مہرین قادرحسین،ماریشس
ماریشس کی نصابی کتابوں میں شامل نظمیں : ایک جائزہ
اردو زبان کی پیدائش بلاشبہ ہندوستان میں ہوئی لیکن اس کی نشو و نما آج کل دنیا کے گوشے گوشے میں ہو رہی ہے۔ ہندوستان سے نکل کرآج اردو دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور پڑھی جاتی ہے۔ اردو کی کئی نئی بستیاں آباد ہو چکی ہیں جہاں اردو زبان کے ساتھ ساتھ اردو ادب بھی روز بروز ترقی کے منازل طے کررہا ہے۔ ماریشس بھی ان بستیوں میں سے ایک ہے مگر اردو سے ماریشس کا تعلق کم و بیش پچاس برسوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔اس عرصے میں ماریشس نے اردو کی ترویج میں جو کردار ادا کیا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ یہاں کے ادیبوں و شاعروں نے تقریباً تمام اصنافِ ادب میں اپنی موجودگی درج کرائی ہےاور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کئی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماریشس میں اردو کی سمت و رفتار کیا ہے۔ اس مقالہ میں ناچیز کی یہ کوشش رہے گی کہ ماریشس میں اسکول کی نصابی کتابوں کا جائزہ پیش کرے ۔
میرے پیشِ نظر درجہ ششم کی کتاب ہےجس کا نام ’اردو‘ہے۔ یہ کتاب ماریشس کی نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ طلبا اظہارِ ذات کرتے ہوئے آزادی محسوس کریں گویا انہیں اظہارِ خیال کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔نصاب کو تیار کرتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظِ نظر رکھا گیا کہ طلبا کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہویعنی چھٹی جماعت کے ذخیرۂ الفاظ میں ساتویں جماعت میں آنے تک اضافہ ہو۔اور آہستہ آہستہ ان کے اندر یہ شعور بھی پیدا کیا جائے کہ وہ اپنے مافی الضمیرکو بھی بلاجھجک پیش کرسکیں۔ان کے لب و لہجہ اور تلفظ و ادائیگی کی درستی کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
چھٹی جماعت کی نصابی کتاب میں دس اسباق ہیں۔ظاہر ہے ان اسباق میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہو۔جس کے مطالعہ سے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ بھی ہو اور طلبا کے اندر ترسیل کی صلاحیت مستحکم ہوجائے۔چونکہ راقم نے اپنے مقالہ میں یہ کوشش کی ہے کہ نظمیہ شاعری کا جائزہ الگ پیش کرے اور نثری تحریروں کا جائزہ الگ سے ہو اس لئے راقم یہاں بھی پہلے شاعری کا جائزہ پیش کرے گی اور دوسرے حصے میں نثر کا۔
ساتویں جماعت کی نصابی کتاب کے نظمیہ حصے میں سب سے پہلے الطاف حسین حالؔی کی حمد ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حمد میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و توصیف اور ان کی ثنا خوانی کی جاتی ہے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کسی بھی کام کا آغاز اللہ کے نام سے کیا جائے تو اس میں خیر و برکت ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ایسے بہت سے شعرا مل جائیں گے جنہوں نے حمد و نعت گوئی میں کمال حاصل کیا ہے۔
درجہ ۷ کی نصابی کتاب میں ایک نظم’’میرا دیس ہے سب سے نیارا‘‘ شامل ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام درج نہیں ہے اس لئے شاعر کے بارے میں قیاس آرائی سے خود کو بچاتے ہوئے اس نظم پر گفتگو مرکوز رکھنا چاہتی ہوں۔دراصل یہ نظم ایک قومی ترانہ ہے جس میں ماریشس کی تعریف اور خوبیوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ نظم کا ایک حصہ ملاحظہ کیجئے :
میرا دیس ہے سب سے نیارا
میں ماریشس کا راج دلارا
اس نے میری شان بڑھائی
میں نے اس پر تن من وارا
مذکورہ بالا نظم کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ محمد شفیع الدین نیر کی نظم نگاری سے شاعر متاثر ہوا ہوگا ۔ نظم کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
سب سے پیارا دیس ہمارا
سب سے نیارا دیس ہمارا
آنکھ کا تارا دیس ہمارا
دل کا سہارا دیس ہمارا
قومی گیت یا ترانے کی سب سے بڑی اہمیت انسان کے دل میں اپنے ملک ، اپنی تہذیب سے لگاؤ اور دلچسپی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایسی نظموں کو پڑھتے ہوئے ہمارے اندر ملک اور عوام کے تئیں محبت بیدار ہوتی ہے۔ نظم‘‘میرا دیس ہے سب سے نیارا’’مختصر نظم ضرور ہے مگر اس میں ماریشس کی تاریخی جھلک مل جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے ماریشس نہیں دیکھا ہے وہ اس نطم کو پڑھتے ہوئے اپنے ذہن میں ایک نقشہ بنا سکتے ہیں۔مگر ایک چیز کی کمی جو مجھے نظر آتی ہے وہ تفصیل ہے۔ اس نظم میں کہیں بھی کوئی تفصیل نہیں ہے جیسے ندی کا ذکر تو ہے مگر کسی ندی کا نام نہیں، موسم کا تذکرہ تو ہے مگر یہاں بھی سرسری گفتگو ۔بچوں کے لیے یہ نظم اچھی اور آسان ہے اور میرا خیال ہے بچے اسے بآسانی سمجھ بھی سکتے ہیں مگر شاعر نے ذرا تفصیل سے کام لیا ہوتا تو شاید اس نظم کی اہمیت اور مقصد میں اضافہ ہوجاتا۔
ساتویں جماعت میں ایک نعت بھی شاملِ نصاب ہے، جس کا مقصد اللہ کے رسول ﷺ کی عظمت کو سمجھنا ہے ۔مگر نظمیہ حصے میں شامل ایک نظم ہے جو یقیناً اہم ہے۔اس نظم کا عنوان ’’ وقت کی دعا‘‘ہے۔
وہ کل جو کل بیت گیا
آج نہ اس کو یاد کرو
آنے والے کل کے لئے
نیا جہاں آباد کرو
آنے والا کل جس میں
بھائی چارہ ہو الفت ہو
آنے والا کل جس میں
امن سکوں ہو راحت ہو
یہ حقیقت ہے کہ ہماری فکر گزرے ہوئے کل یعنی ماضی پر محیط ہوتی ہے مگر یہ پوری طرح منفی نہیں۔ ماضی کو اگر بہتر طریقے سے سمجھا جائے تو ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں۔ یعنی ماضی میں کئے گئے کام کا انجام ہمارے سامنے ہوتا ہے اس لیے ہم اور حال کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے اس سے سبق لے سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ ماضی کے روشن پہلو میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے حال اور مستقبل کی فکر نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ماضی کا روشن باب ہی ان کی مصیبت کی وجہ بنتا ہے۔ اس نظم میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمیں ماضی کی یادوں میں کھو کر اپنا مستقبل خراب نہیں کرنا چاہیے۔
درجہ ہشتم کی کتاب میں علامہ اقبال کی نظم‘‘ پرندے کی فریاد ’’ ہے۔علامہ اقبال کی یہ نظم ادب اطفال کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس نظم میں ایسے پرندوں کی فریاد دکھائی گئی ہے جنہیں قید کرلیا گیا ہو۔ نظم کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
آزادی ایک نعمت ہے اور اس نعمت کا ہمیں احترام بھی کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے اس نظم کے ذریعے آزادی کی اہمیت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔وہ پرندہ اپنے ماضی کو یاد کرکے کہتا ہے کہ جنگل میں نہ جانے اس کے دوست کیسے ہوں گے۔ جنگل کی خوبصورتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کتنی پیار پیاری شکلیں وہاں تھیں جہاں میرا آشیانہ تھا مگر اس قفس میں اب کوئی صدا نہیں آتی ہے۔
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں
پرندہ اپنی پریشانیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب سے چمن چھٹا ہے دل نہ صرف اداس ہے بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے دل غم کو کھا رہا ہے۔ اور آخر میں اس نظم کے اختتام پر وہ پرندہ اپنی آزادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ مجھے قید کرنے والے اب مجھے آزاد کردے۔
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے!
اس نظم کے دو رخ ہوسکتے ہیں ۔ اول تو وہی ہے جس کی جانب فوراً نگاہ جاتی ہے یعنی ایک پرندہ قید میں ہے اور وہ اپنی آزادی کے دنوں اور جنگل کے ساتھیوں کو یاد کر رہا ہے۔ مگر اس نظم کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ نظم جب لکھی گئی تھی اس وقت ہندوستان غلام تھا اور شاید اقبال نے پرندےکو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کی زندگی اور ان کی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔یہی سبب ہے کہ نظم کے اختتام پر متکلم اپنی آزادی کی خواہش کو بیان کرتا ہے۔
علامہ اقبال کی نظم ‘‘ پرندے کی فریاد ’’ کو نصاب میں شامل کرنے کا مقصد طلبا کے اندر نظم کی قرأت اور تفہیم کی صلاحیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اشعار میں استعمال ہوئے مترادفات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس نظم کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ آزادی کی اہمیت کی سمجھ بھی ان کے اندر پیدا ہوسکتی ہے۔
آٹھویں جماعت کے نصاب میں ایک نظم ‘‘پانی’’ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ محمد کاشف غلام ربانی کی نظم ہے۔ اس نظم میں پانی کی اہمیت کو پیش کیا گیا ہے۔
قیمتی یہ پانی یعنی آب ہے
اس سے ہی دنیا کی آب و تاب ہے
ہر کوئی انسان ہو یا جانور
جان دیتا ہے اس کے نام پر
پینے کے بھی کام میں آتا ہے یہ
اور دریا میں بہا جاتا ہے یہ
پانی کی اہمیت کیا ہے اس سے ہم سبھی واقف ہیں۔ گرچہ دنیا کا تین حصہ پانی سے بھرا ہے مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ پینے کے پانی کی بہت کمی ہے۔ اور ایسا کہا جاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی وجہ یہ پانی بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ہمیں نہ صرف پانی کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا بلکہ پانی کو کیسے بچائیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا۔مذکورہ نظم میں اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ پانی ہمارے لیے کتنا ضروری ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پانی کے استعمال کی جانب بھی اس نظم میں اشارہ کیا ہے۔ اس نظم کے مطالعے سے طلبا کے اندر قدرتی وسائل کی اہمیت اور ان کے تحفظ کی جانب توجہ جائے گی۔
نویں جماعت کے نصابی کتاب میں عامر امتیاز عامر کی ایک حمد شامل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماریشس کی ہر نصابی کتاب کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے۔ حمد کے چند مصرعے دیکھیے:
بھٹکے ہوؤں کو سیدھا رستہ دکھانے والا ہے تو
کرم سے اپنے گناہوں سے بچانے والا ہے تو
فقط تجھ پہ ہی بھروسہ ہے مولا
ہر دکھ درد میں کام آنے والا ہے تو
ہر ایک چیز تیرے ہی ہے گن گاتی
کائنات کو نعمتوں سے سجانے والا ہے تو
جو بھٹک گئے ہدایت سے مولا
اُن بد نصیبوں کو موڑ لانے والا ہے تو
کیا مجال کہ کچھ لکھے عامر
کیا ہے تو؟ خود ہی بتانے والا ہے تو
اس حمد میں اللہ کی وحدانیت اور ہدایت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، متکلم اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے خدا تو ہی جو مجھے گناہوں سے بچا سکتا ہے۔ یہی نہیں متکلم خدا کے احسانات کو بھی یاد کرتا ہے کہ اے خدا تجھ پر ہی بھروسہ ہے اور تو ہی ہمیں ہر تکلیف سے نجات دلا سکتا ہے۔ خدا کی وحدانیت کا اعتراف چرند و پرند سب کے یہاں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ متکلم یہ دعا بھی کرتا ہے کہ جو لوگ راہ راست سے بھٹک گئے ہیں انہیں ہدایت کی روشنی دکھا ۔
این سی ای آر ٹی اور ماریشس کی کتابوں کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو ایک چیز واضح طور پر سمجھ آتی ہے، این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں نظم و نثر دونوں میں توازن رکھا گیا ہے، یہی نہیں شاعری کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ نثر کی مختلف اقسام کو شامل کیا گیا ہے مگر ماریشس کی کتابوںمیں شاعری کا حصہ نا کہ برابر ہے اور نثری حصے میں بھی افسانوی ادب کو نظر انداز کیا گیا ہے۔جو مضامین شامل ہیں ان میں اصلاحی پہلو نمایاں ہیں۔ شاعری کے حصے میں بھی حمد و نعت کے علاوہ ایک دو نظمیں شامل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ این سی ای آر ٹی کے طرز پر ماریشس کے نصابی کتابوں میں بھی نظم و نثر میں بیلنس ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی کچھ بنیادی کہانیوں اور دوسرے اصناف کو بھی نصاب میں شامل کرنا چاہیے یہی نہیں نظیر اکبر آبادی، حالی، اقبال،فیض جوش جیسے اردو کے اہم شعرا کی نظموں کو بھی شامل نصاب کرنا چاہیے۔یہی نہیں غزل کے حصے میں بھی کچھ اضافہ کرنا چاہیے اور میر، غالب، مومن ، اقبال وغیرہ کے کلام کو بھی شامل نصاب کیا جائے تو طلبا کو زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔
***