You are currently viewing انشائچے

انشائچے

ایس معشوق احمد

انشائچے

۱] ڈیڑھ سو کا قرض[

     قرضہ چاہیے قلیل ہی  ہو آدمی کو ذلیل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ایک گل ناز کے ہم مقروض ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ خوبصورت لڑکیوں کا دل لینا چاہیے نہ کہ ان سے قرضہ لیا جائے۔آدمی کبھی کبھا ر مجبورا  مقروض ہوہی جاتا ہے۔ہم بھی ایک خوبصورت نازنین کے قرضدار ایسے ہوئے جیسے کوئی کسی کی ایک جھلک دیکھ کر فدا ہوتا ہے اچانک اور بغیر کوئی لمحہ گنوائے۔ہوا  یوں کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ہوئی کہ ایک سرکاری رسالہ گھر آنے والا ہے۔(واضح رہے کہ معتبر ذریعہ وہ نازنین خود ہے اور اسی نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی)۔کتاب گھر آئے تو ہم تحفہ سمجھ کر  رکھ لیتے ہیں اگرچہ اس پر بھی واضح حروف میں قیمت درج ہوتی ہے لیکن کوئی سرکاری رسالہ گھر آئے تو تشویش ہوتی ہے اور ہمیں ایک عدد  ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو ہمیں مقروض ہونے کا موقع دے۔صاحبو! اس دفعہ رسالہ گھر آنے کی خبر تو آئی لیکن ہمیں  کسی شخص کی ضرورت نہ  پڑی بلکہ ایک حسینہ گل اندام کا پیغام آیا کہ ہم نے آپ کے نام کا رسالہ جاری کردیا ہے۔رسید ہم تک پہنچائی گئی جس پر دو زبانوں میں بڑے حروف میں ڈیڑھ سو روپیہ لکھا تھا۔ہم خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی بے چینی بھی محسوس ہوئی۔خوشی اس بات کی تھی کہ نیا رسالہ گھر آئے گا اور بے چین اس لیے تھے کہ ہمارا سر فقط ڈیڑھ سو کے قرضے سے جھک سا جائے گا۔ایک ڈیڑھ لاکھ ہوتا تو ہم اسے ہضم کرکے  خوشی خوشی اپنے نام کے ساتھ بے ایمان لگانے کو تیار تھے لیکن فقط ڈیڑھ سو کے لیے ہم ہرگز ایماندار سے بے ایمان نہیں ہو سکتے۔

           صاحبو! میں معشوق ہوں عاشق مزاج اور جی جان سے فدا ہونے والا۔کوئی حسینہ بات کرنا تو درکنار  پیار سے میری طرف فقط دیکھ لے تو ___

                                    بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا

اور سیہ چشمگی قیامت کے بدلے ہم قیامت کے ہی منتظر ہوتے ہیں لیکن اس کا کیا کیجیے کہ کچھ نازک بدن ، من موہن ، چنچل سندریاں  مجھ سے پیار کرنے  کے بجائے مجھے قرضدار کرتی ہیں وہ بھی فقط ڈیڑھ سو  سے۔ اس نازنین کو شاید خبر نہیں کہ میں کتنا ایماندار اور بااصول ہوں۔ یہ قصہ ان سے پوچھ لیں جہنوں نے مجھے کبھی قرضہ دیا اور میں نے پھر کبھی ان کی شکل تک نہ دیکھی۔اگر خدا نخواستہ کبھی  حادثاتی طور ملاقات ہوگئی تو میں نے انہیں پہنچاننے سے صاف انکار کیا۔اس شوق حسینہ کا ڈیڑھ سو شدید طوفان میں پھنسے جہاز کی طرح ڈوبنے ہی والا ہے لیکن اسے چاہیے کہ امید کا دامن نہ چھوڑے کہ اس پر دنیا قائم ہے۔ ڈیڑھ سو کا قرضہ لے کر ضمیر نے جو دھتکارا وہ اپنی جگہ لیکن مرزا نے ہماری جو بے عزتی کی وہ الگ۔ کہنے لگے کہ لوگ لاکھوں کروڑوں کھا کر ایماندار رہتے ہیں اور تم ڈیڑھ سو کے لیے بے ایمان ہوگئے۔کھانا ہی تھا تو کروڑ نہ سہی لاکھوں ہی کھاتے۔صاحبو! ہم ڈیڑھ سو کا قرضہ لے کر شرمندہ ہیں اور کل سے اس  گل ناز کا پتہ ڈھونڈنے  میں لگے ہوئے ہیں  تاکہ اس کا ڈیڑھ سو روپیہ اسے واپس کر سکے۔اگر آپ اس کا پتہ جانتے ہیں تو مجھ سے ضرور رابطہ کیجیے تاکہ میں  مقروض سے با اختیار آدمی  بن کر آپ کو دعائیں دوں۔

                                            (2) لکھتے کیوں ہو؟

    ایک صاحب ہمارا نام سن کر ہمارا انٹرویو لینے آئے۔بعض لوگ یہ سن کر حسد کی آگ میں جل بھن جائیں گے کہ یہ معمولی شکل و صورت والا انسان جس کو نہ بات کرنے کا سلیقہ اور نہ لکھنے کا طریقہ یہ کب سے اتنا مشہور اور اس قابل ہوگیا کہ لوگ اس کا انٹرویو لینے آتے ہیں۔انہیں حسد کی آگ میں جلنے دیجیے آپ قصہ سن لیجیے ویسے بھی مرزا کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ سے حسد کرنے لگ جائیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ وہ چمکنے والے سورج بن گئے ہیں جس کی چمک لوگوں کو برداشت نہیں ہوتی۔

       لمبے سفر پر جانا ہو تو لوگ تیاری کرکے نکلتے ہیں اور ضروری سامان وغیرہ بیگ میں بھر لیتے ہیں ویسے ہی انٹرویو لینے والا بھی تیاری کرکے آیا تھا کیمرے کے ساتھ ساتھ مائیک بھی لایا تھا۔جب سب تیار تھا تو اس نے پہلا سوال کیا کہ آپ کیوں لکھتے ہیں؟

  صاحبو ! میں نے سوچا تھا کہ میرا نام پوچھے گا اس کے بعد میں اپنے  کارنامے دہراؤں گا جن کو سن کر وہ متاثر ہوجائے گا لیکن یہ کیا الٹا تیر اس نے مارا۔

    خدا را  آپ ہی بتائیے کہ اس سوال کا میں کیا جواب دیتا کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔اگر وہ یہ سوال کرتے کہ میں کیا لکھتا ہوں تو یقین کیجیے میں اس کا جواب فورا دے دیتا کہ میں ہر اس موضوع پر لکھتا ہوں جو میرا نہیں اور نیت یہ ہوتی ہے کہ قاری کا ہاتھ میرے گریبان تک ضرور پہنچ جائے ، ہم پر چند جان لیوا حملے ضرور ہوں ، ہجوم ہمارے خلاف نعرہ بازی کرے اور ان سے ہوسکے تو  ہمارے کپڑے ضرور پھاڑے، ہمیں گالیاں دیں اور ہمارے ساتھ ہر وہ ناشائستہ حرکت کی جائے جو سچ بولنے والوں کے ساتھ آجکل کی جاتی ہے۔نیت اتنی صاف ہو تو بھلا آپ ہی سوچ لیجیے ہم مشہور اور اس قابل کیوں نہیں کہ ہمارا انٹرویو لیا جائے۔

         صاحبو ! ہم لکھتے کیوں ہیں اس سوال کا جواب ہم نہ دے پائے تو انٹرویو لینے والا مایوس ہوا۔وہ رونے ہی والا تھا کہ ہم نے اسے رومال پیش کی اور دلاسہ دیا تاکہ وہ نہ روئے۔اس کو تو ہم یہ نہ بتا سکے اور نہ ہی سمجھا سکے کہ ہم کیوں لکھتے ہیں لیکن آپ کو اس راز سے ضرور واقف کراتے ہیں کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔صاحبو! ہم آپ کے لیے اور فقط آپ باادب قارئین کے لیے لکھتے ہیں جو پڑھتے ہیں اور  غور و فکر کرتے ہیں۔لیکن جب آپ ہمارا لکھا نہیں پڑھتے تو ہم سنجیدہ ہوجاتے ہیں  اور بعض دفعہ رنجیدہ ہوکر خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ میاں لکھتے کیوں ہو؟

(نوٹ :- ڈیڑھ سو کا قرض دبستان   کشمیر کا پہلا اردو  انشائچہ ہے اور  غالبا یہ اردو کا بھی  پہلا انشائچہ ہے۔ ہوسکتا ہے کل مجھ سے سوال کیا جائے  کہ جناب یہ انشائچہ کیا ہے۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انشائچہ انشائیہ ہے جس کی بنیادی خصوصیت اختصار ہے۔جس طرح افسانے کے بطن سے افسانچے نے جنم لیا اسی طرح انشائیہ کی کوکھ سے انشائچہ وجود میں آیا۔۔۔[ ا۔ م۔احمد] ).

***

Leave a Reply