، کراچی)

بات کو طول نہ دیتے ہوئے ، ہم بھی شہاب (افسانہ نگار) کے موقف کو ہی فوقیت دیتے ہیں کہ یہ ایک طویل افسانہ ہے۔

’یاخدا‘ کا موضوع ’تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات اور اس کے باعث ہونے والا ظلم ‘ ہے۔ یہ ظلم مذہب سے بالاتر ہے، کیوں کہ افسانے کا مرکزی کردار ’جس طرح اسے ہندوستان میں‘ سکھوں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کاشکار ہونا پڑتا ہے، اسی طرح پاکستان میں اسے چین و سکون نصیب نہیں ہوتا بلکہ وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں آبرو جیسا گوہر بھی لوٹا جاتا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ’دلشاد‘ دراصل استعارہ ہے اس معاشرے کے اخلاقی زوال اور استحصال کا۔ موضوع اور مرکزی کردار کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب خود لکھتے ہیں:

’’اپنی اس تلاشی کے دوران ظلم ،بربریت اور مصائب کی چادر میں لیٹے ہوئے لاکھوں مہاجرین میری نظروں کے سامنے سے گزرے۔ ان میں ہزاروںکی تعداد میں بچے بھی تھے۔ اور جوان اور بوڑھی عورتیں بھی۔ درجنوں نے تڑپ تڑپ کر ، رو رو کر، بین کرتے کرتے مجھے اپنی بپتابھری جیون کہانیاں سنائیں۔ اس کربناک مجموعی مشاہدے نے اندر ہی اندر سلگ سلگ کر آخر ایک روز دلشاد کا روپ دھار لیا۔ ایک شام میں قلم لے کر بیٹھا، اور فجر تک ایک ہی نشست میں ’یاخدا‘ کی کہانی مکملکرکے اٹھا۔‘‘

(کچھ یاخدا کے بارے میں ،قدرت اللہ شہاب، مشمولہ شہاب نامہ۔ ص ۳۲۶)

’یاخدا‘ کے موضوع کے حوالے سے پروفیسر محمدعارف لکھتے ہیں:

’’ بظاہر ، یہ ناول دو بازیافتہ خواتین کی سرگزشت ہے اوردرحقیقت یہ مابعد آزادی برصغیر کے دو ممالک میں مرد کی دورِ وحشت کی مراجعت کی داستان ہے۔ ۱۹۴۷ء کے بعد فسادات سے ادب پارے منظر عام پر آئے۔ صفِ اول کے ادیبوں نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا لیکن دامنِ اعتدال کم و بیش ہر ایک سے چھوٹ گیا۔ کسی نے ادب کو پروپیگنڈہ بنادیا، کسی نے فارمولا۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنے موضوع کے ساتھ جو جذباتی و فکری وابستگی پیش کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بھارت پاکستان، ہندو، سکھ ،مسلمان، سبھی کو فسادات کے حمام میں یکساںطور پر ننگا دکھایا ہے۔ فطرت ،مذہب اور سرکار کو، انھوں نے نہایت ایمانداری کے ترازو میں تولا ہے۔ یہ ناولٹ تہذیب انسانی کی گمشدگی کا اعلان ہے۔

(اردو ناول اور آزادی کے تصورات، پروفیسر ڈاکٹر محمدعارف۔ ص ۸۱۱)

بہرحال اوپر کی گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یا خداکا موضوع’ فسادات کے نتیجے میں ہونے والی بربریت اور استحصال‘ ہے، جس میں ہندوستان پاکستان اور ہندومسلم ،سکھ برابر کے شریک ہیں۔ ٹریجڈی تب شدت اختیار کرتی ہے، جب ایک مسلم بہن خود اپنے بھائیوں کے ہاتھوں پاکستان کی ارض مقدس پر اپنی عزت و آبرو سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔

کہانی کے تین حصے ہیں۔ جن کے محل وقوع مختلف ہیں، پس منظر گونا گوں ہیں،البتہ مرکزی کردار ایک ہی ہے، دلشاد۔ کہانی کے ہر حصے میں استحصال کرنے والوںکی شناخت بدلتی رہتی ہے، مذہب بدلتے رہتے ہیں، عہدے بدلتے رہتے ہیں، لیکن متاثرہ ’دلشاد‘ ہی رہتی ہے۔ دراصل ’دلشاد‘ ایک استعارہ ہے ان تمام خواتین کا جو فسادات کے دوران ظلم و بربریت اور آبروریزی کا شکار رہیں، جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں۔

پہلا حصہ رب المشرقین کے عنوان سے ہے، جس کی ذیلی سرخی ’’تیری دنیا میں میں محکوم و مجبور ‘‘ ہے۔

برصغیر ۱۹۴۷ء میں انگریزوں کے استعماری پنجے سے آزاد ہوا۔ لیکن آزادی کے حصول کے ساتھ ہندوستان سے کٹ کر ایک نیا ملک وجود میں آیا، جس کو پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا۔ پاکستانی بانیان کے مطابق اس ملک کی بنیاد اخوت و مساوات پر قائم کی گئی تھی۔ اس کا مقصد ایک آزاد ،خود مختار مسلم جمعیت کا قیامتھا۔ یونہی انگریزوں سے آزاد ہو کر ہندوستان کی بنیاد ایک سیکولر اور جمہوری گارے سے تیار کی گئی تھی۔لیکن شہاب نے اس افسانے میں تلخ حقیقت سے انسانیت کو روبرو کرایا ہے۔ اس سے ہندوستان و پاکستان کے سارے نظریات کی ہوا نکل جاتی ہے۔ بہر حال! ابھی ہم ’رب المشرقین ‘ کا جائزہ لیں گے، جس میں ہندوستان کی صورت حال پیش کی گئی ہے اور مشرق یعنی ہندوستان کے پس منظر میں دلشاد کے اوپر بیتے ظلم اور جنسی بربریت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

افسانے کا آغاز بالکل فطری ہے اور مکالماتی ہے۔

’’اس طرف کیا دیکھتی ہے،سالی؟ تیرا کوئی خصم ہے اُدھر؟‘‘

امریک سنگھ نے کرپان کی نوک سے دلشاد کی پسلیوں کو گدگدایا اور بایاں گال کھینچ کر اس کا منھ پورب کی طرف گھمادیا۔‘‘

دلشاد ہندوستانی پنجاب کے ایک گائوں کی رہنے والی ہے۔ اس کے باپ مسجد کے امام تھے، جس کو گائوں کے سکھوں نے قتل کردیا تھا اور اس مسجد کو اجاڑ دیا تھا۔ جب امام (ملا علی بخش، دلشاد کے باپ) کنویں پر وضوکر رہے تھے، امریک سنگھ نے ان پر نیزے سے وار کیا، ترلوک سنگھ نے اپنی تلوار کی دھار آزمائی اور گیانی دربار سنگھ نے اس تڑپتے ہوئے جسم کو اٹھاکر کنویں میں پھینک دیا تھا۔ ملا علی بخش کی موت کے بعد مسجد ویران تھی۔ کوئی اذان پکارنے والا نہیں تھا۔ وہی اذان، جس کی وجہ سے سکھ خواتین کو بانجھ ہوجانے کا ڈر تھا۔ شہاب نے اس حوالے سے بہت سے جزئیات سے کام لیا ہے اور دکھایاہے کہ اذان کے حوالے سے سکھ خواتین کا کیا رد عمل تھا۔ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی تھیں یا پھر شور مچانے لگ جاتی تھیں، تاکہ اذان کی آواز سے ان کی کوکھ گرہن سے محفوظ رہ سکے۔ مسجد کی ویرانی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی۔ اب مسجد کے آباد ہونے کی وجہ ملا علی بخش کی بیٹی دلشاد تھی۔

’’امریک سنگھ ،امریک سنگھ کا باپ، امریک سنگھ کا بھائی۔۔۔ایک خالصے کے بعد دوسرا خالصہ، دوسرے خالصہ کے بعد تیسرا خالصہ۔۔۔۔۔ رات بھر وہ نظریں بچا بچا کر، موقع جانچ جانچ کر مسجد کے آستانے پر حاضری دیتے تھے۔ بھنی ہوئی کلیجی اور گردے اڑتے۔ تلے ہوئے کبابوں کا دور چلتا۔ شراب اور بھنگ کی بالٹیاں بٹتیں اور اپنی نسل بندی کے وہ بیج جن کو ہرا بھرارکھنے کے لیے ان کی بیویاں سو سو طرح کے جتن کرتی تھیں۔ وہ بلا دریغ مسجد کی چار دیواری میں بکھیر آتے۔۔۔۔‘‘

جیسے جیسے کہانی میں دلشاد کے ساتھ درندگی بڑھتی جاتی ہے ،شہاب کے قلم کی نوک معاشرے کو مزید چبھنے لگتی ہے۔ ان کے طنز کی دھار اور تیزر ہونے لگتی ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس کا آخری جملہ طنز کی شدت کا احساس کراتا ہوا نظر کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ طنز کا یہ تیر بھی دیکھیے۔

’’ جب وہ بہادر خالصے محراب کے نیچے بیٹھ کر شراب کا ادھیا کھولتے اور دلشاد کی بوٹیوں کو چچوڑ چچوڑ کر کھانے کی کوشش کرتے تو انھیں فخر ہوتا کہ وہ گن گن کر ساڑھے تیرہ سو برس کی اذانوں اور نمازوں کا بدلہ چکا رہے ہیں۔ چمکور کی مسجد گورودواروں سے بھی زیادہ آباد ہوگئی تھی۔‘‘

پھر ایک دن پتہ چلا کہ دلشاد کا پیٹ پھول گیا ہے۔ گائوں کی عورتوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ گائوں والوں کی رائے تھی کہ دلشاد کو بچہ جنم دینے سے پہلے ہی مار دیا جائے لیکن پھر امریک سنگھ کو ایک مفید تجویز سوجھی۔ اس نے اغوا شدہ مسلمان خواتین کی فہرست میں دلشاد کو شامل کرلبھورام تھانیدار کے سپرد کردیا۔ اس کے بدلے میں امریک سنگھ کو شکریہ کا پروانہ عطا ہوا اور تھانیدار نے ڈپٹی کمشنر سے سنددلوانے کابھی وعدہ کیا۔

 رات کو تھانیدار کو اپنے پائوں میںدرد محسوس ہوا اور اس نے پائوں دبانے کے لیے دلشاد کو بلایا۔ دھیرے دھیرے پائوں کا درد بڑھتے بڑھتے گھٹنوں میں آگیا، پھر رانوں میں اور پھر کولہوں کے آس پاس۔ ۔ دلشاد مشرق میں ان لوگوں کے لیے فقط جنسی تسکین کا ایک ذریعہ تھی ،یا عام زبان میںیوں کہہ لیجیے کہ وہ ایک Sex Toyتھی۔

اس ساری درندگی کے دوران دلشاد کو اپنا پیارا رحیم خاں یاد آتا۔ ایک دفعہ رحیم خاں نے اس کو چومنے کی کوشش کی تھی۔ اور اس نے اس کو زبردست طریقے سے کوٹ دیا تھا، لیکن اب تو۔۔۔ کچھ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔

خیر جب تھانیدار کے کولہوں کا درد ختم ہوگیا تو اس نے دلشاد کو ہیڈ کانسٹبل دریودھن کے ساتھ انبالہ کیمپ بھیج دیا۔ راستے میں دریودھن کے پائوں میں بھی کئی بار درد اٹھا اور دلشاد اس کے درد کا مداوا کرتی گئی۔

کیمپ میں بھی خواتین کا جنسی استحصال عام تھا۔ البتہ دلشاد کو اس کے حمل کے باعث اب یک گونہ راحت مل چکی تھی۔ یہاں آکر شہاب معاشرے پر طنز کا وہ تیر چلاتے ہیں، جس کی خلش دوام گیر ہے، جس سے قاری پر ایک جھرجھری طاری ہوجاتی ہے:

’’خیردلشاد کو اب ایک قسم کی چھٹی تھی۔ یوں تونیک اولاد ہمیشہ اپنے ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے لیکندلشاد کو اپنے ہونے والے بچے پر بڑا ہی بھروسہ تھا کہ اس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنی مجبور ماں کو اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا۔‘‘

مشرق یعنی ہندوستان میں بربریت ختم ہو چکی تھی، کیوں کہ دلشاد اور دوسری خواتین کو اب ٹرین میں سوار ہو کر مغرب یعنی پاکستان جانا تھا۔ مغرب کے حوالے سے دلشاد اور خواتین کے خیالات کافی خوش کن اور امید افزا تھے۔

’’ مغرب میں کعبہ ہے۔ کعبہ اللہ میاں کا اپنا گھر ہے۔ لیکن کیمپ کی دوسری عورتیں کہتی تھیںکہ مغرب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ وہاں ہمارے بھائی ہیں، ہماری بہنیں ہیں، ہمارے ماں باپ ہیں۔ وہاں عزت ہے، وہا ں آرام ہے۔۔۔۔دلشاد سوچتی تھی کہ شاید وہاں رحیم خاں بھی ہو! یہ خیال آتے ہی اس کے جسم کا رواں رواں مچل اٹھا اوروہ بے چین ہوجاتی کہ پر لگا کر اڑ جائے اور اپنے تھکے ہوئے ،دکھے ہوئے جسم پر ارض مقدس کی خاک مل لے۔‘‘

شہاب نے مغرب میں کعبے کا ذکر کرکے اور پاکستان کی سرزمین کو دلشاد کے ذریعے ارض مقدس کہلوا کے پاکستان کے ان باشندوں کے منھ پر کرار ا طمانچہ مارا ہے، جو کسی نہ کسی صورت میں دلشاد یامہاجر خواتین کے ساتھ درندگی میں مشغول تھے۔

 یہاں تک تو اس بربریت کا ذکر تھا، جس کو ہندوستان میں انجام دیا گیا۔ افسانے کا دوسرا حصہ رب المغربین ہے۔ ’’میری دنیا میں تیری بادشاہی‘‘ اس کا ذیلی عنوان ہے۔ فقط یہ ایک مصرع ہی اس پوری بربریت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے، جس کو مغرب یعنی پاکستان میں انجام دیا گیا۔ یہ مصرع دراصل خدائے تعالی سے ایک شکوہ ہے۔

مشرق سے مغرب کے اس سفر میں کہیں درمیانِ سفر دلشاد کی کوکھ سے ایک بچی جنم لے چکی تھی۔ شہاب نے افسانے کے حصے میں نہ صرف دلشاد کے المیے کو ابھارا ہے بلکہ دلشاد کے ان بکھرے ہوئے خوابوں کو بھی دکھایا ہے، جو اس نے مغرب کے حوالے سے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ دلشاد نے نیند سے بیدار ہوتے ہی ایک چائے والے جو کھڑکی کے پاس ہی دودھ ابال رہا تھا، سے پوچھا کہ بھائی یہ کون سی جگہ ہے۔مغرب ہے؟ چائے والاہنسا اورجواب دیا’’کیوں؟ کیا نماز پڑھو گی؟‘مغرب میں دلشاد پر یہ پہلی چوٹ تھی، جو اگرچہ لفظی تھی، یہ سلسلہ اور مزید خطرناک صورت حال میں، پائیداری اختیار کرنے والا تھا۔ دلشاد اب بھی پر امیدتھی۔ اس کایہ یقین تب بھی متزلزل نہیں ہوا جب انور اور رشید دو مسلم لڑکوں نے اس کو غلیظ نظروں سے دیکھا۔ شہاب نے افسانے کے اس حصے میں ایک انگریز اور اس کی بیوی کا کردار ڈال کر افسانے میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکن دلشاد کی ٹریجڈی اتنی گہری ہے کہ اس مزاح کا قاری پر کوئی اثر نہیںہوتا۔انگریز اور اس کی بیوی کے واقعے کے پہلو بہ پہلو دو باریش بزرگوں کا ذکر ہے۔ شہاب نے ان کی نفسیات کے ذریعے افسانے کو مزید موثر بنانے کی کوشش کی ہے۔ شہاب نے ان دو بزرگ کرداروں کے ذریعہ دکھایا ہے کہ پاکستانی کیسے خود تو مہاجرین اور بے یار و مددگار لوگوں کی مدد نہیں کرتے اور اگر کوئی کرے بھی، تو اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ آزادی اور خودی کے قصیدے تو پڑھتے ہیں، لیکن قوم کو آزاد اور خود دار بنانے کے لیے پیش قدمی نہیں کرتے۔

’’ جب میم نے دلشاد کو اونی کپڑا اورپانچ روپے خیرات دیے، تو ان دو بزرگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان فرنگن نے ان داڑھیوں کو پکڑ کرزور سے جھٹک دیا تھا۔‘‘

’لا حول و لاقوۃ۔ ایک حضرت خفا ہوئے۔‘ یہ حرامی اب تک سمجھتے ہیں کہ ہم انھیں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں۔

’ارے میاں قصور ان کا نہیں۔‘ دوسرے صاحب نے فیصلہ صادر کیا۔ کیوں نہیں اس کم بخت عورت نے ایسی ذلیل خیرات کو نفرت سے ٹھکرا دیا۔‘‘

’’اللہ اللہ آزادی تو ملی، لیکن غلامی کا چسکا نہ گیا۔‘‘

’جائے کیسے میرے بھائی، جائے کیسے؟ جب ایسے آقائوں کی جوتیوں کے صدقے مفت کی گوشت روٹی ملے تو آزادی کی محنت کا بار کون اٹھائے؟‘

ائے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘

پہلے والے بزرگ نے رقت سے الاپا۔

دوسرے حضرت نے بھی آزادی اور خودی کی عظمت میں کچھ مصرعہ ارشاد فرمائے۔‘‘

دلشاد کو بار بار مہاجر خانہ جانے کے لیے کہا گیا تو اس کے ذہن میں مہاجرخانہ کے حوالے سے بہت سے خیالات ابھرے۔ شاید مسافر خانہ کو یہ لوگ مہاجر خانہ کہہ رہے ہوں۔ مہاجر خانہ کے حوالے سے وہ بہت سارے خیالات میں ڈوب گئی۔ البتہ اس کو اپنا نام مہاجر کچھ اچھا نہیں لگا۔ دلشاد نام ہی اچھا تھا۔ مہاجر نام میں تو کوئی کشش بھی نہیں ہے۔

مہاجر خانہ کے حوالے سے شہاب نے متعدد تفصیلات فراہم کی ہیں، جن کے ذکر سے فضا بوجھل سی ہو جاتی ہے،قاری کی آنکھوں میں نمی سی اتر آتی ہے۔دلشاد ایک کہنہ سال ضعیف شخص، جس کے دو بچے تھے محمود اور زبیدہ، کے پاس ٹھہر جاتی ہے۔سردی سے بچنے کے لیے اسٹور بابو کے پاس کمبل مانگنے جاتی ہے۔اسٹور بابو اقبال کا شکوہ گنگنا رہا ہے۔

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانے پر

برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

اسٹور بابو اقبال کا کلام گنگنا رہا ہے لیکن اقبال کی تعلیم ، جہد و عمل سے یکسر خالی ہے۔شہاب اس جملے ’شکوے‘ کا ذکر کر کے در اصل معاشرے کی کثرتِ بے حسی کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔اور یہ دکھانا چاہتے ہیںکہ قوم صرف باتونی ہے اور اخلاق و عمل سے خالی فقط شکوہ کرنا جانتی ہے۔یخ بستہ رات دلشاد کو بغیر کمبل کے گذارنا تھی۔ کہنہ سال ضعیف نے آدھا کمبل بچھا کر زبیدہ اور محمود کو اس پر لٹا دیا تھا اور باقی آدھا ان کے اوپر ڈال دیا تھا ، تا کہ سردی سے محفوظ رہیںاور خود ایک پتلی سی چادر میں زمین پر کروٹیں بدل رہا تھا۔دلشاد نے اپنی بچی کو اونی کپڑے میں لپیٹ کر محمود اور زبیدہ کے ساتھ لٹا دیا۔مہاجر خانے میں اور بھی نہت سے لوگ اسٹور بابو کے’شکوئہ اقبال ‘ کے شکار تھے۔ایک جوان عورت، جس کی چار سالہ بیٹی تھی، اس کے پاس نہ کمبل تھا، نہ لحاف۔اس کی بیٹی زبردست تنائو کا شکار تھی۔قریب تھا کہ وہ فوت ہو جائے۔اسی درمیان اس کی ماں نے چارو نا چار رات کی تاریکی میں اپنے کپڑے اتار کر اپنی بیٹی کو ان کپڑوں میں لپیٹ دیا۔اس حصے میں شہاب مہاجر خانے کی یہ حالت دیکھ کر ایک واعظ کا روپ دھار لیتے ہیں۔لیکن ان کا یہ وعظ ایک سپہ سالار کی رزمیہ تقریر کے مانند ہوتا ہے۔ اس سے کہانی کی ٹریجڈی میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ بارش کی بوندیں امریک سنگھ، ترلوک سنگھ، دربار سنگھ وغیرہ کی طرح دلشاد کے جسم میں چبھ رہی ہیں۔سردی بڑھ چکی ہے۔رات کی تاریکی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

’’جب صبح صادق کی پو پھٹی تو مہاجر خانے کے میدان میں ایک مرمریں مجسمہ چاند کی طرح جھلملایا۔یہ اس برہنہ عورت کا جسم تھا، جس نے اپنے کپڑوں میں اپنی مرتی ہوئی بچی کو لپیٹ لیا تھا۔اس کے بے جان سے سینے سے اس کی بچی کی لاش یوں چمٹی ہوئی تھی جیسے ابھی ابھی دودھ پینے لگی ہو۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی بڑے فنکار نے مرمر کو تراش کر یہ خوبصورت بت بنائے ہیں۔ عورت کے کسے ہوئے دودھیا بدن پر بارش کے قطرے موتیوں کی طرح جگمگا رہے تھے۔ اس کی گھنی زلفیں کالے ناگوں کی طرح بپھری پڑی تھیں۔ اس کی نیم باز آنکھوں میں پانی کی ایک تہہ سی جمی ہوئی تھی جیسے اس کے خون کے ساتھ ساتھ اس کے آنسو بھی منجمد ہوکے رہ گئے ہوں۔‘‘

مہاجر خانے کے مہتر آئے اور انھوںنے مہاجر خانے میں بکھری ہوئی جا بجا لاشوں پر کمبل ڈال دیے۔ لاشوں پر کمبل پڑتے ہوئے زندہ لوگ حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کاش وہ بھی موت کی آغوش میں ہوتے اور انھیں بھی کمبل نصیب ہوتا۔

دلشاد پھر ہولناکیوں کی زد پہ تھی۔ لیکن اس باریہ درندہ صفت لوگ سنگھ ٹائیٹل کے نہیں تھے، بلکہ یہ دلشاد کے ہم مذہب تھے۔ اس کے مذہبی بھائی تھے۔ مخیر اور ہمدرد قوم و ملت تھے۔ سنگھ ٹائیٹل رکھنے والے منافق نہیں تھے۔ وہ کھلے دشمن تھے۔ اس لیے وہاں درد کی شدت اتنی نہیں تھی، لیکن یہاں مسلم القابی نام تھے۔ یہ منافق تھے۔ اس لیے ان کی ہوس ناکی بھی سخت تھی اور ان کے دیے ہوئے درد کی شدت بھی۔ مصطفی خاں سیمابی نام کے ایک مخیرحضرت دلشاد کو اپنے ساتھ لے گئے، یہ کہہ کر کہ رحیم خاں مل گیا ہے۔ ان کے ساتھ دلشاد چلی تو گئی، لیکن رحیم خاں نہیں ملا، البتہ مصطفی خاں کی ذات میں ہی اسے امریک سنگھ، ترلوک سنگھ ،سورمکھ سنگھ اور دربار سنگھ وغیرہ مل گئے۔

’رب المغربین‘ کا آخری پیراگراف پورے منظر نامے کی مزید وضاحت کردیتاہے اور یہاں شہاب کے طنزیہ جملوں کی نوکیں مزید تیز ہوجاتی ہیں۔

’’لاہور ،لاہور نہ تھا،مدینہ تھا۔ لاہور والے ،لاہوروالے نہ تھے۔ انصار تھے۔۔۔ نہیں ! وہ تو شاید انصارِ مدینہ سے بھی کچھ درجہ افضل تر تھے۔ یہاں دلشاد کے لیے ہر روز ایک نیا رحیم خاں پیدا ہوجاتا تھا۔۔۔ زبیدہ کے لیے ہر روز ایک نیا دادا جنم لیتا تھا۔ بیٹیوں کے لیے نئے نئے باپ تھے۔۔۔ بہنوں کے لیے نئے نئے بھائی۔۔۔۔ جسم کا رشتہ جسم سے ملتا تھا۔۔۔۔خون کا رشتہ خون سے۔۔‘‘

افسانے کا تیسرا اور آخری حصہ رب العالمین ہے۔ اس کا ذیلی عنوان ’مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یامیرا‘ ہے۔ اس حصے میں ہائی سوسائٹی یعنی اشرافیہ کا ذکر ہے، جہاں قصربہ ہوٹل میں آرکسٹرا بج رہا ہے، رقص ہو رہا ہے۔ ہوٹل کا منیجر اعلان کر رہا ہے کہ آج رات کی نصف کمائی قائد اعظم ریلیف فنڈ میں جائے گی۔ شراب نوشی کا دور چل رہا ہے۔ اسلامی ریاست بننے کے بعد شراب کی کھپت تگنی ہوگئی ہے۔ وہسکی کے دور میں اقبال کے اشعار زبان پر آرہے ہیں۔ لال قلعہ ،جامع مسجد ،قطب مینار ،مرزا غالب ،نظام الدین اولیا کی درگاہ وغیرہ کا ذکر ہو رہا ہے۔

افسانے کے اسی حصے میں بنگالی، پنجابی اور سندھی کی گفتگو کا بھی ذکر ہے۔ ان کے دلوں میں موجود خلش بھی نظرآتی ہے۔ چھابڑی والے اور ہوٹل والے میں جھگڑا چل رہا ہے۔ چھابڑی والے کی اندھی بہن کے لیے تھانیدار کے غلیظ خیالات کا بھی ذکر ہے۔ دلالوں کی دنیا بھی دکھائی گئی ہے۔ دلال اخبارات میں جنگ اور خون کی خبریں دیکھ کر خوش ہیں کہ اور مہاجرین آئیں گے اوران کے ہاتھ مزید چھوکریاں لگیں گی، ان کا دھندہ مزید عروج پر ہوگا۔ مختلف دوشیزائوں کا ذکر ہے، جنھیں وقت نے دھندے کی غلاظت کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔ ان کا استحصال کرنے والے مخیران قوم و ہمدردان ملت کا بھی تذکرہ ہے۔ عیدگاہ میں لگے کیمپ کا تذکرہ بھی ہے، جہاں دلشاد اور مہاجر خانے میں ملنے والی اس کی دوست زبیدہ پکوڑے تل رہی ہیں۔ لوگ آتے ہیں اوردلشاد اور زبیدہ سے پکوڑوں کے بجائے ان کے جسم کا بھائو تائو کرتے ہیں۔ جب ان کا بیسن ختم ہو جاتا ہے تو وہ کسی گاہک کے ساتھ بیسن لینے چلی جاتی ہیں۔ شہاب کا آخری اقتباس جو کہ طنزیہ زہر میں مکمل طور پر ڈوبا ہوا ہے، معاشرے کی اور اسلامی ریاست کی پوری تصویر کھینچ کے رکھ دیتا ہے۔ جہاں ایک ایک فرد مولوی، سیاست داں، خادمِ قوم، امیر، شریف اور انصارِ پاکستان ننگے نظر آتے ہیں۔

’’اسی طرح جب دلشادبھی اپنی پکوڑیوں کے لیے بیسن لینے کسی گاہک کے ساتھ چلی جاتی ہے تو اپنی بچی کوزبیدہ کے سپردکر جاتی ہے۔ دہی اور بیسن کی اس ملاوٹ پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے۔ جب دلشاد کی بچی نرم نرم، گرم گرم پکوڑیوں پر پل کر جوان ہوگی ، جب زبیدہ کا محمود دہی بڑوں کی چاٹ پر سیانا ہوگا ،تو اسلام کی برادری میں دو گرانقدر رکنوں کا اضافہ ہوگا۔ ایک مضبوط بھائی، ایک خوبصورت بہن۔۔۔جسم کی مضبوطی اور جسم کی خوبصورتی ،یہی تو وہ نعمتِ عظمیٰ ہے، جو نعمتوں والے عظمتوں والے باری تعالیٰ نے تم کو عطا کی ہے۔۔۔۔‘‘

جب انسانیت ہی ختم ہو جائے ،تو اسلامی ملک میں بھی امن و چین نصیب نہیں ہوتا۔ اتنی خون ریزی اور بربریت کے بعدبھی آدم کے یہ بیٹے حوا کی بیٹی کا گوہر چھیننے پر تلے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔

دراصل اس آخری حصے میں شہاب نے متفرق تصویریں پیش کی ہیں اور ان تصویروں کے ذریعے دلشاد کے المیہ کو ابھارا ہے۔ اس افسانے میں شہاب نے غیروں سے زیادہ اپنوں کے مظالم پر توجہ دی ہے۔ معاشرے کے نفاق کو بے نقاب کیا ہے۔ کچھ ایسے دردناک واقعات کا ذکرکیا ہے کہ قاری کاذہن ہی منتشر ہوجاتا ہے۔ حسن عسکری کہتے ہیں:

’’ زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے غیروں کے مظالم دکھانے پر اتنا وقت صرف نہیں کیا، جتنا اپنوں کے مظالم پر۔ کتاب کا تیسرا حصہ سب سے اچھا اور سب سے زیادہ بااثر ہے۔ خصوصاً آخری سین کی تو داد نہیں دی جاسکتی۔‘‘

(محمدحسن عسکری کا خط ممتاز شیریں کے نام۔ مشمولہ شہاب نامہ ۔ص ۳۳۲)

شہاب نے اس افسانے میں بے باکی اور بے رحم حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ ہجرت کا کرب ،عورت کی ذات کا درد اور قدرت اللہ شہاب کی بے مثال فن کاری اس افسانے کی سطر سطر سے عیاں ہے۔ بالجملہ یہ کہ ان کا یہ افسانہ فسادات اور تقسیم پر لکھے گئے اہم ترین افسانوں میں سے ایک ہے۔

***

Leave a Reply