عزہ معین
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی۔
علامہ اقبال: خفتگان خاک کے روبہ رو
علامہ اقبال جیسی عالمانہ شخصیت جو ناقدین کے تصور سے بھی اعلی پائے کی فکر رکھنے والے شاعر ہیں کی شاعری پر میرے جیسی کم علم طالب علم کیا تحریر کے ذریعے انصاف کر سکتی ہے۔ نہیں بالکل نہیں۔ لیکن انھوں نے ہی کہا ہے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
اس لئے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہوں۔ اور پر امید ہوں کہ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ
بہت کام ماہرین کرگئے بہت ابھی ہورہا ہے میں اس تمام تنقید و تحقیق کو پڑھ کر سمجھنے والے مرحلے سے بھی بہت دور ہوں اس کئے لغزشوں غلطیوں کو نظر انداز نہیں کیجئے گا بلکہ مجھے نشاندہی کا انتظار رہے گا۔ کیوں کہ سیکھنے کے عمل میں اجاگر کرنا نفع بخش ہوتا ہے علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز دور طالب علمی میں ہی ہو گیا تھا ۔ سیالکوٹ میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوا کرتا تھا جس کے لئے اقبال بھی غزل لکھا کرتے تھے ۔ لاہور میں تعلیم کی غرض سے قیام پذیر ہوئے تو مرزا ارشد گورگانی سے کلام میں اصلاح لینے لگے اور مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت ہونے لگی ۔ داغ دہلوی سے بھی اسی زمانے میں تلمذ اختیار کیا ۔ اقبال کا ابتدائی زمانہء شاعری 1901 ء سے 1905 تک مانا جاتا ہے ۔ علامہ اقبال نے اسلام کے رہنما اصول سکھانے کے لئے اپنی شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا ۔ ہم سبھی واقف ہیں کہ سب سے بڑی حقیقت موت ہے اور موت کے بعد کی زندگی کا یقین اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ایک ہے۔ ایک اللہ پر توکل رکھتے ہوئے موت اور موت کے بعد دوسرے جہاں پر کامل یقین ہونا مسلمانوں کو اس طرف راغب کرتا ہے کہ وہ مثالی زندگی گزاریں ۔ موت بیشک برحق ہے ۔ موت کے بعد اسی کو دوسرے جہاں میں سرخرو ہونے کا موقع ملے گا جو اس جہاں میں اچھے کام کرکے جائے گا ۔ ان خیالات کو موضوع گفتگو بنانے کے لئے انھوں نے گہری فکر کی, اس جہاں کے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ان کے ابتدائی کلام میں ایک نظم ہے “خفتگان خاک سے استفسار” اس نظم میں تخیل کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے ۔ میں نے اپنے مقالے کا موضوع اس لئے اس نظم کو بنایا کیوں کہ اس نظم میں بہت فکرمندی ہے ویسے تو ان کی سب نظموں میں غور و فکر کے دروازے کھلتے ہیں لیکن اس میں دوسرے جہاں اور اس میں ہونے والی گردش پر بات کی گئی ہے ۔ علامہ اقبال نے اس میں موت کے بعد پیش آنے والے واقعات کو سوالات کے ذریعے شاعری میں پرویا ہے ۔ نظم اس مصرع سے شروع ہوتی ہے ۔
مہر روشن چھپ گیا اٹھی نقاب روئے شام
اس نظم میں ایک شام شاعر رات ہونے کا مطلب کسی کے غم منانے کے لئے کالا لباس زیب تن کرنے سے لیتا ہے وہ رات سے پوچھتا ہے کہ یہ ماتم کی تیاری کس کے غم میں شریک ہونے کے لئے ہے ۔ یا پھر خورشید کے چھپ جانے کا ماتم ہے ۔ ایک طرف اقبال ماتم کی بات کرتے ہیں تو دوسرے شعر میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خاموشی اور سنگینی میں آسمان پر دیکھئے تو لگتا ہے کہ آسمان ہمیں بولنے کی طرف مائل کر رہا ہے ۔ اور رات کی تاریکی بھی اس نظر کو تلاش کر رہی ہے جو رات میں بیدار ہے ۔ ہر طرف خاموشی کا راج ہے دریا پر بھی سکوت طاری ہے ہاں مگر کہیں دور سے قافلے کی گھنٹیاں سنائی دے رہی ہے ۔ دل کا حال بھی یہ ہے محبت کے لئے بے قرار ہے اور ساری دُنیاوی باتوں سے نفرت ہوگئی ہے اور مجھے سکون کے لئے ہنگامے سے دور کھینچ لایا ہے ۔ میں قبرستان میں پہنچ گیا ہوں ۔ یہاں دفن تنہائی اختیار کئے ہوئے لوگوں کی طرح ناامید اداس ہوں ۔ اس بستی کے لوگوں پر دو آنسو بہانے سے اے دل ۔ اس بستی کے لوگوں سے کچھ سوالات پوچھ لینے دے ۔ وہ اس قبرستان میں دفن ہوئے لوگوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ مرنے کے وہ کہاں رہ رہے ہیں وہ کیسا دیش ہے جہاں سب جانے والے رہ رہے ہیں ؟ اقبال پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بھی اس دنیا کی طرح نت نئے حیران کن دن رات کا کارخانہ ہے کیا وہاں بھی ہر پل نئے تماشے ہوتے ہیں؟ اے لوگوں تم جہاں رہتے ہو کیا وہاں بھی اس قدر غم ہیں مجبوری اور بے بسی کا دور دورہ وہاں بھی ایسا ہی ہے کیا ؟ وہاں بھی شمع روشن ہوتی ہے خود کو جلاتی ہے تو کوئی پروانہ جل مرتا ہے کیا؟ اس چمن میں بھی گل و بلبل کے فسانے ہیں کیا ؟ ہماری دنیا میں شعر کی گرمی سے دل پگھل جاتے ہیں ایک مصرع بھی دل نکل جانے کو کافی ہوتا ہے ۔ کیا تمھارے جہاں میں شعر کی گرمی تڑپاتی ہے ؟آگے ایک شعر کہتے ہیں:
رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں اس گلستان میں بھی کیا ایسے نکیلے خار ہیں؟
اے خفتگان خاک اس جہاں کے متعلق کچھ بتاؤ کیا وہاں بھی کانٹے دار رشتہ داریاں انسان کے چاروں اطراف پھیلی ہوتی ہیں ؟ اقبال مزید پوچھتے ہیں کہ ہمارے جہاں میں ایک معیشت کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور سو پریشانیاں سر پہ کھڑی ہوتی ہیں کیا دوسرے جہاں میں روح اس فکر سے آزاد ہے ؟ اس دنیا میں تکنالوجیائی پسماندگی کے سبب پہلے کسان کھیتی بارش کے ساتھ کیا کرتا تھا اس کا سب سے بڑا غم بارشوں کا نہ ہونا تھا یا پھر بجلیاں گر جانے سے فصلوں کا تباہ ہو جانا تو اقبال پوچھتے ہیں کیا اس دوسرے جہاں میں بجلی دہقان اور خرمن بھی ہیں؟ جیسے اس دنیا میں قافلے لٹ جاتے ہیں کیا اس جگہ بھی قافلے والے اور رہزن ہیں ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اس جہاں میں بھی گھر بنانے کے لئے تنکا تنکا اکٹھا کرنا پڑتا ہے ۔ مکان بنانے کے واسطے کیا مٹی اور گاڑے کی وہاں بھی پروا کرنی پڑتی ہے ۔ اقبال نے اپنی قوم کو جگانے کے لئے بہت کاوش کی ہے ۔ انھوں نے قرآن کی روشنی میں شاعری کی اور شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو مخاطب کیا ۔ ان کی شاعری میں کائناتی شعور کی طرف خاص طور سے توجہ دی گئی ہے۔ وہ اگلے شعر میں پوچھتے ہیں کہ وہاں پر بھی انسان اپنی اصلیت سے بے گانے ہیں کیا؟ یعنی خود کو پہچاننے کی سعی کیا اسی جہاں میں کرنی ضروری ہے یا اس جہاں میں خود کو پہچان لیا گیا ہے ۔ اس جہاں کی طرح اس جہاں میں بھی لوگ امتیاز رکھتے ہیں کیا وہاں بھی لوگوں میں نقل کی بازگشت پائی جاتی ہے۔ کیا اس جہاں میں بھی کسی فریادی کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ کیا اس جہاں میں بھی لوگوں کے دلوں میں ہمدردی درد دل رکھنے کا چلن نہیں ہے ۔ ایک شعر میں اقبال کے خیالات سامنے آرہے ہیں :
باغ ہے فردوس یا اک منزل آرام ہے یا رخ بے پردۂ حسن ازل کا نام ہے
اے خفتگان خاک بتاؤ جہنم گناہوں کو ختم کرنے کی ترکیب ہے یا آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے کیا وہاں اس جہاں کی رفتار کے بدلے پرواز ہے ہم اہل جہاں جسے موت کہتے ہیں بتاؤ کیا راز ہے ۔ یہاں یوں گویا ہوئے کہ:
اضطراب دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے علم انساں اس ولایت میں بھی کیا محدود ہے
آگے شاعر تلمیح استعمال کرتے ہوئے پوچھتا ہے کیا موسی علیہ السلام کی طرح وہاں بھی دید سے تسکین پاتے ہیں کیا وہاں بھی انسانوں کو محدود علم دیا گیا ہے ۔ وہاں کے پہاڑ بھی شیخی بگھارنے میں مشغول رہتے ہیں؟ اے لوگوں بتاؤ کیا وہاں بھی جستجو میں آرام ملتا ہے ۔ وہاں پر لوگوں کو سوالات کا شوق ہے کیا ؟ ایک سرد آہ بھر کر پوچھتے ہیں وہاں بھی یہاں کی طرح نفرت کی تاریکی پھیلی ہے یا وہاں محبت سے دل معمور ہیں؟ تم اے لوگوں وہ راز بتادو جو اس گنبد میں پنہاں ہے ۔ تو یہ جو کانٹا موت کا انسان کے دل میں چبھتا ہے اس سے کچھ پردہ اٹھ جائے ۔ علامہ اقبال کی شخصیت سے ہم سبھی بہت اچھی طرح واقف ہیں ۔ ان کی مکمل شاعری اسلامی تعلیمات سے وابستہ ہے ۔ ان کے اشعار میں قرآن کی روشنی مسلم قوم کو راہ دکھانے کا کام کرتی ہے ۔ اقبال وہ شاعر ہیں جنھوں نے ہندوستان کو ایک شاعر کے اصلی معنی سے روبرو کیا ۔
***
Izza Moin
Hindu pura samman Shaheed
Sambhal Uttar Pradesh