محمد عادل رضوی زائر
غزل
مشکل ہے بہت دل تٗو ٹھہر کیوں نہیں جاتا
سایہ نہ کوئی سر پہ تو گھر کیوں نہیں جاتا
یہ حال ہوا عشق میں، پایا نہیں تُجھ کو
کھونے کا مگر تُجھ کو یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
ہر شے تو زمانے کی فانی ہے اے واعظ!
دل سے غمِ جاناں یہ مگر کیوں نہیں جاتا
توڑا ہے اگر تم نے جو ساحر کے سحر کو
پھر جامِ محبت کا اثر کیوں نہیں جاتا
کچھ اپنے بنانے سے بھی بنتی ہے یہ قسمت
خود اپنے لئے آپ سنور کیوں نہیں جاتا
تو جی نہیں سکتا جو بن اُس کے اے زائر
ایسا ہے اگر ناداں تو مر کیوں نہیں جاتا
***
بہت عمدہ نیرے عزیز