محمد وقارعظیم خان
فیصل آباد
چَوَل( طنزومزاح)
آپ پانچ دریاؤں کی پاک سر زمین یعنی پنجاب کے رہائشی ہیں تو اس قسم کے جملے آپ کو اکثر سننے کو ملیں گے- یہ چول ہے ، وہ چَوَل ہے ،تم چَوَل ہو ، یہ کیسی چَوَل ہے, کیسی چول ماری ہے ،چھوڑو یار! چَوَل نہ مارو ،یہاں تو سب چَوَل ہیں ،چَوَل مارو گے تو مشہور ہو جاؤ گے ،سارا نظام ہی چَوَل ہے ، عزیزو ! میں چَوَل ہو گیا ہوں یا سارے ای چَوَل ہیں ، دوستو! مجھے چَوَل نہ بناؤ ، اس کے کیا کہنے وہ تو مہا چَوَل ہے- پنجابی معاشرے میں یہ لفظ (چَوَل)یا (چبل) اپنی مسلمہ اہمیت و افادیت سے ہر جگہ ،ہر ادارہ چاہے وہ پرائیویٹ ہو یا سرکاری ،نیم سرکاری ، محلہ، گلی ،بازار، شہر, دیہات،قصبہ میں سننے کو مل جائے گا – آپ اسے سنتے ہیں اور معانی جانے بغیر سر دھنتے ہیں – پنجابیوں کے پوری دنیا میں پھیل جانے سے یہ لفظ بھی زمان و مکاں کی قید سے آذاد ہو کر دنیا کے ہر خطے میں سنا ،سمجھا اور بولا جانے لگا ہے- کچھ محققین نے شد و مد کے ساتھ اس کے ساختیاتی پسِ ساختیاتی مطالعے جدیدیت اور مابعد جدیدیت و نو آبادیت ،صارفیت و استعماریت کی اصطلاحات کے اس پہ اثرات کے ساتھ دوسرے علومِ تحقیق کے تقابلی و تجزیاتی جائزے کے بعد اس کے نتائج ، ثمرات و اثرات کا بغور جائزہ لینے کے بعد اپنی سالہا سال تحقیق سے اس لفظ کی حرمت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے – ان کا کہنا ہے کہ اس لفظ میں معانی و مفاہیم کے جھرنےنہیں بلکہ خدا مبالغے سے بچائے دریا بھی کم; سمندر بہہ رہے ہیں ,جس کی لہروں نے کل عالم کو لپیٹ میں لے رکھا ہے-کئی نو آموز اور آزمودہ کار محققین کو تو یہ لفظ اپنی شانِ نزول لگتا ہے – وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے لیے خود شناسی کے کئی در وا ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے تو خود کو پہچاناہی چَوَل ہونے کے بعد ہے – ان میں سے بعضےانکشاف کرتے ہیں کہ اوجِ تہذیب و ثقافت کے اس دور میں یہ لفظ خودی اور بے خودی کا صحیح متبادل ہے -چَوَل ہونا خودی کا اور چول بنانا بے خودی کا مترادف ہے؛ اسی قبیل کے ماہر تنقید نگاروں کا بھی یہی قول ہے- بعض لوگوں کو باقاعدہ نصاب پڑھا کر مستند یعنی سند یافتہ چول بنایا جاتا ہے – معاشرتی و سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق حتمی نتیجہ یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں انسان کامیابی و کامرانی کی منازل کے بر وقت حصول اور ان میں درپیش مدارج کو احسن طریقے سے طے کرنے کے لیے چول ہونا، چَوَل مارنا اور کئی بڑی چَوَلوں کے ساتھ حد درجہ روحانی و جسمانی تعلقات بے حد ضروری قرار دیتے ہیں ؛مگر اس کے لیے آپ میں صرف ایک خوبی بدرجہ اتم موجود ہو وہ ہے “چَوَل شناسی” اس کی تفہیم کے لیے ایک منظر ملاحظہ ہو – پروفیسر صاحب عالم فاضل انسان ہیں ; کمرے میں تنہا بیٹھے کائنات کے مظاہر فطرت پہ غور و غوض و تفحص کر کے اپنے گیان سے فلسفے کے انمول موتی تراش رہے تھے کہ میرا اکلوتا دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ اور میں ان کی تنہائی میں مخل جا دھمکے -پہلے جھک کر انہیں سلام کیا۔پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
استاد گرامی! مزاج کیسے ہیں انہوں نے نیم وا آنکھوں سے دو شُرطوں کو تاڑتے، نگاہیں گاڑھتے ہوئے دیکھا جن میں ساری مستی ادب کی تھی ، کہا بیٹھو بیٹا !میرے حال و ماضی تو بہت اچھے ہیں-قارئین کرام! یہ بھی دھیان میں رہے کہ میرے عزیز دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ کو پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا بھی عارضہ لاحق ہے بلکہ میرے نزدیک ایک لحاظ سے اُسے پڑھنے کا تو دورہ پڑا ہوا ہے – منٹو ، عصمت چغتائی کے افسانے ، کام سوترا اور کوکا رام پنڈت کی کوک شاستر جیسی ہر بے ادبی تحریر انہیں منہ زبانی ازبر ہے – لکھنے کی بد پرہیزی کا بھی شکار ہو چکے ہیں ایک بار تو انہیں لکھنے کا ہیضہ بھی پڑ چکا ہے ؛ جس پہ بہت خوش تھے کہنے لگے دوست سچ بات ہے ہیضے کی وبا چلی تو میں بھی اس کا شکار ہو گیا ہوں- وہ دن کہ آج کا دن انہیں لکھنے پڑھنے کا دورے پہ دورہ پڑ رہا ہے – وہ ایک انتہا پسند تنہائی کا شکار ادیب ہے اور ان دنوں چوری چھپے ایک ادیب با تہذیب پہ کتاب لکھ رہا ہے اسی حوالے سے پروفیسر صاحب کی رائے جاننےکے لئے شہرِ اقتدار سے ہنگامی بنیادوں پہ بے چین و بے قرار پیچ و تاب کھاتا وارد ہوا تھا- وہ موزوں آب و ہوا پاتے ہوئے باد بان کو کھول کر ناؤ کو علم کے کھلے سمندر میں اتار کر خود کنارے پہ مضطرب کھڑے پروفیسر صاحب کے علم کے تھپیڑوں کا بہ نظرِ غائر نظارہ کرنا چاہتا تھا – پہلے تو بد قسمتی سے وہ اس شخصیت کے اولین و آخرین مداحین میں شامل ہو چکے تھے دوسرا غضب خدا ان کے فن اور شخصیت پر کتاب بھی لکھ ماری جیسے ہی مدعا بیان ہوا پروفیسر صاحب عالم لاہوت سے عالم ناسوت میں تشریف لائے دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا ؛ بے ساختہ گویا ہوئے ” چَوَل اے”- چول شناسی کا کچھ علم ہونے کی وجہ سے میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس سے بڑھ کر شخصی عظمت اور کیا ہو سکتی ہے – میرے دوست کو یہ بات ناگوار گزری شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس لفظ کے جن معنی و تناظر میں میں نے دیکھا تھا ان کی نگاہ اس لفظ کے باطن میں نہ جھانک سکی- دوست کی مجرمانہ خاموشی میرے دل میں اس شخصیت کے لیے عظمت کے مینار تعمیر کر گئی- میں اس کو چیخ چیخ کر باور کرانا چاہتا تھا کہ اے ہم نشیں، علم و حکمت کے خوشہ چیں، اے میرے عزیز دوست !چول ہونا کتنا عظیم، بابرکت اور ضروری ہے- میں تو ممدوح کی عظمتوں کا پہلے ہی معترف تھا – میں نے غلو سے کام لیتے ہوئے اپنے طور رائے قائم کی کہ اگر پروفیسر صاحب نے ان کو چول کہا ہے تو یقینی طور پہ ان کے شاگرد ممدوح کو مہا چول سمجھنا چاہیے کہ دوستوں، ہم جولیوں، ہم مشرب و ہم پیشہ و ہمرازوں سے بغض و عناد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں- پروفیسر صاحب نے ان کو اگر چول کہا ہے تو وہ اس سے بڑھ کر ضرور مقام و مرتبے میں چولوں کے امام ہوں گے – ماہرین نفسیات کا کہنا ہے: اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ کوئی شخص متعصب یا حاسد تو نہیں اُس سے اُن لوگوں کے بارے میں رائے طلب کرو جو اُس کے ہم پیشہ ہوں – اس سے ان کی شخصیت کا پوشیدہ گوشہ ظاہر ہو جائے گا- معاملہ کچھ بھی تھا مگر اس جواب نے مجھے ہمیشہ بے قرار رکھا کہ پروفیسر صاحب اپنے ہم عصر ادیب کے لیے ایسے کیسے کہہ دیا – میرے خیال میں انہوں نے ضرور اپنی رائے ٹھیک نہیں دی – کچھ عرصہ بعد میں اور میرا دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ دوبارہ پروفیسر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو پروفیسر صاحب یہ بات یقینی طور پر بھول چکے تھے- میں غلطی سے پہلے دوست کے ساتھ اس شخصیت کا تعارف کرا بیٹھا کہ یہ ان کے بڑے مداح ہیں اور آج کل ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں- اس صورتحال سے مجبور ہو کر انہوں نے ایک کتاب بھی لکھ ماری ہے- اس پہ آپ کی رائے کے خواستگار ہیں – پہلے پروفیسر صاحب نے مرزا ظاہر بشیر بیگ اور میری صورت دیکھی جو عاجزی کے مرقع بنے دست بستہ کھڑے تھے – پروفیسر صاحب نے از حد مودب انداز اپنائے شاگردوں کے آنے کی صورتحال بھانپتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور مزید چوکنا ہو گئے- عالمانہ متانت و سنجیدگی پیشانی پہ نور کی طرح چمک رہی تھی اور ساتھ افسوس بھی ان کے چہرے سے عیاں تھا جیسے وہ سوچ رہے ہوں اب یہ مجھ سے مصنوعی بات سننے آگئے ہیں- انہوں نے کچھ توقف کیا صورتحال کا جائزہ لیا اصل میں میرا دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ ممدوح سے اصل اعزاز چھین لینا چاہتا تھا میں نے سوچا یہ ظالم!! اعزازات چھیننے میں عادی مجرم ہےجس طرح میرے کئی اعزاز چھین کے بغلیں بجاتا ہے ؛ بہر حال پروفیسر صاحب نے ہماری قابلِ رحم حالت کو سرسری دیکھا اور بڑی مشکل سے گولا پھینکا کہ وہ ایک سنجیدہ مزاح نگار ہیں – مجھے ایسا لگا جیسے یہ گولہ میرے سر پہ پھٹا ہے یہ مصنوعی جملہ میرے نزدیک گالی تھا میں اس ساری صورتحال کا متحمل نہ تھا نہ مجھے پروفیسر صاحب سے اس کی توقع تھی کیوں کہ میں جانتا تھا کہ ان کی نگاہ میں سب چول ہیں پھر بر سبیلِ تذکرہ خیال گزرا بزرگوں کی باتوں میں حکمت ضرور ہوتی ہے یہ راز زیادہ دیر راز نہ رہا وہ تو بھلا ہو مرزا ظاہر بشیر بیگ کاجن کے توسل سے ممدوح کی کچھ کتابیں ہاتھ لگیں – ممدوح کی سنجیدہ اور سنجیدگی سے لبریز مزاح نگاری سے متاثر ہوا تو مجھ پہ یہ رازِ باطن منکشف ہوا کہ ان کے کہنے کے دو معانی تھے ایک پوشیدہ ، ایک ظاہری ، پوشیدہ میرے لیے تھا اور ظاہری میرے دوست کے لیے کیونکہ یہ سچ ہے کہ انہوں نے نگر نگر، گلی گلی ،کوچا کوچا چولیں مارنے کے ساتھ ادب کی ہر صنف میں چَوَل ماری ہے – ہم دونوں منطقی نتائج تک پہنچ چکے تھے انہوں نے اسے سنجیدہ مزاح نگار تسلیم کر لیا اور میں نے اسے چَوَل نہیں مہا چَوَل مان لیا- ایک اور ناول نگار، سفر نگار کے ذکرِ خیر پہ میں نے پروفیسر صاحب کی آنکھوں میں جھانکا تو الفاظ کے ہیر پھیر کے بعد لبِ لُباب یہی تھا- ایک شخصیت جو خود کو ہر میدان کا ہر کولیس اور دارا و سکندر سمجھتے ہیں پروفیسر صاحب سے چَوَل قرار پائے اور ایک پروقار تقریب میں دورانِ گفتگو اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے خود کو ثابت کیا اور ایسے کھچ ہوئے کہ الامان الحفیظ خرابی گلہ کا بہانہ تراشتے جان چھڑائی ،اگلی صبح میں پروفیسر صاحب کے قدموں میں گر کر پائے بوسی کی اور ہمیشہ کے لئے ان کی چول شناسی کا معترف ہو گیا-میرے عزیزو! سچ یہ ہے کہ اب چولیں مارنے اور عظمت کا چولی دامن کا ساتھ ہے- آپ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی نامور آدمی تقریر کر رہا ہو تو اس کے گرد کالے چشمے والے پانچ چھ لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو اس کو بار بار چَوَل مارنے پر اکساتے ہیں- وہ ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں کہ مقرر صاحب مدعا بھول کر فوراً ایک چَوَل مار کر مقبول ہو جاتے ہیں – ادبی دنیا میں ایک واقعے کی بازگشت ابھی تک سنائی دیتی ہے کہ “علی پور کا ایلی ” کو آدم جی ایوارڈ نہ ملا بلکہ یہ” تلاش بہاراں “کے حصے میں آیا اس بورڈ میں یقینی طور پہ بڑے بزرگوں کے ساتھ سنجیدہ تنقید نگار سید وقار عظیم بھی شامل تھے جو غالب شناس تھے مگر تحریر و تقریر میں چول شناس ہر گز نہ تھے اور نہ ان دنوں چولوں کے صحیح مقام و مرتبے کا تعین کرنے کی فضا قائم تھی – وہ اس حوالے سے کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکے لیکن وقت نے اس کو اردو ادب کا گرنتھ ثابت کیا- حقیقت یہ ہے کہ اس میں بے شمار چولیں ماری گئی ہیں جو اس کی مسلمہ عظمت کو اس مقام تک لے گئیں جن تک پہنچنا تقریبا محال ہے- یہ خیال مجھے یوں آیا کہ میرے عزیز دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ جو اب کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے، انہوں نے ابتدائی چار سو صفحے پڑھ کر چس لیتے ہوئے کہا کہ کاش ایلی کے والد کا کردار میرے حصے میں آتا – میں مرزا کی ان باتوں سے پریشان ہو جاتا ہوں مگر غور کیا جائے تو ہم سب چول ہیں اور چول شناسی کا جوہر پہچاننے اور اس کا حصہ ہونے میں فخر محسوس کرتے ہیں- ہم سب کو مشہور ہونے کے لیے چول مارنے کی اشد ضرورت ہے مزید تفہیم کے لیے واقعہ عرض ہے :ہوا یوں کہ ہرنام سنگھ کے دوست سردار مہتاب سنگھ صاحب کی شادی اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں طے پائی- ان لوگوں نے اپنی طاقت ،حقیقت، صلاحیت اور قدرت کے مطابق نفاست کے ساتھ بہترین پروگرام ترتیب دینے کے لیے سردار صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد فرمائش کی کہ موزوں ہو تو برات میں ستر افراد سے زیادہ نہ لائیے گا- ان کے لیے مناسب انتظام و انصرام میں دشواری ہو گی- اب سردار صاحب تو چول تھے ہی ان کے دوست مہا چول ؛ بارات آئی تو سارا علاقہ نایاب مخلوق سے بھر گیا تقریباً سات سو افراد باراتی دیکھ کر (ظاہری صورتحال ایسی تھی کہ) تعلیم یافتہ ،مہذب سسرالی گھبرائے ،بھونچکائے اور تلملا کر رہ گئے – پریشان چہروں پہ یہی سوال تھا سردار صاحب نے یہ کیا کر دیا- بجتے ڈھول پہ بھنگڑے ڈالتے جٹوں نے شہر میں سماں باندھ دیا ایسی بارات چشم فلک نے پہلے نہ دیکھی تھی – اس کے ہر پہلو سے بے ساختہ محبت ،خلوص ،بے لوث پن اور اپنائیت چھلک رہی تھی- سردار صاحب کے سُسر نے نازک صورتحال دیکھتے ہوئے شور شرابے سے اٹے ماحول میں سردار صاحب کے کان میں کہا سردار جی آپ نے تو ستر افراد لانے کا وعدہ کیا تھا یہ تو سراسر وعدہ خلافی ہے – سردار صاحب نے لاپرواہی سے نعرہ مارتے ہوئے کہا وہ جو ستر تم نے کہے تمہارے معیار کے مطابق تھے وہ شادی ھال میں جا چکے ہیں ان کے لیے کھانے کا انتظام کریں باقی ان سے گبھرانے کی ضرورت نہیں دنیا و مافیہا سے بے خبر بھنگڑے کے شوقین یہ سات سو افراد “چول” ہیں-
سٙپ ہنیر توں ڈنگے ٹُردے
سپاں نوں ڈنگ نہیں ہوندے
چولاں دوروں آپ سیاپن
چولاں نوں کوئی سنگھ نہیں ہوندے
ہمارے معاشرے میں اس لیے معزز افراد اور ان کے مداحین عمومی و خصوصی طور پر چول ہوتے ہیں کیونکہ معاشرے میں معزز ہونے کے لیے چول ہونے یا چول مارنے کی بے حد ضرورت و اہمیت ہے – جیسے لاہور دا پاوا اختر لاوا، میرا چن میرا مکھن، اسلامی ٹچ ،وڑ گیا ،ہور سنا سلیموں توں کوتاں کوتاں گئی ایں ،بھولا ڈھولا، رانے نیں جو کہ تا تے فیر کہ تا چول پسند معاشرے کی عمدہ ترین مثالیں ہیں – اس کے پیچھے ایک خاص دانشوری چھپی ہےجیسے کسی دانشور کا قول ہے اس جگہ جاؤ جہاں سے لوگ منع کرتے ہیں ان لوگوں سے ملو جن سے ملنا لوگ اچھا نہ سمجھیں ،ایسی کتابیں پڑھیں، جن کا پڑھنا ممنوع ہو آپ بہت سی باتیں سیکھ جاؤ گے- آپا بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کے مقابلے میں” راجہ چول “لکھاجائے تو ادب میں چول شناسی کے دور کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا- میں ایک عظیم خاتون کی صورت و اخلاق و کردار , آداب ,طور واطوار سے اس قدر متاثر ہوا کہ بار بار بہانے سے ان سے گفتگو کرنا ، ان کی تعریف توصیف کرنا اپنا فرض عین سمجھنے لگا جس سے کچھ سمجھدار لوگ اسے مجھ سے منسوب کر کے اچھی باتیں بھی کرنے لگے مگر میں ان باتوں سے مطلق بے نیاز رہا – بھلا ہو میرے ہم درد دوست مرزا ظاہر بشیر بیگ کا جو ابتدائی دور میں “محقق” بن بیٹھے تھے جناب نے انہیں مجھ سے بے باکی کے ساتھ محو کلام و طعام دیکھا تو محققانہ شان سے جیسے طویل مشقت کے بعد کوئی قدیم مخطوطہ ان کے ہتھے چڑھ گیا ہو کفِ آستیں چڑھا کر میرے کان میں کہنے لگے یارا ! اے بڑی منہ پھٹ ، پھٹی ہوئی ،چالو عورت ہے -تم حقیر پر تقصیر اس کے دام میں کیسے آ گئے مگر اس کے ناصحانہ اندازسے مجھے رقیبانہ بو آئی افسوس سے کہنے لگا بڑی “چول” بھی ہے – اس جملے پہ خوشی کے مارے میری تو باچھیں کھل گئیں میں نے کہا میرے عزیز دوست !
کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
اور سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے
دراصل مجھے آج مرزا ظاہر بشیر بیگ بہت معصوم لگا میں نے کہا تم نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی اگر اس شخصیت کا یہ چھپا ہوا گوشہ تم پہ عیاں تھا تو اتنی دیر کیوں کی مہربانی بتاتے بتاتے- میں خود انگشت بدنداں تھا کہ اسے تو معلوم تھا کہ اگر مجھے پتہ چلے کہ فلاں شخصیت چول ہے تو سمجھو کہ اس کی خاک پا کو سر میں ڈالنے کو تیار ہوں- کیونکہ چول ہونا ایک ایسی خوبی ہےجو اپنے اندر ایک عظمت اور دلکشی لیے ہوئے ہے – چولوں کے لاکھوں فین فالوورز ہیں ، چمچماتی لگژری گاڑیاں ، پرتعیش بنگلے، پروٹوکول، میڈیا، ریڈیو، ٹی وی پر ان کے متعلق خبریں, ٹاک شوز کی زیب و زینت و رنگینی ان کے دم قدم سے ہے – اخبارات و جرائد ان کے ذکرِ شر سے بھرے ہیں -دنیا ان کے آگے ماتھا ٹیک کر ان کی بزرگی و بڑائی کا اعتراف کر رہی ہے ایسی صورتحال میں اگر آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اپنے آس پاس کسی پسندیدہ شخصیت کو پیش نظر رکھیں چول شناسی کے اصول پیشِ نظر رکھتے ہوئے مطالعہ احوال کریں کچھ عرصے کے بعد ان کا چول ہونا آپ پہ ضرور منکشف ہو جائے گا کہ وہ کتنی بڑی اور کیسی چول ہے, آپ نتیجہ یہی نکالیں گے کہ اس دور میں زندہ رہنے کے لیے چول ہونا ناگزیر ہے- ہر شخص درجہ بندی کے لحاظ سے کسی نہ کسی لحاظ سے اس مقامِ فاضلہ پر پوری تمکنت کے ساتھ براجمان نظر آتا ہے اور موقع میسرآنے پر ہی ضرورت کے مطابق چول مارتا ہے جس سے اس کی عظمت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے مزید شک کی گنجائش ہو تو آپ سفر وحضر میں ساتھ رہیں کسی طور یہ خوبی آپ پہ آشکار ہو جائے گی کچھ لوگ چول نہیں بلکہ چول گر ہوتے ہیں چول آپ کو بھی نہ صرف چول بنا دیتے بلکہ آپ چول شناسی میں اہم مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں جیسے لوہا آگ نہیں اور آگ لوہا نہیں مگر ایک مقام پر ان کی کیمیائی خاصیتیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں اس لیے چول شاس مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کسی چول کی خالص پہچان کر کے اس کے ساتھ مخلصی سے جڑ جائیں ایک دن آپ بھی اس مقام کو پا جائیں گے- ایسا بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اشرف المخلوقات مخلوق میں اشرف ہونے کے لیے اب زیادہ تر اسی ہتھیار کا استعمال کرتا ہے کبھی تو اس کے حصول کے لیے منصوبہ بندی سے چول مارتا ہے اور کبھی اللہ کے کرم سے خود بخود اس سے وج جاتی ہے- غور کریں تو اس معاشرے میں اعلی و افضل جتنے ہیں سب چور ہیں لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرتے شخص کو بوریت دور کرنے کے لیے وزیر مشیر چول مارنے کا آن لائن مشورہ دیتے ہیں اگر اس پہ کما حقہ عمل ہو جائے تو یہ چول تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے اور مدتوں اس شخص کے مداح جھوم جھوم کر لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ دیکھا ہمارے قائد کو کیسی شائستہ گفتگو فرمائی دنیا کے راہِ پرخار میں کچھ چول ایسے بھی ہیں جن کے لیکچرز کے لیے دنیا کی یونیورسٹیاں ترس گئی ہیں مگر انہوں نے اس کار خیر کے لیے ہمیشہ اپنے لوگوں کا انتخاب کیا ہے اور چولیں مارنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا اب ان کی چولیں سنسر بھی ہو رہی ہیں- چول ہونے اور مارنے کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہو سکتا مگر سوشل میڈیا ان کی مقبولیت بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے وگرنہ کسے معلوم کہ کہاں کی چول کہاں پہ پائی جاتی ہے، چول شناس چولوں کو تلاش کر کے ان کا انتخاب کرتے ہیں کچھ بغیر انتخاب کے منتخب ہو جاتے ہیں- اب جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے- یہ دور چولوں کے عروج کا دور ہے یہ دنیا ایک ملک ہے جو انتظامی بنیادوں پہ مختلف قوموں، نسلوں کے لوگوں پہ تقسیم ہے – بھینسوں کے باڑے میں سب بھینسیں ہیں بکریوں کے ریوڑ میں بلا امتیاز سب بکریاں ہی ہیں جانوروں میں نسلی تفاخر و امتیاز نہیں مگر حضرتِ انسان عہدے، مذہب، فرقہ ،رنگ و نسل، قومیت، لسان ،تعلیم میں ایسے تقسیم ہے کہ جتنے انسان ہیں اتنے درجے ہیں-جاہل پھر بھی ایک ہی درجے پہ ہیں مگر اہلِ علم بڑے چھوٹے کی ایسی تقسیم کا شکار ہیں کہ الامان الحفیظ پروفیسر صاحب کے مطابق یہ کلرکی نظام فرنگی کی دین ہے جو چول پیدا کرنے کی فیکٹری ہے پروفیسر صاحب کہتے ہیں اب رازی، غزالی ،حافظ ،سعدی، اقبال، رومی و جامی، کو نہ پڑھنے سے بھی یہ جنس عام ہوئی ہےمگر اب کیا جا سکتا ہے اب تو اس ساری انسانی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دنیا بھر سے چولوں کو اکھٹا کیا جائے تو یہ آبادی دنیا کا ننانوے فیصد حصہ قرار پائے گا اس میں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے چولوں کی درجہ بندی سے عہدے تقسیم کر کے ایک انتظامی ڈھانچہ ترتیب دے کر اسے “چبلستان” یا” چَوَلستان” جو مناسب ہو نام دے کر پوری دنیا کو ایک ہی ملک ڈیکلیئر کر دیا- اس سے “متحدہ چولستان” معرضِ وجود میں آجائے گا جس میں شرمناک حد تک بڑھی انسانی تقسیم ختم ہو جائے گی- امیر و غریب ،چھوٹے ،بڑے شاعر ،متشاعر، ادیب، خطیب، امیر و غریب، شاہ و گدا نقاد ،محقق، تخلیق کار بینکر ، لشکری بلا امتیاز ہر فرقے رنگ، مذہب، نسل سے تعلق رکھنے والےچاہے مرد ہوں یا عورت بغیر کسی صنفی و جنسی امتیاز کے بلا افراط و تفریط و تفریق چول کہلائیں گے- آپ دیکھتے ہیں کہ چول مارنا انسانی فطرت قرار پائی ہے روز مارنا مجبوری اور مارتے ہیں رہنا عظمت کا وہ گنبد ومینار ہیں جس کو ایک چول پروفیسر نے چول تشبیہ دی ہے- غالب شناسی’ اقبال شناسی کے ساتھ دست شناسی اور اس کے بعد اب چول شناسی کا شعبہ ایک علم کا درجہ اختیار کر گیا ہے – پروفیسر صاحب نے ایک مرتبہ ایک صدر شعبہ کو چول کہہ دیا جس پہ خاص طور پہ مجھے شدید تحفظات تھے مگر ان کا لیکچر سننے کے بعد ان کا سارا وجود چول لگنے لگا میں نے فورا ممدوح کی کتابوں کا آرڈر بک کرایا کہ اتنی بڑی چول کے علم و فن سے فائدہ اٹھانا چاہیے میں معذرت خواہ ہوں کہ میں اپنے عزیز دوست کا اس عنوان سے خاکہ لکھنا چاہتا تھا مگر میں نے مضمون پر ایک اکتفا کیا تو کوئی بات نہیں ایسی چول مولانا حالی سے بھی وج گئی تھی وہ مقدمہ لکھنے بیٹھے تو شعر و شاعری پہ تنقید کی پہلی کتاب لکھ بیٹھے بعد والوں نے مطلع کیا کہ غلطی سے بھی نقل ہی ماری ہے – جیسے کسی سیاح نے غلطی سے امریکہ دریافت کر لیا تھا محققین کے نزدیک یہ تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی چول تھی- ادب کی تو بات ہی اور ہے ادب ادب کھیلتے بزرگوں سے بے شمار چبلیں وجی ہیں جیسے روایت ہے کہ جب محمد حسین آزاد دلی سے بھاگے استاد ابراہیم ذوق کے دیوان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ لگا آزاد بالغ نظر تھے اور خدا ایسی بالغ نظری سے محفوظ و مامون رکھے انہوں نے اپنے استاد کے کلام کی طرف دیکھا کمی کجی پا کر انہوں نے ایک تاریخی چول مارنے کا فیصلہ کیا کہ کچھ اشعار خود سے لکھ کر استاد کے نام منسوب کر دیے مگر زندگی بھر کی مشقت کے بعد ایک شعر بھی ایسا نہ کہ سکے جو دلوں میں زندہ رہ سکے شاید وہ فرنگی کے شاگرد اور اس روایت کے سرخیل بھی تھے جس کا جادو اب سر چڑھ کر بول رہا ہے- لکھنےوالے خود کسی صنف کا تعین نہیں کر سکتے کہ کس میں کیا چول مار رہے ہیں بعض مصنفین نے تو یہ کام کمپوزرز کے ذمے لگا دیا ہے کہ میرے نام کی کتابیں چھاپتے رہو پروفیسر صاحب نے اس روایت سے جل کر اپنے دوست سے کہا بابا! تم نے بہت کتابیں لکھی ہیں کبھی پڑھ بھی لیا کرو- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عظیم فرنگی دراصل عظیم چول تھا دنیا میں چولوں کی نرسری کا اکیلا مالک جس نے چول فلسفی، شاعر، ادیب، محقق ،نقاد ،ماہرِ تعلیم ،سائنسدان، صحافی ، جنگی ساز و سامان پیدا کرنے والے ،صنعتکار، تاجر ،سیاستدان ماہرِ معشیات ماہر اقتصادیات سیاروں ،ستاروں کو مسخر کرنے والےپیدا کیے اور ان کا ماضی، حال، مستقبل اسی کے ہاتھ میں ہے گویا فرنگی چول گر ہے ,جس نے مشرق و مغرب میں چول کاری کو فروغ دیا ہے – بعض چول شناس محققین کے مطابق اس کے نظریات ، علوم ،کتابیں ، مفکر، فلسفی ، دانشور سب چول ہیں اور چول ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں- فرنگی کے آنے سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں یہ جنس نایاب تھی مگر آپ کی آمد سے آپ کی سرپرستی میں یہ جنس خوب چلی اور ایسی رونق لگی کہ اس کی اقتدا میں سب نے اس سے دوری ذلت، پستی ،جہالت جانا اور بیشتر اس کارِ خیر میں شریک ہو گئے – محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بزرگ ہمیشہ چول مارنے کے موڈ میں نہیں ہوتے مگر ان سے قدرتی طور پہ وج جاتی ہے یہ بھی خدائی نظام ہے؛ عمر کے لحاظ سے دانشمندی کا بھی یہی تقاضا ہے- آپ کوئی بھی ڈگری لے لیں جتنا مرضی تعلم یافتہ ہو جائیں علم و حکمت کے موتی رول دیں اگر آپ چول نہیں ہیں تو کسی شعبہ ہائے زندگی میں ترقی نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ کچھ بعید نہیں کہ چولوں کو چول اور چول نواز و چول شناس مل ہی جاتے ہیں- خدا نہ کرے اگر آپ چول نہیں بن سکتے تو سب کاوشیں کارِ بے کار ہیں – پروفیسر صاحب چولوں کے حوالے سے الہام کا شکار ہیں ان کو ملک کے ہر کونے کھدرے میں پڑی ہر بڑی چول کا پتہ ہے دراصل اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں یہ تو ان پہ قدرت کا انعام ہے کہ: ہر دل کو غمِ جاوداں نہیں ملتا پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ اکثر پروفیسرز بھی چول ہیں ایک چول مارتا ہے دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے- دنیا کی بڑی طاقتیں خاص طور پر اس مقصد پہ کام کر رہی ہیں – ادب کا مقصدیت کا شکار ہونا ،عالمگیریت میں دنیا کا گلوبل ویلج بن جانا ,صارفیت، جدیدیت جیسی ہر اصطلاح بلکہ ہر ذہنی فکری اپج اس کی راہ ہموار کرتی ہے اسی لیے دنیا ان عظیم لوگوں سے بھری پڑی ہے یقینی طور پر:
چولوں کی کمی نہیں ہے یہاں
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
اب توشعبوں کے شعبے بھرے پڑے ہیں – سوشل میڈیا کے باعث یہ لوگ اچانک منظر نامے پہ آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں- اسی تاریخی نقطے کے تناظر میں پروفیسر صاحب نے اس کی اہمیت و افادیت کے ملحوظ سرد آہ بھر کر کہا اگر اس سوسائٹی میں Survive کرنا چاہتے ہو تو چول بن جاؤ-