You are currently viewing یوسف حسین خان کی اقبال شناسی

یوسف حسین خان کی اقبال شناسی

ڈاکٹر امتیاز احمد ملک

یوسف حسین خان کی اقبال شناسی

     ڈاکٹر یوسف حسین خان کا  شمار بر صغیر پاک وہند کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کو  اردو، عربی، فارسی، انگریزی،اور فرانسیسی  زبانوں پر عبور حاصل تھا۔  یوسف حسین خان بنیادی طور پر تاریخ کے طالب علم اور استاد تھے۔ وہ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ تاریخ میں بطور پروفیسر ۲۸ سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو زبان ان کا اُوڑھنا بچھونا تھی۔ اردو ادب سے ان کا یہ عشق مختلف تصانیف کی صورت میں نمودار ہوا۔ انہوں نے اردو ادب میں مختلف موضوعات پر قلم اُٹھا کر محب اردو ہونے کا ثبوت دیا۔ اردو ادب میں ان کی شناخت بحثیت محقق اور نقاد کے ہے۔ انہوں نے جن موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے ان میںحافظ، غالب، اقبال، حسرت، اردو غزل، فرانسیسی ادب، ترجمہ نگاری، کاروان فکر،اور سوانح عمری شامل ہے۔

یوسف حسین خان نے ان تصانیف میں نہایت عمدگی اور ناقدانہ بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔اردو غزل میں انہوں نے غزل کے تمام لوازمات سے بحث کی ہے۔ اردو غزل پر جو اعتراضات حالی کے وقت سے چلی آ رہی تھی ان کا مدلل انداز میں جواب دیا تھا۔ اردو غزل میں یوسف حسین خان نے غزل کی وکالت کی اور اس کتاب میں وہ غزل کے روشن مستقبل کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ’’ فرانسیسی ادب‘‘ میں انہوں نے فرانس کی تاریخ، وہاں کی ثقافت ، طرز معاشرت ، اور فرانس کی تحریکات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ ’’فرانسیسی ادب ‘‘ اردو ادب میں اس موضوع پر لکھی گئی پہلی تصنیف ہے۔غالب پر لکھی گئی ان کی تصانیف ’’غالب اور آہنگ غالب ‘‘ اور ’’ غالب اور اقبال کی متحرک جمالیات ‘‘ غالب شناسی میں ایک عمدہ اضافہ ہیں۔اپنی خودنوشت سوانح عمری ’’ یادوں کی دنیا‘‘ میں انہوں نے اپنی حالات زندگی کے ساتھ ساتھ بہت سارے تاریخی موضوعات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ’’یادوں کی دنیا‘‘ نہ صرف ان کی خودنوشت ہے بلکہ اس عہد کی تاریخ بھی ہے۔

یوسف حسین خان کا شمار اردو ادب کے بلند پایہ ادیبوں و نقادوں میں ہوتا ہے۔ بطور اقبال شناس بھی ان کا مقام کافی بلند ہے۔ اقبال پر ان کی تین کتابیں ’’روح اقبال‘‘  ’’ حافظ اور اقبال‘‘ اور ’’غالب اور اقبال کی متحرک جمالیات‘‘ شامل ہیں۔ اقبالیات پر اردو ادب میں جن حضرات نے قلم اُٹھایا ہے۔ ان کی فہرست طویل ہے۔ ان میں نمایاں نام  یوسف سلیم چشتی، غلام رسول مہر، خلیفہ عبدالحکیم،یوسف حسین خان ، کلیم الدین احمد ، عزیز احمد اور جگن ناتھ آزاد شامل ہیں۔ یوسف حسین خان کی اقبالیات پر لکھی ہوئی

 کتابیں اقبال شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اقبالیات کے حوالے سے جن ادبا نے ابتدا میں تصانیف لکھی ہیں ۔ ان میں مولوی احمد الدین کی کتاب ـ’’ اقبال‘‘ ، خلیفہ عبدالحکیم کی ’’فکر اقبال‘‘ اور یوسف حسین خان  کی ’’ روح اقبال ‘‘ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ وہ ابتدائی کتابیں ہیں جنہوں نے اقبال شناسی کی راہ ہموار کی۔ ’’ روح اقبال ‘‘ کو یوسف حسین خان نے ۱۹۴۱ء میں تحریر کیا۔اقبال کے حوالے سے ان کی یہ تصنیف ایک شاہکار کی  حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اقبال پر تب قلم اُٹھایا جب اقبال پر بہت کم شخصیات نے قلم اُٹھایا تھا۔اس حوالے سے سید صباح الدین عبد الرحمٰن  اپنی تصنیف ’’ بزم رفتگاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔

’’ غالب کو سمجھانے میں اولیت کا جو  درجہ حالی ؔ کی ’’یادگار غالب ‘‘ کو ہے۔ وہی اقبال کو سمجھانے میں ’’روح اقبال‘‘ کا ہے۔‘‘ (۱)

 ’’روح اقبال‘‘ کو یوسف حسین خان نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب  اقبال اور فن،  دوسرا باب  اقبال کا فلسفہ تمدن ، تیسرا باب اقبال کا فلسفہ مذہب ہے۔ ان ابواب کے تحت یوسف حسین خان نے اقبال کے فکر وفن کا احاطہ کیا ہے اور جگہ جگہ اقبال کے فارسی اور  اردو کلام کو سامنے رکھ کر ان کی بہترین انداز میں ترجمانی کی ہے۔اقبال  کے نزدیک فن یعنی آرٹ کی کیا اہمیت ہے اس پر روشنی ڈالی ہے۔اقبال کے نزدیک وہی فن عمدہ اور قابل ستائش ہے جو زندگی کے مختلف پہلووُں میں رہنما ثابت ہو۔اقبال نے اپنی شاعری میں فن کے تمام لوازمات کا خیال رکھا ہے  اس کے لئے انھوں نے کافی محنت اور ریاضت کی ہے۔اسی ریاضت کو انہوں نے خون جگر سے تعبیر کیا ہے۔یوسف حسین خان نے اقبال کے نظریہ عشق اور عقل پر بھی تبصرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اقبال کے یہاں عشق کو عقل پربرتری حاصل ہے۔ اقبال عشق اور عقل دونوں کی اہمیت کے قائل ہیں اور  دونوں کو ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم  قرار دیتے ہیں۔

یوسف حسین خان نے اقبالؔ کے شاعرانہ مسلک پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ان کے مطابق  اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کسی ایک نظریہ یا فکر کی حامل نہیں تھی۔ انہوں نے اقبال کی شاعری میں رومانیت، کلاسکیت، تصوریت، اور حقیقت پسندی کے رجحانات کو ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق اقبال کے یہاں مختلف فکری دھارے مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ یوسف حسین کے مطابق  اقبال کی ٖفکر  اور فن پر کوئی ایک لیبل لگانا ان کے  فن کی  توہین ہے۔ یہ سب باتیں مصنف نے جزبات میں آکر نہیں لکھی ہیں بلکہ انہوں نے تحقیق سے اپنی بات کو ثابت کیا ہے۔ان کے نزدیک اقبال بیک وقت مختلف الجہت فن کار نظر آتا ہے۔  اس کے علاوہ  انہوں نے کلام اقبال کی بہت ساری خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں اقبال  کے تخیل، ان کے تخلیقی پیکر ، شاعرانہ مصوری ، اور  تشبیہات کے استعمال پر سیر حاصل بحث کی ہے۔  اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے فطرت کی تصویر کشی کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں۔ اقبال کو تخلیقی پیکر بنانے میں کمال حاصل تھا۔ اقبال نے تشبیہات کو شاعری میں برت کر اسے  نئے ڈکشن سے متعارف کیا۔ اس معاملے میں انہوں نے غالب کے انداز بیان کا تتبع کیا۔  یوسف حسین  خان  کے مطابق اقبال تشبیہات  کا بادشاہ ہے۔ انھوں نے اقبال کی غزل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اقبال نے غزل کو بھی وسعت سے ہمکنار کیا۔ غزل کے میدان میں بھی  اقبال نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ اقبال کی غزلیں حسن ادا کی دلکشی ، غنائیت، اور سہل ممتنح کی عمدہ  مثالیں ہیں۔ اقبال نے اپنی غزلوں کے ذریعے فکری تسلسل کے کامیاب تجربات کئے ہیں۔

یوسف حسین خان نے اقبال کے فلسفہ تمدن کا گہرائی اور گیرائی سے  جائزہ لیا ہے۔ اس میں انہوں نے اقبال کے نظریہ خودی کی بہترین انداز میں ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے اقبال کے فلسفہ خودی  پر اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ  مشرقی اور مغربی  مفکرین کے اثرات کو بھی واضح کیا ہے۔ جن میں مولانا روم، عبدالکریم جیلی ، نطشے، اور  فشٹے شامل ہیں۔ اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھاتے ہوئے انھوں نے اس کے  مفہوم ، تمام مباحث  اور روایت کو  واضح کیا ہے۔ اقبال کی شعری تخلیقات جن میں اسرار خودی، رموزبیخودی، گلشن راز جدید،  کا تجزیہ کر کے اقبال کے فلسفہ خودی کا مکمل خاکہ پیش کیا ہے۔  اقبال کی شاعری مقصد پسندی کی شاعری ہے ۔انہوں نے شاعری کے ذریعے عمل اور امید کا پیغام دیا۔ اس میں انھوں نے مذہب ، اخلاق ، اور عمل  تینوں چیزوں کو  ناگزیر قرار دیا۔ یوسف حسین خان نے اقبال کی عظمت آدم کے متعلق خیالات پر روشنی ڈالی۔ اقبال کے مطابق انسان کائنات کا شاہکار ہے۔ مصنف نے اقبال کے فلسفہ خودی کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفہ رموز بیخودی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اس بحث میں رموزبیخودی  کے تمام موضوعات کا بھر پور انداز میں جائزہ لیاہے۔ اقبال کے کلام میں تاریخ کی بڑی اہمیت ہے۔ مذہب کے بعد تاریخ اقبال کی شاعری کا دوسرا بڑا اہم موضوع ہے۔ یوسف حسین خان کے مطابق اقبال کے یہاں تاریخ ماضی کے عمدہ اور زریں اصولوں کو سمجھنے اور تاریخ کے مثالی واقعات کو سمجھنے اور ان سے بصیرت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقبال کے مرد مومن اور انسان کامل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اور اس کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ اقبال کا انسان کامل مذہب ، اخلاق ، اور عمل کا پابند ہے۔ اس کے علاوہ یوسف حسین خان نے اقبال کے انسان کامل اور نطشے کے فوق البشر کے فرق کو بھی مدلل انداز میں واضح کیا ہے۔

اقبال کے فلسفہ تمدن میں یوسف حسین خان نے نظری مباحث کے بعد عملی مباحث پر بحث کی ہے۔  انہوں نے یہ واضح کرنے کی

 کوشش کی ہے کہ اقبال کس نظام کے خواہاں تھے۔ اقبال اس نظام کے معترف نظر آتے ہیں جس کو تاریخ نے خلافت راشدہ کے نام سے اپنے سنہرے الفاظ میں محفوظ کرلیا ہے۔ یہ نظام دنیا کے  ایک بہت بڑے حصے پر قایم رہا۔ اس نظام کے ذریعے سماج میں معاشی برابری قایم ہوئی تھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اقبال کے نظریہ اجتہاد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جو اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزُ تھا۔ اجتہاد کے ذریعے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی اور ربط پیدا ہوتا ہے۔ اقبال اجتہاد کے بڑے مبلغ تھے۔ وہ دور جدید میں اجتہاد کو اسلام کی تعبیر نو قرار دیتے ہیں۔  یوسف حسین خان نے اقبال کے مذہبی اور مابعد الطبیعی تصورات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں انہوں نے اقبال کے انگریزی خطبات تشکیل جدید ا لہیات اسلامیہ کی بہترین انداز میں تشریح کی ہے۔یہاں اُنہوں نے اقبال کے ان فلسفیانہ تصورات کا سائنٹفک انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ وہ اقبال کے ان فلفیانہ تصورات کو اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب تصور کرتے ہیں۔

یوسف حسین خان نے اقبال کے فلسفہ مذہب کا جائزہ بھی لیا ہے۔ کلام اقبال میں قرآنی احکامات، اور دیگر اسلامی علوم کی روشنی میں تقدیر اور زمانہ، مسلہ جبر و اختیار،معراج نبویﷺ ، خودی، عشق اور موت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ مذہب اقبال کی شاعری کا بنیادی پتھرہے۔ مذہب کے توسط سے اقبال نے دور جدید کے سیاسی ، معاشی، اقتصادی، اور فلسفیانہ افکار کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔  رضی الدین صدیقی مقدمہ روح اقبال میں رقمطراز ہیں۔

’’یہ کتاب اقبال کے تمام اساسی خیالات پر حاوی ہے۔اور اس طرح حقیقی معنوں میں اس کے کلام کا نچوڑ ہے‘‘ (۲)

’’روح اقبال ‘‘ اقبال شناسی میں ایک منفرد حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ اقبالیات کے میدان میں اس کے بعد جن محققین نے قلم اُٹھایا انہوں نے ’’روح اقبال‘‘ سے اکتساب فیض حاصل کیا۔ اردو ادب کے نامور نقاد احتشام حسین نے اس کتاب کی اہمیت پر ان الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔

’’یہ محدود یک طرفہ تبصرہ  ہونے کے باوجود اب تک اقبال پر سب سے اچھی کتاب ہے ‘‘۔ (۳)

اقبالیات کے موضوع  پر یوسف حسین خان کی دوسری اہم تصنیف ’’حافظ اور اقبال ‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے تقابلی تنقید سے کام لیا ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔  پہلا باب حافظ اور اقبال ، دوسرا باب حافظ کا نشاط عشق ، تیسرا باب اقبال کا تصور عشق، چوتھا باب حافظ اور اقبال میں مماثلت اور اختلاف، اور پانچواں باب محاسن کلام ہے۔ دیباچے میں مصنف نے کتاب کو لکھنے کی غرض و غایت کو بیان کیا ہے۔ حافظ اور اقبال کے درمیان یہ تقابلی مطالعہ اپنی نوعیت کا پہلا کارنامہ ہے۔ یوسف حسین خان نے  دونوں عظیم شعرا کے عہد کے سماجی ،سیاسی، معاشی اور ادبی حالات پر روشنی ڈالی ہے۔ حافظ اور اقبال کو  ان کے اپنے ادوار میں بود وباش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دونوں کی فکر اور نظریات کا احاطہ کیاہے۔ دونوں شاعروں کے نظریہ عشق پر روشنی ڈالی  ہے۔ حافظ کے نشاط عشق میں مجاز اور حقیقت دونوں کی پرتیں دکھائی ہیں۔ ان کے مطابق حافظ کا نشاط اور سرمستی کاہے۔اس کے بر عکس اقبال کا عشق متحرک اور مقصد پسندی کا حامل ہے۔ حافظ اور اقبال کے درمیان مماثلت اور اختلاف کی بہت ساری  باتوں کو اجاگر کیا ہے۔ حافظ  اور اقبال کے درمیان مماثلت اور اختلاف کی بہت ساری باتوں کو ا جاگر کیا ہے۔ حافظ اور اقبال کو لے کر عوام میں جو غلط فہمیاں اور ادبی بدمزگی پیدا ہوئی تھی ۔ مصنف نے تحقیق کا سہارا لے کر ان غلط فہمیوں کا بہترین انداز میں ازالہ کیا ہے۔ یوسف حسین خان کے مطابق اقبال کی حافظ پر تنقید فکری سطح کی تھی ورنہ اسلوب اور ٖفن کے معاملے میں اقبال نے حافظ کا تتبع کیا ہے۔ اقبال نے ایک مکتوب میں یہاں تک فرمایا ہے۔ کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔  دونوں شاعروں کے درمیان میں جو اختلاف تھا اس کی وجہ یوسف حسین خان نے دونوں شاعروں کے مختلف ادوار کو قرار دیاہے۔ اختلاف کی یہ وجہ ثابت کرنا یوسف حسین خان کی تنقیدی بصیرت کی روشن مثال ہے۔

یوسف حسین خان کی تنقیدی نگارشات میں کسی ایک دبستان تنقیدی کا اثر نہیں ملتا۔ ان کی تنقید میں مختلف تنقیدی تصورات ملتے ہیں۔ ان کو مختلف زبانوں پر مہارت حاصل تھی جن میں اردو ، فارسی، عربی، انگریزی، اور فرانسیسی شامل ہیں۔ ان تمام زبانوں کے ادبیات اور تنقیدی سرمایے کا انہوں نے بغور مطالعہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریں اعلی پایہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں دیگر مشرقی اور مغربی ادبیات سے بھی شغف تھا۔ اصطلاحی زبان پر انہیں مہارت حاصل تھی۔ یہی رنگ ان کی تمام نگارشات میں نظر آتاہے۔ سب سے زیادہ انہوں نے غالبیات اور اقبالیات کے موضوع پر لکھا۔ غالب اور اقبال کو تشریحی انداز سے سمجھانے میں انہیں امتیاز حاصل ہے۔ یہ تشریحی انداز ان کی تمام تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کے ساتھ ان کا تاریخی شعور بھی لاجواب تھا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں تاریخ دانی کا بھر پور استعمال کر کے بہت سارے  حقایق پر سے پردہ اُٹھایاہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوسف حسین خان نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا  ہے۔ بے باکی، غیر جانبداری ، توازن ،اور اعتدال کو ملحوظ رکھاہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج اردو داں طبقہ اتنے بڑے نابغہ اور مخلص ادیب کو فراموش کر چکی ہے ۔ ایسے بلند پایہ ادیبوں کو  فراموش کرنا ایک بہت بڑاالمیہ ہے۔ دور حاضر میں ایسی ہی غلطیاں اردو ادب کے زوال کا سبب بن چکی ہیں۔

حوالہ :

(۱)  سید صباح الدین عبد الرحمٰن    بزم رفتگان    صفحہ نمبر ۲۵۷

(۲)رضی الدین صدیقی          مقدمہ روح اقبال   صفحہ نمبر ۱۳

(۳) سید احتشام حسین         روح اقبال ایک تبصرہ  صفحہ نمبر ۲۱

***

Leave a Reply