ڈاکٹر گلزار احمد وانی
شام (انشائیہ)
بوقت شام کئی نظاروں کا کھیل جہاں تکمیل کو آجاتا ہے،پر وہیں سے کئی نئے نظاروں کا کھیل بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ مثلاّ تارے اپنی جگمگاہٹ سے فلک کے آنگن میں چھپا چھپی کھیلنے کو نکلتے ہیں ۔ چاند اپنی چاندنی سے آفاق کو اپنی دودھیا روشنی سے نہاتا ہوا جلوہ افروز ہوتا ہے۔ وہیں اندھیارں کی کئی کمندیں بھی دور تابہ فلک پھیل جاتی ہیں جس میں تارے ،ماہتاب اور رات کے مسافر محو سفر رہتے ہیں ۔ دن کی رخصتی بڑے شاندار طریقے سے ہو جاتی ہے۔اور اس کا اجالا اس قدر کہیں گم ہو جاتا ہے جیسے سمندر میں ڈوبنے والا چھوٹا سا کنکر ۔
شام میں دو چیزوں کی خاص کر آمد اکثر دیکھی جاتی ہے ۔ایک تو مہمان دوسرا دیپ ۔مہمان کئی لوگوں کے چہرے پر اگرچہ ایک طرف مسکراہٹ ،سرخی اور خوشی لاتا ہے پر وہیں دوسری جانب مہنگائ کو مد نظر رکھتے ہوئے مہمانوں کے لیے بازار سے پکانے کے لیے کچھ منگوانا چہروں پر سحاب چڑھاتا ہے۔رہی اب دیپ کی بات ، یہ تو اندھیروں کو بھگانے کے لیے خود کو جلا دیتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب شمع جلائے جاتے تھے آج تو روشنی کے قمقموں کی رونق ہر جا دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ویسے بھی سرشام جب تیرگی اپنی ساری فوجی کمک لے کر آتی ہے اور یوں سارے عالم پر پہرہ بٹھا دیتی ہے اور پھر دیپ کا جگمگانا قابل دید ہو جاتا ہے۔ اور جب کسی کے یہاں کوئی شاندار تقریب ہو تو سر شام وہاں بھی گھروں اور گلیوں کی سجاوٹ آناّ فاناّ کی جاتی ہے ۔ترقی کی راہ پر زمانہ اس قدر تیزی سے دوڑ بھاگتا ہے کہ اندازہ کرنا بہت مشکل ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے برقی رو کے دیوں کا استعمال مٹی کے دیوں کے بدلے میں یوں ہونے لگتا ہے کہ گھر کا کونا کونا اور گلی گلی کو بجلی کی قمقماہٹ سے روشن کیا جاتا ہے۔
میں بھی اب کہاں کہاں خیالی طور پر چلا جاتا ہوں،بات ہو رہی تھی سر شام کی ، سر شام ہر مسافر کی واپسی بھی یوں ہوتی ہے کہ فکری طور پر کوئی بھی انسان یا پرندہ دن بھر اگر کہیں رہے بھی تو اس کے لیے کوئی لمحۂ فکریہ نہیں پر ، جب شام ہونے لگتی ہے تو گھر کی فکر ہونے لگتی ہے۔ اسی لیے مزدور، ملازم ،نوکر اور پرندے سر شام گھر کی اور گامزن ہو جایا کرتے ہیں۔اندھیروں کا ایسا پہرہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہونے کے باوجود بھی کئی طریقوں کا ڈر اور رکاوٹ سی محسوس ہو جاتی ہے۔پرندوں کے مختلف جھنڈ دانہ چگنے کےبعد سر شام اپنی منزل کی اور گامزن ہو جاتے ہیں اور راہ پکڑتے ہیں ۔گھروں میں سر شام بچوں کی تلاش ہونے لگتی ہے۔یہ فکر دن کو اس طرح ذہن و دل کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی ہے جس طرح شام کو۔
سر شام ہوتے ہی کچھ لوگوں کی نیند کا سفر بھی اونگھ سے شروع ہو کر گہری نیند تک آکر پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔وہ تکیہ کے ساتھ اس نعمت عظمی سے سرفراز ہو جاتے ہیں ۔جب ان کی ایک یا دونوں آنکھیں غیر شعوری طور پر لگ جاتی ہیں ۔اور جو لطف و مزہ انہیں اس نیند سے آتا ہے شاید ہی بسترے پر ایسا مزہ آتا ہو۔ویسے بھی یہ وقت کچھ لوگوں کے لیے بہت مصروفیت کا ہوتا ہے بالخصوص مائیں تو اپنے لخت جگروں کی گھر واپسی کی خاطر اپنی نگاہیں اپنے صحن کے باہری گیٹ کی جانب باندھے ہوئی ہوتی ہیں کہ کب وہ اپنے گھر کو آئیں تاکہ ان کے دل کو ٹھنڈک پہنچے۔گھر میں باقی عورتیں کچھ تو مرغیوں ، گایوں کو سنبھالتی ہیں اور کچھ تو گھر کے افراد کے کپڑوں کی گھیلی استری کرتی ہیں۔اور چند عورتیں لذیذ پکوان بنانے میں منہمک نظر آتی ہی۔ ۔کبوتر، چڑیا،چیل اور مینا تو اپنے اپنے گھونسلوں کے باہر بہت شور مچا کر یہی اعلان بہ بانگ دہل کراتے ہیں کہ ہوشیار خبردار ! باہر اگر کوئی ہو تو وہ فوراّ اپنے اپنے گھروں میں خیمہ زن ہو جائیں ورنہ خیر نہیں، پھر کہیں شور ختم ہو کر یہ پرندے نیند سے شرابور ہو جاتے ہیں۔
کئی لوگوں کے لیے یہ وقت دن کے اختتام کے بطور ہوتا ہے اور کچھ اوباش قسم کے لوگ اپنے دن کا آغاز یہیں سے شروع کرتے ہیں۔اور چوری ڈکیٹی کے لیے اپنا سفر باندھتے ہیں۔ایک بات اور ہے کہ جنہیں دانت میں درد اور سر اور بازو سرد ہو وہ سر شام سے پہلے پہلے طبیب کے پاس جا کر علاج کروا کے دوائیاں لاتے ہیں،تاکہ رات بھر درد کی تکلیف سے چھٹکارہ حاصل ہو جائے۔ بات ہو رہی تھی شام کی تو شام کے وقت جو ہلکی موج نسیم چلتی ہے ، جس سے شدت دھوپ و تمازت سے راحت مل جاتی ہے اور جب یہی شدتِ دھوپ سارے جسم میں دن بھر کی تھکان کو بھر دیتی ہے تو سستانے کے لیے انسان سر شام کچھ تو راحت کا سانس لیتا ہے پھر اس میں گرما گرم چائے کی چسکیاں جو شام کی لطافت کو دو بالا کر دیتی ہے۔جب شام کا ذکر ہو اور اس پر چاند کا ذکر نہ کیا جائے تو سراسر نا انصافی ہوگی ۔بقول شاعر
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگادی آنے میں
شام کے سائے جب جب لہرانے لگتے ہیں تو دل کو عجب سی ٹھنڈک محسوس ہو نے لگتی ہے ۔اس وقت کسی کی یاد دل و دماغ پر پہرہ بٹھاتی ہے،جب کسی کی یاد میں دریچوں پر پہروں بیٹھے رہنا کسی حسیں افسانے کی قرأت کے جیسی لگتی ہے۔سر شام میں جہاں دن کے وقت کا سرہ ہاتھ سے نکل کر جاتا ہے پر وہیں سے رات کے وقت کا دوسرا سرہ ہاتھ آجاتا ہے، وہ بھی اپنی ساری فوجی کمک کے ساتھ،ایسے ہی کہ جیسے کسی بینڈوالے کے ساتھ باراتی اور دولہا۔یہاں رات میں چاند ،چاندنی ،تارے اور تیرگی کی آمد آمد ہوتی ہے اور کئی چیزوں کے ناپید ہو جانے سے سارا عالم کالے پیرہن میں نمودار ہو جاتا ہے جس کے دامن پر روشنی دار ،اجلے اجلے بٹن اور نئی نویلی دلہن جیسی چاند کی چاندنی بر سر پیکار ہو جاتی ہے۔ یہ سارے رات کے آنگن میں ایسی سیاہ فام تیرگی کی موجودگی میں انسان اپنے لبادے کا رنگ اور ڈھنگ بھی ایسے ہی من و عن پاتا ہے۔جیسے عالم تیرگی میں بقیہ اشیا۔
اس عالم تیرگی میں شمعوں کے ساتھ پروانے بھی اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے میدان میں لنگوٹی کس کے اتر جائے ہیں اور اپنے آپ کو شمع کے ارد گرد کئی چکر لگا کے مدہوش ہو کر آتش موم کی نذر ہو جاتے ہیں ، اور یوں سر شام ان کی زندگی کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل جاتا ہے پھر شمع ان کی یادوں میں اشک بہا کے خود کو رات کے دامن پر سر رکھ کے خوب رو رو کر خود کو مٹاتا ہے۔اور یوں سر شام تیرگی میں روشنی کی جوت جگا کر اپنی کوشش میں فنا ہو جاتا ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ جب رات کے سائے سر شام پھیل جاتے ہیں تو سفر میں پڑے ہوئے مسافروں کا سفر اور راستہ لمبا بہت ہو جاتا ہے انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ گھر کے بچے ان کے انتظار میں بت بنے ہوئے ہیں ، جس سے اور زیادہ فکر اور واہموں کے لا متناہی سلسلوں کی یلغار ہونے لگتی ہے۔
بوقت شام جہاں شاہراہوں پر گاڑیوں کا اژدہام رننگ بٹوین دی وکٹ کرتی ہیں وہاں اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ ان کی رفتار گفتار کے مقابلے میں بہت تیز ہوتی ہے تاکہ انہیں وقت پر گھر اور منزل مل جائے ۔