You are currently viewing اردو میں ما بعد جدید تنقید

اردو میں ما بعد جدید تنقید

محمد باقر حسین

اسسٹنٹ پروفیسر

شعبہء اردو

گورنمنٹ کالج ٹونک(راجاستھان)

موبائل نمبر: 9214000097

ای میل: baquir97@gmail.com

 ڈاکٹر الطاف انجم کی کتاب” اردو میں ما بعد جدید تنقید

(اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات)”  : ایک تعارف

تلخیص

(عہد حاضر میں ما بعد جدید تنقید   اصولوں میں الجھ کر رہ گء ہے لیکن  اس اصولِ تنقید  اور اس کے اساس  تنقیدی تصورات کوان کی اطلاقی امثال اور ادق اصطلاحات  کے ساتھ   واضح اور سہل انداز میں  ادب کے قارئین کے سامنے ڈاکٹر الطاف انجم نے ” اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات) ”کے عنوان سے کتابی شکل میں پیش کیا  ہے۔زیر نظر مقالہ   میں اس کتاب کا تنقیدی  تجزیہ تحریر کیا  گیا ہے۔اس  مقالہ میں  تنقید کی تعریف، اقسام: نظریاتی اور عملی تنقید، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی تعریف،تاریخ،خصوصیت،امتیازات اور اصطلاحات   اور جدید  اور ما بعد جدید تنقید کے زیرِ  اثر   اردو میں رائج ہونے والے دوسرے تنقیدی نظریات جیسے نء تنقید، قاری اساس تنقید، ردِّ تشکیل تنقید، نئی تاریخیت، بین المتونیت، امتزاجی تنقید، اکتشاقی تنقید، ساختیات اور پس ساختیات  کے ہر پہلو کاتنقیدی  جائزہ لیا گیا  ہے۔)

کلیدی الفاظ: تنقید،ما بعد جدید تنقید،تھیوری، التوا،فلسفہ،متن،نقاد، تکثیریت، معنی، شعریات

             اردو میں  ما بعد جدیدتنقید کے اصول و ضوابط پر بہت کچھ لکھا گیا ہے  لیکن ڈاکٹر الطاف انجم کی کتاب ”اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات)” اس موضوع  پر اہم اور مستند   تصنیف ہے۔ کتاب کے ابتدائی اوراق میں  غالبؔ اور ذوقؔ کے اشعار کے ساتھ علامہ اقبالؔ کا اقتباس  بھی  شامل کیے گیے ہیں۔ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے: پہلا باب” اکیسویں صدی میں ادبی تنقید”، دوسرا باب ”اردو میں جدیدیت اور نئے تنقیدی تصورات”، تیسرا باب ”اردو میں ما بعد جدیدیت اور تھیوری”، چوتھا باب ”ما بعد جدید تھیوری: اطلاقی مثالیں، مسائل  ممکنات ”اور پانچواں باب ”اردو میں تھیوری سازی اور نمائندہ ناقدین” ہیں۔ ہر باب کیآخر میں حوالہ جات  بھی اندراج ہیں۔ کتاب کے فلپ پر پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر محی الدین قادری زور کاشمیری اور پروفیسر ناصر عباس نیّر کے تاثرات درج  ہیں۔مصنف نے اس کتاب کے عنوان اور اس کتاب کو لکھنے کا مقصد کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے:

” میں نے نئی ادبی اور تنقیدی Paradigm سے اپنی دلچسپی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس عنوان یعنی اردو میں مابعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل اور ممکنات)  پر باضابطہ کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔”(۱)

             یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ  ڈاکٹر الطاف انجم کی کتاب کافی عرق ریزی اور خاص مطالعے کے بعد لکھی گئی ہے۔ کتاب میں اس تاثر کی بھی نفی کی گئی ہے کہ اردو میں ما بعد جدید تنقید کی اطلاقی مثالیں موجود نہیں ہیں۔ مصنف  نے نہ صرف اس مکتبِ تنقید کے  عملی نمونے پیش کئیہیں بلکہ مختلف کتابوں اور رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا حوالہ بھی مہیا کرایا ہے۔ علاوہ ازیں اس تھیوری کے زیر اثر اردو میں شامل دیگر تھیوریز اور دبستانِ تنقید کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔

            ڈاکٹر الطاف انجم نے کتاب کے پہلے باب”اکیسویں صدی میں ادبی تنقید(مناصب و مقاصد)”میں تنقید کی تعریف بیان کی  ہے اور اس کو ادب کا دماغ بتایا ہے۔ مصنف نے جدید نقادوں کی بیان کردہ تنقید کی تعریفوں کے اقتباسات بھی پیش کئے ہیں۔   اس کے بعد تنقید کی دو اقسام نظری  تنقیدا ور عملی تنقید کی تعریف بیان کی،اور ان کی وضاحت کے لیے شمس الرحمن فاروقی کا ایک اقتباس پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ تنقیدی نظریہ سازی کے لیے فعال رہنے والے نقادوں کے اسمائے گرامی بھی تحریرکیے  گئے ہیں۔ مصنف نے عملی تنقید کے دائرہ کار کو تین  ”ت” کے نام سے موسوم کیا: تبصرہ،  تربیط اور ترسیل۔ ڈاکٹر الطاف انجم نے اس باب کے آخر میں تخلیق اور تنقید کے باہمی رشتہ کی وضاحت بھی کی ہے اوردونوں کو  ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر الطاف انجم لکھتے ہیں:

            ”تنقید و تخلیق کے حوالے سے گفتگو کو سمیٹیں تو دونوں کو ایک دوسرے کے لیے جز و لائفک قرار دینا پڑے گا البتہ تخلیقی ادبی اپنی شعریات کے مطابق وجود میں آتا ہے اور تنقیدی ادب بھی اپنے تقاضوں کی رُو سے لکھا جاتا ہے۔”(۲)

            کتاب کا دوسرا باب ”اردو میں جدیدیت اور نئے تنقیدی تصورات کی آمد” کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ مصنف نے اس باب میں جدیدیت کی تاریخ، جدیدیت اور جدّت میں فرق، جدیدیت بطور فلسفہ اور اس کی فلسفیانہ اساس کے تین اہم نکات عقلیت، داخلیت اور خود مختاریت ر  پرمدلل انداز میں بحث کی ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ وجودیت کے فلسفے کو جدیدیت کی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس فلسفے کے بنیاد گزاروں میں کرکے گارڈن کا نام اہم ہے۔ گارڈن نے اجتماعیت کے مقابلے میں فردیت کے تصور پر زور دیا ہے۔ جدیدیت  نے جہاں فن کار کو آزادی عطا کی ہے وہیں فن پارے کو خود کفیل قرار دیا ہے۔اردو میں جدیدیت کی شروعات 1957 میں ہوئی اس کے بنیاد گزاروں میں ن۔م۔ راشد ؔ، میرؔاجی،آلِ احمد سرورؔاور شمس الرحمن فاروقی کے اسمائے گرامی شمار کیے جا سکتے   ہیں۔ آلِ احمد سرورؔ نے جدیدیت کو ”آدمی کی تلاش” کہا ہے۔ ان ناقدین نے نہ صرف نظم و نثر کا مزاج و معیار تبدیل کیا بلکہ ان کی شعریات، لفظیات اور اصطلاحات بھی وضع کی ہیں۔  جدیدت  کا اصنافِ ادب میں ناول اور افسانے اور غزل پر گہرا  اثر ہوا۔ مختلف اصناف سخن میں فنی تجربے کیے گئے، کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ کو قبول نہیں کیا گیا۔ڈاکٹر الطاف انجم جدیدیت کا منفی  پہلوبتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جد درجہ ابہام اور علامت کے استعمال سے متن کی تفہیم عام قاری کی دسترس میں نہیں رہی اور معنی کی تبلیغ و ترسیل میں دشواری پیش آئی۔جدیدیت کو فروغ دینے میں شب خون، تحریک اور شاعر وغیرہ رسائل نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ مصنف نے لطف الرحمن کے حوالے سے جدید اصطلاحات کی درجہ بندی کی ہے اور تیس اصطلاحات کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔

            جدیدیت میں متن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اسی سبب  مصنف نے اس سے تین مکتبِ تنقید کو وابستہ کیا ہے: ہیتی تنقید، نئی تنقید اور ساختیاتی تنقید۔تینوں ہی دبستان نقد تاریخ، معاشرے، مصنف، سوانح اور سماج سے منقطع  ہو کرصرف متن کو قابلِ التفات سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ قاری کے ذاتی تاثرات کو بھی متن کے تجزیے اور تعبیر میں شامل نہیں کرتے۔ ان کے مطابق متن آزاد اور خود مکتفی ہے۔ اس باب میں تینوں نظریات کی تاریخ، شعریات، اصول و ضوابط، اردو میں ان کا رواج، اطلاقی مثالیں، اہم نقاد اور تینوں میں بنیادی فرق کو مدلل اور مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں دبستانِ نقد میں فرق واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر الطاف انجم لکھتے ہیں :

            ”ساختیاتی تنقید ادبی مطالعے کو ثقافتی مطالعہ قرار دیتی ہے۔ وہ براہِ راست متن پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اس نظام کی تلاش و جستجو کا سفر کرتی ہے جس کی روسے متن میں معنی تشکیل ہو جاتے ہیں۔ ان بنیادوں پر ساختیاتی تنقید، روسی ہیت پسندی اور نئی تنقید سے الگ ہو جاتی ہے کیونکہ موخر الذکر دونوں تنقیدی دبستانوں کا سارا زور ادب کی ادبیت اور اس کی خود مختاریت پر تھا۔”(۳)

            علاوہ ازیں مذکورہ تنقیدی رجحانوں کی ادق اصطلاحات مثلاً  اجنبیانیت  (Defamiliarization)، پلاٹ (Sujet)، کہانی (Fable)،لانگ(Langue)، پارول(Parole)،  دال (Signifier)  اور  مدلول(Signified) وغیرہ کی وضاحت بھی آسان اور عام فہم انداز میں تحریر کی ہیں۔

            تیسرا باب ” اردو میں مابعد جدیدیت اور اس کے تنقیدی نظریات” عنوان سے لکھا گیا ہے۔ اس باب کے بارہ ذیلی عنوان ہیں۔ مصنف  نیابتدائی پانچ عنوانات میں ما بعد جدیدیت کی ماہیت اور اصول و ضوابط پر سنجیدہ اور معتبر ناقادین  کی تحریروں کی مدد سے مدلل بحث کی ہے۔ وہیں دوسری جانب جدیدیت اور ما بعد جدیدیت میں فرق واضح کیا ہے۔ ڈاکٹر الطاف انجم جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان مماثلت اور مغائرات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

            ”ما بعد جدیدیت کو سمجھنے کے لیے جدیدیت ہی معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے……….ما بعد جدیدیت میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو جدیدیت کا طرہ? امتیاز تھے جیسے تخلیقی آزادی۔”   (۴)

ڈاکٹر الطاف انجم   ما بعد جدیدیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ ایسا نظریہ ہے جو کسی نظریہ کو حتمی اور واحد متصور نہیں کرتا بلکہ تکثیریت (Pluralism)  پر اصرار کرتا ہے۔ اس میں ہرقسم کے نظریے کو پیش نظر رکھ کر متن پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر الطاف انجم کا ماننا ہے کہ ما بعد جدیدیت کی کوئی حتمی تعریف نا ممکن ہے۔   انہوں  نے مابعد جدیدیت کو سمجھانے کے  لییکل دس نکات کتاب میں تحریر کیے ہیں،جن کی مدد سے ما بعد جدیدیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مصنف نے بائیس اصطلاحات دال، مدلول، بین المتونیت اورنئی تاریخیت وغیرہ بھی اندراج کی ہیں۔ ان اصطلاحات کو  ما بعد جدید تھیوری  میں کلیدی  حیثیت حاصل  ہے۔اسی باب کے آخری سات ذیلی عنوانات میں ما بعد جدیدیت کے بنیادی اساس کے تنقیدی نظریات  پس ساختیاتی تنقید، نئی تاریخیت، تانیثی تنقید،قاری اساس تنقید، بین المتونیت، امتزاجی تنقید اور اکتشاقی تنقید کی تاریخ، مبادیات، اصطلاحات اور اردو میں ان کا رواج  پر تفصیلی  سیبحث کی ہے۔ڈاکٹر الطاف انجم نے  بتایا ہے کہ  پس ساختیات کے موّجد  رولاں بارتھ ہیں اور وہ ’مصنف کی موت‘ کا اعلان کرکے متن کو خود مکتفی اور آزادقرار دیتے ہیں، وہیں ژاک دریدا  ردّ تشکیل تنقید میں معنی کو التوا میں مانتے ہیں اور لفظ مرکزیت / تحریر کو صوت مرکزیت/ تقریر پر فوقیت دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ متن میں معنی کی تکثیریت کا فلسفہ ردّ تشکیل تنقید کے زیرِ اثر آیا ہے۔ نئی تاریخیت کا بنیادی مقصد ادبی متون اور تاریخی ثقافت کے مابین رشتہ قائم کرنا ہے۔ اسی طرح قاری اساس تنقید  قاری کی آرا کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ وہیں بین المتوینت متن پر متن لکھنے کا عمل ہے مثلاً پریم چند کے ناول ”گو?دان” کا  کردار’بجوکا‘ جدید ادب میں سریندر پرکاش کے افسانے ”بجوکا” اور ما بعد جدید شاعری میں ارشدؔ عبد الحمید کے اشعار کا کردار ہے۔ مصنف نے اس با تا بھی ذکر کیا کہ اکتشافی تنقید اور امتزاجی تنقید دونوں ہی مشرقی تصورات ہیں۔ان کے موجّد اور بانی کار بالترتیب پروفیسر حامدی کاشمیری اور وزیرآغا ہیں۔ اس باب میں موصوف نے ما بعد جدیدیت اور اس سے وابستہ تنقیدی نظریات  نہایت سہل انداز میں تحریر کئے ہیں۔

            چوتھا باب ”ما بعد جدید تھیوری (اطلاقی مثالیں، مسائل اور ممکنات)” ہے۔ ڈاکٹر الطاف انجم نے اس باب کو تین ذیلی عنوان میں تقسیم کیا ہے۔ اس میں اردو میں تھیوری کے تحت پیش کئے گئے عملی تنقید کے نمونوں کا جائزہ لیا ہے۔ یہ باب قاری کے لیے  اہم ہے کیو نکہ  ان تنقیدی رویوں کے نظری مباحث  اردو میں  موجود تو ہیں لیکن ان کے عملی تنقید کے نمونے کم یاب اور مختلف رسائل اور جرائد میں بکھرے ہوئے تھے۔ مصنف  نے عرق ریزی اور ذمہ داری کے ساتھ اردو فکشن اور شاعری کے حوالے سے ان کاذکر کیا اور بطور مثال پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر ناصر عباس نیّر اور محمود ایاز وغیرہ کے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ ان نظریات کی عملی تنقید سے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شافع قدوئی، پروفیسر ناصر عباس نیّر اورپروفیسر قاضی افضال حسین کی کتابوں کے نام مع ناشر اور سنہ اشاعت اندراج کیے ہیں۔علاوہ ازیں ڈاکٹر الطاف انجم نے  مابعد جدیدتھیوری کے اطلاقی مسائل اور ممکنات پر  بحث و تمحیص کی ہے۔ اور آخر میں ”خلاصہ بحث” کے تحت   چاروں ابواب کا لب لباب  پیش کیا ہے۔

              پانچویں باب میں موصوف نے اْن ناقدین کی ادبی خدمات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ما بعدجدید تھیوری اور اس سے منسلک تنقیدی تصورات کی اردو میں نظریہ سازی کی ہیاور ان کے عملی نمونے پیش کیے ہیں۔ اس باب میں  پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر  وزیر آغا، پروفیسر شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر ناصر عباس نیّرکو نظریہ سازوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے  جب کہ پروفیسر قاضی افضال حسین، پروفیسر وہاب اشرفی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی، پروفیسر  عتیق اللہ اور پروفیسر قدوس جاوید وغیرہ کی ادبی خدمات اور تنقیدی نگارشات کا اجمالی جائزہ  لیا گیا ہے۔ اِن ناقدین نے ما بعد جدید تھیوری کی افہام و تفہیم اور ابلاغ و ترسیل میں سنجیدگی  سے کام کیا ہے۔ ان کی نگارشات اردو میں معتبر و مستند تسلیم  کی  جاتی ہیں۔

            کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ  ڈاکٹرالطاف انجم نے جگر کاوی اور تلاشِ بسیار کے بعد کتاب کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ما بعد جدید تنقید کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب کی اہم خوبی یہ ہے کہ موصوف نے نہ صرف اردو میں ما بعد جدیدیت اور اس کی اساس تنقیدی تصورات کی اطلاقی مثالوں کو یکجا کر کے پیش کیا ہے بلکہ ان سے منسلک ادق اصطلاحات کی فہرست بھی اندراج کی  ہیں اور عام فہم انداز میں ان کی وضاحت بھی  کی ہیں۔  میری رائے   یہ ہے کہ  اس کتاب  کویونیورسٹی اور کالج سطح پر نصاب  میں شامل کیا جانا چاہیے۔جس سے  طلبہ کو تنقید جیسے خشک موضوع کو  سمجھنے  میں آثانی ہو اور وہ اس میں دلچسپی لے سکیں۔

حوالہ جات:

۱۔         اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات) از  ڈاکٹر الطاف انجم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوئس دہلی،۴۱۰۲،ص۔۸۱

۲۔         اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات) از  ڈاکٹر الطاف انجم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوئس دہلی،۴۱۰۲،ص۔ ۵۴

۳۔         اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات) از  ڈاکٹر الطاف انجم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوئس دہلی،۴۱۰۲،ص ۳۴۱۔۲۴۱

۴۔         اردو میں ما بعد جدید تنقید (اطلاقی مثالیں، مسائل و ممکنات) از  ڈاکٹر الطاف انجم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوئس دہلی،۴۱۰۲، ص۔۴۱۲

***

Leave a Reply