You are currently viewing علامہ اقبال کی فکری تشکیل اور ان کا عہد

علامہ اقبال کی فکری تشکیل اور ان کا عہد

ڈاکٹر محمد عامر

جواہر لعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی-110067

علامہ اقبال کی فکری تشکیل اور ان کا عہد

 ادیب یاشاعرکے فن پارے کو سمجھنے کے لیے اس کی فکری تشکیل، حالات زندگی اور اس کے عہد کے سیاسی ، سماجی اور ادبی ماحول کوسمجھے بغیر اس کے فن پارے کی تشریح وتعبیر نہیں کی جاسکتی، کیوںکہ ادب اپنے عہد کے سماجی وسیاسی حالات کی عکاسی کرتاہے۔ علامہ اقبال کی ولادت(انیسویں صدی عیسوی کی آٹھویں دہائی میں یعنی) 1877ء میں ہوتی ہے۔ مگر ہمیں علامہ اقبال کے افکارونظریات اور شاعری کے اسرارورموز کوجاننے کے لیے ان کے عہد کے مطالعے کے ساتھ ان کی ولادت کے تقریباً بیس سال قبل یعنی 1857ء سے حالات کا جائزہ بھی لینا ہوگا، تبھی ہم علامہ اقبال کے فکروفلسفہ اور ان کے عہد کو بحسن خوبی سمجھ سکتے ہیں۔

1857ء کے انقلاب کے بعد ہندوستان پوری طرح برطانوی حکومت کی زنجیرِغلامی میں جکڑگیا تھا۔ یہ انقلاب  محض ایک واقعہ یا سانحہ نہیں تھا بلکہ ہمارے جوش وخروش اور مستقبل کے عزائم کاپرتو تھا۔ اس انقلاب نے یہاں کے ا دیبوں، مفکروں اور سیاسی رہنماؤں تک کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان لوگوں نے ہندوستان کی سیاسی ، سماجی، معاشی اور اقتصادی حالات کو سدھارنے اور اسے بہتر بنانے کا عزم کیا نیز اپنے تئیں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ دوسری طرف ان حالات سے نمٹنے میں اصلاحی تحریکوں کا بھی اہم رول رہا ہے۔ ہندوستان میں 1857ء کے انقلاب سے قبل کچھ ایسی تحریکیں معرض وجود میں آچکی تھیں جو اس عہد کے عوام میں معاشرتی اصلاح ، تعلیمی بیداری اور حصول آزادی کے لیے کام کررہی تھیں۔ 1857ء کے بعد جو تحریکیں وجود میں آئیں ان کا مقصد تھا کہ سماجی، سیاسی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی  اعتبار سے یہاں کی عوام کو بہتر بنایاجاسکے۔ ایسے ہی ناہموار فضامیں ہندوستان میں ایک مخلص اور قومی رہنما (جسے دنیاآج سرسید احمد خان کے نام سے جانتی ہے)نے آگے آکر قو م کو پستی ،زبوں حالی سے نکالنے اور ان کے اندر معاشرتی اصلاح اور تعلیمی بیداری پیدا کرنے کی مسلسلکوشش کی۔ سرسید نے پہلے پہل آزادی کا راگ نہیں الاپا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ بغیر تعلیم اور اصلاح کے آزاد ی ملنا مشکل ہے اور اگر مل بھی گئی تو لاحاصل ہوگی ۔ لہٰذا انھوں نے قو م کے اندر اصلاحی پہلو پرزیادہ زور صرف کیا۔ ان کامقصد قو م کو تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادیسطح پر بیدا ر کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک قو م کے اندر تعلیمی، سماجی، سیاسی اور اخلاقی بگاڑ رہے گا تب تک ہم دیگر قو موں کی طرح ترقی، اور انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی لیے انھوں نے آزاد ی کی تحریک کے بجائے معاشرتی اصلاح اور تعلیمی بیداری پر زیادہ زور دیا۔

         سرسید نے قوم کی اصلاح کے لیے جو بھی مضامین لکھے وہ سلیس اور سادہ زبان میں لکھے کیوں کہ وہ اس چیز سے باخبرتھے کہ اگر تحریر میں بناوٹ اور تصنع باقی رہاتو پھر عوام کی اصلاح ناممکن ہے۔ اس کام کو انھوں نے نثر کے ذریعہ انجام دیا جب کہ وہ شاعر نہیں تھے اس لیے وہ ہمیشہ اس بات کی خواہش کرتے تھے کہ کاش کہ اردوزبان میں ایسا شاعر پیداہوتا جو اپنی شاعری کے ذریعہ پست حالی اور گمراہی میں پڑی قوم کو بیدار کرتا، ان کے رفقا میں حالی نے اس فریضہ کوانجام دیا۔ جنھوں نے مسدس حالی لکھ کر اس خلا کو پر کیا اور قوم کوبیدارکرنے کی اہم کوشش کی اور اسی کامیابی کا نتیجہ تھاکہ مسدس حالی کو سرسید اپنے لیے نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔

سرسید کے اصلاحی مشن میں حالی کے شانہ بہ شانہ مولانامحمد حسین آزاد کا نام بھی کافی اہم ہے۔ 1865ء میں لاہور میں آزاد کے توسط سے انجمن پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ 1867ء میں آزاداس انجمن کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ یہاں انھیں کرنل ہالرائڈ کی مدد سے 1874ء میں انجمن کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ منعقد کرنے کا موقع ملا۔ جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مصرع طرح کے بجائے شاعروں کو موضوع دیا جاتاتھا۔ یہیں سے جدید شاعری یا نیچرل شاعری کی بنیاد پڑتی ہے جس کے اثرات اردو شاعری میں علامہ اقبال کے عہد تک بھی دیکھنے کوملتے ہیں،حالاں کہ اگر موضوعات کی سطح پر دیکھا جائے تو غالب کی شاعری انقلاب کے بعد بالکل نیا انداز رکھتی ہے خود غالب نے اس کا اعتراف کیا ہے:

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں

مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے

غالب عشق وعاشقی کے محدود دائرے اور سکہ بند فکرسے باہر آکر جدید و عمیق موضوعات کو اردو شاعری کاجامہ پہنا چکے تھے ۔ آگے چل کر انجمن پنجاب کے مشاعرے نے منظم طریقے سے اس جدت کو آگے بڑھایا بعدازاں اردو شاعری کی مختلف اصناف پر تنقیدی آرا بھی پیش کی گئیں۔ حالی نے جب اپنا دیوان مرتب کیا تو اس کے مقدمے میں اردو شاعری کی مختلف اصناف پر تنقیدی نظر ڈالی جس میں انھوں نے غزل اور قصیدہ پر سخت اعتراض کیا، مگر غزل نے خود کووقت اور حالات کے تقاضات و مطالبات کے مطابق ڈھال کر اپنے دامن میں وسعت پیدا کی۔ علامہ اقبال جیسے مفکر اور فلسفی شاعر نے شاعری کا آغاز صنف غزل سے کیااور اپنے فکروفلسفہ سے غزل کے دامن میں توانائی بخشی، مگر بہت جلد غزل سے نظم کی طرف مراجعت کر گئے ۔

         اقبال کی ذہنی اور فکری تشکیل کے ارتقا میں غالب کی شاعری،1857ء کا انقلاب، سرسید تحریک اور انجمن پنجاب کا مشاعرہ خاصی اہمیت کا حامل رہاہے۔ اردو ادب کے طالب علم انجمن پنجاب کے مشاعرے سے بخوبی واقف ہیں۔ پچھلے صفحات میں اس کے کارنامے پرمختصراً بحث کی جاچکی ہے، لیکن اب میں اجمالی طور پر اس کے دوررس نتائج پر بھی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں،کیوں کہ اس کے بغیر ہم علامہ اقبال کی فکری تشکیل اور ان کے عہد کو بہتر طریقے سے نہیں سمجھ سکتے ۔ انیس ویں صدی عیسوی کے اواخر میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا اس وقت حالیؔ، اکبرؔ الہ آبادی ، داغؔ دہلوی اور شادؔ عظیم آبادی اردو شاعری کے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ حالیؔ اور آزادؔ اردو شاعری کو نیچرل اور ادب کو تنقید حیات بنانے میں لگے ہوئے تھے، جس کے تحت انھوں نے متعددتخلیقی کارنامے انجام دیے، جس کی زندہ مثال حالیؔ کی ’مسدس‘اور آزاد کی’ صبحِ امید‘ہے۔ اسی عہد میں اکبرؔ الہ آبادی طنز وظرافت کا لبادہ پہنے انگریزی حکومت پر مسلسل وار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ داغؔ دہلوی اور شادؔ عظیم آبادی بھی اسی عہد کے دو بڑے نام ہیں۔ داغؔ دہلوی عشق و محبت کی داستان کو لے کر اردو شاعری میں داخل ہوئے اور شادؔ عظیم آبادی حالات اور سماجی تبدیلی کا اثر قبول کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

علامہ اقبال کے معاصرین میں حسرتؔ، یگانہؔ، فانیؔ اورجگرؔ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے ۔ یہاں پرعلامہ اقبال کے معاصرین کا ذکر کرنا مقصود نہیں، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت کس نوعیت کی شاعری کی جارہی تھی، تبھی ہم ادبی سطح پرعلامہ اقبال کی فکری تشکیل اور ان کے عہد کو سمجھ سکتے ہیں۔ حسرتؔ کی شاعری کا بیشتر حصہ قدیم روایت سے منسلک ہے ، اصغرؔ کے یہاں تصوف کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے اورفانیؔ یاسیات کے امام ہیں۔ غرض یہ کہ اس عہدمیں جس نوع کی شاعری ہورہی تھی اس کے تمام عناصر علامہ اقبال کی شاعری میں بیک وقت موجود ہیں۔ اس عہد میں علامہ اقبال ہی ایک ایسے شاعرتھے، جن کے کلام میں بیک وقت فلسفہ، تصوف، سماجی مسائل،سیاسی شعور ،تہذیبی بساط،انسانی عظمت، حب الوطنی، قومی یکجہتی، ہندومسلم اتحاد ، مظلوموں کادرد اور روحانی احساسات دیکھے جاسکتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اس عہد میں علامہ اقبال ہی ایک ایسے شاعر تھے، جن کے یہاں قدیم وجدید دونوں روایتوں کے مابین مستحکم اور مضبوط رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ اس عہد کے بیشتر شعرا نے روایت کو عادت کے طور پراختیار کیا، جب کہ علامہ اقبال نے روایت کو عادتاً قبول نہیں کیا، بلکہ انھوں نے روایت سے منسلک ہونے کے ساتھ ذہنی، سماجی، تہذیبی اور زبان وبیان کی سطح پر بھی اپنی شاعری میں جدت پیدا کرنے کوشش کی۔ جسے ہم علامہ اقبال کی انفرادی خوبی کہہ سکتے ہیں۔اسی سیاق میں اقبال کے بارے میں وزیرآغا لکھتے ہیں:

’ اقبال نے اسلاف کی عظمت کا تصورحالیؔ سے اور مغربی تہذیب کی نفی کا تصور اکبرؔ سے مستعار لیا ہے‘‘۔

 اسی سلسلے میں وزیر آغا مزیدرقم طراز ہیں:

’’اقبال ان بڑے شعرا میںسے ہیں جو ہمیشہ تعمیر اور تخریب کے سنگم پر نمودار ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں ایک طرف تو نئے زمانے کی شکست وریخت کا عرفان اور دوسری طرف ماضی کے نظم وضبط کا احترام موجود ہوتا ہے اور جو آنے والے زمانے کی چاپ کو سننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایسے شعرا کو نئے اور پرانے سبھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ان کی قدامت یا جدیدیت کے بارے میں گرمئی گفتار کا مظاہرہ بھی ہوتاہے‘‘۔1

نئے حالات اور روایت سے مستحکم رشتہ بنانے کے پیچھے اس عہد کا سماجی اور سیاسی ماحول معنی رکھتا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر قبول کیا ۔

علامہ اقبال کے عہد کا جائزہ لیتے ہوئے جب ہم ان کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اردو شاعری میں ایک فلسفی شاعرکی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ خودعلامہ اقبال فلسفہ وتاریخ کے طالب علم رہے ہیں،جس کا مطالعہ انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی میںگہرائی اور دروں بینی سے کیا تھا ۔ علامہ اقبال نے مشرق ومغرب کے فلسفے کو سامنے رکھ کر ایک نئے فلسفے کی تشکیل دی اور یہی ان کی عظمت کی مسلم دلیل ہے۔ اس سلسلے میں جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں:

’’جہاں تک مشرقی اور مغربی فلسفے کو آپس میں ملانے کا تعلق ہے اقبال کی عظمت یہ ہے کہ انھوں نے ایک مضبوط پل کا کام دیاہے‘‘۔2

یہاں پر ایک بات عرض کردینا ضروری ہے کہ علامہ اقبال نے مغربی فلسفے سے صرف وہی لیا جو صالح وصحت مندعناصر کی پاسداری کررہے تھے جیسے نطشے کا فوق البشر، مگر انھوں نے اس فلسفے کو مشرقی تہذیب وتمدن میں ڈھال کر اس انداز میں پیش کیا کہ وہ مشرقی مزاج سے بالکل ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ جہاں تک کلام اقبال میں شاہین کے استعارے کاتصور ہے تو اس کو انھوں نے محض ایک پرندے کے طور پرنہیں پیش کیا بلکہ اس کی بلندپروازی، حوصلہ مندی، ہمت اور خوبیوں کو انسانی عظمت کے لیے عملی صورت میں دیکھنے کے متمنی نظر آتے ہیں،تاکہ اس کے ذریعہ قوم کو کھویا ہوا وقار مل سکے۔ اس کے متعلق یہ شعر یہاںنقل کرنا بے جا نہ ہوگا:

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال اپنے ایک خط میں مزید شاہین کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شاہین ایک خود دار اور غیرت مند پرندہ ہے اور کسی کے ہاتھ کا مارا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔بلند پرواز ہے۔ خلوت پسند ہے، تیز نگاہ ہے‘‘۔3

افکار اقبال میں عظمت انسان کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ شاہین کا استعارہ بھی اسی عظمت کی دلیل ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جہاںسیاسی اتھل پتھل کے چلتے انسانی عظمت پارہ پارہ ہورہی تھی۔اقبال انسانی عظمت کے صرف قائل ہی نہیںتھے، بلکہ اس کے حصول کے لیے کوشاںبھی تھے۔ یہی وہ ان کی فکر ہے جو ان کے کلام کو عالم گیر بنادیتی ہے۔چند اشعار کلام اقبال سے ملاحظہ ہوں:

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردُوں

علامہ اقبال کی ذہنی و فکری تشکیل میں ان کے استاد پروفیسر آرنلڈ کا اہم رول رہاہے۔ انہیں کی سرپرستی میں علامہ اقبال نے فلسفہ کا مطالعہ کیاتھا۔آرنلڈ کے ہندوستان سے جانے کے بعد اقبال کی ملاقات ان سے انگلینڈ میں ہوئی اور وہاں پر بھی علامہ اقبال ان سے فیض یاب ہوئے۔ یورپ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علامہ اقبال نے ہندوستان آکر وکالت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ اسی دوران انھوں نے مسلم لیگ کی رکنیت بھی اختیار کی۔ یہیں سے علامہ اقبال کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ بعدازاںعلامہ اقبال نے مسلم لیگ کے مختلف اجلاس میں شرکت کی اوراس میں انھوں نے برطانوی حکومت کو ہدف تنقیدبنایا۔ 1914ء میںپہلی عالمی جنگ شروع ہوئی ،جس کی وجہ سے مشرقی ممالک کے مابین اتحاد کو قائم رکھنا محال ہوگیا تھا، ایسی حالت میں ہندوستان کیسے بچ سکتا تھا،کیوں کہ اس وقت ہندوستان برطانوی حکومت کے ماتحت تھا۔ انگریز پہلے سے ہی بانٹو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کیے ہوئے تھے۔اسی پالیسی کی وجہ سے ہندوستان میں دو قوموں کے مابین نفرت پھیلی جو خود ساختہ نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اس کو مضبوطی ملیتھی، مگر پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برطانوی حکومت سے نجات پانے کے لیے ہندوستانیوں نے متحد ہوکرآزادی کی جدوجہد کا آغاز کردیاتھا، جس سے انگریزوں کوشدید دھکا لگا۔اس اتحاد میںکانگریس کا لکھنؤسیشن (1916ء)تاریخی حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وقت مہاتماگاندھی جیسے ہندوستانی رہنما نے تحریک آزادی کی جدوجہد میں اہم کارنامہ انجام دیا۔ مہاتما گاندھی نے قومی فلاح و بہبودکے لیے ستیہ گرہ شروع کیا اور عوام میں سیاسی بیداری کا صور پھونکا۔دیگر مفکرین اور سیاسی رہنماؤںنے معاشرے میں سماجی برائیوں کو دور کرنے کی اہم کوشش کی۔ علامہ اقبال نے بھی سرکاری ملازمت کو ترک کرکے ہندوستان کی تحریک آزادی کی جدوجہد میں منہمک ہوگئے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر منظر اعجاز لکھتے ہیں:

’’مہاتماگاندھی مذہبی نقطۂ نظر سے مسائل کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے جب کہ اقبال نے تاریخی اور فلسفیانہ انداز نظر سے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اہنسا اور داخلی توانائی کے تصورات نے ظالمانہ اور جابرانہ تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے اقبال کی نظام فکر میں ’’خودی‘‘ کا روپ دھار لیا‘‘۔4

علامہ اقبال نے دوران وکالت معلمی کا پیشہ بھی اختیار کیا، مگربہت جلد استعفیٰ دے کر اس سے کنارہ کش بھی ہوگئے۔ استعفیٰ دینے کی وجہ انھوں نے اپنے کچھ دوستوں کو یہ بتائی کہ جو میں کہنا چاہتا تھا وہ سرکاری ملازمت میں رہ کر نہیں کہہ پاتا ۔ معلمی کے پیشے سے استعفیٰ دینے کے بعدوہ سیاست میں پہلے کے مقابلے اوربڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے، جو بات پہلے وہ کھل کر کہنے میں تامل کرتے اب وہی بات بلاخوف و ترددکہنے کے لیے آزاد تھے۔انھوں نے ہندوستانی قوم کو عظمت انسانی سے باور کرایا۔ ان کی مقبولیت کا لوہا اردو ادب اور ہندوستانی سماج میں اس وقت تسلیم کیاگیا جب انگلینڈ میں پروفیسر آر۔ کے۔ نکلسن نے ان کی مشہور ومعروف تصنیف’اسرار رموز ‘کا ترجمہ انگریزی زبان میںکیا۔ اِس سے اقبال کی مقبولیت اور شہرت میں چار چاند لگ گیا۔ان کی مقبولیت اور شہرت کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی برطانوی حکومت نے 1922ئمیں’سر‘کے خطاب سے نوازا۔

عہد ِاقبال میں انقلاب روس بھی سیاسی، تہذیبی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور ادبی طور پر کافی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہی 1917ء میں لینن کی سربراہی میں مزدور وں اور کسانوں نے متحد ہوکر بادشاہ روس ژار کا تختہ پلٹ دیا اور ایک نئی حکومت نئے عزائم کے ساتھ سامنے آئی۔ غریبوں ، مزدوروں اور کسانوں کے اس اتحادنے پوری دنیا کو ایسا پیغام دیا کہ اگر  متحد ہوجائیں تو ظالم سے ظالم حکومت کوملیا میٹ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذارفتہ رفتہ چاروں طرف اس انقلاب کی باز گشت سنائی دینے لگی اور یہ پیغام اشتراکیت کے نظریے کے نام سے جانا گیا۔ سماجی،سیاسی اور ادبی سطح پر اس عہد میں اس کے گہرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان میں بھی مزدوروں ، غریبوں اور کسانوں کو متحد کیا جانے لگا اور باشعوروحساس لوگوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ سرمایہ دار، مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرتے ہیں،چوں کہ اس وقت تحریک آزادی کی جدوجہد بھی زوروں پر تھی اس لیے سیاست داںاور ادیبوں کو بھی احساس ہواکہ اگر غریبوں اور کسانوں کو متحد کرکے ان کو سرمایہ داروں کے ظلم واستبدادسے نجات دلائی جاسکتی ہے، نیز تحریک آزادی میں بھی ان کی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس انقلاب کے اثرات کو کلام اقبال میں جابجا دیکھا جاسکتاہے ۔ کلامِ اقبال میں جہاںفلسفہ ، حب الوطنی، قومی یکجہتی، ہندومسلم اتحاد اور ہندوستانی مشترکہ تہذیب کے عناصر دیکھنے کو ملتے تھے وہیں اب مزدوروں، کسانوں اور مظلوموں کی آواز بھی سنائی دینے لگی تھی۔اور پوری شدو مد سے مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی حمایت میں اشعارکہنے لگے تھے۔ علامہ اقبال سے متاثرہو کراس عہد کے دوسرے نوجوان شعرا نے بھی غریبوں اور مظلوموں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ حالاں کہ کمیو نزم اور انقلاب روس سے متاثر ہوکر تقریباً بیس سال بعد ہندوستان میں 1936ء میں ترقی پسند مصنفین نے ایک تحریک چلائی، جس کو اقبال کی بھی حمایت حاصل رہی تھی، لیکن اس تحریک سے قبل ہی اقبال اپنی شاعری میں مظلوموں اور مزدوروں پر ہورہے بے جاظلم وستم اور کسانوں پر سرمایہ داروں کے ذریعہ کیے جارہے استحصال کو موضوع بناچکے تھے۔ کلام اقبال میں اس کی متعدد مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو                کاخِ  امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی         اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

ادبی حیثیت سے علامہ اقبال کا عہد بڑی اہمیت اور خصوصیت کاحامل رہا ہے۔ اس زمانے میں فن برائے زندگی کے بجائے فن برائے فن کو ترجیح دی جارہی تھی، لیکن علامہ اقبال فن برائے زندگی کے قائل تھے۔ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے فن برائے فن کو بالائے طاق رکھ دیا، بلکہ وہ ادب میں اسلوب اور حسن سے زیادہ موضوع کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی عہد میں رومانوی ادب بھی ظہور پذیر ہوا،جس نے فن برائے فن کوبنیادی حیثیت کا درجہ دیا اور فن پارے میں حسن کو ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا۔اقبال فن برائے زندگی کے ساتھ فن برائے فن کو بھی ادب کے لیے ضروری سمجھتے تھے، لیکن حسن سے زیادہ وہ موضوع کو اہمیت دیتے ہیں۔یہ ان کے فن کا کمال ہے کہ فن برائے فن اور فن برائے زندگی کی دوئی ان کے یہاں نظر نہیں آتی، بلکہ یہ دونوں دھارے اس طرح سے آپس میں گھل مل جاتے ہیں کہ ان کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جگن ناتھ آزاد اپنی کتاب ’اقبال اور اس کا عہد‘ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’جس دور میں چاروں طرف ’’فن برائے زندگی‘‘ کے پردے میں فن برائے فن کے بلکہ فن برائے موت کے اصول پر عمل ہورہا تھا ۔ اقبال صحیح معنوں میں فن برائے زندگی کے علم بردار اور موید بن کر آئے۔ اقبال نے اس حقیقت تک پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگائی کہ فن میں حسن کے مدارج نہیں ہواکرتے۔ جہاں تک حسن کا تعلق ہے ایک فن پارہ یا حسین ہوسکتاہے یا نہیں ہوسکتا ۔ اس پرکھ میں تیسرا پہلو کوئی ہے ہی نہیں۔ یہ دراصل فن کی عظمت ہے جس کے مدارج ہوتے ہیں۔ فن کا رتبہ بلند ہے یا پست اس کا تعلق حسن سے نہیں بلکہ موضوع ومعانی کے ارتباط سے طے ہوتا ہے۔ حسن کا تعلق محض فن کی ہیئت سے ہے۔عظمت کا تعلق خیال موضوع اور معانی سے ہے۔ یہ دراصل خیال کی عظمت ہے جس سے شعر میں عظمت پیدا ہوتی ہے۔حسن سے شعر حسین ہوسکتا ہے عظیم نہیںہوسکتا۔ ہمارے ادب میں حسین وجمیل شاعری کی کمی نہیں عظیم شاعری کی کمی ہے۔۔۔۔اقبال نے ہماری توجہ شعر کے اس نام نہاد حسن سے ہٹاکر موضوع ومعانی کی طرف مبذول کی۔ اس موضوع ومعانی کی طرف جو الفاظ سے ہم آہنگ ہوکر شعرِ دلنشیں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ اقبال نے حرف ومعنی کے ارتباط کو جان وتن کے اختلاط سے تشبیہ دی اور حرف کا معنی سے وہی تعلق بتایاہے جو خاکستر اخگر کا اخگر سے ہے‘‘۔5

مجموعی طور پر یہ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال اردو ادب اور ہندوستانی معاشرے کے ایک ایسے شاعر ہیں، جنھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے عہد کی مکمل عکاسی کی ہے۔ انھوں نے سیاسی، سماجی اور ادبی ماحول کو شعوری طور پرقبول کیا جس کی مثال اس عہد کے کم ہی شعرا کے یہاں دیکھنے کوملتی ہے۔جب انگریزوں نے اپنی پالیسی کے تحت ہندوستانی قوم میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی توعلامہ اقبال ہندومسلم اتحاد کے علم بردار بن کرسامنے کھڑے ہوگئے۔ کلام اقبال سے ہندومسلم اتحاد پرمشتمل یہ شعر ملاحظہ ہو::

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو              تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

غرض کہ حالات نے جس قسم کی شاعری کا مطالبہ کیاعلامہ اقبال نے اس کو اپنی شاعری میں من وعن پیش کیا۔ مسلمانوں کو ان کی عظمت کا احساس دلا نے کے لیے اسلامی تاریخ کا سہارا لیا اور اس کے ذریعہ ان کے وقار ومرتبہ کوبلند کر نے کی سعی کی۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا              لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

حکومت یا سرمایہ داروں کے ذریعہ غریبوں اور کسانوں پرکیے جارہے مظالم کے خلاف انھوں نے انقلابی شاعر ی پیش کی اس طرح وہ شاعر انقلاب کی حیثیت سے بھی اہم مقام رکھتے ہیں۔ملاحظہ ہو:

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی

علامہ اقبال تحریک آزادی کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ علاوہ ازیںہندوستان کی ہزاروں سال کی مشترکہ تہذیب و ثقافت سے انھوں نے قوم کو روشناس کرایا۔ غرض کہ علامہ اقبال ایک شاعر کے ساتھ مفکر ، فلسفی، ہندومسلم اتحاد کے علم برداراور قومی یکجہتی کے داعی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔عہد حاضر میں اگر علامہ اقبال کے افکار ونظریات پر عمل کیا جائے تو ایک بہتر سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔نیز ان کے افکارونظریات پر عمل کر کے سماجی ، سیاسی اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، مگر افسو س یہ کہ علامہ اقبال کو آج خالص اسلامی شاعر کا تمغہ دے کر ان کے افکار ونظر یات کوایک محدود دائرے میںدیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے،لیکن اس کے باوجود ان کے ادبی مرتبے میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ آج بھی ان کے افکار ونظر یات کو وہی اہمیت حاصل ہے جیسا کہ خود ان کے عہد میں تھی۔

٭٭٭

حواشی:

1۔      شمیم حنفی؛ نئی شعری روایت، نئی دہلی؛ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،1987ء ،ص 23

2۔      آزاد، جگن ناتھ؛ اقبال اور اس کا عہد، الٰہ آباد؛ ادارۂ انیس، 1960ء ، ص119

3۔      بحوالہ جگن ناتھ آزاد؛ اقبال اور اس کا عہد،ص121

4۔      منظر اعجاز؛ اقبال اور قومی یکجہتی، مظفرپور؛ ناشر مصنف،1994ء ، ص48

5۔      جگن ناتھ آزاد؛ اقبال اور اس کا عہد ، ص89-90-91

Leave a Reply