
ڈاکٹر ستیہ پال آنند
انا للہ و انا الیہ راجعون
ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا
اپنے کندھوں پر اٹھائے
آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں
بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی کے لئے
بے حد ضروری تھا اٹھاؤں
اور گھر سے دور جا کر دفن کر دوں
یہ حقیقت تھی کہ کوئی واہمہ تھا
پر یہ بدبو دار لاشہ
صرف مجھ کو نظر آتا تھا جیسے
ایک نادیدہ ہے چھلاوا جو مرے پیچھے لگا ہو
میرے کنبے کے سبھی افراد اس کی
ہر جگہ موجودگی سے بے خبر تھے
صرف میں تھا جسے یہ
ٹکٹکی باندھے ہوئے بے نور آنکھوں سے ہمیشہ گھورتا تھا
آج جب میں
اپنے ماضی کا یہ مردہ دفن کر کے آ گیا ہوں
کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا
حال بھی جیسے تڑپتا لمحہ لمحہ مر رہا ہو
اور مستقبل میں جب یہ حال بھی ماضی بنے گا
مجھ کو پھر اک بار اس مردے کو کندھوں پر اٹھائے
دفن کرنے کے لئے جانا پڑے گا
(شعری مجموعہ میری منتخب نظمیں،ستیہ پال آنند،صفحہ 418)