شاہ تاج خان(پونہ)
گُم شدہ چاند
کردار
نانی پھپو۔اسکول میں پرنسپل(بچوں کے والد کی منہ بولی بہن اور والدہ کی خالہ۔جنہیں بچوں نے’نانی پھپو‘کا لقب دیا ہے۔(
شیبا۔عمر ۱۳ سال
افضل عرف افّو بھائی۔عمر ۱۰ سال
فیصل۔عمر۸ سال
پردہ اٹھتا ہے
پہلامنظر
(حَبَس بھری گرمیوں کی ایک شام۔گرمی سے راحت کی تلاش میں بچے اپنی نانی پھپو کے ساتھ گھر کی چھت پر پہنچ گئے ہیں۔چھت پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے بعدافضل اور فیصل زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔نانی پھپو کرسی پر بیٹھی ہیں۔ہاتھ کے پنکھے سے خود کو ہوا جھَل رہی ہیں۔شیبا چھت کی منڈیر سے ٹیک لگا کر کھڑی ہے۔پورے علاقے میں بجلی نہیں ہے۔آسمان پر تارے ٹمٹما رہے ہیں۔افضل اور فیصل کسی سنجیدہ موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔)
فیصل۔اَفّو بھائی!آج آسمان پر کتنے سارے تارے چمک رہے ہیںنا۔
افضل۔(سوچتے ہوئے)ہوںںں۔انہیں تاروں کی وجہ سے روشنی بھی ہو رہی ہے۔
فیصل۔(آسمان میں غور سے کچھ تلاش کرتے ہوئے )اَفّو بھائی!یہ چاند کہاں گیا؟کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے۔
افضل۔(سنجیدگی سے )ارے بدھو! چاند ہر روز نظر نہیں آتا۔
فیصل۔اچھا!جیسے ہمارے اسکول کی چھٹی ہوتی ہے ایسے ہی چاند کو بھی چھٹی ملتی ہے؟
افضل۔ہاں شاید۔چاند کا تو ایسا ہی ہے۔اُس کی مرضی۔کبھی باریک نظر آتا ہے تو کبھی آدھا،کبھی پورا گول اور کبھی پورا غائب۔
فیصل۔جی اَفُو بھائی! آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔(کچھ سوچ کر) چاند پر زمین خریدنے والے اپنے پلان پرہمیں غور کرنا چاہئے۔
افضل۔(اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہے)کیوں؟ہم اپنا پلان نہیں بدلیں گے۔
فیصل۔(بڑے بھائی کو سمجھاتے ہوئے)دیکھئے اَفّو بھائی!چاند جب روز روز چھوٹا بڑا ہوتا رہے گا تو ہم اُس کی زمین پر کیسے رہ پائیں گے؟وہ کبھی اِدھر سے سُکڑتا ہے اور کبھی اُدھر سے۔ کبھی تو پوری طرح غائب بھی ہو جاتا ہے۔جب باریک ہوگا تب بھی لٹکے رہ سکتے ہیںلیکن جب یہ غائب ہو جائے گا تو ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہی نہیں ہوگی۔تب تو ہم گر جائیں گے نا۔ نہیں بھائی میں نہیں جانے والا چاند پر۔آپ اکیلے ہی جاکر رہئے۔
افضل۔میں وہاں اکیلانہیں جاؤںگا۔تم میرے چھوٹے بھائی ہو تمہیں میرے ساتھ چلنا ہی پڑے گا۔
فیصل۔اچھی زبردستی ہے۔میں نہیں آؤں گا۔(دونوں کے درمیان بحث ہونے لگتی ہے)
شیبا۔ارے تم دونوں پھر جھگڑا کرنے لگے۔تھوڑی دیر بھی ٹھیک سے نہیں رہ سکتے۔(دونوں کو ڈانٹتی ہے)
فیصل۔آپی! مجھے چاند پر زمین نہیں خریدنا۔نا ہی چاند پر جاکر رہنا ہے۔اَفّو بھائی !ضد کر رہے ہیں کہ مجھے اُن کے ساتھ چاند پر جانا پڑے گا۔مجھے نہیں جانا آپی۔(فیصل نے روتے ہوئے کہا)
شیبا۔(حیران ہوتی ہے)یہ چاند پر رہنے کا پلان کب بنا؟(خوب ہنستی ہے)
(ہنسی کی آواز کے ساتھ ہی اسٹیج پر روشنی مدھم ہونا شروع ہوتی ہے۔اور پردہ گر جاتا ہے۔)
دوسرا منظر
(پردہ اٹھتا ہے)
(شیبا اپنے دونوں بھائیوں کی منصوبہ بندی نانی پھپو کو بتارہی ہے۔وہ دھیان سے بات سُن رہی ہیں۔دونوں بھائی بھی نانی پھپو کے پاس کھڑے ہیں۔نانی پھپو مسکراتی ہیں ۔دونوں بچوں کو دعا دیتی ہیں۔)
نانی پھپو۔ شاباش !دونوں اپنے تخیل کی اُڑان کو کبھی نہ روکنا۔جب سوچو گے تبھی تو کچھ نیا کرنے کا تہیہ کروگے۔چاند پر زمین خریدنے کا پلان کبھی نہ بدلنا۔
فیصل۔(برا سا منہ بناتا ہے)کیا نانی پھپو!آپ بھی اَفّو بھائی کا ساتھ دے رہی ہیں۔پہلے میں بھی چاند پر جاکر رہنا چاہتا تھا۔لیکن آج اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ جب چاند غائب ہو جائے گا تب تو ہم گر جائیں گے۔آپ ہی بتائیے جب پیروں کے نیچے زمین نہیں ہوگی تو ہم گر جائیں گے نا۔
نانی پھپو۔نہیں بیٹا۔آپ نہیں گریں گے۔کیونکہ چاند کہیں جاتا ہی نہیں۔(آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔)وہ ہمیشہ وہاں اوپر موجود ہوتا ہے۔
فیصل۔تو پھر ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟مجھے دکھائیے کہاں ہے چاند۔(آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔)
نانی پھپو۔ (فیصل کو اپنی گود میں بٹھا کر سمجھاتی ہیں)چاندکے ہمیں نظر نہ آنے کے لیے سورج کی روشنی اور ہماری زمین ذمّہ دار ہے۔
افضل۔ جی نانی پھپو!ہمارے سر نے بھی بتایا تھا کہ چاند کے پاس اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ اگرمیں سوال پوچھتا تو سب میرا مذاق اُڑاتے۔آپ بتائیے نا کہ پھر چاند اتنا چمک دار کیسے نظر آتا ہے؟
شیبا۔ (جھجکتے ہوئے) نانی پھپو!پڑھا میں نے بھی ہے لیکن بات مجھے بھی سمجھ نہیں آئی ہے۔
نانی پھپو۔ اسے سمجھانے کے لئے مجھے مختلف سائز کی تین گیندوں اور ایک ٹارچ کی ضرورت ہوگی۔(تبھی بجلی آجاتی ہے۔)
(اسٹیج پر روشنی مدھم ہونا شروع ہوتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)
پردہ اٹھتا ہے۔دھیرے دھیرے روشنی بڑھتی ہے۔
تیسرا منظر
(بچوں کا ایک کمرہ ہے۔فٹ بال،باسکٹ بال اور کرکٹ بال اور ایک ٹارچ میز پر رکھی ہیں۔میز کی ایک جانب نانی پھپو اور دوسری جانب تینوں بچے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔نانی پھپو نے سب سے پہلے فٹ بال اور کچھ فاصلے پر باسکٹ بال اور کچھ دوری پر ایک ہی لائن میں کرکٹ بال کو رکھ دیا ہے۔بچے تجسس سے دیکھ رہے ہیں۔)
نانی پھپو۔یہ جو فٹ بال ہے یہ ہمارا سورج ہے۔یہ باسکٹ بال ہماری زمین اور یہ فیصل کی کرکٹ بال ہمارا چاند ہے۔
فیصل۔نانی پھپو! میرے پاس تین فٹبال ہیں۔یہ الگ الگ گیند لینے کی ضرورت نہیں ہے۔کیا میں دو فٹ بال لے کر آؤں؟(اپنی جگہ سے اُٹھتا ہے۔)
شیبا۔ بیٹھ جاؤ ہیرو! سورج،زمین اور چاند، تینوں کا سائز الگ ہے۔کوئی چھوٹا ہے تو کوئی بڑا۔
فیصل۔اوہ اچھا!مجھے معلوم نہیں تھا نا!(اپنا سر کھجاتے ہوئے کہتا ہے)
نانی پھپو۔یہ جو چاند ہے یہ ہماری زمین کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔بالکل ایسے(کرکٹ بال کو باسکٹ بال کے گرد گھما کر دکھاتی ہیں)
شیبا۔نانی پھپھو !میری ٹیچر نے بتایا تھا کہ چاند کا مدار (orbit) تقریباً بیضوی ( (ellipticalہے۔
نانی پھپو۔جی بیٹا!آپ نے درست کہا۔اِس کے ہلکے سے جھکاؤ کے سبب ہی ہمیں الگ الگ سائز کا چاند نظر آتا ہے۔جسے دیکھ کرمیرا بچہ گھبرا گیااور اُسے اپنے پروگرام پر نظرِثانی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
افضل۔نانی پھپو !کیا آپ میرے ساتھ چاند پر چلیں گی؟میں ایسے ڈرپوک کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گا۔
نانی پھپو۔(مسکراتی ہیں) میں ضرور ساتھ چلوں گی۔اور دیکھنا آج چاند کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بعد فیصل کا ارادہ بھی پکا ہوجائے گا۔اور وہ خود تمہارے ساتھ چاند پر جانے کی پلاننگ کرے گا۔
فیصل۔نانی پھپو!میں ڈرپوک نہیں ہوں۔امی ہی تو کہتی ہیں کہ ہر کام سے پہلے اچھی طرح غور کرو۔
نانی پھپو۔آپ کی امی بالکل صحیح کہتی ہیں۔اچھا چلئے میں گم شدہ چاند کے معمول کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔تاکہ چاند کی موجودگی کا میرے فیصل کو یقین آجائے۔
افضل۔جی نانی پھپو!
نانی پھپو۔یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ زمین پر روشنی سورج اور چاند کی وجہ سے ہوتی ہے۔دن میں سورج اور رات میں چاند۔زمین کی طرح چاند بھی کسی قسم کی روشنی پیدا نہیں کر سکتا۔سورج کی روشنی چاند پر پڑتی ہے اور پھر چاند سے ٹکرا کر منعکس (reflection)ہوتی ہے۔جس سے چاند ہمیں منور نظر آتا ہے۔اب یہ دیکھئے۔(تینوں گیندوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں)زمین کے گرد سفر کے دوران جب چاند ،سورج کے عین سامنے آجاتا ہے تو ہم اسے بالکل نہیں دیکھ سکتے۔یعنی آپ کا یہ خوبصورت سا چاند۔سورج اور زمین کے بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔جب روشنی منعکس ہی نہیں ہوگی تو ہماری آنکھیں چاند دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔چاند کی اِس حالت کو نیو مون(new moon) کہتے ہیں۔(نانی پھپو نے تینوں گیندوں کو ایک لائن میں لگایا اور ٹارچ کی روشنی سے بات کی مزید وضاحت کی)
فیصل۔اِس کا مطلب چاند وہاں آسمان میں ہمیشہ ہے لیکن سورج اور زمین کے درمیان پھنس کر اتنا پیارا چاند غائب ہو جاتا ہے۔تھینک گاڈ! میں تو پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہا تھا۔اب مجھے اپنی ہی سوچ پر ہنسی آرہی ہے۔افّو بھائی!میں چاند پر آپ کے ساتھ چلوں گا۔
نانی پھپو۔بیٹا!کسی بھی بات کو بنا سوچے سمجھے قبول کرنا غلط ہوتا ہے۔لیکن غوروخوص کرنا اچھی عادت ہے۔اپنا مزاج بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
شیبا۔نانی پھپو!یہ تو سمجھ آگیا کہ چاند کہیں نہیں جاتا۔لیکن یہ چھوٹا ۔بڑا کیسے ہوتا ہے؟
نانی پھپو۔چاند اپنے مدار میں رہ کر زمین کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے اور جس وقت اُس کا جتنا حصّہ سورج سے منور ہوتا ہے ہم صرف اُتنا ہی چاند دیکھ پاتے ہیں ۔چاند نیو مون سے یعنی غائب سے ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے تو پہلے بہت باریک سا نظر آتا ہے۔کیا شیبا آپ کو معلوم ہے کہ جب چاند کا آدھے سے کم حصّہ روشن ہو تو اُسے کیا کہتے ہیں؟
شیبا۔ہلال(crescent)۔مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب چاند کا آدھے سے زیادہ حصّہ روشن ہوتا ہے تو اُسے نیم بریں چاند(gibbous moon)کہتے ہیں۔
افضل۔ارے واہ!آپی آپ کو تو بہت کچھ معلوم ہے۔(خوش ہوتا ہے)
نانی پھپھو۔جب چاند بڑھ رہا ہوتا ہے تو اُسے متزائد قمر(waxing moon)کہتے ہیں۔اور جب وہ گھٹ رہا ہوتا ہے تو اُسے محاق قمر (waning moon)کہتے ہیں۔
افضل۔نانی پھپو! یہ پورا چاند ہمیں کیسے نظر آتا ہے؟کتنا اچھا ہوتا کہ ہم ہر رات پورا چاند دیکھتے۔(مدہوشی کے عالم میں کہتا ہے)
نانی پھپو۔نہیں بیٹا ہر روز چاند ،سورج اور زمین کی پوزیشن،جگہ مقام ایک نہیں رہتا۔جگہ بدلتی ہے تو سورج کی روشنی کا زاویہ (angle) بدلتا ہے تو پھر چاند کا سائز بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ چاند گھومتا رہتا ہے اور مختلف شکلوں میں ہمیں مسحور کرتا رہتاہے۔ارے ہاں! پورے چاند(full moon)کے بارے میں پوچھا تھا ۔(تینوں گیندوں کی جگہ تبدیل کرتی ہیںپہلے سورج پھر زمین اور پھر چاند)جب گردش کرتے ہوئے چاند زمین کے پیچھے کی طرف ،سورج کے بالکل سامنے اور زمین دونوں کے درمیان،تب چاند ۔۔سورج کی روشنی میں نہایا ہوتا ہے اور ہماری زمین بھی پورے چاند کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہے ۔ٹھنڈی ٹھنڈی ،نرم روشنی کتنا سکون دیتی ہے ۔ہے نا۔
افضل۔جی نانی پھپو !میں ہر مہینے فل مون کو چھت پر آکر دیکھتا ہوں۔اور چاند پر جانے کے اپنے پلان میں اور مضبوطی محسوس کرتا ہوں۔نانی پھپو! ابھی تو چاند پر جانا آسان نہیں ہے۔لیکن جب تک میں بڑا ہوؤں گا،تب تک سائنس اتنی ترقی کر لے گا نا؟(اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے)
فیصل۔افّو بھائی!آپ پریشان نہ ہوں۔اب میں چاند پر جانے کے راستے ہی تلاش کرتا رہوں گا۔ہم دونوں اپنی نانی پھپو کو ساتھ لے کر چاند پر ضرور جائیں گے۔(پورے اعتماد سے کہتا ہے)
شیبا۔مجھے بھی لے کر چلنا ۔مجھے بھی جانا ہے۔
افضل۔نہیں آپی! آپ تو ہمیں وہاں پر بھی ڈانٹتی رہیں گی۔میں آپ کو نہیں لے جاؤں گا۔
فیصل۔اگر آپی کو نہیں لے جاؤ گے تو پھر اکیلے ہی چلے جانا۔میں تو آپی کے بنا نہیں آؤں گا۔(آپی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہتا ہے)
افضل۔اچھا بابا ہم سب چلیں گے۔امّی ،ابّو،نانی پھپو،آپی ،تم اور میں۔اب خوش!
(سب ہنستے ہیں ۔بچے خوشی سے اچھلنے لگتے ہیں)
(دھیرے دھیرے اسٹیج پر روشنی کم ہوتی جاتی ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔)
***