You are currently viewing غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی ۔حیات اور شاعری

غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی ۔حیات اور شاعری

مُحبّہ ونٹموری

  پی ایچ ڈی ریسر چ اسکالر

ایس وی یونیورسٹی، تروپتی، آندھراپردیش

غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی ۔حیات اور شاعری

ایک مختصر جائزہ

از

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف

میرے مقالے کا عنوان ’’ڈاکٹر محمد یعقوب شریف کی تصنیف ’’غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی حیات اور شاعری کا مختصر جائزہ ‘‘ہے۔ڈاکٹر محمد یعقوب شریف کی یہ تصنیف 2019ء کو منظر عام پر آئی۔ ڈاکٹر محمد یعقوب شریف سابق صدر شعبۂ اُردو سرسیدکالج تلی پر نمبہ ضلع گنور کیرلا میں اپنے درس و تدریس کی خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب وظیفہ یاب ہو کر اپنے آبائی وطن آندھرا پردیش کے ضلع چتور میں مقیم ہیں۔ یہ تصنیف ان کی ایم ۔فل کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے۔

’’غالب ِ دکن یسیرؔ کرنولی حیات اور شاعری‘‘ تصنیف کاپیش لفظ ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنی تعلیم اورکیرالامیں تقرر بحیثیت اُردو استاد ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے استاد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ، اپنے دوست احباب کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ان کی تحقیقی کام میں مدد کی ہے۔

اس تصنیف کا پیش ِ گفتار کے نام سے پروفیسر عبد الستار دصاحب سابق صدر شعبۂ اُردو ایس۔ وی ۔ یونیورسٹی تروپتی اور سابق رجسٹرار ڈاکٹر عبد الحق اُردو یونیورسٹی کرنول نے لکھا ہے ۔

بقول پروفیسر عبدالستار صاحب:

’’موصوف نے غالبؔ اور یسیرؔ دونوں کی انسان دوستی پر کافی روشنی ڈالی ہے اور مذہب کے معاملے میں دونوں کے لیے بے نیازی، زاہدوں ، عابدوں اورواعظوں کی خامیوں کو نشانہ بنا یا ۔      سب کچھ ہے تاہم بعض ایسے پہلوؤں کو بھی سامنے لایا ہے جو متضاد ہیں۔ مثال کے طور پر غالبؔ نے شادی کرکے ازدواجی زندگی بسر کی جب کہ یسیرؔ اس بندھن سے دور رہے۔ شراب نوشی غالبؔ کا محبوب مشغلہ رہا اور یسیرؔ نے کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ‘‘

                                                                        (بحوالہ غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی حیات اور شاعری،ص۔ 12)

 ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے اس تصنیف کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ’’کرنول میں اُردو ادب کا مختصرجائزہ‘‘کے نام سے شہر کرنول کا مقام آندھراپردیش میں وہاںکا جغرافیہ جس میں شمال میں ضلع محبوب نگر، جنوب میں کڑپہ ،مغرب میں صوبہ کرناٹک کے اضلاع اور مشرق میں ضلع پرکاشم ہیں اور وہاں سے تین اہم ندیاں تنگبھدرا ،ہندری اور کندو گذرتی ہیں، اس کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ساتھ شہرکرنول کی وجہ تسمیہ بھی بتائی ہے۔

بقول سید موسیٰ میاں قادری :

’’گولکنڈہ کے بعد مغلوں نے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اس شہر کو فتح کیا۔ اورنگ زیب نے کرنول کا نام ’’قمر نگر‘‘ رکھا جو مشہور نہ ہو سکا ۔ مسلم دور ِ حکومت میں بھی اس شہر کا نام کرنول ہی تھا۔ ‘‘(بحوالہ تاریخ کرنول پر ایک نظر اخبار نامہ کرنول ٹائمز،مئی 1974ء،ص۔ 3)

 ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے شہر کرنول کے تہذیبی ، ثقافتی اور حکومتی پہلوؤں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہاں پر حکومت کرنے والے راجاؤں ، بادشاہوں اور نوابوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی ادبی میراث کے بارے میں بھی جانکاری دی ہے۔ مثلاً وجدیؔ، شاہ نور الدین،یا سپیرؔ، مسکینؔ، اسمعٰیل قادری، شاہ فی الحال کرنولی، شاہ فی الفورؔ، معروفؔ ، شاہ رحیم الدین قادری، عبدؔ، عطاؔ، حریفؔ، الفؔخاں، اکبر ؔ، عیاشؔ ، راہیؔ ، عصرؔ، خضرؔوغیرہ۔

اس تصنیف کا دوسرا باب ’’حیاتِ یسیرؔاور ادبی ماحول ‘‘ہے۔اس میں ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے سب سے پہلے اس باب میں یسیرؔ کرنولی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھا ہے۔ جیسے یسیرؔ پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

ان کے آبا واجداد ، نوابان ِ کرنول کے دور کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا بارے میں، ان کے پیشے کے بارے میں، افرادِ خاندان ، بھائی بہنوں کے بار ے میں جانکاری قلمبند کی ہے۔ سب سے بڑھ کر ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے یسیرؔ کرنولی کے مجرّد رہنے کی ایک دو وجوہات کاذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ یسیرؔ نے مدراس یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری لی تھی لیکن عمر بھر وکالت نہیں کی مگر لوگوں کو قانونی صلاح و مشورہ دیتے رہے۔ اس کا بھی ذکر انھوں نے کیا ہے اور آگے لکھتے ہیں :

’’یسیرؔ کو اپنی عزلت کے باوجود اہلِ کرنول سے ناقدری کی شکوہ ہے اور اہلِ حیدرآباد سے بھی وہ شاکی ہیں کہ حیدرآباد کے مشاعروں وغیرہ میں انھیں مدعو نہیں کیا جاتا۔ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یسیرؔ حد درجہ گوشہ نشین رہے۔ ‘‘

                                                                        (بحوالہ غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی حیا ت اور شاعری،ص۔ 73)

علاوہ ازیں لکھتے ہیں کہ اُردو شاعری کے میدان میں یسیرؔ کا مقام بحیثیت استاد خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے شاگردوں میں سید محمد پیراں محمودؔ، محمد قاسم قاصہؔ،سوز یسیریؔ، یوسف جمالؔ، صدیق قیسی اور ڈاکٹر سید وحید کوثرؔ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ یسیرؔ کرنولی کے ہم عصر مشہور افرادکا بھی ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے ذکرکیا ہے۔ مثلاً پروفیسر الحاج غلام احمد شاہ حیرت القادری حیرتؔ، محمد عبدالرّحمٰن کا سبؔ، محمد عبدالرّحمٰن جوہرؔ، محمد ابراہیم آثم، عبدالرّحیم غمؔ ، سید احمد رضا ، بخاری رضیؔ، ڈاکٹر سید عبد الطیف وغیرہ شامل ہیں۔

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف کی تصنیف کا تیسرا باب ’’یسیرؔ کی شاعری ‘‘ہے ۔اس باب میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، شاعری اورنثر۔ اس میں اُردو زبان میں ابتدائی دورکا احاطہ کرتے ہوئے مشہور شعراء، شاہ میراں جی، برہان الدین جانمؒ، نصرتیؔ، ہاشمی ، وجدیؔ، محمد قلی قطب شاہ ،غواصی، ولیؔ، سراجؔ ، شاہ فی الحال کرنولی کا ذکر کیا ہے۔ شاعری سے متعلق چند مغربی ناقدین کی آراء بھی پیش کی ہیں مثلاً ڈاکٹر جانسن کہتے ہیں :

’’شعر مقفیٰ انشاء ہے ۔ یہ ایسا فن ہے جو تعقل و تخیل کی مدد سے انبساط کا پیوندصداقت کا ساتھ لگاتا ہے۔ ‘‘

باقاعدہ ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے شاعری اورنثر کا موازنہ کیا ہے اور لکھتے ہیں کہ شاعری ایک آرٹ ہے جس میں زبان اسلوب کی نزاکت اور خوبی کا موجود ہونا لازمی ہے۔ بغیر تخیل کے شعر کی تخلیق نا ممکن ہے۔ غالبؔ، داغؔ، مومنؔ،حالیؔ اور اقبالؔ کا حوالہ بھی پیش کیا ہے اور لکھتے ہیں کہ یسیرؔ نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے مگر صنف غزل ان کی محبوب صنف رہی۔ نیز انھوں نے اپنی غزل میں گل و بلبل کی روایتی شاعری سے منہ موڑ کر جدید غزل کے تقاضوں کو بھی پورا کیا ہے۔ ان کی نظر میں تعمیر ی شعر و ادب کائنات و خالق کائنات کے تخلیقی مقاصد تک پہنچنے کی ایک سعی ہے۔

 ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے یسیرؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دور کی یسیرؔ کی شاعری ان کے شباب کی شاعری ہے ۔ 1926ء تا 1943ء یسیرؔ کی شاعری کا دوسرا دور 1955ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں دیوانِ’’ نفیر شوق‘‘ میں کل غزلیات کا سال سن بہ خوبی تحریر کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف لکھتے ہیں کہ یسیرؔ کے کلام میں حسن و عشق کے ساتھ ساتھ غم اور درد کا موضوع بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ان کی شاعری کا دارومدار غم پر ہے ۔ ان کے کلام میں ذات حقیقی سے لَو لگانا قربان کرنے کا جذبہ بھی موجود ہے۔ یسیرؔ کے کلام میں ردیف، قافیہ کو اس انداز میں برتا گیا ہے کہ قاری کو کیف و سرور کی دنیا معلوم ہوتی ہے ۔ انھوں نے ردیف کے بار ے میں بھی کافی طویل گفتگو کی ہے ۔

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف کی تصنیف کا چوتھا باب ’’یسیرؔ اور غالبؔ‘‘ ہے۔ ا س میں انھوں نے یسیرؔ کرنولی کو ’’غالبؔ ِ دکن‘‘بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ اس خطاب کے مستحق ہیں کیوں کہ انھوں نے غالبؔ کی زمینوں میں شعر کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آسانی سے غالبؔ کی تقلید کر سکتے ہیں۔ مثلاً دیوان ِ غالبؔکی پہلی غزل اور یسیرؔ کے شعری مجموعے     ’’نفیر شوق‘‘ کی پہلی غز ل پیش کرسکتے ہیں ۔ غزل کا مقطع ملاحظہ فرمائیں            ؎

یوں بھی غالبؔ کی زمینوں میں غزل کہنا یسیرؔ

فکر کے کہسار سے لانا ہے جو ئے شِیر کا

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف لکھتے ہیں کہ یسیرؔ کو غالبؔ دکن کہنا ملک الشعراء اوجؔیعقوبی کی دل کی آواز تھی۔ یسیرؔ سنگلاخ زمینوں میں غزل کہنا پسند کرتے تھے۔ غالبؔ ہی کی طرح یسیرؔ بھی پُر گو شاعر تھے۔

 یسیرؔ اور غالبؔ کے درمیان ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہے پھر بھی یسیرؔ کے دل و دماغ پر دیگر شعراء کے مقابلے میں غالبؔ کا اثر غالب رہا ہے۔ بقول ڈاکٹر محمد یعقوب شریف :

’’یسیرؔ نے غالبؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے غالبؔ کے ہی طرز میں کئی غزلیں تحریر کی ہیں جو اسلوب کی چاشنی کے علاوہ دعوتِ فکر بھی دیتی ہیں۔ ‘‘

                                                                  (بحوالہ غالبِ دکن یسیرؔ کرنولی حیات اور شاعری،ص۔ 187)

ڈاکٹر محمد یعقوب شریف کی تصنیف کا آخری اور پانچواں باب ’’اُردو شاعری میں یسیرؔ کا مرتبہ‘‘ ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ اُردو شاعری میں یسیرؔ کی عظمت اور اہمیت ایک اہم غزل گو شاعر کی حیثیت سے ہے۔ یسیرؔ کے کلام پر گہری نظر ڈالی جائے تو چند نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جن سے ان کی ادبی مرتبت فزوں ہوجاتی ہے۔ یسیرؔ نے اپنے کلا م میں ادبی لوازمات کا خاص اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد یعقوب شریف لکھتے ہیں کہ یسیرؔ نے کلاسیکل شعراء میرؔ، غالبؔ ، ذوقؔ ، مومنؔ سے استفادہ ضرور کیا ہے لیکن ان کی نقالی اور تقلید نہیں کی۔ یسیرؔ کے ہم عصر شعراء جگرؔ مراد آبادی کا نام سر فہرست ہے۔ جگرؔ کے تصورعشق کو بھی زیر بحث لایا ہے اور با قاعدہ جگرؔ اور یسیرؔ کا تقابلی جائزہ بھی  کیا ہے:

فیصلہ قاتل کرے تقدیم کا تاخیر کا

جذبۂ ایثار کی گرمی کا عالم دیکھنا

غرض کہ اس تصنیف میں ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے بہت ہی دل جوئی سے مواد اِکٹھا کیا ہے۔ ایک جگہ جہاں یسیرؔ کرنولی کی تاریخ ِ وفات ہے وہ سال 1998 ء لکھا گیا ہے جو کہ اصل میں 1988ء ہے۔ شاید Proof reading میں غلطی ہوگئی ہو۔ چوں کہ راقم السطور کی ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے کا عنوان بھی ’’کلام یسیرؔ میں رومانیت اور نرگیسیت ہے تو غائر مطالعہ کا موقق ملا۔ بقیہ اُردو کے مراکز سے دور شہر کرنول کے ایک غزل گو یسیرؔ کرنولی پر ایک مبسوط کتاب شائع کرکے ڈاکٹر محمد یعقوب شریف نے علاقائی ہی نہیں بلکہ اُردوشعرو ادب کی دنیا میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔

Leave a Reply