فریدہ بیگم ریسرچ اسکالر، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد
۲۰۱۹ کے رسالہ شگوفہ کے شماروں کا جائزہ
رسالہ شگوفہ ایک ماہنامہ ادبی رسالہ ہے ۔جسے ۱۰ نومبر ۱۹۶۸ میں ڈاکٹر سید مصطفی کمال نے حیدراآباد (دکن) سے شائع کیا ۔اس رسالہ کو مصطفی کمال نے زندہ دلان حیدرآباد کے ترجمان کی حیثیت دی گئی ۔ شگوفہ کا ذکر کرنے سے پہلے زندہ دلان حیدرآباد کے بارے میں جاننا ضروری ہیں کیونکہ حیدرآباد میں طنز و مزاح نگاری کے ارتقاکی داستان زندہ دلان حیدرآباد کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کی ادبی خدمات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔ زندہ دلان حیدرآباد کو ابتدامیں فائن آٹس اکیڈیمی حیدرآباد کے ادبی شعبے کی حیثیت سے تشکیل دیا گیا ۔اس کے قیام سے پہلے ہندوستان میں طنز و مزاح لکھنے والوں کا کوئی با ضابطہ مرکز یا پلٹ فارم نہیں تھا ،حیدرآباد میں آزادی کے تین سال بعد ۱۹۵۰ میں فائن آرٹس اکیڈیمی کا قیام عمل میں آیا لیکن یہ رقص و موسیقی ڈرامے کے میدان تک محدود تھا البتہ لوگ یہاں وقتاََ فوقتاََ باہم مل بیٹھتے تھے۔ لیکن یہ نشستیں ایک خاص طبقے تک ہی محدود تھیں ۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے ڈائر کٹر ایاز انصاری نے ۹ جنوری ۱۹۶۱ کو ریڈیو اسٹیشن کے سبزہ زار عمارت پر مزاحیہ مشاعرہ منعقد کیا جس میں عوام کو بطور سامع مد عو کیا گیا تھا ۔دکنی اردو میں مزاحیہ شاعری کا چلن حیدرآباد میںعام تھا۔ چنانچہ اس مشاعرہ نے شعرا اور عوام کو حوصلہ بخشا۔حیدرآباد میں فائن آرٹس اکیڈیمی کے نام سے فنون لطیفہ کے فروغ کے سلسلے میں ایک ادارہ تقریباََ ۱۹۵۰ ء سے کار کرد تھا ،آل انڈیا ریڈیو کے مزاحیہ مشاعرے کے بعد اس طرح کے مشاعرے عام ہوگئے اور۱۹۶۲ تا۱۹۶۵ حیدرآباد میں ہی نہیں بلکہ آندھراپردیش کے مختلف شہروں اور اضلاح میں اس طرح کے مشاعرے منعقد کیے گئے اور مزاحیہ شاعری اور شاعروں کی روایت کو حیدرآباد میں استحکام ملتا گیا ۔جس کے اراکین میں سید مصطفی کمال کو بھی شامل کیا گیا اور ۱۹۷۴ ء میں اس ادارہ کا باضابطہ رجسٹریشن کروایا گیا ۔حیدرآباد کے مزاح نگاروں اور ارباب نے تجویز کی کہ حیدرآباد میں مزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس منعقد کی جائے۔ چنانچہ مجتبیٰ حسین کو اس کانفرنس کا سکریٹری منتخب کیا گیا اور زندہ دلان ِحیدرآباد کے زیر اہتمام ہندوستان میں مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس ۱۴ ،۱۵ مئی ۱۹۶۶ اعلیٰ پیمانے پر منعقد ہوئی جو بے انتہا کامیاب رہی۔اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے سید مصطفی کمال نے دن و رات ایک کر دئیے تھے ۔ اس کے بعد سے مزاح نگاروں کی کل ہند کانفرنس اعلیٰ پیمانے پر منعقد ہونے لگی ۔ چنانچہ مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس ۱۴ اور ۱۵ ؍مئی۱۹۶۶ کوحیدرآبادکے معروف اردو ہال موقوعہ حمایت نگر حیدرآباد میں منعقد کی گئی ۔ اس کانفرنس کے موقع پر پہلا سووینر شائع کیا گیا جو زندہ دِلانِ حیدرآباد کی پہلی دستاویز ہے۔ بقول مصطفی کمال : ’’ دراصل ہمارا ادارہ ہیں ہی ایک زندہ دلان حیدرآباد جس کا آغاز۱۹۶۲ میں ہوا ۔۱۹۶۶ میں ایک کانفرنس طنز و مزاح نگاروں کی ہوئی جس میں سوونیر شائع کئے اس میں میں بھی ایک ممبر تھا اس کانفرنس کے بعد ہم سالانہ کانفرنس کرنے لگے پھر ۶۷ اور ۶۸میںوہی کانفرنس ! نثری اجلاس ، پھر وہی مشاعرہ کافی شہرت ہوئی‘‘ ۱؎ اس طرح پہلی کل ہند کا میاب کانفرنس کے ذریعہ زندہ دلان حیدرآباد نے ایک ادارہ کا مقام حاصل کرلیا ۔ سوونیرکے مرتبین میں ناصر کونولی،سید مصطفی کمال اور حفیظ قیصر وغیرہ کے نام ملتے ہیں۔اسی طرح زندہ دلان حیدرآباد کے سالانہ تقاریب پر ہر سال سوونیر شا ئع ہونے لگا۔جب سووینر کے مزاحیہ مضامین عوام میں مقبول ہونے لگے اور اس کی اہمیت میں اضافہ ہونے لگا تو نومبر۱۹۶۷ میں سید مصطفی کمال نے حیدر آباد سے’’ شگوفہ ‘‘نام کا رسالہ جاری کیا ۔شگوفہ نام رکھنے کی وجہ خود مصطفی کمال نے مزاحیہ پیرائے میں بیان کیا ہے : ’’میں کلی یا بن کلا پھول نہیںکھلاتا بلکہ میں شگوفہ چھوڑتا ہوں اور شگوفے چھوڑنا اردو ادب میں محاورہ استعمال کیا جاتاہے جسکا مطلب انوکھی بات کہنا یا کوئی فتنہ انگیز بات کہنے کے ہیں ‘‘ ۔ شگوفہ کو زندہ دِلانِ حیدرآبادکے ترجمان کی حیثیت دی گئی ۔ابتدا میں یہ رسالہ ڈیڑھ ماہی تھا جس کی قیمت ایک روپئے تھی یہ سال بھرمیں آٹھ پرچے شائع کرتا تھا مگر بعد میں ۱۹۷۳ میں ’’شگوفہ‘‘ کو ماہنامہ کر دیا گیا۔آج بھی رسالہ شگوفہ نے اپنی عمر کے ۴۹ ویں سال میں اپنی تاریخ بنائی ہیں ۔ طنز و مزاح کا پہلا پرچہ اودھ پنچ تھا جو ۱۸۷۷ میں جاری ہوا اور ۱۹۱۲ میں بند ہوا ۔ طنز و مزاح کا یہ پہلا پرچہ تھا جو طویل عرصے تک جاری رہا اور اس نے بے شمار طنز و مزاح نگاروں کو روشناش کیا ۔شگوفہ دوسرا رسالہ ہے جو طویل عرصے سے شائع ہورہا ہیں ۔اودھ پنچ کا دور ۳۷ سالہ Recordتھا مگر شگوفہ نے اسے توڑ دیا بلکہ بارہ سال مزید ۳۷ سال کے بعد یہ رسالہ جاری ہیں ۔جہاں تک طنز و مزاح کو روشناس کرنے کا سوال ہے تو اودھ پنچ نے بے شک کئی اہم لکھنے والوں کو روشناس کیا ۔ لیکن یہ سب قلم کار پہلے سے اپنے طور پر لکھ رہے تھے ۔جب کہ شگوفہ نے نو آموز طنز و مزاح نگاروں کو نہ صرف متعارف کیا بلکہ ان کی مزاح نگاری میں اپنا حصہ ادا کیا ۔ ۲۰۱۹ کے سال کے بارہ شماروں پر تبصرہ کرنے سے پہلے مجھے بتانا ضروری ہے کہ نومبر ۲۰۱۸ میں شگوفہ کے پچاس سال مکمل ہوچکے ہیں موجودہ حالات میں کسی اردو رسالہ کا پابندی وقت کے ساتھ بانی ایڈیٹر ہی خود ۵۱ برسوں سے شائع کرواناایک غیر معمولی بات ہے ۔’ شگوفہ‘‘ کے عام شماروں کے علاوہ سال نامے ،خاص نمبراور سوونیر کے علاوہ کئی گوشے شائع ہو چکے ہیں۔سال کے آغازسے ہی سال نامے اردو کے نمائندہ طنز ومزاح کے نثری اور شعری تخلیقات ہندوستان،پاکستان،امریکہ ،یوروپ ،افریقہ سے لکھتے رہے ہیں اس پس منظر کے سالنامے میں کاٹون میں لوگ ۵۰ سال کا دھندہ ہاتھ میں لیے پتھریلی زمین پر چل رہے ہیں۔ اس سال نامے کے آغاز پر لکھنے والوں کی تمام تصاویر دی گئی ہیں۔مصطفی کمال نے شگوفہ میں مزاحیہ نثر کو ہی جگہ نہیں دی بلکہ یکساں طور پر مزاحیہ شاعری کو بھی اہمیت دی ہے ۔ شعر و نثر کے کسی بھی صنف میں کسی بھی پیرائے میںطنزومزاح کی جھلک نظر آتی ہے۔مثلاً مال مفت کے عنوان سے( انشائیہ و مزاحیہ مضامین) اڑیں گے پرزے کے تحت (خاکے)بال کی کھال کے عنوان سے (تبصرے)،ایسی کی تیسی کے زیرِعنوان ( تنقیدی مضامین) قاضی جی دبلے کے تحت ( رپورتاژ و سفر نامے) دخل ونا معقولات کے زیر عنوان( ڈرامے و مزاحیہ افسانے)، مالِ مسروقہ کے عنوان سے دوسرے رسائل میں چھپی ہوئی تخلیقات کی دوبارہ اشاعت، شیطان کی آنت کے تحت سلسلہ وار و قسط وار ناول مراسلے، و خطوط کے لیے دے کے خط سلسلہ ،اداریئے کے لیے پھر ملیں گے اگر خدا لایا، منظومات کے لیے چورن کا موزوں ترین عنوان وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ جنوری کا شمارہ: اس سا ل نامے میںبھی نثری تخلیقات موجود ہے ۔شگوفہ کی فہرست میں اڑے گے پرزے کے عنوان سے ہمیشہ خاکہ موجود ہوتے ہیں ۔ جس میں پاکستان کے ڈاکٹر اشفاق احمد ورک ،خالد محمود اور شکیل اعجاز شامل ہیں ۔عطاالحق قاسمی کی تین کالم اس رسالے میں شامل کیے گئے ہیں۔انشائیہ نگاروں میں فیاض احمد فیضی ،نصرت ظہیر ، ڈاکٹر حلیمہ فردوس ، ڈاکٹر حبیب ضیاء ،مختار ٹونکی ،ڈاکٹر علیم خان فلکی ،ڈاکٹر شفیع شیخ وغیرہ کے نام ملتے ہیں ۔شعری حصے میں ڈاکٹر ظفر کمالی ، زبیر قدودی ،مختار یوسفی شاہد ادیبی،نٹ کھٹ عظیم آبادی،کرشن پرویز ،وغیرہ کی غزلیں اور منظومات شامل ہیں ۔ان ناموں کی فہرست سے اندازہ ہوتاہے کہ ملک کے مختلف حصوں کے علاوہ پاکستان،آسٹریلیاں کے نمائندہ طنز ومزاح نگار موجود ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام طور پر تخلیق کاروں کا معیار زوال پذیر ہو رہا ہے اس کے باوجود شگوفہ کے شماروں کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ طنز ومزاح کے لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔نئے لوگوں کو متعارف کرانے کی وجہ سے طنز ومزح کے ارتقا کا تسلسل قائم ہے ۲۰۱۹ کے تمام شماروں کا مکمل جائزہ لے تو ایک خوش آئند احساس ہوتا ہے کہ سینئر لکھنے والوں کے شانہ بشانہ کئی نام ایسے بھی ہیں جن کی تخلیقات پڑھ کر ہم ناصرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ان سے اچھی امیدیں بھی وابستہ کرسکتے ہیں۔ان شماروں میں خود نوشت ، سفر نامے ،رپورتاژ اور خاکے کافی تعداد میں چھپتے رہے ہیں شگوفہ کے قلم کاروں نے طنز ومزاح کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماج کی برائیوں اور خرابیوں کو ہمیشہ نشانہ بنایا ہے ۔یہ رسالہ ہنسنے ہنسانے کا کام انجام نہیں دیتا بلکہ ہنسی ہنسی میں پتے کی بات کہہ جاتا ہے معاشرے کی صحت مند اقدار کے علاوہ اس کی کمزوریوں پر بھی شگوفہ کے تمام شماروں میں تصاویرپیش کی کئی ہیں۔ماضی میں طنز ومزاح لکھنے والوں نے اس کے معیار کو کبھی بلند کرنے کی طرف توجہ نہیں دی لیکن شگوفہ منظم انداز میں طنز ومزاح کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا ہے اس کے لکھنے والوں میں خواتین کی بھی کافی تعداد موجود ہیں ۔ہر شمارے میں کوئی نا کوئی خاتون کامضمون یا شعری تخلیق نظر آتی ہے۔ فروری کا شمارہ : فروری کے عام شمارہ میں حسب معمول نثری وشعری تخلیقات کے ساتھ اورنگ آباد کے مزاح نگار علی الدین صدیقی کے انتقال پر خراج عقیدت پیش کیا گیاہے ۔اس شمارے میں ڈاکٹر اختر سلطانہ کا مضمون شائع ہوا جس میںقرۃالعین حیدر کی تحریر کردہ طنز وظرافت کی نمونے تلاش کیے گئے ہیں یہ ایک اچھوتا موضوع ہے ۔ مارچ کا شمارہ: مارچ کا شمارہ بانو سرتاج کی مزاح نگاری کا نمائندہ نمونہ ہے ۔جس میں ان کا ایک گوشہ شائع ہوا ہے اس شمارہ میں شفیقہ فرحت نے اپنی تحریر میں بانوکو دعاؤں سے نوازا تھا ۔اداریہ مدیر شگوفہ نے لکھا ہے کہ بانو سرتاج کی طنز ومزاح پر دوکتابیں ہیں ۔انھوں نے علم کی دنیا میں رہتے ہوئے طنز ومزاح میںخاص دلچسپی لی ہیںاور ان کی تحریروں میں تفکر اور تبسم کی شیر وشکر کا ذائقہ ملتا ہے۔اپریل کا شمارہ :اپریل کا شمارہ اس اعتبار سے منفرد شمارہ ہے کہ اس میں فضل جاوید کی پیروڈیوںکو تحقیق وتنقید کا موضوع بنایا گیا ہے۔ فضل جاوید اچھے مزاح نگار تھے ان کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے اپریل کے شمارے میں فضل جاوید کی فراہم کردہ پر لطف پیروڈیاں اس شمارے میںشائع کی گئی ہیں ۔مئی کا شمارہ : مئی کے شمارے میں کے این واصف کا گوشہ شامل ہے۔جون کا شمارہ:جون کے مہینے میں گلبرگہ کے طنز ومزاح نگار منظور وقار پر ایک گوشہ شامل کیا گیا ہے۔ اس شمارے کے اداریہ میں مدیر شگوفہ نے زندہ دلان حیدرآباد کے پس منظر میں تفصیلی اداریہ لکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندہ دلان حیدرآباد فائن آرٹس اکیڈیمی کا ادبی شعبہ تھا جس کو۱۹۷۳ میںایک آزاد ادارے کے طور پر رجسٹر کرایاجاچکا ہے۔جولائی کا شمارہ :جولائی کے شمارے میں لکھنو کے ممتاز مزاحیہ اور مشہورشاعرمسرور شاہ جہاں پوری کے کلام کا انتخاب پیش کیاگیا ہے اور ان کے فن پر بھی مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔اگست کا شمارہ:اگست کا شمارہ ایک عام شمارہ ہے جس میں مشتاق احمد یوسفی کو یاد کیا گیا ہے۔ستمبر کا شمارہ :ستمبر کے شمارہ میں ابن صفی کا ایک قدیم مگر دل چسپ مضمون شامل ہے ۔اس مضمون کا عنوان ’’خستہ ایک ڈپلومنٹ مرغ ‘‘ ہے۔ساتھ ہی اس شمارے میں عالمی شہرت یافتہ شاعر انور مسعود کا تعارف بھی دیا گیا ہے ۔اکتوبر کا شمارہ: اکتوبر کے شمارے میں نامور مزاح نگار و کالم نگار فکر تونسوی پر ایک گوشہ ہے۔ اردو والے اب فکر تونسوی کو یاد نہیں کرتے اس گوشہ میں فکر تونسوی کے پانچ کالم ،خطوط اور ایک خاکہ شامل ہے۔نومبر کا شمارہ:نومبر کا شمارہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں رضا نقوی واہی پر ایک گوشہ شاہے۔ واہی کی منتخب غزلیں ،نظمیں بھی شامل ہے۔واہی پرمغنی تبسم کا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ دسمبر کا شمارہ :دسمبر کا شمارہ :زندہ دلان حیدرآباد کی سالانہ تقاریب کے موقع پر شگوفہ میں ہمیشہ ایک سووئینر شائع کیا جاتاہے ۔چنانچہ ۲۴ اور ۲۵ نومبر ۲۰۱۹ کو حیدرآباد میں منعقدہ زندہ دلان حیدرآباد کی تقاریب کے سلسلے میں شگوفہ کے دسمبر کا شمارہ میں بطور سووئینر شائع کیا گیا ہے اس شمارے میںدلاورفگار کا مشہور ومعروف خطبۂ صدارت بھی شامل ہے جو طنز ومزاح کی پہلی کانفرنس میں ۹۶۶میں پڑھا گیا تھا ۔ شگوفہ ۱۹۶۸ میں شائع ہوا تو الگ ماحول تھا الگ طرح کی فضا تھی خالص طنز و مزاح کم تھا۔پرچہ جاری کرنے کے لیے شگوفہ نے ایسے قلم کاروں کو اپنایا جو پہلے ناول یا افسانہ لکھا کرتے تھے جن میں بیدی ، جیلانی بانو،وغیرہ موجود تھے۔اور ایسے بھی لوگ موجود تھے جن میں لکھنے کی صلاحیت موجود تھی اس کے بعد سے محفلوں میں مضامین سنائے جانے لگے ۔ جس سے شگوفہ کو دن بہ دن نئے نثر نگار اور شاعر نصیب ہوتے گئے ہیں۔شگوفہ نے خاص کر نثر کے تمام اصناف کوجگہ دی ۔ شگوفہ ۲۰۰۱ تک پہنچتے پہنچتے کامیاب ہوکر سامنے آیا ۔شگوفہ نے یہ بتا دیا کہ کسی بھی درجے کا ادب دوسرے درجے کے مقابل کم تر نہیں ہے ۔ نثر ہویا شاعری کسی بھی کسی بھی اصناف کا پیرائے اظہار بے حد خو ب صورتی کا حامل ہوتا ہے۔چاہے وہ انشائیے ہویا خاکے ، تبصرے ہو یا ڈرامے یا پھر سوانح،خودنوشت ،سفر نامے رپورتاژ وغیرہ ۔ ’ ’شگوفہ ‘‘جس نے ۵۱ سال کی مدت بہ خیر وعافیت طے کر لی ہے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس رسالہ نے ہندوستان کے شہرۂ آفاق رسالہ’’اودھ پنچ‘‘ سے آگے کا سفر طے کر لیا ہے 2005ء میں ’’شگوفہ‘‘ پر سینتیسویں سال گرہ منائی گئی اور 2018 میں پچاسویں سالگرہ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورمیں’’شگوفہ‘‘ طنزو مزاح نگاری میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔ حوالہ جاتی کتب ۱۔ مصطفی کمال سے انٹر ویو ں ۔بتاریج ۳ اپریل ۶ ۲ ۔ڈاکٹر مصطفی کمال کی علمی وادبی خدمات ،محمد انور الدین ،بتاریج ۳ اپریل ۲۰۱۶ ۳۔ اردوطنز و مزاح کی روایت ، ڈاکٹر خالد محمود ۴۔ ’’رسالہ شگوفہ کے شمارے ۲۰۱۹‘‘