You are currently viewing غضنفر کا ناول ’’مانجھی ‘‘ : ایک جائزہ

غضنفر کا ناول ’’مانجھی ‘‘ : ایک جائزہ

ریاض احمد

پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ، دہلی یونیورسٹی

غضنفر کا ناول ’’مانجھی ‘‘ : ایک جائزہ

         غضنفر علی کا شمار عہد حاضر کے ان فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جواپنے گردوپیش کے حالات وواقعات کا مشاہدہ بڑی باریکی سے کرتے ہیں،اور پھر خیالات واقعات کو کہانی میںپیش کرنے کا ہنربھی جانتے ہیں۔وہ بیک وقت افسانہ نگار ، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر ہیں۔غضنفر ادبی دنیا میں اپنے ناولوں کی وجہ سے مشہور ہیں ۔ان کا پہلا ناول ــــــ’’پانیــ‘‘۱۹۸۹ میںشائع ہوا۔ان کے دیگرناول بھی جدید اسلوب اورنت نئی تکینک کی بدولت ادبی حلقوںمیں اپنا لوہا منواچکے ہیں۔کینچلی،کہانی انکل،دویہ بانی،فسوں،مم،  وش منتھن،شوراب اورمانجھی ان کے قابل ذکر ناول ہیں۔ان کے بعض ناولوں کاکینوس صدیوںپر محیط ہے۔مانجھی غضنفر علی کا نواں ناول ہے جو ۲۰۱۲ میں شائع ہوا۔ان کا یہ ناول مذہب،استھا،سیاست ومعاشرت او ر تہذیب وتمدن ،کی تازہ صورت حال کی حقیقی عکاسی کرتا ہے ۔

         غضنفر نے الہ آباد سنگم کے سہارے پوری تہذیب کو بیان کیا ہے۔چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعے ناول کو آگے بڑھایا ہے۔مصنف نے اس ناول میں الہ آباد جیسی جگہ کا انتخاب کیا ہے جو صدیوں سے ہندوستانی تہذیب کا گہوارہ رہی ہے۔یہ جگہ گنگااورجمنا کے سنگم پر آباد ہے۔ہندو دھرم کے ماننے والوں کے لیے یہ جگہ نہایت ہی مقدس  ہے۔یہ جگہ ان کی چاربڑی مہذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔یہاںپر تین ندیاںایک ساتھ بہتی ہیں۔گنگا،جمنااور سرسوتی، اسی نسبت سے اس کو تریوینی بھی کہتے ہیں ۔مصنف گنگا جمنا سنگم کے ذریعے ہندوستان میں بسنے والے ہندو مسلم کو اتحادواتفاق کا پیغام دیتاہے۔ وہ ندیوں کی روانی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ یہاں ساتھ ساتھ رہتے ہوئے بھی کوئی تصادم نہیں ہے توہمیں بھی چاہئے کہ ہم گنگاہ جمنا سے سبق لیںاوراس سبق کواپنی روزمرہ کی زندگی میںاپنائیں،تا کہ صدیوں سے جوہماری آپسی بھائی چارگی قائم ہے وہ برقرار رہے۔ مصنف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس ناول میںچھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے ایسے ایسے موضوعات کو اجاگر کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری تہذیب زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔غضنفر نے ظلم وستم،سیاسی وسماجی برائیاں،فرقہ ورانہ حادثات،عورتوں پر کی جانے والی زیادتیاں،تہذیب وثقافت کی ٹوٹتی ہوئی روایت،حق تلفی، نابرابری،غریب انسان کی آوبکاجیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔

ناول کے دو مرکزی کردار ہیں ۔ویاس ما نجھی، اوروی ۔این ۔راے کے کرداروں ذریعے ہی پوری کہانی کو پیش کیا گیاہے۔ویاس مانجھی ایک ملاّح ہے۔ غریب ہونے کے باوجوداس کے اندر کی پاکیزہ روح اس کو برائی سے روکتی ہے ۔اس کا دل فریب،مکاّری اوردغابازی جیسی غلاظت سے پاک ہے ۔وہ ویاس مانجھی سچائی اورایمانداری کو ہی اپنا دھرم سمجھتا تھا،جب کشتی پر سوار ہونے کے لیے وی ۔این ۔رائے اس سے پوچھتا ہے کہ آپ کا ریٹ دوسرے ملاحوّں سے الگ کیوں ہے، اتنا زیادہ ریٹ کیوں؟آخرایساکیاہے؟ اس کے جواب میں ویاس مانجھی کے الفاظ کچھ اس طرح  تھے۔ ملاخظ فرمائیں:

 ’’صاحب میرا ریٹ زیادہ کیوں ہے،یہ نہیں جانیں گے؟‘‘

نہیں،اب اس کی ضرورت نہیں ہے،کد ھر چلنا ہے ؟‘‘

’’پھر بھی میںایک بات تو بتا ہی دوں کہ میںکیول سنگم کاچھورچھواکرناوٗ کو واپس گھاٹ پر نہیںلگا دیتابلکہ میں اس وقت تک ناوٗ کو پانی میں تراتا رہتا ہوںجب تک یاتری تیرنا چاہتے ہیں،چاہے شام ہی کیوں نہ ہوجائے۔چلیے اس طرف ہے میری ناوٗ، اس نے ایک ناوٗ کی طرف اشارہ کیا۔

کچھ دیر پہلے اس ملاّح کا دوگنا ریٹ سن کروی ۔ان۔رائے نے اس کے بارے جورائے بنائی تھی اورایک ہزاروپیوں کی رٹ سے ان کی آنکھوں میںخواجہ غریب

نواز کے دربار کے ایک بھکاری کی جوشبیہ ابھر آئی تھی،ملاّح کی اس بات نے اسے مٹادی تھی۔

ملاّح چاہتا تو یہ بات نہیں بھی بتا سکتا تھااور دوسرے ملاّحوں کی طرح وہ بھی سنگم کا ایک چکر لگا کراپنی ناوٗ کو کنارے لگا سکتا تھا یا زیادہ سے زیادہ دگنی رقم کے بدلے یا خود کو مختلف ثابت کرنے کے واسطے ایک آدھ چکراور لگا سکتا تھااور باقی وقتوں میں ہزار ہزار کی دوسری رقمیں دوسرے یاتریوں سے بھی حاصل کر سکتا تھا۔مگر ایسا نہیںکیا،اس کا یہ  رویہ جس نے وی۔ان۔رائے کو حیرت میں ڈال دیا تھاـ!‘‘ ۱؎

مندرجہ بالا اقتباس سے اس ناول کے اہم کردارویاس مانجھی کی سچائی،ایماینداری اور اس کی شخصیت کا واضح ثبوت ملتاہے۔کہانی

کشتی میں بیٹھنے کے بعد شروع ہوتی ہے اور کشتی سے اترنے سے پہلے ہی مصنف پوری تہذیب کو سمیٹ لیتا ہے۔مصنف نے اس ناول میں سنگم کے ساتھ ایک جہان کی سیرکرانے کے عمل کو نمایاں کیا ہے جو معاشرہ کا بھر پور عکس پیش کرتا ہے۔ وی۔این۔رائے ایک سنجیدہ اور آزاد خیال انسان ہے۔ وہ سنگم کی سیر پرملاّح مانجھی سے اس لیے بار بار سوال کر تا ہے تاکہ وہ اس کے دلی جذبات،اندرونی کیفیات اور اس کی ظاہری زندگی کا مشاہدہ کر سکے۔ملاّح ـقصہ در قصہ کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔مانجھی کے قصے نہ صرف مافوق الفطرت یا ماورائی عناصر ظاہر کرتے ہیں ،بلکہ ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات کوبھی پیش کرتے ہیں۔ملاّح کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اپنے لطف کے لیے پرندوں کی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے ،جب ہم لطف اندوز ی کے لیے دریا میں دانہ پھینکتے ہیں تو چھینا جھپٹی میں نہ جانے کتنے پرندے اپنی جان گنوادیتے ہیں ۔ان کے ساتھ بھی ہم اچھا سلوک نہیںکرتے،اپنی خوشی کی خاطر ان کی جان بھی لے لیتے ہیں۔مصنف نے مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ فن ناول نگاری کے بھی بہترین نمونے پیش کیے ہیںایک جگہ لکھتے ہیں:

      ’’ایک،دواورپانچ،روپئے کے سکوں کی چمچماتی ہوئی ڈھیریوں پر نگاہیں رکیں جہاں نوٹوں سے بدلے جارہے تھے،اور تھیلیوں میںسکے بھر کر لوگ گنگا گھاٹ کی طرف بڑھے جارہے تھے تو آنکھوں کے سامنے دور دور تک  مدقوق چہرے ابھرتے چلے گئے۔ ڈھیریوں  سے کچھ سکے اچھل کرکھردری ہتھیلیوں پر جا پڑے، زرد پیشانی چمک اٹھی۔ویران آنکھیں روشن ہوگئیں۔چہروں کی سیاہیاں اور چھائیاں ماندپڑگئیں۔

زعفرانی رنگ کی لہراتی ہوئی گوٹے دار چیزوںپر نظریں جمیںتو دیدوں میںایسی بہت سی عورتیں آکر کھڑی ہوگئیں جو اپنی چھاتیوں کو ننگے ہاتھوں سے ڈھاپنے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔

تھالوں میں اوپر تک سجی مٹھائیوںپر نگاہ گئی

تومٹھائی کی مانگ اور اپنی ضد کے چلتے خالی جیبوں والے باپوں کے ہاتھوں پٹے بلکتے اور سسکتے ہوئے بے شمار بچے نظر آنے لگے۔۲؎

اس ناول میں جن سماجی موضوعات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اس میں عورت کا مسئلہ کارفرما رہا ہے۔جدید ٹکنالوجی کے دور میں بھی عورت کو سماج میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو ان کو ملنی چاہئے تھی۔ زمانہ قدیم سے عورتوں کے ساتھ جوسلوک ہوتا رہا ہے وہ آج بھی برقرار ہے۔سماج میں آج بھی عورتیں مردوںکی بے جا زیادیتاں بر داشت کر لینے کے باوجود مرد وں کی خو شی کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں ۔مصنف نے اس ناول میں یہ دکھانا چاہا ہے کہ راجکمارعورت کو سزا دینے کے لیے شادی تو کر لیتا ہے ،مگر اس کی انا پرست طبیعت عورت کی برتری کو تسلیم نہیں کرتی ،شادی کی پہلی ہی رات احساس برتری کے نشے میں راجکمارکے منہ سے یہ جملہ نکلتا ہے’’عورت ذات ہو کرتمہاری یہ مجال کہ تم مرد کو چتاونی دو ‘‘مردکو بھی صنف نازک کی نفسیات کو سمجھنا چاہئے ۔مصنف کایہ بھی ماننا ہے کہ عورت کوجسم تک ہی محدود رکھنے کے بجائے اس کے وصف کوبھی تسلیم کرنا چاہے۔موجودہ دور میں بھی عورت کے مفاد کاکسی کوکوئی خیال نہیں ہے،۔عورتیںآج بھی معاشی تنگدستی،ظلم وستم،ذات پات جیسے مسائل کا شکارنظرآرہی ہیں۔سماج میں آج بھی عورتوں کی حق تلفی اور اس پر کی جانے والی ذیادیتاں،ان کی بے راہ روی ، عورتوں کی آہ بکاجا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں۔اگر چہ مانجھی میںگھسیارے کی بیٹی راجکمار کی بتائی ہوئی ساری چنوتیوں کوخوش اسلوبی سے پورا کر دکھاتی ہے ،لیکن اس کے باوجود راجکماراس کو قبول نہیں کرتا۔مصنف نے گھسیارے کی بیٹی کی منظرکشی کچھ اسطرح کی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ایک سال گزرنے کے بعداس نے راجکمار کو یہ سندیسہ بھیجا کہ آپ کے سونپے ہوئے تینوں کام پورے ہوچکے ہیں۔اپنے خزانے سے ایک پیسہ بھی خرچ کیے بناایک محل تیار ہے۔آپ کے لیے راج کماری کا بھی بندوبست ہوگیا ہے اورآپ کا بچہ بھی گود میں آگیا ہے۔اس لیے اب آپ کو مجھ سے دوررہنے کا کوئی اوچتیہ نہیں ہے۔پرسوں ساون کی دوسری تاریخ ہے،آپ کو تو شایدیہ تاریخ یاد نہیں ہوگئی مگر میں اس تاریخ کو کیسے بھول سکتی ہو ں؟یہی تووہ تاریخ ہے جس نے مجھے جھونپڑے سے نکال کر محل میںپہنچادی تھی۔اسی تاریخ کو میں دلہن بنی تھی۔اسی تاریخ کوہماری سہاگ رات سجی تھی۔اسی تاریخ نے آپ کو مجھ سے جدا کردیا تھا۔ہمارا سارا کام پورا ہوچکا ہے۔اب آجایئے کہ جدائی برداشت نہیں ہوتی۔وقت کاٹے نہیں کٹتا۔‘‘۳؎

مصنف نے یہ بھی دکھاناچاہا ہے کہ عورت مرد کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتی ہے،مگر مردکی نظر میں وہ صرف جسم تک ہی محدود رہتی ہے ۔ ہر عورت جسم فروش نہیں ہوتی۔عورتیںغربت،لاچاری اور محتاجی میں بھی اپنی آبروکی خاطربڑے بڑے تحفوں اور مال وزرکو ٹھوکرا دیتی ہیں۔

         اس ناول میں مصنف نے سیاسی حکمرانوںکی ستّا کی بھوک کو بھی عیاں کیا ہے۔انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حکمران اقتدار کی ہوس میںمذہب،رشتے ناطے،عزّت وآبرو، ناانصافی جیسی کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے،وہ اقتدار میں آنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہیںیہاں تک کہ وہ اقتدار کی ہوس میں اپنے ضمیرکو بھی بیچ دیتے ہیں۔ غضنفر نے اس ناول میںغربت اور جنسیات کے موضوع کوبھی پیش کیا ہے،غربت انسان کو ہر طرح کے کام کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔غضنفر

 جنسیات کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ساتھویں رات میںپتنی نے راج کمار کودودھ میں ایک نشہ گھول کر پلایاکہ راج کمار کا انگ انگ پھڑک اٹھا۔اسکے کے جسم میںاینٹھن سی ہونے لگی۔رگیںتننے لگیں۔ جوش میںآکروہ پتنی سے لپٹ گیا۔لپٹ کردیر تک پتنی کے شریر کے سا تھ کشتی کرتارہا پھراچانک بسترپر گر کر ڈھیرہوگیا۔رات کے اندھیرے میں یوجنا کے مطابق راج کمار کے کمرے میںایک سایہ داخل ہوااور اس سائے نے جلتی پتنی اور جھلستی ہوئی عورت کے اوپر اپنی چھاوٗں کا کمبل اوڑھا دیا۔‘‘۴؎

غضنفرنے اس مختصر ناول میںسیاسی وسماجی استحصال،تہذیب وثقافت کی ٹوٹتی ہوئی روایت،اقتدارکی بھوک کے ضمیر فروش لیڈران،معاشی واقتصادی تنگدستی،قومی وبین الاقوامی مسائل،عورتوں کے حقوق کی حق تلفی،گنگا جمنی تہذیب کے بکھرنے کو نشانے پر لیا ہے۔مصنف نے ان سارے مناظر کو مختلف حادثات کے ذریعے پیش کیاہے۔گویا ناول فکروفلسفہ سے بھرپورہے۔مانجھی میںبیانیہ اورمکالمے دونوں کا استعمال ہوا ہے۔زبان سادہ اور سلیس استعمال کی گئی ہے۔کئی جگہوںپر ہندی الفاظ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس ناول کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہ قاری کی دلچسپی کو ناول کے مکمل ہونے تک برقرار رکھتا ہے باندھے رکھتا ہے۔مجموعی طورپر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک اچھا ناول ہے جو فن کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔

حوالہ:

۱۔مانجھی   غضنفر  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی۔۲۰۱۲ء  ص۱۷

۲۔مانجھی   غضنفر  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی۔۲۰۱۲ء  ص۱۲

۳۔مانجھی   غضنفر  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی۔۲۰۱۲ء  ص۴۳

۴۔مانجھی   غضنفر  ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی۔۲۰۱۲ء  ص۷۲

***

Leave a Reply