You are currently viewing آہ تشنگی

آہ تشنگی

نگار فاطمہ انصاری

آہ تشنگی

ہم نے جب بھی  تجھے بھولنا چاہا

بدلتے موسموں میں

سنہری دھوپ کی کرڑوں میں

سرد آہوں میں

موسیقی اور دھند میں

تم یاد آئے

کئی صدائے بھرے دل پاس آئے

کئی منت کش لب سوکھ گئے

دل ناداں کو جب سے تیرا روٹھ جانا راس آیا

سو اب یوں ہے کہ تجھ کو یاد کرتے ہیں تو

اشک اہل درد کے موتی پرو جاتے ہیں

لیکن دعا ہے کہ تیری روح کو تسکین ملے

ہم نہ ملے اس جہاں میں تو کیا غم؟

ممکن ہے کہ اگلے جہاں میں کہیں ملے!

کبھی جو پوچھے کوئی حال تیرا مجھ سے

میں خاموش رہوں اور اس کو جواب نہ ملے؟

اے حسین تتلیوں کے دلوں کے مسافر

تجھ کو مکمل جہاں

نہ ملے تو کوئی ہم سا نہ ملے!

Leave a Reply