حُسین قریشی
ریسرچ اسکالر بامو یونیورسٹی اورنگ آباد مہاراشٹر
1947 کے بعد کی نعت گوئی
رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی عظمت اور مرتبے کو اللہ تعالیٰ خود بیان فرماتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف سے قرآن کریم لبریز ہے۔ کئی آیات میں اللہ عزوجل نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں ، خوبیوں اور خصائل کو بیان کیا ہے۔ جسے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے زبان سے تصدیق کی اور ساتھ دل سے اقرار بھی کیا ہے۔ لہذا بہت سے صحابہ اکرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف نعتیہ انداز میں بیان کی ہیں۔ یوں تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و مرتبے کو تخلیق ِ کائنات سے پہلے ہی بیان کیا گیا ہے اور کیوں نہ ہو ہمارے مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم سببِ وجود کائنات ہے۔ سببِ وجود جنت و جہنم ہے۔ سببِ وجود کُل مخلوقات ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص اور کمالات کو نظمی طور پر بیان کو نعت یا نعت خوانی یا نعت گوئی کہتے ہیں۔ اسے عربی زبان میں “مدحِ رسول ﷺ” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نعت گوئی ہمارے آقا جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کی علامت ہے۔ کامل ایمان کی نشانی ہے۔ مومنین کے قلب کو منور کرنے کا سبب نعت گوئی ہے۔ نعت گوئی نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ ہونی چاہیے۔ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بعد دنیا کے بڑے بڑے صوفیا ، جید علماء اکرام اور بلند بالا مقام و مرتبے کے حامل شخصیات، چوٹی کےشعراء اکرام نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھنے کے لیے قلم اٹھائی تو ان تمام نے اس
معروف شاعر شمس الدین شیرازی کے اس شعر پر اپنے سرخم کردیئے اور اپنے قلموں کو سکونت دےدی۔ کہ
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جھک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
یہ حقیقت بھی ہے کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں ، اچھائیاں, اوصاف اور انکی عظمت و مرتبے کو بیان کرنا ہم جسے خاکسار گناہگاروں کے بس میں نہیں ہیں۔
1947 سے پہلے عالم دنیا کے مشہور و معروف شاعر محترم ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کئی معتبر کلامات ، نعتیہ اشعار پیش کئے ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جس دور میں دنیا کی اسلام دشمنی طاقت اپنے عروج پر تھی اور وہ مسلمانوں کے دلوں سے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹانے کی ناپاک کاوشیں اور منصوبے بنا رہی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے روحانی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں لبریزہو کر ڈاکٹر علامہ اقبال کہتے ہےکہ
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقان وہی یسین وہی طہٰ
ڈاکٹر علامہ اقبال نے جس دور میں شعور کی دنیا میں قدم رکھا وہ مسلمانوں کے لیے بالعموم بڑی پستی اور ذلت کا دور تھا۔ سامراجی طاقتیں نے ایک طرف خلافت عثمانیہ کو ترکوں سے چھین لیا تھا۔ تو دوسری طرف بر صغیر پاک و ہند برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ اور ایک طرف یہودی فلسطینی سر زمین کو اپنے ناپاک اعزائم کا نشانہ بنانے کی تاک میں تھے۔الغرض دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی حالات بہت مصیبت میں تھی، پستی میں تھی۔ مسلمانوں کو چین و سکون نہیں تھا۔ اس دور کے المیے کو ڈاکٹر علامہ اقبال نے بڑے ہی موثر انداز میں بیان کرتے ہوئے قوم میں جان پھونکنے کی کوشش کی۔ ایک رات ڈاکٹر علامہ اقبال امت کے اسی درد کے ساتھ آہ و زاری کر رہے تھے اور اللہ عزوجل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اس درد کو بیان کرتے ہوئے دعا گو تھے کہ انھیں ندا آئی ” تو جانتا نہیں ان کے پاس دل تو ہے مگر اس میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں”
اسے اقبال نے یوں کہا
شبے پیش خدا بگر یستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ این قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند
یہ امت مسلماں اس لیے حالات سے دوچار ہیں کہ یہ قوم مسلم کے افراد ان کے دلوں کو اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد سے آباد نہیں کرتے۔
علامہ اقبال نے جب اپنی مشہور ترین نظم “شکوہ” لکھی اور مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر بارگاہِ خداوندی میں سراپا احتجاج بنکر عرض کیا۔
اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
علامہ اقبال کامل ایمان کی علامت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہم تمام مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہے کہ ہم تمام کو چاہیے کہ ہم اگر ہمارے کمزور دل میں ایمان کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اللہ عزوجل کی رضامندی چاہتے ہیں۔ اللہ عزوجل کی مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم تمام مسلمانوں کی فلاح چاہتے ہیں۔اگر ہم دونوں جہان میں سربلند ہونا چاہتے ہیں۔اگر ہم ہمارا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو اپنے دلوں کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منور کریں۔اس سے اعمال میں جان پیدا ہوگی اور اللہ عزوجل کی یقیناً مدد حاصل ہوگی۔ اور مسلمانوں کو دونوں جہان کی خوشیاں و کامیابی ملےگی انشاءاللہ
سر جھکا کر مانگ لے عشق نبی اللہ سے
جذبۂ سیف الہی، زور علی اللہ سے
1947 کے بعد بھی نعت گوئی ، نعتیہ شاعری جاری و ساری رہی۔ بہت سے شعراء نے ڈاکٹر علامہ اقبال کے کلامات سے روشنی حاصل کی۔ آزادی کے بعد نعت گو شعراء میں پیر نصیر الدین نصیر ایک شاعر ،ادیب ،محقق ،خطیب ،عالم اور صوفی باصفا تھے۔ آپ اردو ، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ اس کے علاوه عربی ، ہندی ، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہتے. اسی وجہ سے انہیں “شاعر ہفت زبان” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے بہت سے نعتیہ کلامات کا نظرانہَ عقیدت بخدمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نچھاور کیا ہے۔ جن میں مشہور ومعروف نعت ہے۔ کہ
اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے ۔
جو رب دو عالم کا محبوب یگانہ ہے
کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے سبطین کا نانا ہے
اپنی ایمانی طاقت کو مضبوط کرتے ہوئے اور نوجوانوں میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی روح پھونکتے ہوئے آپ فرماتے ہے کہ
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
آپ کہتے ہیں کہ ہماری لَو مدینے سے لگی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو مدینے والے کے صدقے میں مکمل کریگا۔ ہماری دونوں جہانوں کی کامیابی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہیں۔ ایک جگہ ہم خاکساروں کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت سمجھاتے ہوئے کہتے ہے کہ ایمان کا دارومدار اسی پر ہے۔ جس نے نبی کی محبت کو سمجھ لیا اسے کامل ایمان نصیب ہوگیا اور جسے کامل ایمان مل گیا اس نے اللہ عزوجل کو پالیا۔
جس نے سمجھا عشق محبوب خداﷺ کیا چیز ہے
وہ سمجھتا ہے دعا کیا، مدعا کیا چیز ہے
کوئی کیا جانے کہ شہر مصطفیﷺ کیا چیز ہے
پوچھئے ہم سے مدینے کی ہوا کیا چیز ہے
اسکے مزید آگے نصیرالدین نصیر فرماتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جو بھی ملا اور جو مل رہا ہے اور آئیندہ جو میسر آئے گا وہ سب تمھارے صدقے سے ہی تو ملے گا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت العالمین بناکر بھیجا ہے۔اسے نعتیہ تسبیح میں اس طرح پرویا ہے کہ
کالی کملی والے
اے شاہِ شب اسریٰ کونین کے رکھوالے
دربار، الگ تیرا
جبریل ترا خادم، محتاج ہے جگ تیرا
بگڑی کو سنواریں گے
دکھ درد کے عالم میں تجھ کو ہی پکاریں گے
کیوں اور کسی گھر سے
جو کچھ ہمیں ملنا ہے ملنا ہے ترے در سے
چوکھٹ تری عالی ہے
آزادی کے بعد کثیر تعداد میں شعراء اکرام نے اپنی عشق و محبت ، عقیدت اور الفت کے بے شمار گلدستے بطور نظرانہ آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کا شرف حاصل کیا ہیں۔ جن میں حضرت ابو الخیر کشفی 1950، محترم منظور الکونین ، ابو الحسن خاور صاحب، اصغر سودانی ، اکرم کلیم صاحب ، حضرت مولانا الیاس عطاری قادری ، بہزارد لکھنوی ، امیر خان امیر قریشی ، تہور زیدی، انعام الحق معصوم صابری ، جازب قریشی، جمیل الرحمٰن رضوی ، حافظ مراد ، حافظ لدھیانوی ، خورشید رضوی ، درد کاکوری، خیال آفاقی، ذکیہ بلگرامی ، ریحانہ تبسیم فاضلی صحابہ ، ساغر ہاشمی ، سرور حسین نقشبندی 1976، محترم صبیح رحمانی صاحب 1965 ، اویس رضا قادری 1960 ، محترم جناب خورشید احمد صاحب 1956 ، محترم وحید ظفر قاسمی صاحب 1952 ،
محترم نصیرالدین نصیر 1949 ، محترم ڈاکٹر رؤف روفی صاحب، خاطمی اجمیری ایسی بہت سی شخصیات شامل ہیں۔ تمام معزز شعراء اکرام نے عمدہ و مثالی نعتیہ کلام پیش کیا ہیں اور اپنی عشق و محبت کی کیفیت کو عیاں کیا ہیں۔ ساتھ ہی قوم وملت کے سینوں میں جذبۂ ایمانی کی روح پھونکی ہیں۔ مسلمانوں کو عشقِ شہِ بطحہ سے شرابور فرمایا ہیں۔
ان میں سے محترم الحاج خورشید احمد یکم جنوری1956ء کو رحیم یار خان کی بستی نور والا میں پیدا ہوئے تھے۔ نعت خواں خورشید احمد نے اپنے کلامات کو ریڈیو پربھی پیش کیا۔ جب وہ حج کی سعادت سے سر فراز ہورہے تھے تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ “مجھے بہت نعتیں پاک یاد ہے۔ مگر آج روضہَ رسول پر صرف یہی زبان پر بار بار آ تا ہے۔ کہ “تم جگ جگ جیو مہاراج ھم تیری نگریا میں آئے” اسی سے انہیں تسکینِ دلِ حصول ہوتا تھا۔ آپ پہلے نعت خواں ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکہ ، جاپان ، سوئیٹزرلینڈ ، یمن اور فرانس میں پہلی بار نعت پڑھی۔ اور آپ پہلے نعت خواں ہیں جنھیں ایک بڑے بنک میں نوکری نعت خواں کی وجہ سے ملی۔ 1973 سے 1977 تک انہوں نے محفل نعت میں کراچی کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا تاہم ان کی شہرت کا آغاز خالد محمود نقشبندی کی مشہور نعت ’’ ” یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ ” سے ہوا۔
محترم سرورحسین نقشبندی ایسے نعت گو شاعر، نعت خواں اور ٹی وی اینکر ہے۔ جن کی نعتیں صبائے نعت کے دوش پر سفر کرتی ہوئی ایسی خوشبو ہیں جو ہر قلب و روح میں موجود عشق محمدی کے گوشوں کو معطر کرتی جاتی ہے خوش نوا و خوش الحان سرور حُسین نقشبندی اپنے انداز و اطوار میں بھی بردباری اور اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ 24 اپریل 1976 کودھرم پورہ لاہور میں پید ا ہونے والے سرور نے کم عمری ہی میں الیکٹرانک میڈیا پر وادی شہرت میں قدم رکھ دیا۔ نعت گوئی و نعت خوانی میں یکساں شہرت بھی حاصل کی۔ ایک جگہ وہ اپنی عقیدتوں کی خوشبوں بکھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی
ہے گنبد خضراء کی جھلک اور طرح کی
ہر آن خیالوں میں ہے اس شہر کی ٹھنڈک
چلتی ہے جہاں بادِ خنک ، اور طرح کی
اور جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے مانگی گئی دعاؤں کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ہمیں درس دیتے ہے کہ اس وسیلے سے ہر جائز دعا قبول ہوتی ہے۔
یہی منگنی کا مؤثر طریقہ و ذریعہ ہے۔
درِ حضور پر جب بھی دعا کو لب کھولے
ملا ہے مجھ کو طلب سے سوا بحمداللہ
یہی ہے میرا اثاثہ، یہی مری پونجی
نبی کی نعت ہے سب کچھ مرا، بحمد اللہ
آزادی کے بعد اگر اس نعت گو شاعر کا نام نہ لیا جائے تو اس مقدس کلام کی تاریخ اختتام تک نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ یہ ایسے نعت خواں ہے کہ وہ بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ اور بڑے ہی خشوع و خضوع کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کی چاندنی بکھیرتے ہیں۔ انہیں پوری دنیا سماعت کرتی ہیں۔ ایسے سماعت کرتی ہیں کہ تمام پر وَجد جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہیں۔ اسکی وجوہات یہ ہیں کہ یہ شاعر اپنے کلام کو پیش کرتے وقت پوری طرح دل و ذہن سے محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں۔ وہ نہایت ادب و تعظیم کے ساتھ نعتیہ کلام رسولِ اکرم نورِجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔ انکی یہ کیفیت انکی سریلی اور پر کشش آواز میں مزید مؤثری پیدا کردیتی ہے۔ انکا شہر دیکھتے ہی اللہ یاد آتا ہے۔ ایسی بابرکت شخصیت و بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں سے میری مراد الحاج اویس رضا قادری سے ہے۔ آپ کے نعتوں کے نغمے پوری دنیا میں ہر خاص و عام کی زبان پر جاری وساری رہتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر الحاج اویس رضا قادری کو مدعو کیا جاتا ہیں۔ انکی شہرت ناقابلِ فراموش ہونے کی وجہ ایک بہت بڑی تعداد انکے نعتیہ کلام سے سیراب ہوتے ہیں۔ انکی نعت ” ان نبی صلو علیہ صلوۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔۔۔یا رسول اللہ۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔” پورے عالم میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی دھوم مچا چکی ہیں۔ یہی نہیں لوگ آج بھی اس نعت کو عشق و محبت میں غرق ہوکر گنگناتے ہیں۔ الحاج اویس رضا قادری نے نعت خوانی کو مشن بنایا ہوا ہے ۔ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کو اس دلبرانہ انداز سے پیش کرنا ہے کہ ہر زبان کا نغمہ ہوگئی۔ آپ نے 1983 میں پہلا البم پیش کیا ۔ آپ کے آڈیو البمز کے فہرست میں، آقا کا میلاد آیا، میں سو جاؤں یا مصطفی کہتے کہتے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے، یا سیدی، النبی صلوا علیہ ، شان والا سوہنا نبی ،جشن آمد رسول ، واہ کیا بات اس مہینے کی اور سرکار کا مدینہ شامل ہیں۔ یہ تمام نعتیہ کلام اپنے آپ میں عمدہ و مثالی ہیں۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف نیاہت بلند وبالا طرز پر پیش کی گئی ہیں۔ اگر ہم ان کے نعتیہ کلام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انکی آن لائن ویب سائٹ اور چینل پر چلے جائیں۔ جہاں پوری دنیا سے کروڑوں لوگ سبسکرائبرس ہیں اور انکے نعتیہ کلام سے اپنے ایمان میں تازگی پیدا کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے چراغوں کو اپنے دلوں میں روشن کئے ہوئے ہیں۔
اویس رضا قادری http://owaisqadri.com/biography.html
اویس رضا قادری کی نعتیں https://naatsharif.com/owais-raza-qadri
الحاج اویس رضا قادری نے قوم و ملت کے دلوں اور ذہنوں میں جذبہَ عشق و محبت کی شمع کو ہمیشگی کے جِلا بخشی ہے۔
نعتیہ کلام پیش کرنے والے شعراء اکرام کی صفیں کثیر تعداد رکھتی ہیں۔ اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ صاحبِ محسن کی ذاتِ اقدس ہی ایسی لامحدود خوبیاں رکھتی ہیں کہ انکی تعریف و توصیف کرنے سے کوئی سیر حاصل کر نہیں سکتا۔ جو جتنے کلام پیش کرتا ہے اسکی مزید اتنی ہی جستجو اور بڑھتی جاتی ہیں۔ میں آخر میں ایک اور بین الاقوامی شہرت کے مالک مؤثر و عمدہ شخصیت کے حامل نعت گو شاعر کے تعلق سے اپنے خیالات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ عظیم شخصیت الحاج ڈاکٹرعبدا لرؤف روفی صاحب ہے۔ 15 ستمبر 1953 کو روحِ زمین پر پہلی سانس لینے والے عبدالرؤف روفی کی ابتدا بھی جنید جمشید کی طرح گلوکاری سے ہوئی اور پھر رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آغوش میں قبول فرما لیا اور وہ 1990 کی دہائی میں گلشن نعت کے خوش رنگ گل کے طور پر نکھر کے سامنے آئے ۔ آپ نے’ دف’ کے ساتھ نعت خوانی متعارف کرائی اور قصیدہ بردہ شریف سے عاشقانِ نعت کے دلوں میں گھر کر لیا ۔ آپ کا شمار پاکستان کے بہترین نعت خوانوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے دف کے انداز نے نعت گوئی میں ایک انقلاب برپا کیا۔ بین الاقوامی سطح پر آپ کو بڑی شہرت ملی ہیں۔ آپکے بہت سے کلام ہیں جو کافی مقبول ہو چکے ہیں۔ البتہ چند مشہور کلام قصیدہ بردہ شریف ۔ مولایا صلی وسلم ، میٹھا میٹھا ہے میرے محمد ﷺ کا نام ، سانوں کوجھی ویکھ نہ چھڈ وے
آپ نے اردو پنجابی زبانوں میں نعتیہ کلام پیش کئے ہیں۔ان کے بیٹے ریحان روفی بھی اپنی اپنے والد کے انداز میں نعت خوانی کرتے ہوئے اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔
غرض کے 1947 کے بعد نعت گوئی کو بلند و بالا مقام حاصل ہوا ہے۔ کثیر تعداد میں شعراء اکرام نے اس نہایت نازک صنف میں انتہائی قرینے سے، ادب سے اور خشوع و خضوع کے ساتھ نذرانہُ عقیدتوں کے گلدستے نچھاور کئے ہیں۔ جس کی خوشبوں سے سارا عالم معطر ہوا ہے۔ قوم وملت میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن رہی ہے۔ ایک سنہری دور مسلمانوں کی ایمان کی تازگی کے لئے میسر آیا ہے۔ جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں اللہ عزوجل سے دعا گو ہوں کہ یا اللہ ہم عاصیوں، بدکاروں اور گناہگاروں کے سینوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم رکھے اور ہمارا خا تمہ بالخیر ایمان پر ہوں اور ہمیں بروزِ قیامت شافعیہَ محشر کی شفاعت نصیب ہوں۔ ثمہ آمین
لب پہ جب بھی محمد کا نام آگیا
ہر کسی کو میرا احترام آگیا
آ بھی جائے گی اشرف مجھے زندگی
جب درود آگیا، جب سلام آگیا
صلی اللہ علیہ وسلم