You are currently viewing ساڑی کا مزدور

ساڑی کا مزدور

محمد سالم سریانوی

ایم اردو شبلی کالج اعظم گڑھ یوپی، انڈیا

ساڑی کا مزدور!

          رمضان کی آمد آمد تھی، ہر طرف خوشی اور تیاری کا ماحول تھا، ’’جلالو‘‘ بھی بہت خوش تھا، اس کی آنکھوں میں چمک تھی، وہ اپنے گھر والوں کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ آج اُسے اپنی تیار کردہ ساڑی ’’گرہست‘‘ کے یہاں لے جانا تھا، یہ ساڑی محض ایک ساڑی نہیں ہوتی تھی، بل کہ اس میں اس کا خون پسینہ شامل ہوتا تھا، وہ ساڑی اس کی زندگی کا خواب ہوتی تھی، ہفتہ دس دن کی محنت ومشقت کے بعد ایک ساڑی تیار ہوتی اور وہ اسے لے کر اپنے گرہست کے یہاں جاتا تھا۔

          جس دن ’’جلالو‘‘ کو ساڑی لے جانا رہتا اس کی خوشی دیدنی ہوتی تھی؛ کیوں کہ وہی اس کی ضروریات کی تکمیل کا سبب تھی، آج اس کوخوشی عام دنوں سے کچھ زیادہ تھی، اس لیے کہ مزدوری سے ملنے والی رقم سے رمضان کی تیاری کرنی تھی، سحری وافطاری کا انتظام کرنا تھا، چناں چہ وہ تیار ہوا اور ساڑی لے کر منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوگیا۔

          جلالو کچھ ہی دیر میں خوشی خوشی اپنے گرہست کے یہاں پہنچ گیا،وہاں ساڑی دینے کے بعد اپنی باری کا انتظار کرنے لگا؛ رمضان قریب ہونے کی وجہ سے بھیڑ تھی۔جب اس کی باری آئی تو اس نے اپنی ساڑی چیک کرائی، مگر اس بار کچھ ’’قیل وقال‘‘ بھی ہوا، ایک جگہ چیک کرنے والے نے نشان زد کردیا کہ یہاں یہ عیب کیوں ہوا؟ اس کی وجہ سے مزدوری کٹے گی۔ جلالو نے کچھ کہنے کی کوشش بھی کی، مگر اس کی بات اَن سنی کر دی گئی، جب کہ وہ بہت معمولی عیب تھا، جس کا مارکیٹ کے اعتبار سے کوئی نقصان نہیں تھا۔

           بہر کیف ! جلالو نے اپنا حساب لیا اور وہاں سے مزدوری لے کر چل دیا، چوں کہ رمضان کی شروعات کا موقع تھا، اس لیے

ہر کوئی اپنی ضروریات کی تکمیل میں مصروف تھا، جلالو کے اندر بھی کچھ خواب تھے جو ادھورے تھے اور وہ اس کی تکمیل کا خواہش مند تھا، اس نے اسی مناسبت سے رقم کا مطالبہ کیا، لیکن اسے اتنی رقم نہیں ملی، کیوں کہ اب تک اس نے یہی ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اس کے باوجود بحث ومباحثہ اور سوال وجواب سب عبث اور بے کار ہوتا ہے، حالاں کہ جس رقم کا وہ مطالبہ کر رہا تھا وہ اس کی اپنی ہی رقم تھی، کسی قرض کا مطالبہ نہیں کر رہا تھا، مگر اس کے باوجود اس کی سننے والا کون ہوتا ہے؟

          خیر! جلالو کو جتنی رقم مل گئی، اس کو غنیمت سمجھا اور اسی کو لے کر وہاں سے نکل کر اپنے مقصود کے پورا کرنے میں جُٹ گیا۔ بازار سے اس نے رمضان کی تیاری اور دیگر ضروری سامان خریدے، کچھ بچوں کے لیے بھی لیا اور وہاں سے گھر چلا آیا۔

          جلالو ایک ادنی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، کوئی پراپرٹی یا بزنس نہیں تھا، بس ایک ہینڈ لوم تھا، جس سے روزینہ حاصل کرتا تھا، اسی پر اس کا اور اس کے گھر والوں کا گزر بسر تھا، بس زندگی گزر رہی تھی، ماں کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا، بیوی ساتھ تھی، بڑی سلیقہ مند اور با حوصلہ، ہر موقع پر جلالو کا ساتھ دیتی تھی، بوڑھا باپ زندہ تھا، مگر اَمراض نے کسی کام کا نہیں چھوڑا تھا، بس زندگی کے بقیہ ایام ایک کھاٹ پر پڑے پڑے گزر رہے تھے، جلالو کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، جن کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری مستقل تھی۔

           بُنائی میں جلالو کی بیوی ہاتھ بٹاتی تھی، جب ساڑی تیار ہو جاتی تو جلالو اپنے گرہست کے یہاں لے جاتا اور جو مزدوری ملتی اس سے ضروریات کا سامنا خریدتا اور گھر واپس ہو جاتا۔ اس کی مزدوری اتنی تھی کہ بس گھر کا خرچہ کسی طرح چل جاتا تھا، الگ سے رقم نہیں بچ پاتی تھی، خدا کے فضل سے جلالو خود دار تھا، اسی لیے محنت اور کمائی سے روزی حاصل کرتا تھا۔ ورنہ آج کل جو صورت حال ہے اس میں وہ بہت زیادہ گداگری کا محتاج تھا، مگر استغنا اور خود داری نے اس کو بچا رکھا تھا۔

          ساڑی کی بنائی میں مشکلات تھیں، مگر جلالو مرتا کیا نہ کرتا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چار نہیں تھا، مگر مزدوری کی کٹوتی اور دن بدن گھٹتی مزدوری اس کی مشکلات میں اضافہ کر رہی تھی؛ اس لیے کہ اِدھر مزدوری میں ہر کچھ مہینے کے بعد کمی کر دی جاتی تھی اور دوسری طرف مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا رہتا تھا، اس کشمکش نے اس کو بہت زیادہ پریشان کر رکھا تھا، اس کشمکش سے

ضرورتوں کی تکمیل میں وقت گزرنے کے ساتھ پریشانی ہی بڑھتی جارہی تھی، مگر جلالو کسی طرح اپنا کام چلا رہا تھا۔

………………

          رمضان کے ایام چل رہے تھے، سب کی طرح جلالو کا بھی وقت گزر رہا تھا؛ بالآخر رمضان کا نصف حصہ گزر گیا، اب عید کی ضروریات سامنے تھیں، کپڑے، چپل، موزے، جوتے اور دیگر کئی طرح کے سامان لینے تھے؛ تاکہ اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشی کو اچھی طرح منا سکے۔ جلالو حسب معمول ساڑی تیار کرتا تھا اور اس کو گرہست کے یہاں پہنچا دیتا تھا، جو رقم مل جاتی اسی میں اپنا اور اہل خانہ کا خرچ چلاتا تھا، اب نصف رمضان گزرنے کے بعد اس کی ساڑی مکمل ہوئی اور اسی کے ساتھ ’’تانی‘‘ بھی پوری ہو چکی تھی، اس بار ساڑی دینے کے بعد پوری تانی کا حساب کرنا تھا اور جمع شدہ رقم وصول کرکے عید کی تیاری اور دیگر خوابوںکو پورا کرنا تھا۔

          جلالو ساڑی لے کر اپنے گرہست ’’سلّو‘‘ کے یہاں پہنچ چکا تھا،اس کی آنکھوں میں چمک تھی، وہ بہت خوش تھا؛ کیوں کہ آج اس کو مکمل تانی کی مزدوری ملنے والی تھی، جس میں اس کی ہر ساڑی کے پیچھے کی جمع رقم بھی شامل تھی، اس کے دل میں بہت ساری تمنائیں اور آرزوئیں تھیں، وہ اپنی دنیا میں مست ومگن تھا۔

           ’’سلو‘‘ گرہست کے یہاں کافی بھیڑ تھی، اس لیے اس نے ساڑی دے دی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا، لیکن اندر باری کے انتظار میں بھیڑ کی وجہ سے الجھن ہورہی تھی، اس لیے وہ باہر نکل آیا، یہاں کئی لوگ تھے، کچھ اپنی باری کے انتظار میں اور کچھ یوں ہی اطراف کے لوگ تھے، جلالو کے باہر نکلتے ہی اس کا ایک دوست کمالو جو پرائمری میں ساتھ پڑھا تھا، ملا، اچانک کی ملاقات سے دونوں بہت خوش ہوئے، دونوں وہیں کھڑے کھڑے باتیں کرنے لگے، ایک دوسرے کی خیر خبر اور تبادلۂ خیال شروع ہوا۔

          قریب میں ایک ہوٹل تھا، جلالو نے کمالو کو ساتھ لیا اور اس ہوٹل میں پہنچا، دونوں نے چائے کی چسکیاں لیں اور کچھ دیر تک گفتگو میں مشغول رہے، جلالو : دوست کیا حال ہے؟ اب کیا کیا کر رہے ہو؟ پرائمری کے بعد پہلی مرتبہ ملاقات ہورہی ہے۔

          کمالو: سب ٹھیک ہے، خدا کا فضل ہے، زندگی بہتر گزر رہی ہے۔ ہاں پرائمری کے بعد پہلی مرتبہ ملاقات ہورہی ہے، اس وقت اپنی تجارت ہے، اسی میں رہتا ہوں، اللہ سے فضل وکرم سے بہت اچھا ہے۔

          جلالو: ما شاء اللہ! تم تو بہت آگے بڑھ گئے، اللہ نے تمہارے ساتھ بہت فضل فرمایا۔

          کمالو: بس اللہ کا فضل شامل حال رہا، ورنہ یہ سب کہاں ہو پاتا۔

          جلالو: پرائمری کے بعد بھی کچھ پڑھا تھا کیا؟

          کمالو: ہاں میں نے پرائمری کے بعد درجہ چھ میں داخلہ لیا اور پھر پڑھتے پڑھتے ہائی اسکول کا امتحان دیا، اس کے بعد اسکول کی تعلیم چھوڑ دیا۔

          جلالو: اچھا اچھا۔ ماشاء اللہ، اس کے علاوہ اور کچھ بھی کیا تھا؟

          کمالو: کچھ خاص نہیں؛ بس دینی تعلیم کارجحان ہونے کی وجہ سے ایک مدرسہ میں داخلہ لے لیا اور عالمیت تک کی تعلیم حاصل کی، جس سے مجھے دینی معلومات بہت حد تک ہوگئیں۔

          جلالو: اچھا، ما شاء اللہ! اسی لیے چہرے پر نورانیت ہے، اچھا یہ بتاؤ عالمیت کے بعد کیا کیا؟

          کمالو: عالمیت کے بعد مدرسے کی تعلیم چھوڑ دی؛ اس لیے کہ گھر پر مجھے رہنا ضروری تھا، والد صاحب کی ایک دوکان پرچون کی تھی، میں نے اس میں ان کا ساتھ دیا، صبح میں والد صاحب اور دوپہر بعد کے وقت میں میں بیٹھنے لگا، اسی کے ساتھ اسکول میں گیارہ میں داخلہ لے لیا، اور پھر انٹر، اس کے بعد گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کیا۔ اچھا میری کہانی بہت ہوگئی، تم بھی کچھ اپنے بارے میں بتاؤ ، تم کیا کر رہے ہو اور کیسی زندگی گزر رہی ہے؟

          جلالو: کیا بتاؤں یار، سب ٹھیک ہے، اللہ کا فضل ہے۔ میرے گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ پرائمری کے بعد مزید تعلیم حاصل کر پاتا، گھر میں صرف والد صاحب کمانے والے تھے، وہ بھی بس ضرورت بھر ہو پاتا تھا، والدہ بیمار رہتی تھیں، خرچ کا مسئلہ رہتا تھا، پرائمری کے بعد میں نے تعلیم چھوڑ دی اور والد صاحب کے ساتھ بنائی میں لگ گیا، میرے کئی بھائی اور بھی ہیں، میں نے اور والد صاحب نے محنت مزدوری کی اور بھائیوں کی اچھی تعلیم وتربیت کی فکر کی، الحمد للہ آج ان میں سب پڑھے لکھے ہیں۔

          کمالو: تو اب بھائی کیا کر رہے ہیں؟

          جلالو: کچھ کہتے ہوئے ٹھیک نہیں لگ رہا ہے مگر…، میرے دو بھائی اور ہیں، جن کی تعلیم وتربیت کی میں نے والد صاحب کے ساتھ فکر کی، ان میں سے ایک نے پوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بی ایڈ بھی کیا، اب وہ ایک سرکاری اسکول میں ماسٹر ہے، مگر اسے والد صاحب کی کوئی فکر نہیں رہتی ہے، وہ اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے۔ والدہ کا انتقال تو کچھ وقت پہلے ہی ہو چکا ہے۔

          دوسرا بھائی اس سے چھوٹا ہے، اس نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی، کمپیوٹر سے انجینئرنگ کی اور اب دہلی کی ایک کمپنی میں ملازم ہے، وہیں رہتا ہے، گھر بھی نہیں آتا ہے، نہ والد صاحب کی فکر رکھتا ہے۔

          کمالو: یہ تو بڑی تکلیف اور پریشانی کی بات ہے، تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد صاحب کی فکر نہ کرنا بہت محرومی کی بات ہیـ۔

          جلالو نے کہا کہ یہ سب چھوڑو، اور بتاؤ تم نے اور اب کیا چل رہا ہے؟

          کمالو: الحمد للہ میں نے گریجویشن کی تکمیل کے بعد نئی تجارت شروع کرنے کو سوچا، چناں چہ میں نے کپڑے کی ایک وسیع دوکان شروع کر رکھی ہے، جو ہر اعتبار سے بہتر ہے، پرچون کی دوکان بند کردی اور مین بازار میں یہ کپڑوں والی دوکان شروع کر رکھی ہے۔ الحمد للہ بہت عافیت ہے، نہ کسی کی تک جھک، نہ کسی کا ٹینشن اور نہ کسی سے الجھن، وقت پر دوکان جاتا ہوں، نمازوں کی پابندی کر لیتا ہوںاور وقت پر دوکان بند کرکے گھر جاتا ہوں، جہاں بیوی بچوں کی اچھی طرح خبر گیری بھی کرلیتا ہوں اور سکون کی زندگی جی رہا ہوں۔

            جلالو اور کمالو یہ سب باتیں کر رہے تھے، جلالو کو اپنی پریشانیاں بھی گھیرے ہوئے تھیں، مگر اس نے صبر وضبط سے کام لیا، اب چوں کہ وقت نکل رہا تھا اور دیر بھی ہو رہی تھی اس لیے اس نے کمالو سے کہا کہ چلو پھر ملتے ہیں، مجھے ابھی پیسے لینے ہیں اور بازار بھی جانا ہے، عید کی تیاری بھی کرنی ہے۔ یہ کہہ کر جلالو نے کمالو کو سلام کیا اور وہاں سے گرہست کے یہاں چلا گیا۔

          وہاں جاتے ہی جلالو کا نمبر آگیا، اس کی ساڑی چیک ہوئی، سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا مگر……

          وہاں بعد میں جو کچھ ہوا اس نے اس کے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا، اس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے، سارے خیالات یکلخت ٹوٹ گئے، ایسا لگا کہ اس کی زندگی کو یکایک منجمد کردیا گیا ہے!

          ساڑی چیک کرانے کے بعد اس کی تانی کا حساب کرانا تھا، جس میں اس کی تانی کی تمام ساڑیوں کا حساب شامل تھا۔ ویسے تو اس کو فی ساڑی کے حساب سے بارہ سو روپیہ مزدوری ملتی تھی، کچھ مزدوری کی رقم گرہست کے پاس جمع رہتی تھی، تاکہ جب مکمل حساب کیا جائے تو جلالو کو یکمشت مزید رقم مل سکے اور وہ حسب ضرورت دیگر کاموں میں استعمال کر سکے۔ جلالو یہی امید لے کر گیا تھا اور بہت سارے ارمان بھی اس کے ذہن ودماغ میں تھے، لیکن وہاں تو کچھ اور ہی ہوا۔

          حساب ہونے کے بعد گرہست نے کہا کہ تمہاری تانی میں کچھ بھی رقم بچی نہیں ہے، بل کہ کچھ رقم ہماری طرف سے زیادہ ہی چلی گئی ہے، مگر چلو ہم اس رقم کا تم سے مطالبہ نہیں کرتے ہیں، اسی پر حساب مکمل کر دیتے ہیں ……

          اتنا سنتے ہی جلالو کی حالت بدلنے لگی، اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اور سوال کیا کہ میری فی ساڑی مزدوری چودہ سو روپیہ طے ہوئی تھی، ہر ساڑی کے لحاظ سے میں نے بارہ سو روپیہ ہی وصول کیے ہیں، جن کی تفصیلات کاپی میں موجود ہے، مگر آپ کہہ رہے ہیں کہ میرا کچھ بچا نہیں ہے؛ بل کہ اُلٹے میرے ہی ذمہ کچھ رقم ہے؟؟؟

          گرہست کی طرف سے جو جواب دیا گیا وہ یقینا چوکانے والا اور حیرت انگیز تھا، گرہست نے کہا کہ چوں کہ آج کل مارکیٹ ڈاؤن تھی، اس لیے آپ کی مزدوری کم کردی گئی تھی، اسی کے ساتھ آپ کی ساڑی میں کئی بار عیب بھی نکلا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ’’ویلو‘‘ کم ہوگئی تھی، ہمیں گھاٹے کے ساتھ فروخت کرنا پڑا تھا……

          جلالو نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ مزدورری کم کرنے والی بات تو آپ نے کبھی کہی ہی نہیں، طے تو چودہ سو طے تھی، اگر آپ نے کم کیا تو کم از کم بتلانا چاہیے تھے، اسی طرح ساڑی میں عیب بھی نہیں بتایا … اب جب حساب ہو رہا ہے اور مجھے میری مزدوری کی ضرورت ہے تو کٹوتی کر رہے ہیں!!

          مگر اس کی باتوں کا گرہست پر کوئی اثر نہیں پڑا، اس نے بہت سمجھانے کی کوشش کی اور اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا، اپنی مجبوریوں اور ضرورتوں کا رونا رویا لیکن کچھ نہیں سنا گیا …… وہ جلالو کی محض مزدوری نہیں تھی؛ بل کہ ا س کی زندگی تھی، وہ اس کا خون پسینہ تھا، اس کے بوڑھے باپ کی دوا تھی، بچوں کی خواہشات تھی، وہ عید کی تیاری اور خریداری تھی، بیوی کی خوشیوں کا سامان تھا مگر…

          اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا، مگر چوں کہ وہ خود دار تھا، اس نے خود کو نہ چاہتے ہوئے بھی سنبھالنے کی کوشش کی اور اسی مایوسی کے عالم میں گھر کی طرف چل دیا، اس کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا، شاید جس میں روشنی باقی نہیں تھی! ان سب کے باوجود جلالو میں صبر واستغنا اور خدا پر بھروسہ تھا، اسے یقین تھا کہ ان مشکل حالات میں اللہ تعالی ضرور کوئی راستہ نکالے گا، وہ اسی امید ویاس کے دوران گھر پہنچتا ہے۔

          گھر پہنچ کر مایوسی کے عالم میں بیٹھ جاتا ہے، سامنے عید ہے، عمر دراز اور صاحب فراش والد ہیں، بیوی اور بچے ہیں، بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے، اس کی بیوی وفا شعار اور نیک دل عورت تھی، اس نے جلالو کو سمجھانے کی کوشش کی، اس کو تسلی دی اور دلاسہ دیا کہ صبر رکھو اور اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو، بیوی کے پاس کوئی ایسا ہنر نہیں تھا جس سے وہ انفرادی طور پر کمائی حاصل کرے، وہ ساڑی کی بنائی میں جلالو کا ساتھ دیتی تھی، مگر اس حادثہ نے اس کو بھی جھنجوڑ دیاتھا، اس لیے اس نے یہ طے کیا کہ وہ اب اپنے ضروری اور گھر کے کام کاج سے کچھ نہ وقت نکال کر سلائی کرے گی اور اس سے آمدنی حاصل کرکے جلالو کا تعاون کرے گی، تاکہ تن تنہا جلالو پر بوجھ نہ رہے۔

          بیوی کی باتوں سے جلالو کو کچھ سکون وراحت کا احساس ہوا، لیکن پھر بھی ذہن اسی طرف تھا کہ عید کا کیا ہوگا اور کیسے ہوگا اور وہ مایوسی کے عالم میں بے دم ہوا تھا؟

          جلالو اسی مایوسی کے عالم میں بیوی کے یہاں سے اٹھ کر باہر کے حصے میں بیٹھ جاتا ہے؛ تاکہ ذہن ہلکا کر سکے، باہر آکر وضو کرتا ہے اور تلاوت شروع کردیتا ہے، تلاوت میں وہ ’’ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا‘‘ کی آیت بھی پڑھتا ہے، لیکن اس کے معنی ومفہوم کے سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے، حالاں کہ یہ آیت اس کا بہت کچھ بدلنے والی ہوتی ہے، وہ تھوڑی دیر تلاوت کرتا ہے، اس سے کچھ راحت اور سکون کا احساس ہوتا ہے، مگر پھر بھی پریشانی پیچھا نہیں چھوڑتی ہے، اسی دوران اُدھر سے اس کا دوست کمالو گزرتا ہے، جو اس کو دیکھ کر ٹھہر جاتا ہے اور اس کی مایوسی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، جلالو نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنی داستان سناتا ہے۔ کمالو اس کا اچھا دوست ہے، ابھی کچھ دیر پہلے اس سے ملاقات ہو چکی تھی، اس لیے کمالو کو سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی ہے۔

          کمالو ایک نیک دل انسان اور بہترین شخصیت کا مالک ہے، وہ دوسروں کی خیر خواہی میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسے اپنا فرض سمجھتا ہے، جلالو کی باتیں سن کر اس کو تسلی دیتا ہے اور صبر کی تلقین کرتا ہے۔ اور جلالو کے لیے فی الوقت اپنے دست تعاون کو دراز کرتا ہے اور عید کی تیاری کے لیے نقد کچھ تعاون کرتا ہے اور مکمل گزر بسر کے لیے اس کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ فلاں گرہست کے یہاں چلا جائے، میری معلومات کے مطابق وہ ایمان دار اور با اخلاق انسان ہیں، بہت سے لوگ ان سے جڑے ہیں اور اچھی مزدوری حاصل کرتے ہیں، اگر کسی جگہ سے نقصان ہوگیا تو اس سے بہتر اللہ کی طرف سے مل جائے گا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان سے جڑ کر اپنی ساڑی بنائی کا کام شروع کرو، ان شاء اللہ اچھا رہے گا، مزید کہتا ہے کہ اگر وہاں سے کام نہ چل سکے اور حساب نہ بنے تو میرے یہاں آنا، ان شاء اپنی دوکان میں ملازمت دوں گا۔

کمالو کی تسلی بخش باتوں سے جلالو کو امید نظر آتی ہے اور اس کے خدا پر یقین میں مزید پختگی حاصل ہوتی ہے کہ خدا پر بھروسہ بہت اہم ہے، جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے وہ ضائع اور بے کار نہیں جاتا ہے، یوں اس طرح اس کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔

***

Leave a Reply