محمد الیاس کرگلی
ریسرچ اسکالر۔ دہلی یونی ورسٹی
حبیب جالبؔ کی مزاحمتی شاعری
حبیب جالبؔ کو نظیر اکبر آبادی کے بعد دوسرا عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کی شاعری آج بھی عوام میں مقبول ہے۔ جہاں بھی ظلم کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہو ،ان کی شاعری کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ظلم و استبداد کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ ان کی سیاسی شاعری پر تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں مختصراََ ان احوال و کوائف کے بارے میں جاننے ہوں گے ،جن کی وجہ سے اور جن حالات میں ان کی مزاحمتی شاعری پروان چڑھی۔ حبیب جالبؔ کا اصلی نام حبیب احمد تھا،8فروری 1928کومتحدہ ہندوستان میں پنجاب کے ہوشیار پور کے ایک گاؤں میانی افغان میں پیدا ہوئے۔ ان کے بڑے دادا میاں فضل محمد 1947کے فسادات میں مارے گئے تھے۔ جالبؔ نے بچپن مفلسی میں گزارا ہے، ان کی نانی کروشیے کی مدد سے جرابیں، پراندے اور ازاربند بنا لیتی تھی اورجالبؔ ان کی فروخت کے لئے نانی کے ساتھ میلوں سفر کر کے شام کو واپس آجاتا تھا۔ اپنے گاؤں میں پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد1941میں وہ دہلی آئے جہاں ان کے بڑے بھائی ملازمت کرتے تھے۔ دہلی میں جالبؔ نے اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ میں داخلہ لیا اور آٹھویں جماعت پاس کر لی۔ اس کے بعد اینگلو عربک ہائی اسکول موری گیٹ میں داخلہ لیا۔ اس دوران تحریک پاکستان بھی عروج پر تھی۔ جب ہندوؤں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ بنائی تو مسلمانوں نے ابھی ایک تنظیم ’’انجمن اسلامیہ‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔ حبیب جالبؔ اس تنظیم کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ سے بھی متاثر تھے۔ ابھی جالبؔ نے ہائی اسکول کی تعلیم پوری بھی نہیں کی تھی کہ ہندوستان کو آزادی ملی۔ جالبؔ اور ان کے بڑے بھائی 14اگست1947کو دہلی سے پاکستان روانہ ہوئے اور کراچی میں قیام پزیر ہوئے۔ کراچی میں انہوں نے گورنمینٹ ہائی اسکول کراچی میں دسویں جماعت کے لئے داخلہ لیا۔ 1950میں وہ لاہور چلے آئے اور ’’ادیب فاضل‘‘ کے لئے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا۔
حبیب جالبؔ کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں جنگ و جدل، افرا تفری اور سیاسی عدم استحکام کا زمانہ تھا۔ایک طرف سے انہوں نے دوسری جنگ عظیم دیکھی تو دوسری طرف ہندوستان میں بھی عوامی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ اس پر مزید یہ المیہ کہ آزادی ملتے ہی ملک کا بٹوارہ ہوا اور لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ یہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی ہجرت تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس امید سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے کہ وہاں امن ہوگا، خوش حالی ہوگی اور ایک امن پسند اور انصاف پسند حکومت ہوگی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان میں کبھی جمہوریت کو پلنے ہی نہ دیا بلکہ طاقت کے بل پر تاناشاہوں نے وقت بہ وقت اپنی بالادستی قائم کیں۔قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کا مسٔلہ بھی درپیش تھا۔ مسلکی اختلافات اور فسادات بھی ہوتے رہتے تھے۔ وہیں 1972میں مشرقی پاکستان بھی الگ ہو کر بنگلہ دیس بن گیا۔ عالمی سیاست میں بھی نشیب و فراز آتے رہے۔ پوری دنیا دو بلاک میں منقسم تھی۔ ایک کی قیادت روس اور ایک کی قیادت امریکہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ روس کے انقلاب کے بعد اشتراکی سوچ بھی دنیا میں عام ہو رہی تھی۔ اردو ادب اسے خاص طور سے متاثر تھا۔مشرق وسطی میں اسرائیل کا وجود میں آنا بھی امت مسلمہ کے لئے ایک مسٔلہ تھا۔ امریکی نئی سامراج neo Imperialismنے بھی پوری دنیا پر ایک نئے طریقے سے اپنا شکنجہ مضبوط کیا ہوا تھا۔ حبیب جالبؔ نے اپنی زندگی میں یہ تمام اتار چڑھاؤ دیکھے۔
حبیب جالبؔ کے مجموعہ کلام میں ’’برگِ آوارہ‘‘، سرِ مقتل‘‘، ’’عہد ِ ستم‘‘، ’’ذکرِ بہتے خون‘‘، ’’گنبد بے در‘‘،’’عہد سزا‘‘،’’گوشے میں قفس کے‘‘، ’’حرفِ حق‘‘،’’اس شہر خرابی میں‘‘، ’’حرف سردار‘‘ اور ’’جالب نامہ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ’’کلیاتِ جالبؔ‘‘اور’’چاروں جانب سناٹا‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد 1948میں ہی محمد علی جناح دنیا سے چل بسے۔ ان کے انتقال کے بعد پاکستان تیزی سے عدم استحکام کی جانب بڑھنے لگا۔ غریبوں کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی تھی۔ در اصل پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے پیچھے وہی جاگیردارانہ سوچ کارفرما تھی، جو مسلمان سالوں سے لیتے آرہے تھے۔ غریب عوام کے حقوق غصب کرنے کے لئے ایوانوں میں مختلف حکمت عملیاں بنائی جا رہی تھیں۔ ملک کے طول و عرض میں سیاسی افراتفری اور بد امنی چھائی ہوئی تھی۔ ان حالات نے حبیب جالبؔ کے اندر کے رومانی شاعر کو رفتہ رفتہ ختم کر دیا اور ان کے اندر محالفانہ ردِ عمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ یہی سے ان کی سیاسی اور مزاحمتی شاعری شروع ہو جاتی ہے۔ انہیں کا ہی شعر ہے۔
کیا عقل کیا شعور کی باتیں کریں یہاں
سر کو معاملہ تو یہاں پتھروں سے ہے
حبیب جالبؔ آج ان کی سیاسی اور مزاحمتی شاعری کے لئے مشہور ہے۔ انہوں نے واقعی میں اپنے کلام کا بیشتر حصہ سیاسی شاعری پر صرف کیاہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے بذاتِ خود بھی عملی سیاست میں حصہ لیا تھا۔ غریب اور نادار عوم کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں حق دلانے کے لئے انہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور میاں افتخار الدین کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں مل گئی۔ جالبؔ نے انتخابات بھی لڑا لیکن انہیں تسلی بخش ووٹ نہیں ملا۔ طاقت کے بل پر اقتدار کی حصولی پاکستانی سیاست کا معمول بن گیا تھا۔ جس جمہوری نظام کا حبیب جالبؔ خواب دیکھ رہے تھے وہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ 1958میں لاہور میں نابیناؤں کی انجمن کے مشاعرے میں وہ اپنے خیالات کو کچھ اس اشعار میں بیان کر دیتے ہیں۔
وہی عالم ہے جو تم دیکھتے ہو
نہیں کچھ مختلف عالم ہمارا
جلائے ہم نے پلکوں پر دیے بھی
نہ چمکا پھر بھی قسمت کا ستارا
وہی ہے وقت کا بے نور دھارا
انہوں نے حاکم وقت کی مدح سرائی نہیں کی، بلکہ ان کے کالے کرتوتوں کے خلاف معرکہ آرائی کی۔ ان کی اس بے باک حق گوئی پر انہیں بار بار جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی۔ پہلی بار انہیں حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں حصہ لینے پر پابند سلاسل کیا گیا۔ وہیں 1964میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم سے دور رکھنے کے لئے لاہور کے ایک ہسٹری شیٹر وارث پر قاتلانہ حملہ کے الزام میں انہیں گرفتار کر لیا گیااور سات سال قید بامشت کی سزا سنائی لیکن بعد میں لاہور ہائی کورٹ سے باعزت رہائی ملی۔ تیسری گرفتاری ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوئی جب حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے سول نافرمانی کے تحت گرفتاری پیش کرنی تھی،جالبؔ نے بھی گرفتاری پیش کی۔ اس کے بعد 1976میں انہیں حیدر آباد سازش کیس میں دیگر 55افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا، جہاں سے چودہ ماہ بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ 1984میں غالبؔ کی طرح جالبؔ بھی جوا کھیلنے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ اس کے ایک سال بعد 1985میں ضیاء الحق کے زمانے میں وہ اس لزام میں گرفتار ہوئے کہ دس محرم کے جلوس پر پتھراؤ کا منصوبہ ہے۔ 1960میں ان کا پاس پورٹ بھی ضبط ہوا اور انہیں ملک سے باہر جانے پر پابندی تھی۔1976میں حیدر آباد سازش کیس میں بھٹو کے دور حکومت میں پولس نے انہیں گھر کے گرد گھیرا ڈال کر گرفتار کیا تو انہوں نے یہ اشعار کہے۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
ہمارے قتل پر جو آج ہیں خاموش کل جالبؔ
بہت آنسو بہائیں گے بہت دادِ وفا دیں گے
حبیب جالبؔ تادم حیات کسی حکمران کے سامنے سربہ تسلیم خم نہیں ہوئے اور نہ ہی عوام کے مسائل سے چشم پوشی کی۔ سب سے دشوار کام ظالم و جابر حکمران کے آگے کلمۂ حق کہنا ہے اور یہ کام جالبؔ نے بخوبی نبھایا۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے عوام کو بیدار کرتے رہے۔ پاکستانی سماج کی معاشرتی ناانصافیوں پر انہوں نے بغاوت کا علم بلند کیا اوراسے اپنے نظموں کا موضوع بنایا۔ وہ درباری شعراء کی طرح حکمران وقت کی مدح سرائی نہیں کرتے تھے،بلکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ انہیں کا شعر ہے۔
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
حبیب جالبؔ کے لئے جابر اور ظالم حکمران سے یاری مصلحت سے یاری ہے اور عوام سے دشمنی ہے۔ وہ اس مصلحت کو اپنے وطن سے غداری تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے لئے اذیت منطور ہے مگر غلامی منظور نہیں ۔ وہ اپنے معاشرے کے ناسور ختم کرنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ وہ جب ناانصافیوں کے خلاف بولتے ہیں تو دبے لفطوں میں نہیں بلکہ کھل کر غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیتے ہیں۔ انہیں معلوم بھی ہے کہ یہ راستہ دار و رسن کا ہے، لیکن اسے خوف نہیں کھاتا ہے۔ پاکستان میں دور ایوبی کی ظلمت کی وہ کچھ ان اشعارمیں مخالفت کرتے ہیں۔
دیب جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جالبؔ کے بارے میں کچھ نقاد یہ مانتے ہیں کہ ان کی شاعری وقتی شاعری ہے۔ لیکن ہر ذی شعور انسان کو یہ ماننا پڑے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں اقتصادی نابرابری کی وجہ سے دو گروہوں کے بیچ ہمیشہ سے تصادم رہا ہے، اور جب جب ظلم کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے، شعراء ہمیشہ صف اول میں رہا ہے۔ جالبؔ عوامی شاعر ہیں، وہ عوامی امنگوں کو اپنی شاعری میں پروتا ہے۔ تنقید کے اسی سطحی معیار نے برسوں تک نظیر اکبر آبادی جیسے شاعر کو شاعر ماننے سے انکار کر رکھا۔ عوامی تحریکوں میں آج ہندوپاک میں حبیب جالبؔ کی شاعری کو پڑھا جاتا ہے۔ سیاسی ایوانوں میں ان کے مزاحمتی اشعار سنائے جاتے ہیں۔ مثلا جب پاکستانی صدر ایوب خان نے اپنادور ختم ہونے کے بعداقتدار ایک اور فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا تو حبیب جالبؔ نے جو اشعار کہے تھے، وہ آج بھی مختلف مواقع پر پڑھے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ اشعار اس ایک خاص موقع کے لئے کہا تھا لیکن ان کی آفاقیت آج بھی مسلم ہے اور ہر دور میں رہے گی۔ اشعار ملاحظہ کریں۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
یہی جنرل یحییٰ خان کا دور تھا کہ جب انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام پر گولی چلانے کے لئے ڈائریکٹ ملٹری ایکشن کروایا،تو اس بربریت کے خلاف پھر حبیب جالبؔ نے احتجاج کیا۔ مجموعۂ کلام ’’ذکر بہتے خون کا‘‘ میں اس سانحہ پر جالبؔ کے اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہیں
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہیں
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہیں
جالبؔ کے مجموعہ ٔ کلام ’’اس شہر خرابی میں‘‘ کے پیش لفظ میں زاہدہ حناؔ حبیب جالبؔ کی بے باکی اور حق گوئی پر یوں تبصرہ کرتی ہیں۔
’’جالبؔ نے ہر عہد میں روشن حروف لکھے ہیں، سچے بول بولے ہیں۔ اور وہ ہر آمر کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا اور ہر جابر کو اس کی طرف سے دھڑکا رہا۔ وہ اس دھرتی کے ان لکھنے والوں میں سے ہے جن کا رشتہ ہ ہمیشہ اپنے لوگوں کے دکھوں اور سکھوں سے استوار رہا۔ اس نے اپنے لوگوں سے جو پیمان وفا باندھا تھا، اس میں ہمیشہ سچا رہا۔ اس کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے، اس نے جھوٹے لفظ نہیں لکھے، کھوٹے گیت نہیں گائے۔ وہ ان اہلِ صدق و وفا میں سے ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے بے گناہ شہریوں پر وحشیانہ فوج کشی کے خلاف آواز بلند کی۔‘‘
(اس شہر خرابی میں۔ حبیب جالبؔ۔ پیش لفظ از زاہدہ حناؔ، صفحہ نمبر ۷،۸۔1989)
حبیب جالبؔ مارشل لا جیسے کالے قوانین کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کے آخری دور میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ ہر طرف انتشار، ہنگامہ خیزی اور افراتفری تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے پھر سے مارشل لا لگا دیا۔ وہ یہ بھی یقین دہانی کراتے رہے کہ جلد از جلد جمہوری انتخابات کرا دئیے جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ انھوں نے ذولفقار علی بھٹو کو ہی پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ جالبؔ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور ان اشعار کے ساتھ احتجاج کیا۔
ظلت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں
دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے
رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریک شروع کی۔ 1988میں وہ پاکستان کی وزیر اعظم بنی ، لیکن عورت ہونے کے ناطے کٹر مذہبی علما کی طرف سے اس کی مخالفت ہوئی اور 1990میں انھیں وزارت عظمی کے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ حبیب جالبؔ کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ان کی اقتدار سے بر طرفی پر جالبؔ نے شعر کہا۔
ظلم سے نہ رک سکے گی راہ بے نظیر کی
اور بڑھ گئی ہے دل میں چاہ بے نظیر کی
حبیب جالبؔ کی نظریں صرف پاکستانی سیاست تک محدود نہیں تھیں۔ وہ دنیا کے ہر اس نظام کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جس کی بنیاد ظلم و استبداد پر ہو۔ ایسے میں وہ سامرجی طاقتوں پر برس پڑتے ہیں۔ سامراج جو 1945تک برطانوی شہنشاہیت کے روپ میں تھا، اس کے بعد امریکی سامراج کے نئے روپ میں دنیا کے غریب اور نادار عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ سالوں تک ایشیا ئی و افریقی ممالک معربی ملکوں کی کالونی بن کر رہے، وہی دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و امریکہ نیو کالونی ازم کے روپ میں غریب ملکوں کا اقتصادی استحصال شروع کیا۔ حبیب جالبؔ نے امریکی سامراج پر مختلف نظمیں لکھیں جن میں’’منشور‘‘، ’’اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘‘، ’’صدر امریکہ نہ جا‘‘ ، ’’امریکہ یاترا کے خلاف‘‘ ، ’’ ریگن‘‘ ، ’’ امریکہ نہ جا‘‘وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ استعمار اور استعمار کے آلہ کاروں پر طنز کستے ہیں۔ان کی نظم ’’صدر امریکہ نہ جا‘‘ سے اشعار دیکھئے۔
ایک ہی نعرہ ہے سب کا ایک ہی سب کی صدا
صدر امریکہ نہ جا اے صدر امریکہ نہ جا
سودا بازوں سود خواروں سے ہماری دوستی
کس قدر توہین ہے یہ لفظِ پاکستان کی
وہ اس ذہنی غلامی کو بھانپ لیتے ہیں جو ہند و پاک میں آزادی کے بعد بھی موجود تھے۔ جالبؔ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان اقتصادی طور پر خود کفیل ہو جائے اور امریکہ پر منحصر رہنا چھوڑ دے۔ غزل کا یہ شعر ملاحظہ کریں۔
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں میں امریکہ کا ڈیرا ہے
مذہبی شدت پسندی کو وہ پسند نہیں کرتے ہیں۔ جنگ سے کس کا بھلا ہوا ہے۔ اس منافرت اور خون ریزی کی وجہ سے ہزاروں گھروں
کی چراغیں گل ہو گئیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو آج بھی بر صغیر ہند پر امریکہ کا قبضہ ہے۔ جالبؔ اسی سامراجیت کے خلاف لکھتے رہے۔
پنڈت اور ملا یہ دونوں دشمن ہیں آزادی کے
آج ہے ڈیرا دیر و حرم کے سائے تلے امریکہ کا
وہ امریکی آلہ کاروں پر بھی برس پڑتے ہیں۔
امریکہ کے ایجنٹوں سے ملک بچانا ہے ہم کو
گلی گلی میں آزادی کا دیپ جلانا ہے ہم کو
ادبیات عالم پر اشتراکی انقلاب کا اثر جس قدر پڑا شاید ہی کسی اور انقلاب کا اثر پڑا ہو۔ اردو میں اس انقلاب سے متاثر پوری ایک تحریک ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کے نام سے چلی۔ اس نے پورے ادب کو متاثر کیا۔ یہ انقلاب سامراجیت کے خلاف ایک منظم تحریک تھی۔ حبیب جالبؔ بلاواسطہ تو ترقی پسند تحریک کا حصہ نہیں تھا، لیکن وہ اس انقلاب کو اور اس اشتراکی فکر کو پسند کرتے تھے۔کیونکہ ظالم سے اظہارِ بیزاری اور مظلوم کی حمایت آپ کا نصب العین تھا، جو کہ اشتراکیت کا بھی جز ہے۔ جالبؔ کے ہاں غزلوں میں یہ فکر چیدہ چیدہ ہیں اور کئی نظمیں بالکل اسی موضوع پر ہیں ، جن میں ’’نذر مارکس‘‘ اور ’’اکتوبر انقلاب‘‘ شامل ہیں۔ نظم ’’نذر مارکس‘‘ کا یہ شعر ان کی اشتراکیت پسندی کو بیان کرتا ہے۔
یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے
مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے
ایک نظم ’’اکتوبر انقلاب‘‘ کے نام سے ہے۔جالبؔ محنت کشوں کی جیت پر خوش ہوتے ہیں۔ روسی انقلاب سے انہیں ایک امید کی
کرن نظر آتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں محنت کش طبقہ ہو وہ اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑے ہو جائیں اور اپنے حقوق کے لئے لڑے۔
اس انقلاب سے انساں کا بول بالا ہوا
اس انقلاب سے کٹیاں میں بول بالا ہوا
اس انقلاب کا دن اس لئے مناتے ہیں
تمام رنج و الم شب کے بھول جاتے ہیں
اس انقلاب سے محنت کشوں کا راج آیا
حبیب جالبؔ کو زنجیر پہن کر رقص کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے کبھی مظالم کے آگے سر خم نہیں کیا اور نہ ظلم و بربریت سے چشم پوشی کی۔وہ امن کے متقاضی ہیں لیکن امن ظلم کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ عالم عرب اور امت مسلمہ کے دل پر یہودی ریاست کے قیام پر وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔ فلسطین پر ان کی کئی نظمیں ہیں جن کے نام ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘،’’اے جہاں دیکھ لے(فلسطین پر)‘‘،’’اے جہاں دیکھ لے‘‘، ’’ فلسطین، ، اور ’’ اے اہل عرب اے اہل جہاں‘‘ وغیرہ ہیں۔ وہ اسرائیل کو غاصب سمجھتے ہیں اور اسے یزید کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی نظم ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘ سے اشعار دیکھیں۔
یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی
اٹھائے ہاتھوں میں اپنے حسینیت کا علم
کہ بجھ کر رہ گئی ہے شمع تمکین
کہ کس عالم میں ہیں اہلِ فلسطین
حبیب جالبؔ ہمیشہ ان کے اشعار میں امر رہے گا۔ جب بھی روئے زمین پر ظلم ہوگا اور ظلم کے خلاف مزاحمت ہوگی، ان کے اشعار کو لوگ پڑھیں گے۔ ان کے کلام کا غالباََ ستّر فیصد سیاسی شاعری پر مشتمل ہے اور یہی سیاسی و مزاحمتی شاعری انہیں ممتاز بناتی ہے۔ آزادی اظہار میں انھوں نے آسانیاں پیدا کر دی۔ کئی بار انہیں پابند سلاسل کیا گیا لیکن ان کے قلم کی جنبش کو روگ نہیں سکا۔ وہ سماجی ناہمواریوں کے خلاف لکھتے رہے اور اپنی اکثر کتابیں جیل میں ہی تحریر کیں۔جمہوری اقدار کی پامالی پر وہ رنجیدہ ہوتے ہیں لیکن ناامید نہیں ہوتے ہیں۔ جس سماج میں غندہ گردی کا یہ عالم ہو کہ رقاصاؤں کو ان کی مرضی کے خلاف شاہی دربار میں رقص نہ کرنے پر ان کو زد و کوب کیا جاتا ہو، اس سماج میں حبیب جالبؔ ایک امید کی کرن بن کر ان پر’’نیلو‘‘ اور ’’ممتاز‘‘ جیسی نظمیں لکھتے ہیں اور حکومت وقت پر طنز کستے ہیں۔ ابتدا میں ان کی شاعری میں رومانوی شاعری تھی لیکن رفتہ رفتہ حالات اور وقت نے انہیں ایک انقلابی اور مزاحمتی شاعر بنا دیا اور آج ان کی پہچان ایک انقلابی اور مزاحمتی شاعر کی ہے جس نے ظلم، بر بریت، ناانصافی، ناامنی اور تاناشاہی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی شاعری کے ارتقائی سفر کو ان کے ہی اس شعر میں دیکھ لیجئے۔
اک زلف کی خاطر نہیں انصاف کی خاطر
ٹکرائے ہیں ہر دور میں ہم کوہِ گراں سے
حواشی
1۔اس شہر خرابی میں۔ حبیب جالبؔ۔ 1989
2۔برگِ آوارہ۔ حبیب جالبؔ۔ جمال پریس دہلی۔1977
3۔حبیب جالبؔ (احوال ا آثار) دلشاد اجمل۔ شرکت پرنٹنگ پریس لاہور۔ 2006
4۔حبیب جالبؔ: شاعر شعلہ نوا ۔تحقیق و تدوین از سعید پرویز۔ یونائٹیڈ ڈائیری کراچی۔1992
5۔حبیب جالبؔ۔ گھر کی گواہی از سعید پرویز،ذکی (سنز) پرنٹر کراچی۔ اپریل1994
6۔حرف سردار۔ حبیب جالبؔ۔خالف عمران پرنٹرز دل محمد علی روڈ لاہور۔1987
7۔ کلیات حبیب جالبؔ از حبیب جالبؔ 1993
8۔کوئی تو پرچم لے کر نکلے از مجاہدؔ بریلوی۔فرنٹئیر پوسٹ پبلیکیشنز لاہور۔ 1993
***