You are currently viewing اپنی اپنی زنجیر

اپنی اپنی زنجیر

افسانہ

اپنی اپنی زنجیر

کالی آنکھوں میں کو ندا سالپکا۔ اور مجھے ایسا لگا جیسے ایک لمحے میں ایک صدی گزرگئی ہو اور دو غزال چوکڑی بھرتے، پہاڑوں کی چوٹیوں کو پھلانگتے ہوئے دُور نکل گئے ہوں ۔

میں نے کہا ” مارگریٹ ، پہاڑ تو ان سیاہ قوی ہیکل دیوں کی طرح ہیں جو خوب صورت شہزادیوں کو اپنے قلعوں میں قید رکھتے ہیں ۔ اب دیکھے نا ،کا لگیری ایک پہاڑی شہر ہے، راکی پہاڑیوں کے کینیڈین سلسلے کے بیچوں بیچ  ایک قلعہ جیسا۔ یہاں کے رہنے والے تو ایک نظر میں ہی پہچانے جاتے ہیں ، لیکن اس ٹورسٹ سیزن میں باہر سے آئے ہوئے سیاحوں میں زیادہ تعداد خوب صورت دوشیزاؤں کی ہے۔ اور آپ بھی تو ان ہی میں سے ایک ہیں ؟‘‘

اس با رسفید موتیوں کی لڑیوں جیسے دانت اچانک چمک اٹھے ۔ وہ مسکرائی ۔پھر آہستہ سے ہنسی ۔’’ میں تو اس شہزادی کی طرح ہوں جسے ہر برس اس کا شہزادہ ان دیووں کی قید سے آزادی دلا کر دوبارہ میدانوں اور شہروں کی طرف لے جاتا ہے اور جو ہر برس پھر خوشی خوشی ان کی قید میں بن بلائے آجاتی ہے ۔

’’ اور وہ شہزادہ اس برس کون ہے ؟‘‘

شاید اسے میرے لفظوں میں طنز کی جھلک نظر آئی ۔ وہ سنبھل گئی اور تہذیب اور اخلاق کی اس زبان میں جسے ہم’ کنگس انگلش ‘کہتے ہیں۔ بولی’’ اشارے کی زبان میں بات کرنا ایک طرح مناسب بھی ہے اور غیر مناسب بھی ۔ دیکھئے نا، اب آپ میرا مطلب غلط سمجھ گئے ۔‘‘

میں نے دو سگریٹ سلگائے ۔ ایک اسے دیا ، جسے اس نے اپنے پہلے نرم ہاتھوں کی مخروطی انگلیوں میں تھام لیا۔ دوسرا ہونٹوں میں لے کر میں نے لگاتار چار پانچ کش لیے۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ ’کل پیپر ‘ہوٹل کی سیڑھیوں تک پھیلے اور چیرنگ کر اس، کو غلاف میں لیے ہوئے بادل اب میرے دماغ سے چھٹ گئے ہیں تو میں نے ایک بھر پور نظر اس پر ڈالی ۔

’’کا ویہ مٹی کو مل سی ناری ‘‘ مجھے اپنی ایک ہندی غزل کا ایک مصرع یا دآیا ۔

لمبی ،خوب صورت ، نرم و نازک سی ایک گوری لڑکی جسے بہت آسانی سے غلط سمجھا جا سکتا تھا۔ جود و گھنٹے پہلے مجھ سے متعارف بھی نہیں تھی۔ میری شکل بھی جس کے لیے اجنبی تھی ۔ اپنا نام مارگریٹ کارلوسکی بتانےکے بعد جس نے میرا نام ابھی تک نہیں پوچھا تھا۔ صرف یہ پوچھا تھا کہ میں عرب ہوں یا ہندوستانی یا ایرانی۔ پہلی بار مجھے اس کے گورے رنگ اور سیاہ آنکھوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوا تھا کہ وہ اطالوی ہسپانوی ہے ،لیکن نام کی مناسبت سے اس کے جرمن یا ہنگرین یا پولش ہونے کا ثبوت ملتا تھا۔ جس نے ہاتھ ملانے کے بعد ایک ساتھ کافی پینے کی دعوت فوراً قبول کرلی تھی۔

لمبی ، خوب صورت ، نرم و نازک سی ایک گوری لڑکی جو اگرگوری نہ ہوتی تو ہندوستانی حسن کا بہترین نمونہ تصور کی جاتی۔ پہلی بار وہ مجھے ان خوب صورت لڑکیوں کی طرح ہی دکھائی دی تھی ۔ جس ۔ جن کو دیکھتے ہی ذہن میں چغتائی کی تصویروں کے ہلکے ہلکے نقش تیرنے لگتے ہیں لمبی، پتلی کمان سی خم کھائی ہوئی بھویں ۔غزالوں کی آنکھوں اور ان میں خوابیدہ سی شبیہہ ، جیسے وہ آنکھیں آس پاس کے ماحول سے کہیں دور کچھ اور بھی دیکھ رہی ہوں ۔

اور یہ ’’کاو یہ مٹی کومل سی ناری اب میرے ساتھ ’کل پیپر‘ ہوٹل کے پارلر میں بیٹی تھی ۔ اور ہم کافی پی رہے تھے ۔

’’تم نے میرا نام تو پوچھا ہی نہیں ۔۔‘‘میں نے پوچھا۔

وہ سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے ایک گورے نوجوان کی طرف دیکھ رہی تھی، جو دائیں بائیں کچھ ڈھونڈتا ہوا ،بے تاب نظروں سے ہر میز پر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’ ایک منٹ رکیے۔‘‘ وہ مجھ سے بولی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے ایک ہاتھ مضمحل سے انداز سے پیشانی پر رکھا۔ میں سمجھا کہ شاید وہ چکرا کرگرنے والی ہے لیکن وہ اس نوجوان کی ان بڑھ گئی۔

 ایک منٹ میں وہ اسے ساتھ لیے میری میز پر لوٹ آئی۔ اس نے ایک کرسی کھینچ کر بڑے تحمل اور آرام سے اس نوجوان کو بٹھایا۔ ایک لمحے کے لیے اس کی کرسی کے پیچھے کھڑی رہی پھر خود بھی بیٹھ گئی۔

   مجھے احساس ہوا کہ میں بن بلایا سا لگتا ہوں۔ میرا تعارف نہیں کروایا گیا ۔ اس کی توجہ مکمل طور پر اس گھبرائے ہوئے سے نوجوان کی طرف تھی جس نے ایک لمحے کے لیے آنکھ اٹھا کر میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

میں نے کہا ،’’اچھا میں چلتا ہوں ، پھر ملیں گے۔ بائی بائی ۔‘‘

وہ کچھ نہیں بولی بیرا آیا اور میں نے بل پر دستخط کیے تو اس نے ایک کپ کافی لانے کا آرڈر دیا۔ کچھ پل بعد بیرے نے کپ نو جو ان کے سامنے رکھا اور جب وہ کپ پر نظر جمائے ہوئے کافی پینے لگا تو اس نے ایک لمبا سانس لیا، میری طرف دیکھا اور کہا ،’’بائی ۔ پھر ملیں گے۔‘‘

میں بو جھل قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل آیا ۔

کا لگری عجیب جگہ ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں کوہ پیما، سیاح اور کنیڈا کے طول و عرض سے سیر و سیاحت کی غرض سے یا تعطیلات منانے کے لیے آئے ہوئے لوگ اس شہر کو رونق تو بخشتے ہی ہیں، اس کے ساتھ اس کے قدرتی حسن کو پامال بھی کرتے ہیں۔ ہر چند کہ آنے والے لوگوں میں زیادہ تر گورے ہی ہوتے ہیں تو بھی دولت کی فراوانی کچھ جرائم پیشہ لوگوں کوبھی یہاں کھینچ لاتی ہے جو موقع ملنے پر ہاتھ کی صفائی دکھانے سے باز نہیں آتے ۔ اس لیے جب میں ہوٹل سے نکلا اور لگ بھگ پچاس قدم آگے بڑھا تو میں نے دو مشکوک سے نوجوانوں کو قدم قدم چلتے ہوئے اپنے ہمراہ پایا۔ ایک نوجوان جو حبشی نژاد تھا۔ میرے دائیں طرف تھا اور دوسرا جو گورا تھا ،بائیں طرف، اچانک گورے نوجوان نے چلتے چلتے رو مال میں لپٹی ہوئی پستول میری بغل میں ایسے ٹکائی جیسے ایک دوست دوسرے دوست سے بغل گیر ہوتے ہوئے چلتا ہے ۔ آہستہ سے اس نے کہا ،’’بٹوا میرے ساتھی کے حوالے کر دو ۔‘‘

ایسے موقعوں پر جان بچانے کے لیے بہادری کی نہیں۔ بزدلی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

سائیلنسر لگے ہوئے پستول کو بغل میں محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا ،’’گولی نہ چلانا۔ میں اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے کوٹ کی جیب سے بٹوا نکالوں گا اور تمہارے ساتھی کو تھما دوں گا لیکن تم مایوس ہو گے یہ دیکھ کر کہ اس میں صرف پچاس ڈالر ہیں ۔‘‘

میں نے آہستہ سے بٹوا نکال کر اس کے حبشی نژاد ساتھی کو تھما دیا جو فوراً رفوچکر ہوگیا ۔ گورا نوجوان اسی طرح میرے ساتھ چلتا رہا۔

’’جس لڑکی کے ساتھ تم کافی پی رہے تھے، اس کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’کچھ بھی نہیں ــــمیں تو اس سے پہلی بار ہی ملا ہوں ۔‘‘ میں نے سچی بات کہنے میں عافیت سمجھی۔

 ’’ اس سے دور رہو ــــبہتر یہ ہے کہ اپنی جان بچا ؤاور کالگری سے بھاگ جاؤ ۔‘‘

’’کیوں ؟ ‘‘میرے ڈر میں اب صریحاً  کمی ہو رہی تھی۔ ’’اس سے دو رکیوں رہوں ؟‘‘

اس نے پستول کی نوک ذرا سختی سے میری بغل میں چبھوئی ۔ دیکھو تم گورے بھی نہیں ہو اور کالے بھی نہیں ہو ۔باہر کی دنیاکے لگتے ہو تمہارے اندر سمجھ بھی نہیں ہے مافیا کا نام کبھی سنا ہے؟‘‘

 ’’ نہیں، میں نے نہیں سنا۔‘‘ میں نے جھوٹ بولا ۔

’’پوچھ لیناکسی سے اب میں تمہیں چھوڑ کربائیں طر ف کی گلی میں مڑ جاؤں گا ۔میرا ساتھی ایک دروانے کی اوٹ سے تمہیں نشانہ بنائے ہوئے ہے، اس لیے کوئی بےوقوفی کی حرکت نہ کرنا۔ نہیں تو تمہاری لاش  یہاں تڑپتی نظر آئے گی ۔‘‘

 اور وہ ایک لمحے میں ہی رخ بدل کر گلی میں مڑ گیا۔

بارہ برس تک کینیڈا میں رہنے کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ معمولی رہ زنی ’’مِکنگ‘‘ (سر پر وزنی چیز مار کر جیبیں خالی کرکے لے جانا)ایسے جرائم ہیں جن کے لیے پولیس تک جانا اس وقت تک ضروری نہیں جب تک پاسپورٹ یا کریڈٹ کارڈ یا کوئی اور اشد ضروری دستاویز نہ شامل ہو۔ اس لیے میں بدستور اسی چال سے چلتا رہا اور اپنی گھبرا ہٹ تیز سانسوں اور پیشانی پر چمکتےہوئے پسینے کے قطروں سے بے نیاز رہا ۔ ایک کیفے میں داخل ہو کر اور ایک خالی میز پر بیٹھ کر جب میں نے ساری حالت کا جائزہ لیا تو مجھے دو باتوں کا شدت سے احساس ہوا ۔

پہلی بات یہ کہ مجھ سے بٹوا ،چھیننے والے دونوں رہ زن صرف رہ زنی کے لیے نہیں آئے تھے ،حالانکہ میرے روپے لے لینا انہوں نے غیر مناسب نہیں سمجھا تھا۔

دوسری بات یہ کہ وہ دونوں کسی نہ کسی طرح اس لمبی، گوری کالی ،آنکھوں والی اطالوی نژاد لڑکی پر خفیہ نظر رکھے ہوئے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اجنبی اس سے تعلق بڑھائے ۔ ان کی دھمکی مجھے جان سے مار دینے کی تھی۔ مافیا کی طرف اشارہ اس بات کا مظہر تھا کہ ن کا یا اس لڑکی کا براہ راست تعلق امریکہ اور کینیڈ کی اس غیرقانونی انڈر گراؤنڈ،خفیہ اور بے حد خطرناک آرگنا نائزیشن سے تھا، جسے کچھ خاندان کنٹرول کرتے ہیں اور جس کے پروگرام میں حارج ہونا، یا جس کی مرضی کے خلاف چلنا یقیناً موت کو دعوت دینا ہے۔ کوئی بھی نارمل شہری مافیا کے نام سے اس طرح گھبراتا ہے جیسے انجانے میں ہی اس نے سانپ کے پھن پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔

اس لیے میری گھبراہٹ قدرتی تھی ۔

لیکن بارہ برس تک کنیڈا میں رہ کر میں خود اتنے خطروں کو جھیل چکا ہوں اتنی مصیبتوں سے دوچار ہوا ہوں مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ میں اگر اس معاملے کی تہہ تک پہنچا تو مجھے ذہنی سکون نہیں ملے گا ۔اگر میں ایک انڈسٹریل سیکورٹی کمپنی کے ڈائر یکٹر کے عہدے تک بہت دوڑدھوپ کے بعد پہنچ سکتا ہوں، اگر اس دوڑ میں کئی آدمیوں کو پیچھے چھوڑسکتا ہوں اور سینکڑوں خطروں کو مول لے سکتا ہوں تو اس سیاہ آنکھوں والی لڑکی اور اس کے ساتھی نوجوان کے بارے میں کھوج کرنا شاید میرے لیے اتنا مشکل مرحلہ ثابت نہ ہوگا۔

’ہاں ، میں نے سوچا میں ضرور کوشش کروں گا ۔لیکن مجھے محتاط رہنا پڑے گا۔‘

’کیوں؟ میری ذات کے دوسرے حصے نے مجھ سے سوال کیا۔ یہ کیوں ضروری ہے کہ میں اس بارے میں معلومات اکٹھی کروں ؟ کیا وہ لڑکی مجھے اتنی پسند ہے کہ میں اس سے دوستی کا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہوں ؟‘

’شاید یہ اندازہ درست ہے ۔‘ مجھے خود سے جواب ملا۔مجھے یہ معلوم کرنا ہی پڑے گا کہ وہ کون ہے ؟ ابنارمل سے دکھائی دینے والے نوجوان سے اس کا کیا رشتہ ہے ؟ جن دو نوجوانوں نے مجھ سے میرا بٹوا چھینا اور جو مجھے موت کی دھمکی دے گئے، وہ کیا واقعی مافیا سے تعلق رکھتے ہیں ؟ اور اگر ایسا ہے تو وہ لڑکی کس طرح مافیا سے متعلق ہو سکتی ہے ؟‘

کل پیپر ہوٹل کے ایک پورٹر کو دس ڈالر کا نوٹ اتنا پسند آیا کہ وہ پانچ منٹ میں ہی ساری کہانی سنا گیا۔ مارگریٹ کا رلوسکی اور اس کے ساتھی نوجوان کے پاس ہوٹل کا سب سے قیمتی سویٹ تھا جس کی بکنگ ’جان دانتے‘ کے نام پر دس دن پہلے کی گئی تھی اور ابھی گیارہ دن اور چلنی تھی۔ جان دانتے شاید اس نوجوان کا نام تھابکنگ کے بل کی ادائیگی شایدپیشگی بھی کردی گئی  تھی۔ لیکن شراب کھانا اور دیگر سہولتوں کے بل اور بیروں کے ٹپ کیش ادا کیے جارہے تھے جو پورٹر کے لیے ایک عجیب بات تھی۔

’’صاب ، عام طور پر ہوٹل میں ٹھیرنے والے لوگ کریڈٹ کارڈ استعمال ہی کرتے ہیں ۔ یہ بہت کم دیکھا گیا ہے کہ ہوٹل کی خدمات کے بلوں کی ادائیگی کیش میں ہو۔ لیکن یہ دونوں … ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ نوجوان میز پر بچوں کی طرح ہی آئس کریم یا چا کلیٹ کے لیے ضد کرتا ہے ۔‘‘

’’ کیا وہ دونوں شادی شدہ ہیں ؟‘‘

’’کیسے ہو سکتے ہیں صاب ؟ وہ اپنا نام مارگریٹ کا ر لوسکی لکھتی ہے اور نوجوان کا نام جان دانتے ہے ۔‘‘

کل پیپر ہوٹل کے دوسرے پورٹر نے دس کا نوٹ دیکھ کر نظر انداز کر دیا ۔پھر جب میں نے ایک ایک ایک کے تین نوٹ اور نکالے تو اس نے کہا، ’’ ملنے تو کوئی نہیں آتا لیکن ٹورنٹو سے فون اکثر آتے ہیں۔ بات میڈم بھی کرتی ہیں ۔۔۔۔میں نے ایک دوبار سنا بھی ۔عام طور پر ٹورنٹو سے بولنے والا شخص نوجوان کی خیریت ہی دریافت کرتا ہے اور بار بار پوچھتا ہے کہ وہ خوش ہے کہ نہیں ؟ ‘‘

’’کیا نوجوان پاگل ہے ؟ ‘‘میں نے پوچھا ۔

’’جی نہیں میں نے اسے کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور ڈسکو میں ڈانس تو روز ہی کرتے ہیں۔ ہاںــــ‘‘ اس نے اختیاط سے کہا،’’شاید ہو بھی سکتا ہے ۔‘‘

اس کے بعد میں نے مارگریٹ کے سویٹ کا نمبر دے کر ہوٹل کے ایکسچینج کوفون کیا تو فوراً بات ہو گئی ۔ مارگریٹ نے کہا،’’ آپ سے مل کر اس دن کی بات کی معافی مانگنی ہے ۔ آپ آکیوں نہیں جاتے؟ آج شام چار بجے آجائیے۔‘‘

میں ہوٹل پہنچا تو سروس ڈیسک سے معلوم ہوا کہ سویٹ نمبر ۳۰۳ سے فون پر کوئی جواب نہیں مل رہا ہے۔ شاید سو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ہدایت ہے کہ آپ آئیں تو آپ کو اوپر بھیج دیا جائے ۔

میں تیسری منزل پر پہنچا ۔گیلری سے گزرا۔ پھر میں نے سویٹ نمبر ۳۰۳ کا دروازہ آہستہ سے دھکا دیا ۔چٹخنی نہیں لگی ہوئی تھی۔ دروازہ کھل گیا۔ مگراند راندھیرا تھا۔

میں نے پکارا ،’’ مارگریٹ ! ‘‘

جواب میں مارگریٹ کی جگہ نوجوان کی آواز سنائی دی۔ وہ بڑبڑا رہا تھا : ’’ ایک کا ایک ہی رہا۔ کہتی تھی کہ چار بن جائیں گے۔ جھوٹ بولتی ہے ۔ بہت جھوٹی ہے ۔ اب فون پر پاپا سے بات ہوئی تو ضرور شکایت کروں گا۔‘‘

میں غیر قدرتی باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔ مگر پاگلوں سے مجھے ہمیشہ ڈر لگتا ہے میں نے ہاتھ بڑھا کر سوئچ دبا دیا ۔کمرے میں روشنی ہوگی ۔ یہ بیٹھنے اٹھنے کا باہری کمرہ تھا۔ سامنے قیمتی صوفے پر نوجوان اکڑوں بیٹھا تھا وہ بالکل اکیلا تھا۔ مارگریٹ شاید اندر تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس نوجوان کے ہاتھ میں ایک سیب تھا۔

واپس جانا مناسب نہ سمجھ کر میں آگے بڑھا اور صوفے پر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ مسکراتے ہوئے میں نے کہا ،’’کیا بات ہے؟ کیا شکایت کرو گے مارگریٹ کی ؟‘‘

اس نے غصے سے میری طرف دیکھا۔ پھر سیب کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے مجھے دکھایا ،’’کہتی تھی کہ اگر میں سو جاؤں تو ایک کے چار سبب بن جائیں گے۔ بہت جھوٹی ہے۔ جھوٹ بولتی ہے اور پھر مجھ سے کہتی ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔‘‘

اسی وقت مارگریٹ کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ اندر کے کمرے سے آرہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے سیب تھے، جو اس نے آتے ہی نوجوان کے پاس صوفے پر رکھ دیے۔

’’ ان بچوں کو اندر سے پکڑ کرلائی ہوں۔‘‘ وہ اس سے بولی،’’  یہ اپنے باپ سیب سے ڈر کر اندرسونے والے کمرے میں بھاگ گئے تھے ۔‘‘

نوجوان کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔’’  ونڈر فل! ایک کے چار بن گئے ۔‘‘ وہ تالیاں پیٹتے ہوئے بولا۔

’’اب سو جاؤ جان ! اندر جا کر سو جاؤ ! اٹھو گے تو چار کے پانچ بن چکے ہوں گے ۔‘‘

جب جان اٹھ کر اندر چلا گیا تو مارگریٹ نے مجھ سے کہا ،’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ اس شہزادے کی طرح ہیں جو شہزادی کو دیو کی قید سے چھڑانا توچاہتا ہے، لیکن قیمت ہوتے ہوئے بھی اس کے پاس قلعہ تک پہنچنے کے لیے ہوائی گھوڑا نہیں ہے ۔‘‘

میں نے جرأت کی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا ی،’’ مان لو۔‘‘میں نے کہاکہ،’’ میں ایک بار شہزادی کو چھڑانے کے بعد اسے اپنے قلعہ میں پھر قید کر دوں تو ؟‘‘

اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہی رہنے دیا۔ ایک منٹ تک بالکل چپ رہی، پھر بولی ،’’ آپ انڈیا کے ہیں مجھے علم ہے کیا آپ انڈیا واپس جاکر وہاں بسنا پسند کریں گے ؟‘‘

میں ہکا بکا رہ گیا۔ بات شہزادی کو قید سے چھڑانے کی تھی، میرے انڈیا واپس جاکر میرے بسنےکی نہیں ۔’’ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ میں سجھا نہیں ؟‘‘

اس نے ایک گہرا سانس لیا ۔’’ رہنے دیجیے۔ آپ نہیں سمجھیں گے ۔‘‘

’’لیکن میں سمجھنے کی کوشش تو کر سکتا ہوں ؟‘‘

’’تو میرے سوال کا جواب دیجیے۔‘‘

اس نے میرے چہرے پر اپنی نظریں جما دیں، جیسے وہاں کچھ پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو۔

میں انڈیا واپس جا کر نہیں بس سکتا، مارگریٹ ۔‘‘میں نے کہا۔ اور پھرمیں نے یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ایک بے کار نوجوان کی طرح میں کیسے کنیڈا پہنچا اور کیسے میں نے اس نئے ملک میں اپنی معاش کا راستہ خود بنایا اور اب جب کہ میں ساٹھ ہزار ڈالرسالانہ تنخواہ تک پہنچ چکا ہوں، انڈیا لوٹنےکے بعد تین ہزار روپیہ ماہانہ کی ملازمت بھی نہیں پاسکتا۔ اور اگر چلا جاؤ ں تو مجھے کنیڈا کی شہریت اور سکونت چھوڑنی پڑے گی۔

 اسی لیے میں نے کہا کہ،’’ شہزادے کے پاس ہمت تو ہے، ہوائی گھوڑا نہیں ہے۔‘‘  وہ بولی،’’ خیر اپنا فون نمبر اور ایڈریس دے جائیں ۔ مجھے آپ کے لیے کچھ بھیجنا ہے ۔

آدھے گھنٹے کے بعد میں ہوٹل سے نکل کر شاہ راہ تک پہنچا تو میرے پرانے دوست حاضر تھے۔ میرے دائیں اور بائیں منکر اور نکیر کی طرح چلتے ہوئے گورے نوجوان نے مجھ سے کہا، ’’کوئی بے وقوفی  مت کرنا، انڈین نوجوان ! ہم تم سے صرف بات کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘

’’بولو۔ میں سن رہا ہوں ۔‘‘ میں نے کہا۔

اپناہاتھ اپنی  بغل میں لٹکے ہوئے ریوالور کیس سے ذرادور ہی رکھو ؟‘‘ وہ بولا ،’’ہمیں علم ہے کہ تم  انڈسٹریل سیکورٹی میں ہو اور تمہارے پاس خود کا ریوالور ہے ،لیکن کوئی بے وقوفی مت کرنا ۔‘‘

’’بولو۔‘‘میں نے پھر کہا۔

’’تو  سنوـــــ آلیوتی دانتے کانام سنا ہےکبھی؟ نہیں سناتو سمجھ لو کہ وہ مشرقی کینیڈا کے پو رے علاقے کے مافیا گھرانے کا چیف ہے ۔ہم اسی کے آدمی ہیں۔ اب پوری بات سمجھ لو۔ مارگریٹ جس نوجوان کی رکھیل ہے وہ آلیوتی کاپوتا ہے اور وہ دماغی طور پر بچہ ہے۔ اس کی ذہنی نشونما نہیں ہوتی۔ مارگر یٹ اس برس ہی نہیں، پچھلے چار برسوں سے اس کی خوشی کا خیال رکھتی ہے۔ تمہاری مارگریٹ میں دل چسپی تمہارے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔‘‘

میں چپ رہا تو وہ پھر بولا،’’ تمہارا بٹوہ جو ہم  نے لیا تھا۔ واپس کر رہے ہیں۔ یہ صرف تمہاری پہچان کے لیے تھا۔ اس میں تمہارے ڈار اور تمہارا ڈرائیونگ لائسنس اسی طرح رکھا ہے۔ اسے میں تمہاری جیب میں ڈال رہا ہوں ۔ اس کے بعد اگر مارگریٹ کے آس پاس منڈلاتے دیکھے گئے تو گولی مار دوں گا ۔بہتر ہوگا کہ کا لگیری سے آج ہی بھاگ جاؤ۔‘‘

میں خاموش چلتا رہا۔ جب منکر اور نکیرمیرا ساتھ چھوڑ گئے تو میں ایک بار پھر ایک کیفے میں د اخل ہو گیا۔ مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ میرے تین ہفتے کی چھٹی میں سے  بارہ دن پہلے ہی گزر چکے ہیں اور مجھے نودن کے بعد کام پر حاضر ہونا ہے۔ مجھے اس بات کا بھی احساس اتنی ہی شدت سے تھا کہ مارگریٹ سے ملنا اب یقیناً اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔ مارگریٹ شاید نہ چاہتے ہوئے بھی مافیا کے چیف کے اس قدر زیر اثر تھی کہ اس کے پوتے کی جنسی ضروریات کا آلہ ٔکا بننے کے لیے مجبور تھی ۔جان دانتے کا پورا شجرۂ نسب تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن آلیوتی دانتے کے نام سے مناسبت اس بات کی دلیل تھی کہ وہ اسی خاندان سے ہے۔

کیا میں، ایک ہندوستانی جو اپنے چھتیسویں برس میں قدم رکھ چکا تھا، جس کے پاس ایک معقول نتخواہ والی نوکری اور اس نوکری پر منحصر ایک خوب صورت مستقبل کے سوا اور کچھ نہیں تھا ،جس نے اپنی ہندوستانی جڑیں مدت ہوئی کاٹ دی تھیں، جو ایک گھر بسانے کے خوش آئند خواب دیکھنے کا آرزومند صرف اس لیے ہوا تھا کہ مارگریٹ میں اس نے اس بے مثال مشرقی حسن کا نمونہ دیکھا تھا جو مغربی عورتوں میں کہیں نہیں ملتاکیامیں جان کی بازی لگا کر مارگریٹ کو آزاد کروا سکتا ہوں ؟ کیا یہ ممکن ہے ؟

اور اگر ایسا ممکن ہے تو کینڈا یا امریکہ میں میرا یا مارگریٹ کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ شاید اسی لیے مارگریٹ نے مجھ سے دو بار یہ سوال کیا تھا کہ کیامیں انڈیا واپس جا کر وہاں کی شہریت اور سکونت اختیا کر سکتا ہوں۔

 مجھے پسینہ آگیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ہلکی ہلکی حرارت ہو۔ بخار کا احساس ہوا تو میں نے ٹیکسی لے کر گھر جانے کا ارادہ کیا۔ گھر پہنچا توجو پہلی چیز مجھے نظر آئی وہ ایک بڑا پیکیٹ تھا جو کو رئر سروس کا ہرکارہ دروازے کے سامنے رکھ گیا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا پیکٹ کے نائیلون دھا گے کاٹےتو اندر سے ایک لفافہ بر آمد ہوا ۔ ایک چٹھی مارگریٹ کی طرف سے تھی اور دو چار کول اسکیچ تھے۔

لفافے کو ایک طرف رکھ کر میں نے پہلے چار کول اسکیچ دیکھے، جو مارگریٹ کے ہی بنائے ہوئےتھے۔ ایک میں بپھرتے ہوئے سمندر کے بیچوں بیچ ایک قلعہ بنا ہوا تھا، جس کی ایک کھڑکی میں سے ایک خوب صورت لڑکی جھانک رہی تھی ۔ جیسے دور افق پرکسی غیر مرئی چیز کو تلاش کر رہی ہو۔ دوسرے اسکیچ میں پروں والے گھوڑے پر سوار یک شہزادہ قلعہ کی دیواروں سے ٹکرا کر نیچے سمندرمیں گر رہا  تھا  اور شہزادی کی کھڑکی کے دروازے بند تھے۔

خط میں لکھا تھا:’’ تم اگر انڈیا سے آکر مجھے اپنے ملک لے جاتے تومیں خوشی خوشی تمھارے ساتھ گھوڑے پر تمھارے پیچھے بیٹھ جاتی لیکن تم خودبھی ایک قیدی ہو۔ ہم دونوں کی قید کی کوٹھریاں الگ  الگ ہیں۔میں ایک حیوان کی ہوس کا شکار ہر روز بنتی ہوں ۔تم حالا ت کے قیدی ہو اور کنیڈا نہیں چھوڑ سکتے ۔الوداع میرے شہزادے! میں آج شام واپس ٹورنٹو جارہی ہوں ۔‘‘

 لفافےمیں کچھ اور بھی تھا۔ وہ ایک فوٹوگراف تھا۔ مارگریٹ کی ایک بہت خوب صورت تصویرجس میں  اس کی سیاہ آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ کاکیشئین ہوتے ہوئے بھی کہیں اس میں مشرقی خون کی آمیزش ضرور ہے۔

اور اس وقت ایک بار پھر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے فوٹوگراف جی اٹھا ہو اور کالی آنکھوں میں کوندا سا لپکا ہو اور دو غزال چوکڑی بھرتے ہوئے راکی پہاڑوں کی چوٹیوں کو پھلانگتے ہوئے دور نکل گئے ہوں۔

 میں ایک آہ بھرنے کے سوا اور کچھ نہ کر سکا۔

Leave a Reply