ڈاکٹر مہیمنہ خاتون
سابق اسسٹنٹ پروفیسر(عارضی)
سیٹیلائٹ کیمپس، کشمیر یونی ورسٹی، کارگل
ابھی کچھ نہ بولو
میں حیدرآباد کے ایک کالج میں پڑھاتی ہوں ۔ہمیشہ کی طرح اس باربھی گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے والدین کے گھر دہلی آگئی تاکہ میں ان کے ساتھ چھٹیوں کے ایّا م خوش گوار ماحول میں گزار سکوں۔اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ گھر میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد ایک دن میںنے سوچاکہ آج میںاپنی یونی ورسٹی جا ؤں جہاں سے میں نے بی اے سے لے کرپی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی تھی ،اوراپنے اساتذہ اور ان دوستوں سے ملاقات کروں جو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی یونی ورسٹی میں اساتذہ کے منصب پر فائز ہو گئے ہیں۔لہذا میں تیار ہوئی اور یونیورسٹی کے لیے روانہ ہوگئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ کار ڈرائیو کرنے کے بعد میں یونیورسٹی پہنچی ۔ میں نے ڈپارٹمنٹ میں تمام اساتذہ کو موجود پایا۔مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر میں ان کی نیک دعاؤں کے سایہ میں وہاں سے رخصت ہوگئی۔ جب میںڈپارٹمنٹ سے باہر نکلی تو میں نے نیم کے پیڑ کے نیچے بچھے ہوئے بینچوں پر کچھ طالبات کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص کو دیکھا ، جو پست قد، گنجے سر، موٹے ہونٹ، گول گول آنکھیں اور گندمی رنگت والا تھا ۔وہ اپنے چھوٹے سے وجود کو پوری طرح ہلاتے ہوئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر باتیں کر رہا تھا ۔ دورانِ گفتگو کبھی وہ اپنا گلہ صاف کرتا تو کبھی رومال نکال کر اپنی ناک صاف کرتا۔مجھے اسے پہچاننے میں ذرا دیر نہ لگی ۔ وہ ابرار تھا ۔اس کے بات کرنے کا انداز آج بھی ویسا ہی تھا جیسا میں نے پندرہ سال پہلے دورانِ طالب علمی میں دیکھا تھا۔ میرے ایک عزیز دوست نے اس سے پہلی مرتبہ میرا تعارف کرایا تھا۔اُن دونوں میںکافی گہری دوستی تھی۔ اسی وجہ سے میں بھی اسے کافی قریب سے جانتی تھی۔ وہ اب اسی یونی ورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی میں زمانۂ ماضی میں چلی گئی۔
’’وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا جس کے والدین صرف دینی تعلیم کے طرف دار تھے ۔ لہذاانہوں نے اسے ایک مدرسہ میں داخل کرا دیا۔ مدرسہ کے دینی ماحول میں کئی سال گزارنے کے بعداسے عالم دین کی سند حاصل ہو گئی ۔ فراغت کے بعدجب اسے کہیں کام نہ ملا تو وہ کام کی تلا ش میں دہلی آیا جہاں اس کی ملاقات اسکے ایک ساتھی سے ہوئی جو اس کے ساتھ مدرسہ میں زیر تعلیم تھا ،اور وہ مدرسہ کی تعلیم مکمل کر نے کے بعد اب کالج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ابرار اس سے مل کر بہت متاثر ہوا اور اپنے دوست کے تعاون سے اس نے بھی اسی کالج میں داخلہ لے لیایہاں تک کہ گریجویشن مکمل کرلی اور پھر آگے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی تیاری کرنے لگا۔وہ بہت اچھا طالب علم کہے جانے کے قابل تو نہ تھا مگر محنت سے اہلیتی امتحان پاس کرکے کسی طرح یونیورسٹی پہنچ گیا۔گھر والے اس کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے بالکل تیار نہ تھے ۔ لہذا وہ پارٹ ٹائم ٹیوشن یا کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے یا پھر دوست یاروں سے ادھار لے کر یا طفیلی بن کر اپنا خرچ پورا کرتا۔ کبھی کبھی اس کے پاس صابن خریدنے کے لیے پیسے بھی نہ ہوتے تھے ۔ایسی تنگ حالی میں وہ ہوسٹل کے باتھ روم میں پڑے ہوئے صابن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے اپنے کپڑے دھوتاتھا۔ اس کی شکل و صورت تو کچھ خاص نہ تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ ایک بد صورت آدمی تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ اسے بھی اس وقت تک خود پر کوئی ناز نہ تھا بلکہ وہ احساس کمتری کا شکار تھاجس کی وجہ سے وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتا تھا۔
یونیورسٹی کا ماحول کالج سے منفرد تھا ۔ یہاں کے مخلوط ماحول ، آزادخیالی اور نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان رومانس نے اس کے مردانہ جذبات کو مشتعل کر دیا۔ پھر کیا تھا، وہ شرم ، جھجھک اور احساس کمتری کے باوجود لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کا متلاشی نظر آنے لگا مگر جیب خالی ہونے کی وجہ سے مجبور تھا۔ جب میرے قریبی دوست کی وجہ سے میری اس سے جان پہچان ہوئی تو وہ بہت جلد مجھ سے گھل مل گیااور ہنسی تفریح کرنے لگا ۔ہم لوگ جن میں میں ، میرا دوست اور ابرار شامل تھے،کبھی کبھار گھومنے پھرنے جاتے اورایک ساتھ لنچ بھی کیا کرتے تھے۔ دوران گفتگو وہ مجھ سے کہتا کہ’’ تمہاری جیسی کوئی تمہاری سہیلی ہو تواس سے میری دوستی کراؤ ‘‘۔
اسی دوران میری ایک سہیلی جو میرے پڑوس میں رہا کرتی تھی ،نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔وہ ایک قبول صورت عام سی لڑکی تھی جودرمیانہ قد، سانولی رنگت، آنکھوں پر نظر کا چشمہ ،چھوٹے دہانے او رموٹے ہونٹوں کی مالک تھی ۔ اس کا تعلق ایک متوسط اور دقیانوسی گھرانے سے تھا جہاں لڑکیوں کی تعلیم اور آزاد خیالی کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ مگر اس نے گھر والوں کے خلاف جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیاتھا۔وہ معمولی، کم قیمت مگر صاف ستھرے لباس میں یونیورسٹی آیا کرتی تھی ۔ اس کے سر پر ایک اسکارف ضرور ہوتا جو اس کے مسلم ہونے کی نشاندہی کیاکرتا تھا۔ایک دن اچانک لائبریری کے راستے میں میری اس سے ملاقات ہوگئی ،اس وقت مجھے ابرا رکی یہ بات یاد آئی کہ’’تمہاری جیسی کوئی تمہاری سہیلی ہو تواس سے میری دوستی کراؤ ‘‘، تو میں نے اس کا تعارف ابرار سے کرا دیا جو اس وقت میرے ساتھ ہی تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی ۔
ابرار سینئر تھا اس نے کتابیں دلانے ،نوٹس تیار کرنے اور دیگر چھوٹے موٹے کاموں میں میری سہیلی کی مددکرنے میں اہم کردار ادا کیا پھراس کے اس تعاون نے رفتہ رفتہ ان کے دل میں محبت کے جذبات پیدا کر دیے اورپھر دونوں ایک ساتھ عاشقوں کی طرح یونی ورسٹی کیمپس میں گھومنے پھرنے لگے ۔اس درمیان ابرار اپنے دوستوں سے ملنا چھوڑ چکا تھا جس میں میں بھی شامل تھی۔ اسے اس کی وہ ساتھی مل گئی تھی جس کی اسے تلاش تھی ادھرمیں بھی اپنی پڑھائی میں مشغول ہو گئی تھی ۔
دو سال بعد کینٹین میں اچانک میری نظر ابرار پر پڑی جو کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا ۔ میں اس کے پاس گئی اور اس سے اپنی سہیلی کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے بے اعتنائی سے جواب دیا کہ وہ یونی ورسٹی چھوڑ کر چلی گئی ہے، اب وہ کہاں ہے مجھے نہیں معلوم۔شاید اس کی شادی ہوگئی ہے۔اس کا یہ جواب کسی بھی درد یا افسوس سے عاری تھا۔
ابرار کے اس جواب سے مجھے بڑی حیرانی ہوئی اور میں نے اپنے دل میں کہا :
– ’’یہ کس قسم کا انسان ہے جسے اپنے دوست کی جدائی کا ذرہ برابر غم نہیں ہے‘‘!
اس کے بعد جب بھی کبھی میری نظر اس پر پڑتی تو میں اسے دیکھتی کہ وہ کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ گھوم پِھر رہاہے اور نسوانی نفسیات پر مشتمل اشعار سنا کر اسے لبھانے کی کوشش کر رہا ہے اوراس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہاہے۔ ایسی صورت میںجب اس کی نظر مجھ پر پڑتی تو وہ مجھے نظر انداز کر دیتا گویا وہ مجھ سے کہہ رہا ہو ’’ابھی کچھ نہ بولو‘‘۔
یوں وقت گزرتا گیا اور اس کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی۔تعلیم مکمل ہو نے کے بعد ہوسٹل وغیرہ کی سہولیات جواسے یونی ورسٹی کی جانب سے مہیا تھیں سب ختم ہو گئیں جس کی وجہ سے اسے مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی مالی پریشانیوں کو دیکھ کر اس کے سپروائزر کے دل میں اس کے لیے ہمدردی پیدا ہو گئی اور انہوں نے اِدھر اُدھر کر کے اسے اسسٹنٹ پروفیسر کے لائق نہ ہوتے ہوئے بھی اس باوقار عہدے پر فائز کرا دیا۔ اب وہ ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا تھا ۔
یونی ورسٹی میںنوکری ملنے کے دو ماہ بعد ایک دن راہ میں جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے مبارکباد دی اور کہا:’’ اب تو شادی کر لو ‘‘۔ اس نے میری طرف خمار آلو د نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا :’’ اگر کوئی ہے تو بتاؤ‘‘۔
’’ کس طرح کی لڑکی چاہتے ہو‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے کہا:
’’ مجھے ایک خوبصورت، پڑھی لکھی جو انگریزی بہت اچھا بولتی ہو، جاب ہولڈر ہو تو بہت اچھا رہے گا ,یا جس کے والدین میں سے کوئی سول سروس میں ہو ، خوشحال اور مال دار گھرانے کی ہو ، اکلوتی ہو تو کیا کہنے ‘‘ ایسی لڑکی دلا دو۔ میں اس سے آنکھ بند کر کے شادی کر لوں گا‘‘۔
اس کا جواب سن کر میں حیرت میں غرق ہو گئی اور سوچنے لگی:
’’ یہ بد شکل، بد سلیقہ انسان جو کل تک کچھ نہیں تھا ، جو خودایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، جس کے والدین اسے صرف دینی تعلیم دلانا چاہتے تھے ،جو اس کی اعلیٰ تعلیم کے شدید مخالف تھے ۔یہاں تک کہ اس کے تعلیمی اخراجات تک اٹھانے کو تیار نہ تھے ، آج ملک کی مایہ ناز یونیورسٹی میںسفارشی نوکری حاصل کرنے کے بعد اپنی اصلیت کو فراموش کر بیٹھا ہے ۔اب اس کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے۔وہ اپنی پچھلی زندگی کو یکسر بھلا بیٹھا ہے ۔ کیا اس نے اپنی شکل اور اپنی عمر نہیں دیکھی ؟ کیا ہندوستان میں لڑکی کی اتنی ہی عزت ہے کہ کوئی بھی والدین صرف ایک اچھی نوکری دیکھ کر اپنی بیٹی اس قسم کے آدمی کے حوالے کر دیں ؟ کیا لڑکی کی اپنی کوئی پسند نہیں ہوتی؟ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی لڑکی اب اسے ناپسند کر ہی نہیں کر سکتی؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے ۔
’’دراصل جو شخص کل تک احساس ِ کمتری کا شکار تھا آج وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہو گیا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ اس کی موجودہ پوزیشن کے آگے کوئی بھی لڑکی ماتھا ٹیک دے گی۔اب وہ خود کو اونچے لوگوں میں شمار کرنے لگا ہے ۔‘‘ میں نے اپنا پرس کندھے پر ٹھیک سے رکھا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی : ’’ٹھیک ہے ڈھونڈوںگی کوئی اپسرا ۔۔۔۔۔تمہارے لیے‘‘۔
درحقیقت نوکری کے بعد اس نے شادی کے لیے اپنے ذہن میں ایک ایسی لڑکی کا تصور قائم کر لیا تھا جو خوب صورت ، تعلیم یافتہ ، مال دار اور اونچے خاندان سے تعلق رکھتی ہو۔اس کے والدین میںسے کوئی ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو ۔چنانچہ وہ اپنی خوابوں کی اس پری پیکر کو تلاش کرتا رہامگر سیکڑوںلڑکیوں کو دیکھنے کے باوجود اسے ایسی اپسرا نہ ملی جو اس کی مطلوبہ شرائط پر پوری اترتی ہو۔
لہذاوہ یکے بعد دیگر سینکڑوں لڑکیوں کو ریجکٹ کر تا رہا کیونکہ کوئی حسین ہوتی مگر پڑھی لکھی نہ ہوتی، کوئی پڑھی لکھی ہوتی تو خوبصورت نہ ہوتی، کوئی مال دار ہوتی توحسین نہیں ،کوئی حسین ہوتی تو مالدار نہیں۔کوئی مال دار اورپڑھی لکھی دونوں خوبیوں کی مالک ہوتی مگر خوبصورت نہ ہوتی،کوئی پڑھی لکھی خوبصورت اور مال دار بھی ہوتی لیکن اس کا خاندان اعلیٰ نہ ہوتا یا اس کے والدین میں سے کوئی سول سروس میں نہ ہوتا۔ الغرض اس کی کسوٹی پر کوئی لڑکی پوری نہیں اُترتی اور اپنی اس خود ساختہ معیار ی لڑکی کی تلاش میں اس کی شادی کی عمر نکلتی چلی گئی۔ اسی جد و جہد میں مزید سال گزرگئے اور پھر ایسا بھی ہونے لگا کہ عام سی قبول صورت لڑکی تک بھی اس کی اعلیٰ پایہ کی نوکری کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اسے ریجکٹ کرنے لگی۔ جس نے اس کے وجودکو ہلا کر رکھ دیا۔مسلسل انکار اور ناپسنددیدگی کی مار سہتے ہوئے اب وہ یہ سمجھوتہ کرنے پر تیار ہو گیا تھا کہ کسی بھی لڑکی سے شادی کر ہی لینی چاہیے کیونکہ شادی کے لیے صرف ایک لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بڑی مشکل سے اسے ایک خوب صورت عورت ملی جو اس سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو گئی ۔ وہ تعلیم یافتہ ،مال داراور اپنے والدین کی اکلوتی اولادتو تھی مگرساتھ ہی وہ مطلقہ بھی تھی جسے اس کے شوہر نے اس کے تکبر کی وجہ سے چھوڑ دیا تھامگر ابرار نے اپنی حرص و طمع کی وجہ سے اس سے شادی کر لی ۔لیکن ان دونوں کے درمیان تفاوت ِعمر ، عادات و اطوار میں اختلاف اور غریب و مال دار کلچر کا تصادم ہونے کی وجہ سے کبھی بھی ذہنی ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی محض دو سال میں ہی ختم ہو گئی۔
اس المیہ کے بعدسے لے کر آج تک وہ تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے ۔ اور ہمیشہ اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کسی لڑکی کے ساتھ کچھ وقت ہنستے مسکراتے ہوئے گزار ے ۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ اپنی طالبات کو ہر ممکن طریقے سے لبھانے کی کوشش کرتا ہے، ان پر روپے پیسے خرچ کرتا ہے ،انہیں امتحان میں پاس کرنے، امتیازی نمبر دینے اور نوکری دلانے کا لالچ دے کر اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جس میں اسے کبھی کبھار عارضی خوشی تو حاصل ہوجا تی ہے مگر دائمی دلی سکون و اطمینان اور خوشی سے وہ ابھی تک محروم ہے اور کوئی بھی لڑکی یا عورت جو اس سے کبھی مسکرا کر بات کرلے ،کی طرف دل پھینک عاشق کی طرح لپکتا ہے تاکہ وہ جامِ محبت سے سرشار ہو سکے مگرعمر کی اس دہلیز پروہ محبت کا جام پیے بغیر ہی پیاسا لوٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اس پیاسے انسان کی طرح جوریگستان میں پانی سمجھ کر سراب کا پیچھا کرتا ہے اور جب سراب کے پاس پہنچتا ہے تو اسے مایوسی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
میں اپنی انہی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ ابرار اور اس کی طالبات کے بے ہنگم قہقہہ لگانے کی بلند آواز وں نے میری یادوں کے اس تسلسل کو توڑ دیااورمیں ماضی کی وادیوں سے گزر کر حال میں لوٹ آئی ، میں نے محسوس کیا کہ اس کے بلند و بانگ قہقہہ میں خوشی و انبساط کی وہ لہر نہیں تھی جو زمانۂ طالب علمی میں ہوا کرتی تھی بلکہ اس قہقہہ میں غم، مکاری ، کرب ، فریب اور کھوکھلے پن کی صدا مجھے صاف سنائی دے رہی تھی۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی اور اس نے مجھے پہلے کی طرح ہی نظر انداز کردیا گویا کہ وہ مجھ سے کہہ رہا ہو:’’ ابھی کچھ نہ بولو‘‘۔
***