You are currently viewing اجمل اعجاز: اپنی چند نگارشات کے آئینے میں

اجمل اعجاز: اپنی چند نگارشات کے آئینے میں

کومل شہزادی،پاکستان

اجمل اعجاز: اپنی چند نگارشات کے آئینے میں

اجمل اعجاز ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار،شاعر اورڈرامہ نگار ہیں۔ادبی حلقے میں انہیں افسانہ نگار کے طور پر جاننا جاتا ہے لیکن یہ ایک حساس شاعر بھی ہیں۔ادب میں ان کی پہچان افسانہ نگار کے طور پر ہوئی لیکن بعدازاں انہوں نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی۔ان کی افسانہ،ڈرامہ اورشاعری پر متعدد کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔اجمل اعجاز کی اہم تصانیف میں اصلی خزانہ بچوں کے لیے ناول 1991ایک محقق تین کتابیں منتخب افسانے 1992بے لباس موسم، افسانے 1998اس کا پنچھی، ڈرامے 2012،درد کا چاند، ڈرامے 2013،زرافہ اور لمبی لڑکی، افسانے 2015،زندگی اے زندگی وغیرہ شامل ہیں۔یہ ایک سنجیدہ قلم کار ہیں جس کا اعتراف ادب کی اہم ادبی شخصیات نے بھی کیا۔

یوں تو ہر شاعر اپنی شاعری کو انمول سمجھتا ہے مگر میں اُس شاعر کی شاعری کو اہم جانتی ہوں جو شاعری کے مختلف مدراج بتدریج طے کرکے آیا ہو ،شاعری کی خوبصورت روایتوں کا احترام کرتا ہو جو شاعری میں کچھ جدید کام کرنے کی اُسی حد تک کوشش کرے جس کی اجازت شاعری کے مسلمہ اُصول اُسے دیتے ہیں ۔جو اوزان وبحور کی پابندی کرنے والا ہو کیونکہ نثر کتنی ہی پرتاثیر کیوں نہ ہو وہ شاعری نہیں ہوسکتی۔ردیف وقوافی کی بعض بندشیں خود خیالات کو کھینچ کرشاعر کے نوک قلم تک لے آتیں ہیں اوراُن سے مفر ممکن نہیں ہوتا ۔ان کے مشاہدے ،تجربے اور فکری اساس کی غمازی کرتا ہے۔اس کتاب” کوئی ستارہ اچھال”  میں شامل غزلوں کا بیانیہ فرداورسماج کی ان مختلف صورتوں کوسامنے لانا ہےجس سے ہم فرار توحاصل کرسکتے ہیں۔انکار ہرگز نہیں کرسکتے۔یہ حقائق تو ہم سب شاعروں ،ادیبوں کے سامنے کھلی کتاب کی صورت موجود ہیں مگر اسے اپنے احساس کا حصہ بنانا اجمل اعجاز جیسے حساس دل رکھنے والے شاعر کے حصے میں ہی آتا ہے۔

اجمل اعجاز کا پہلا جوالہ تو اگرچہ شاعری بھی ہے مگر ادبی حلقوں سے باہر عام لوگ انہیں افسانہ نگار کے روپ میں زیادہ پہچانتے ہیں۔

جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ عہد زندگی کا عہد نہیں ہےبس سانسیں چل رہی ہیں اورزندگی ہے۔انسانی اقدار مٹی میں مل چکی ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں سوائےمفاد کے زندگی کا ہر پہلو زوال پذیر ہے۔شاعری ہو،افسانہ ہو یا ڈرامہ ہر شعبہ ہی روایتی ہوچکا ہے۔اب محبت اور خلوص کے جذبوں کی جگہ ہوس نے لے لی ہے۔کہتے ہیں شاعر کسی بھی معاشرے کا نمائندہ ہوتا ہے۔وہ جو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اسے لباس شعر پہنا دیتا ہے۔جسے بعد میں ہر کوئی اپنی کہانی محسوس کرتا ہے یہ ہی ایک مکمل اور کامیاب شاعر کا فن ہے۔برصغیر میں اردو شعراء نے اپنے اپنے عہد میں بہت عمدہ اور مثالی کام کیا ۔اجمل اعجاز بھی قدیم وجدید شعراء کی صف کا وہ روشن شاداں تاباں ستارہ ہے جس نے معاشرے کی حقیقی تصویر کو شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہےان کی غزل میں ایک خاص لطافت خاص لہجہ اور خاص قسم کی دھیمی دھیمی موسیقیت سوز ودلگداز اور منظرنگاری نمایاں ہے۔اجمل اعجاز اچھے شاعر ہیں اتنے ہی اچھے انسان بھی ہیں ۔زیست کو گیرائی سے محسوس کرتے ہیں۔

زندگی سوز بھی ہے، ساز بھی ہے

کچھ حقیقت ہے کچھ مجاز بھی ہے

مہلت عمر مختصر ہے بہت

شب غفلت ،مگر دراز بھی ہے

زندگی کا ہے راستہ پُر پیچ

کچھ نشیبی ہے، کچھ فراز بھی ہے

زندگی کا سفر کسی کا بھی آسان نہیں ہوتا اسے آسان بنانا پڑتا ہے کبھی جی کر اور کبھی مرکر ۔زندگی نشیب وفراز کا ہی نام ہے جس میں زوال وعروج آتے جاتے رہتے ہیں۔اپنی انہیں کیفیات کو اجمل اعجاز شعر کی صورت اس طرح ڈھالتے ہیں کہ وہ عمدہ شاعری کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔

ہے سفر زیست کاکٹھن ،دشوار

روز جیتے ہیں، روزمرتے ہیں

بن ہی جاتا ہے راستہ اعجاز

جس زمیں سے بھی ہم گزرتے ہیں

ہماری زیست میں کچھ ایسے لمحات ہوتے ہیں جو تھکا دینے والے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ ان لمحات میں ہمت چھوڑ دیتے ہیں لیکن کچھ اپنے دفاع میں لگے رہتے ہیں اور بار بار ہار کر بھی فتح یاب ہوجاتے ہیں ۔انسان کی زندگی میں کامیابی اُسی کی ہے جو مستقل مزاجی سے کام لیتا ہے۔

تھک کے ہوئے ہیں چُور ، سفر بھی جاری ہے

دن توگزر گیا ہے مگررات بھاری ہے

نیرنگی حیات کے بس دوہی رنگ ہیں

ہنس کرگزاری ہے کبھی ،روکرگزاری ہے

ان کا شعری کلام رومانیت ، اور حقیقت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔جہاں ان کے ہاں بہت سنجیدہ زندگی کے متعلق موضوعات ہیں وہیں رومانوی موضوع بھی ان کی شاعری کا خاصا ہے۔

میرے عشق کی ایک عبادت

تیرے حسن کی مالا جپنا

اُس کی آنکھ کاایک اشارہ

پھر کیا جینا اور کیا مرنا

اجمل اعجاز افسانہ نگاری میں بھی ایک اہم مقام رکھتے ہیں ان کے افسانوی مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کا تازہ افسانوی مجموعہ ” زندگی کہانی ہے” جس میں ١٨ افسانے شامل ہیں۔تمام افسانے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ان کے افسانوں کے کردار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور یہ وہی کہانیاں ہیں جو مشرقی معاشرے کے روزمرہ مسائل ہیں۔کچھ کہانیاں سماجی ناہمواریوں سے ہٹ کر بھی ہیں جس میں منفرد رنگ نظر آتا ہے۔اس منفرد افسانہ میں ہمیں انکی منظر نگاری بھی عروج پر ملتی ہے۔

افسانہ ” دیواریں ” جس میں ایک وفا شعار اور سگھڑ بیوی کے اوصاف بہت خوبصورتی سے کہانی کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں۔اس میں مہناز اس کا خاوند اور اس کا بیٹا فراز کے کردار ہیں۔مہناز جو ہر میہینے اپنے میاں کی آمدنی سے چند پیسے بچاکر جوڑتی ہے۔اس افسانے میں یہ بتایا گیا ہے کہ اچھی بیوی کسی بھی گھر کو جنت بناسکتی ہے۔مہناز کے کردار میں ہمیں ایسی ہی خاتون نظر آتی ہے جو گھر کو پرسکون بناکررکھتی ہے۔

افسانہ کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:

“پہلی تاریخ کو جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ ساری کی ساری میں مہناز کے ہاتھ میں تھما دیتا ہوں ۔اس طرح میں مہینے بھر کے اخراجات کی ذمے داری سے بری الذمہ ہوجاتا ہوں”

افسانہ ” بدلیوں کے چاند”جس میں تین افراد کی کربناک کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔اس کہانی میں بھی دو اسباق ملتے ہیں ایک وفادار بیوی کے جو اپنی زندگی اور صحت کو پس پشت ڈال کر مسلسل محنت وملازمت کرکے اپنے میاں کا علاج کرواتی ہے۔

چمپا کر کردار مشرقی معاشرے میں ہمیں اپنے اردگرد بھی گردش کرتا نظر آتا ہے ۔جو مجبوری کے تحت اپنی عمر دوسروں کے سکھ کے لیے گزار دیتی ہے لیکن اس پر بد الزامات بھی لگادیے جاتے ہیں جبکہ اپنی موت کے وقت وہ یہ الزام تراشی کو غلط ثابت کرنے کی اہل بھی نہیں رہتی۔سریش کی بیماری کے لیے پانچ سال دوسرے شہر میں گوپال باپو کے ہاں ملازمت کرتی ہے۔چمپا اپنی ماں کو خطوط بھی لکھتی ہے۔

اس افسانے میں ایک تنہا اور مجبور عورت کی بے بسی جو غربت کی ستائی جسے سکون میسر نہ آسکا۔اس کردار کی اذیت ان الفاظ میں بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

“غموں اور تکالیف کواپنی روح میں جذب کرتے کرتے اب وہ سراپا غم بن گئی تھی۔ہر وقت کی کھانسی اور بخار نے اُس کی صحت کو بگاڑ دیا تھا۔”

افسانے میں پہلے سریش کی بیماری سے مرنے کے بعد اُس کی ماں بھی مرجاتی ہے لیکن چمپا کو خبر نہیں ہوتی۔وہ پانچ سال بعد اچانک طبیعت ناساز ہونے سے ماں اور سریش سے ملنے واپس آتی ہے لیکن ٹرین کے بعد رکشے میں بیٹھ کر اپنےآشیانے تک پہنچنے سے قبل کی دم توڑ دیتی ہے۔اس وقت ماں لاجونتی کی موت پر ہی سب جمع ہوئے ہوتے ہیں اور چمپا کی پہچان کے بعد سب اس پر ایسا بہتان لگاتے ہیں کہ ایک عورت کی روح بھی تڑپ جائے کہ وہ مجبوری اور وفادار بیوی کے طور پر منظر سے غائب رہ کر ملازمت کرتی رہی۔

” چار سال ہوئے پتی تڑپ تڑپ کر مر گیا اوراب ماں بھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کراسے یاد کرتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔۔نہ جانے اب تک کہاں گل چھڑے اُڑا رہی تھی۔۔۔”

اس افسانے میں اجمل اعجاز کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خطوط کی تکنیک استعمال کی ہے۔یہ شاذونادر ہی ہمیں فکشن میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

افسانہ ” خزاں کا پھول ” جس میں ایک فلسفی کا نظریہ عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک فلسفی کے سوچنے کا انداز عام انسان سے مختلف ہوتا ہے۔

” وقت کادریا زندگی کے نشیب وفراز کوروندتا ہواگزرتا رہا میں اس کے اس اسکیچ کا منتظر تھاجس کے سہارے وہ مجھے سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے والا تھا کہ پھول خزاں میں کھلتے ہیں ، بہار میں نہیں۔”

اس افسانے میں ان کی منظر نگاری بھی باکمال ہے ۔قاری کو پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی منظر میں سانس لے رہا ہے جو مصنف تذکرہ کررہا ہے۔اس کے علاوہ اس مجموعے میں افسانے  دس منٹ، اندھیرا ، جال ، پیر بابا کی دعا وغیرہ شامل ہیں ۔ہر کہانی منفرد ہے اور الگ پہچان کی حامل ہے۔

المختصر یہ منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں انہیں لکھنے کے ساتھ جذبات واحساسات کو عمدہ الفاظ میں ڈھالنے پر مکمل مہارت حاصل ہے۔علاوہ ازیں افسانہ نگاری میں ان کا اسلوب نہ پیچیدہ تھا اور نہ ہی آسان تھا۔کہانیوں  میں ربط اور روانی ہے۔

اسد محمد خان جیسے اہم افسانہ نگار کی اجمل اعجاز کی افسانہ نگاری پر رائے ملاحظہ کیجیے:

” اپنی کہانیوں کے دائرہ وار طلسم کوان کی گرفت کو ۔۔۔جومن موہنی بھی ہے اور لرزہ خیز بھی۔۔۔پڑھنے والے کے کردار بھی مضبوط کرتے پھیلاتے رہو۔”

افسانہ نگاری کی  طرح ڈرامہ نگاری میں بھی انہوں نے بے حد عمدہ ڈرامے قلمبند کیے۔یہ ڈرامے پڑھنے کے بعد یہ رائے سے قارئین بھی اتفاق کریں گے کہ انہیں ڈرامے لکھنے پر بھی مکمل مہارت حاصل ہے۔ان کا ڈراموں کا مجموعہ ” بادل اورزمین ” جو اکادمی بازیافت سے ٢٠٠٩ میں شائع ہوا۔اس میں سات ڈرامے شامل ہیں۔ان کے

ڈرامے بھی ہمارے روزمرہ میں پیش آنے والے واقعات ہیں جو ہمیں اپنی زندگی میں درپیش آتے ہیں۔ڈرامہ ” زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے” جس میں مختصر کرداروں سے ایک اہم مخفی پہلو کو عیاں کیا ہے جس سے ہم دوچار ہوتے ہیں۔اس ڈرامے میں ایاز کے کردار سے دکھی انسانیت کاپرچار کرنا نمایاں کیا گیا ہے۔مرکزی کردار ایاز ایک ایسے ہسپتال میں ملازمت کرتا ہے جہاں نشے کے عادی افراد کو اس علت سے چھٹکارا کروایا جاتا ہے اور ایاز ان مریضوں ادویات دیتا ہے۔یعنی اس کا کام انسانیت کی خدمت کرنا ہے اور وہ اسے خوش دلی سے کرتا ہے۔ایاز کا کردار مرکزی ہے جس میں مثبت پہلو ملتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر عامر کا کردار ویلن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ڈاکٹر عامر جیسے کردار ہمارے معاشرےمیں مسیحا روپ بناکر انسانوں کو ڈستے ہیں ۔ایک مسیحا آپ کی زندگی کو بچانے کی تگ ودو کرتا ہے جبکہ مشرقی معاشرے میں ڈاکٹرز جس طرح انسان کا استحصال کرتے ہیں اورانسانیت کو پاوٴں کے نیچے روند دیتے ہیں۔یہ مسیحا کے روپ میں جلاد ہیں جو انسانوں کی جان بچانے کا ڈرامہ کرتے ہیں اور انسانوں کی جان کے دشمن ہوتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر عامر جو اپنے ہسپتال میں مریضوں کو نشہ آور ادویات دے کر اُن کو نشے پر لگاتا ہے اور پیسے بٹورتا ہے۔جلال جو اس ہسپتال میں یہ سب کروانے میں اس کا ساتھ دیتا ہے جو نشہ بیچتا ہے اور ان مسیحا کے ساتھ مل کر انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ایاز جو افسانے میں اصل مسیحا کا کردار ادا کرتا ہے۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” ہم علاج کے ساتھ ساتھ بنیادی اسباب کو دور کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔ایسے مریضوں کے دوستوں اورعزیزوں سے مل کر اس بنیادی سبب کا کھوج لگاتے ہیں جو اس لعنت میں انسان کو مبتلا کرتا ہےاور سب سے پہلے اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”

مسیحا کے روپ میں انسانیت کا قتل کرنے والے ڈاکٹر عامر کی جمال دین سے اس دھندے کے متعلق اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” آپ خود سوچیں اگر ہم یہ مریض تیار کرکے آپ کے پاس نہ بھیجیں تو کیا ہوگا؟ ۔۔۔۔مالدار نوجوانوں کو تلاش کرنااور پھر انہیں ہیروئن کاعادی بنانا آسان کام نہیں ہے، اگر ہم تعاون ختم کردیں تویہ اسپتال ایک دن میں۔۔۔۔۔۔”

ان ڈراموں کے علاوہ پہلی بوند، بھولا ہوا راستہ ، بادل اور زمین وغیرہ شامل ہیں۔ان ڈراموں میں ہمیں وہی کردار ملتے ہیں جو ہمارے اردگرد بھی گردش کرتے ہیں۔ان کے ڈراموں کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مکالمے آسان ہیں اور ان تمام ڈراموں کے کردار امراء طبقے کے نہیں بلکہ متوسط طبقے کے ہیں۔اجمل اعجاز کے ڈراموں کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاشرے کے حالات سے ناواقف نہیں ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے افراد کی کیفیات سے آشنا ہیں۔جنہیں انہوں نے فنکارانہ انداز میں ڈراموں کی شکل دی ہے۔یہ ڈرامے زندگی آمیز ہیں  اور ان ڈراموں میں ان کی فکر کی گہرائی اور مشاہدہ دیکھا جاسکتا ہے۔جزبات واحساسات کی ترجمانی انہوں نے ڈراموں میں خوب کی ہے۔ان کے ڈراموں کے کرداروں میں چاہے ایاز کا کردار ہو یا عارف اور سلمان کا یہ مثالی کردار معلوم ہوتے ہیں۔ان کے سب ڈراموں میں نسوانی کردار بھی جاندار ہیں۔بقول ڈاکٹر الیاس:

“اجمل اعجاز اپنے ڈراموں کا مجموعہ لارہے ہیں، یہ ہمت اور اعلیٰ ادبی احساس کا ثبوت ہے۔۔۔۔ڈرامے سے ان کا فطری لگاو ہے اوروہ اس کے بنیادی اصول سے بھی واقف ہیں اور یہ ہی بات فی زماننا کم یاب ہے۔”

***

Leave a Reply