غلام قادر
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
اجمل اجملی کا شعری اختصاص
آزادی کے بعد اردو شاعری کے باب میں جن شعراکا ذکر ملتا ہے ان میں ایک نمایاں نام اجمل اجملی (۱۹۹۳۔۱۹۳۵) کا ہے۔ جن کی شاعری عوامی مسائل اور داخلیت سےپر ہے ۔ ’’ آپ کی ولادت یکم مارچ ، ۱۹۳۵،کو ایک صوفی گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا شاہ سیداحمد اجملی دائرہ شاہ اجمل ( الہ آباد کی ایک مشہور خانقاہ )کےسجادہ نشین تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اسی خانقاہ میں ہوئی ۔اعلی تعلیم کے لئے الہ آباد یونیور سٹی چلے گئے۔وہیں سے بی ، اے اور ایم ،اے ،کیا اور ۱۹۶۴میں ڈی فل کی ڈگری کے لئے’’ اردو کے افسانوی ادب میں عوامی زندگی کی عکاسی ‘‘ پر مقالہ لکھا۔۱۹۹۰ میں شعری مجموعہ ’’سفر زاد‘‘ شائع ہوا جس پر ان کو اتر پردیش اردواکادمی کی جانب سے ایوارڈ ملا ‘‘۔ ۱؎
اجمل اجملی کی شاعری میں زندگی کے کئی رنگوں دیکھا جا سکتا ہے ۔ انھوں نےزندگی میں پیش آنے والے مصائب کا جہاں ذکر کیا ہے وہیں اس سے نجات پانے کا راستہ بھی بتایا ہے ۔ ان کے یہاں بھی درد و غم کا ذکر ملتا ہے مگر یہ غم میر ؔیا فانی ؔ کی طرح نہیں کہ قنوطیت چھا جائے اور انسان غم کا مجسمہ بنا رہے ۔ بلکہ یہاں غم سے باہر آنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔
اے مرے شہرتری بزم طر ب زار سے دور
دکھ ملے کیسے ، بتاؤں تو بتا بھی نہ سکوں
اجنبی شہر کی، انجان گزر گاہوں کی
سرگذشت آج سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
ہر گھڑی یاد کے خنجر سے لگے ہیں پیہم
زخم اتنے کے گناؤں تو گنا بھی نہ سکوں
زخم سے چور ہے ہر خواب ،پر ایسا بھی نہیں
کہ نئے خواب سجاوٗں تو سجا بھی نہ سکوں ؎۲
مذکورہ بالا بند سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شاعر نے زمانے کی بہت سارے تکلیفوں اور دکھوں کا سامنا کیا بہت سارے غموں کو دل نے برداشت کیا مگر ان تمام چیزوں کے باوجود اس کے اندر یہ طاقت اور سکت موجود ہے کہ نئے خوابوں کو سجا سکتا ہے ۔ یعنی انسان پر کتنا ہی بڑا دکھ و درد اورغم و کلفت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اس کو برداشت کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ایک نئی دنیا آباد کی جا سکتی ہے اس قسم کے حوصلے انسانوں کے زخمی دلوں پر مرہم کا کام کرتے ہیں اور زندگی کے نئے باب کو ایک الگ انداز سے سجانے اور سنوارنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
اور اسی مضمون کو ایک جگہ یوں بیان کرتے ہیں:
سراٹھا تے رہے ہر گام مصائب کے پہاڑ
میں اسی طرح قدم اپنے بڑھاتا ہی رہا
دل کی چوکھٹ کو تھپکتے رہے آلام کے ہاتھ
میں ہر اک لمحہ مگرہنستا ہنساتا ہی رہا
تیرگی سلسلہٗ دار بچھاتی آئی
اور میں مشعل اخلاص جلاتا ہی رہا
موت در پے تھی کہ مٹتے رہیں قدموں کے نشاں
اور میں اک نئی تاریخ بناتا ہی رہا ۳؎
مذکورہ بالا بند اول الذکر بند سے زیادہ حوصلہ اور ہمت افزا ہے اور یہ حقیقت بیانی بھی ہے کہ زندگی کے کئی موڑ پر مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ان مصائب کو دیکھ کر ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ قدم کو آگے بڑھانا چاہیے اور اس منزل میں پیش آنے والی دشواریوں کو برداشت کر کے کامیابی حاصل کرنی چاہیے ۔بند میں اس بات کا ذکر کہ موت در پے تھی مگر میرا عمل جاری تھا اور میں تاریخ رقم کرتا رہا اس میں قاری کے لئےایک مثبت پیغام بھی ہے کہ مشکلیں اور دشواریاں زندگی کا حصہ ہیں مگر عمل پیہم سے تاریخ رقم کی جا سکتی ہے۔
ہندوستان میں فساد ایک بڑا مسئلہ رہاہے جس کی وجہ سے اس ملک کو بہت نقصان اٹھاناپڑاہے ۔ اور اس پر بہت سارے ادیبوں اور فنکاروں نے اپنے اپنے طورپر درد و کرب کا اظہار کیا ہےچنانچہ اجمل اجملی نے بھی اس کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس پر اپنی کیفیت یوں ظاہر کی ہے۔
جا بجا بکھرے ہوئے کا سہ سر کے ٹکڑے
کیا پتہ شہر تھا آباد کہ مدفن تھا یہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر سے ان اینٹوں کو جوڑوں تو سمجھ میں آئے
کوئی مندر تھا کہ مسجد تھی کہ آنگن تھا یہاں ۴؎
ان دونوں حصوں میں ایک طرح کے کرب کو دیکھا جا سکتا ہے اور سماج پر ایک قسم کی چوٹ بھی ہے کہ لوگوں نے شہروں کو کس طرح متعفن بنا دیا ہے کہ ہر طرف جسم کے کٹے حصے نظر آرہے ہیں اور اسے شہر نہیں مدفن ہی سمجھا جائے گا اور وہیں اس درد کا اظہار بھی ہے کہ لوگوں نے مسجد اور مندر کے نام پر فساد بر پا کر کے نہ صرف مسجدوں اور مندروں کو توڑ ڈالا بلکہ بستیاں بھی اجاڑ ڈالیں۔اور دوسری جگہ اسی قسم کے مضمون کو اجملی نے اپنی نظم’’اعتراف ‘‘ ( جو کہ دلی اور میڑٹھ کے فسادات پر لکھی گئی ہے) میں یوں بیان کیا ہے۔
آج پھر خون بہا
بے گنہ خون کے دھبے ہیں مرے دامن پر
اور ان دھبوں میں گم ہو تا چلا جاتا ہے شاعر کا وجود
ہر طرف جلتے ہوئے جسم کی بو، خوف کے بھوت
کوئی شمشان نہ کوئی تابوت
ہر کوئی مہر بہ لب ؎۵
اس طرح کی کئی نظموں میں اجملی نے فساد کہ المیے کو بیان کیا ہے جس میں ’’پھول زخمی ہیں ‘‘اور’’ صلیب‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اجمل اجملی کی شاعری میں ترقی پسند مزاج واضح طور پر دکھائی دیتا ہے اور ان کے نظموں کے مضا مین بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں۔چنانچہ اقباؔل اور سردار جعفرؔی کی طرح اجملی نے بھی لینن کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
اور ان کی ایک نظم کا عنوان ’’لینن‘‘ ہے ( جسے انھوں نے صد سالہ جشن ’’لینن‘‘ کے موقع پرلکھا تھا) جس میں انھوں نے لینن کو دور حاضر کے لیے حاصل تاریخ کہا ہے ۔
ان گنت روزوشب و لمحہ و ساعات کے اس طوفاں کو
ایک ہی لفظ کے کوزے میں سما سکتا ہوں
اور یہ لفظ ہے لینن کہ جسے
دور حاضر کے لئے حاصل تاریخ کہیں ۶؎
پروفیسر سیدمحمد عقیل لکھتے ہیں کہ:
’’ ترقی پسند دورشاعری کی تقریبا تمام خوبیاں موجود ہیں ،رومانیت اور اس کی تلخیاں ،فکر میں خارجی اظہاریت ، عزم اور آہنِگ انقلاب ، سماجی نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد اور پھر ایک نئی صبح کا انتظار جس میں انسانوں کی دنیا بدلے گی اور ان صورتوں کے اظہار کے لئے نظم کا سانچہ۔ میرا خیال ہے کہ اجمل کی شاعری کی یہی محبوب صورتیں ہیں ‘‘۔ ۷؎
اردو شاعری کے باب میں غاؔلب اور انؔیس کی حیثیت امتیازی ہے ۔اجملی نے ان دونوں شعرا کی شعری خصوصیات کا ذکر کرتےہوئےان کی شاعری کے مقام و مرتبے کا اعتراف کیا ہے اور ان کی اس امتیازی مقام پر داد بھی دی ہے چنانچہ غالب کے متعلق ان کا یہ بند دیکھیں :
اشعار کی زبان میں انسان کے تجربات
جملوں کے پیچ و خم میں نہا ں شور ش حیات
لمحے میں ماہ و سال تو قطرے میں کائنات
بیگانئہ قیود تھے اس کے تخیلات
اس آنکھ میں معلم میں اول کا نور تھا
اس کا شعور آدم نوکاشعور تھا ۸؎
صرف ایک بند میں مرزا کی شاعری کے متعدد صفات دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو کہ غالب کی شاعری کے امتیازی خصوصیات ہیں ۔مثلا گہرے انسانی تجربات ،زندگی کے مسائل ،تخیل کی بلند پروازی ،ان کی ذہانت اور طبیعت کی اعلی ظرفی غیرہ ۔
اور انیس جن کا مرثیے کے باب میں منفرد مقام ہےان کے متعلق اجملی کا یہ بند ملاحظہ کریں:
کیا قدرت بیان ہے کیا حسن کار ہے
موضوع شعر ایک ہے صورت ہزار ہے
ہر شعر واقعات کا آئینہ دار ہے
منظور ہو غلو تو ثریا شکار ہے
تخیل و تجربے کی کڑی ٹوٹتی نہیں
اڑتا ہے آسمان پہ زمیں چھوٹتی نہیں ۹؎
مذکورہ بالا بند میں انیس کے جو امتیازی خصوصیات ہیں اس کا بیان ہے ۔مثلا بیان پر قدرت،ایک موضوع کو متعدد پیرائے میں بیان کرنا،پیکر تراشی،واقعات کی منظر نگاری ،مبالغے میں منطقی طرز عمل اور خیالات کی بلند پروازی وغیرہ ۔
اجمل اجملی کی شاعری کی خصوصیت جدت طرازی اور رجائیت ہے انھوں نے اپنی شاعری میں جہاں غم و یاس کا ذکر کیا ہے وہیں امید بھی دلائی ہے اور مسائل کے طوفان کا مسلسل مقابلہ کرنے کا ہنر بھی بتایا ہے۔ ان کی نظموں میں عوامی مسائل کا ذکر ہے وہیں غزلوں میں تغزل کی چاشنی کے علاوہ زندگی کے دیگر مسائل کو بھی بیان کیا گیاہے ۔ ان کی غزلوں میں زبان کی صفائی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے اور الفاظ کی بہتر ترکیب سے ایک خاص قسم کی نغمگی بھی پیدا ہوجاتی ہے:
مرے ہم سفر نہ ابھی ٹھہر ، ابھی منزلیں بڑی دور ہیں
ابھی سر کو خوف تبر نہیں، ابھی دل میں نوک ِسناں نہیں
نہ کنول کھلے، نہ چمن سجے نہ کھلی ہنسی مرے ہم نشیں
وہ بہار کوئی بہار ہے جسے کہہ نہ دیں کہ خزاں نہیں ۱۰؎
مذکورہ بالا دونوں غزلیہ اشعار میں الفاظ کی ترتیب اور عمدہ بندش کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سراج اجملی بجا طور پر لکھتے ہیں: ’’اجمل اجملی کی غزلیہ شاعری اپنی ترتیب وتہذیب اور نوک ِپلک کے لحاظ سے خاصےّ کی چیز ہے‘‘۔۱۱؎
اجمل اجملی کی غزلیہ شاعری میں غم کی جو کیفیت ہے وہ صبر آزماہے مگر آہ و فغاں نہیں جو قاری کو حوصلے کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے:
تیرے در سے غم لے کر جب گنا ہگار اٹھے
مے کدوں کا کیا کہنا مسجدیں سنوار آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے اب بھی میرے ظرف سے کم غم کی شراب
تھوڑی سی اور تلخی حالات چاہیے
غم اور کیفیت ِغم کے متعلق سید سراج الدین یوں رقم طراز ہیں :
’’اجمل اجملی کے یہاں تقدیس غم کی کیفیت انھیں اپنے معاصرین میں ایک امتیاز بخشتی ہے‘‘۔ ۱۲
ان کی غزلوں کے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ کریں :
ہم بد نصیب تھے کہ کٹی عمر خواب میں
تم با مراد خواب کی تعبیر دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں نے لکھا ہے خط میں جہاں جاؤ خوش رہو
مجھ کو بھلے نہ یاد رکھو ،گھر نہ بھولنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاران سفر کوئی دوا ڈھونڈ کے لاؤ
انسان مرے دور کا بیمار بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تری یاد بھی نہیں آتی
کتنا دل کش حیات کا غم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیات یوں تو مسلسل سوال تھی لیکن
تیرے کرم سے کڑا کوئی امتحان نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو ملی ہر ایک سے سرمستیوں کی داد
تیری نظر کو لغزش پا ڈھونڈتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیروں نے جو سلوک کیا اس کا کیا گلہ
پھینکے ہیں دوستو ں نے جو پتھر سمیٹ لوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن تو اپنا غم دے کر ہی بیٹھ رہے گا شیش محل میں
عشق بیچارا تنہا تنہا ،کوچہ کوچہ رسوا ہوگا
ان غزلیہ اشعار میں زمانے کے مسائل کو جس طرح سے ذکر کیا گیا ہے اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اجمل اجملی کی شاعری زندگی کا ترجمان ہے ۔ایک طرف جہاں عشق و محبت کا ذکر ہے وہیں ہجر و وصال کا بھی ذکر ہے،جہاں معشوقوں ے ملنے والے غم کا بیان ہے وہیں غم حیات کا بھی ذکرہے۔ان کی شاعری میں آفاقیت پائی جاتی ہے جو زندگی کے تقاضوں کی آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری سرمایے کے مختصر ہونے کے با وجوداتنی مقبولیت حاصل ہوئی ۔
حواشی:
۱۔ماہنامہ کتاب نما (خصوصی شمارہ) ٍشمارہ نمبر ۲ ،جلد نمبر ۳۳،مرتبہ علی احمد فاطمی(مشمولہ مضمون ’’سوانحی خاکہ ‘‘: ادارہ) مطبع مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔۱۹۹۲
۲۔سفر زاد ،اجمل اجملی ،مطبع سن اشاعت ۱۹۹۰۔ ص ۳۸
۳۔ایضاً ص ۴۱
۴۔ ایضاً ص ۳۵
۵۔ ایضاً ص۴۸
۶۔ ایضاً ص۴۶
۷۔ ماہنامہ کتاب نما (خصوصی شمارہ) ڈاکٹر اجمل اجملی ، ٍشمارہ نمبر ۲ ،جلد نمبر ۳۳،مرتبہ علی احمد فاطمی(مشمولہ مضمون ’’سفر زاد ۔ایک تجزیہ ‘‘: پروفیسر سید محمد عقیل) مطبع مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔۱۹۹۲ ص ؎۱۹
۸۔ سفر زاد ،اجمل اجملی ،مطبع سن اشاعت ۱۹۹۰۔ ص ۶۸
۹۔ ایضاً ص۶۶
۱۰۔ ایضاًص ۹۲
۱۱۔۔ ماہنامہ کتاب نما (خصوصی شمارہ) ڈاکٹر اجمل اجملی ٍ،شمارہ نمبر ۲ ،جلد نمبر ۳۳،مرتبہ علی احمد فاطمی(مشمولہ مضمون ’’غزل گو اجمل اجملی ‘‘: سراج اجملی) ص ۳۴؎مطبع :مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔۱۹۹۲
۱۲۔ ایضاًص ۳۵
8802164185
880GLM@GMAIL.COM