سلیم سرور
احسن کی گڑیا (افسانہ)
عجلت میں قدم رکھتے ہوئے پاؤں تکونی سیل کے بیرونی اوراوپری کونے سے جاٹکرایا مگراحسن کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ آنکھوں کوزمین کی طرف موڑتا ،جوتے اورجوتے میں موجود پاؤں کی خبر لیتا۔چوکور ستونوں کے بےچھت برآمدےسے گزرتے ہوئے پہاڑپر پوربی جانب سبزے میں نہائے پتھریلے چبوترےپرجاقدم ٹکائے۔چبوترے پر سونے کے کام کی ساگون اور شیشم کی بھاری بھاری کرسیاں پڑی تھیں۔ان کے دائرے کے بیچ میں ایک اونچا ساتخت بچھا تھا۔اس پر اطلسی چادر پڑی تھی۔جس کے حاشیے پر سونے کے تاروں سے پشتوزبان میں اشعار کڑھے ہوئے تھے۔کرسیوں کے ہر جوڑے کےبعد ایک تپائی رکھی ہوئی تھی اوراِدھر اُدھر منبت کار شمعدانوں میں موٹی موٹی ایستادہ شمعیں تکلف برسا رہی تھیں۔جن کی لوؤں سے کڑوے دھوئیں کی دبیز لکیریں اٹھ رہی تھیں۔بیمار پیلی روشنی میں،قندھار،سعودیہ،شام،لبنان ،کوئٹہ،پشاور اورکشمیر کے،سوتی اورپیراشوٹ کے کفتان پہنے،سرخ وسپید منہ اورمضبوط ہاتھوں پیروں والے چہرے موجود تھے۔جوڑے کے قدموں کی آہٹ نے ایک بار تو اس مشاورتی کمیٹی کے ہرفرد کوچونکا دیا۔جوڑے میں دوسرے چہرے کو نقاب اوربڑی چادر کی زد میں گھرا ہوادیکھ کر مشاورتی کمیٹی نے اطمینان قلبی اورتجسس فطرتی کاعندیہ دیا۔
احسن اور اس کی رفیقہ کی کیفیت ایسی ہوچکی تھی کہ خنکی اور جاڑے کے اثرات ان کے سامنے شکست خوردہ دکھائی دے رہےتھے۔مسلسل شب بیداری کے بعد آنکھیں ستاروں کی رقیب بنی بیٹھی تھیں،ہاتھ برف کے ڈلےاورپاؤں پتھر کی سلیں ۔بھوک اورپیاس کے اثرات چہرے سے باخوبی عیاں تھے مگر ایمانی قوت اورجہادی جذبے کی اٹھان ایسی تھی کہ کسی بھی کمزوری کو جگہ پانے کی جرات نہ تھی ۔کمانڈر کے اشارے پرخدمت پرمامور ننھا مجاہد بھاگتا ہواآیا احسن اوراس کی رفیقہ سے جوابی اقرار اورانکار سنے بغیر ان کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پیچھے چلنے کوکہتا ہے۔مشاورتی چبوترے سےڈھلوانی سمت کان نما کوٹھرے میں ان دونوں کو لےگیا۔غزنی اون سے بنے ہوئے دبیز رنگوں کے قالین اور موٹی لکڑیوں کے دہکتے کوئلوں نے پتھروں چنے اس مہمان خانے کو جاڑے کی رات جنت کاسکون بخش رکھا تھا۔ننھا خادم جوڑے کوریشمی گاؤ تکیے اورعربی کمبل دے کر مَطعَم کی طرف چلا گیا۔تپش نے احسن اور اس کی رفیقہ کو اکڑوں پوزیشن چھوڑ سہل ہونے کی ترغیب دلائی تو اسی اثنا میں ذرا دھپ دھپانے کے بعد کواڑ کھول کرننھا خادم اندر داخل ہوا۔لکڑی کے صندوق نما ٹرے سے چند رقابیاں اور دو تھالیں،پتھر کی کٹوری جس میں دار چینی،سیاہ مرچ اورسفید زیرہ ملا ہوا دہی،دوسری کٹوری میں چیلو کی چٹنی، اور پانی چھوڑ کر واپس گیا۔چند ساعتوں میں بکرے کی ران کا دم بخت،دیسی مرغ کی یخنی،بڑی بڑی خمیری روٹیاں،زعفران اورگھی میں پکے ہوئے انڈے،قوام میں پڑے ہوئے گلگلے،اخروٹ اورشکر قندی کی فرنی دسترخوان پر سجھاتے ہوئے،آفتابے سے دونوں کے ہاتھ دھلوائے۔احسن نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں،کوٹھڑی میں چاروں طرف دیکھا،ننھے خادم کی طرف ایک مسکان بڑھائی اور رفیقہ حیات سے مخاطب ہوا۔
‘‘فاطمہ!تھوڑی دیر پہلے تک پانی کا حصول بھی مشکل ہی نہیں نہ ممکن تھا اور اب مختلف النوع کےخوشبودار کھانے ۔پری زاد غلمان،ہفت رنگ ریشمی بستر۔آخر یہ سب کیا ہے؟’’فاطمہ چند ساعتوں کے سکوت کے بعد بولی:
‘‘حالت ِ نزاع اورپل صراط کی مشکلات جنت سے پہلے اپنے معنی رکھتی ہیں’’۔ ننھا خادم کھانا لگا کر باہر چلا گیا۔فاطمہ نے حجاب کوفرصت دی اورکھانے سے ہاتھ ملایا۔دونوں نے سیر ہوکر کھانا کھایا اور خدائے لم یزل کے حضور شکرانے کے کلمات پیش کیے۔ننھے خادم نے پردے کے پیچھے سےصدا لگائی‘‘پچھمی دروازے سے مہمان خانے میں تشریف لے جائیں’’۔فاطمہ نے احسن سے کہا کہ میں برتن اٹھانے اورصاف کرنے میں ننھے خادم کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔فاطمہ کے خدمتی جذبے کومہمان نوازی کے قاعدے نےعمل میں نہ آنےدیا۔
کئی روز کی مسافتی تھکان اور شب بیداریوں کے بوجھ اورریشمی بستروں کی نرماہٹ نے جلد ہی دونوں کو نیند کی وادی میں دھکیل دیا۔چند گھنٹوں کی گہری نیند نےسفر کی تھکاوٹ کو رفع کردیا۔احسن تہجد کے لیےبستر چھوڑ مصلے کامتلاشی ہوا۔جلتی ہوئی انگیٹھی پر ابلتے ہوئے پانی میں سے تھوڑا سا پانی آفتابے میں ڈال کراحسن نے وضوبنایا۔تہجد کے نوافل ادا کرکے احسن نے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے:‘‘یااللہ اس خطے کو اسلام کا گہوارہ بنا،اسلام کی ظفریابی کے لیے مجھے اورفاطمہ کوقبول فرما۔شہادت کاجذبہ لے کرتیری راہ کے مسافر بنے ہیں ،اس سفر میں استقامت عطا فرما۔زندگی ایک ہی بار ملتی ہے اور یکبارگی کے اس تحفے کو خالصتاً دین کا داعی بنا۔یااللہ اگر مجھے سو بار بھی اس دنیا میں آنے کا موقع ملے تو ہر بارتیرے دین کی سربلندی کے لیے شہادت کا طالب بن کر تیرا سائل بنوں گا۔یااللہ دنیا میں اکٹھے رہے ہیں ،دین کا کام بھی اکٹھے کیا ہے اور آخرت کے سفر پر بھی اکٹھے روانہ کرنا۔اگر تیری کسی مصلحت کے پیش ِ نظر میں پہلے تیرے حضور حاضر ہوجاتا ہوں تو دنیا میں میری گڑیا کی عزت کی حفاظت فرمانا۔آمین’’۔فاطمہ کوجگایا دونوں نے فجر کی نماز ادا کی۔نماز سے فارغ ہوکر دونوں تلاوت سے محظوظ ہورہے تھے کہ ننھے خادم نے مہمان خانے سے صدا لگائی:‘‘بھائی آپ کو کمانڈر صاحب بلا رہے ہیں’’۔احسن مخصوص لباس زیب تن کرتے ہوئے ننھے خادم کی تقلید میں کمانڈر کی طرف چل نکلا۔
کمانڈر نے ذرا فاصلے سے تعارفی کلمات اورچند مذہبی بول سننے کے بعد احسن کو گلے لگالیا۔دوسینے الگ الگ جسموں میں مقیم ہونےکے باوجود یکساں دھڑکن کے عکاس تھے۔دونوں نے بہت توجہ سے ایک دوسرے کی دھڑکن کوسنا اور کمانڈر نے کارزار کے چنداصول احسن کے سپرد کیے۔محاربائی زندگی کے سوا دیگر لوازمات دونوں کےلیےوقتی اور ثانوی اہمیت کے حامل تھے۔کمانڈر کے پیشِ نظر ایک سوال تھا جو صرف ذہنی ارتعاش ہی نہیں بلکہ اعتماد کو بھی متزلزل کیے ہوئے تھا۔کمانڈر نے احسن کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا:‘‘ہم دونوں اسلامی بھائی ہیں اور ایک ہی مقصد لیے موت کو زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں ،کچھ بھی ہم سب کے درمیان ایسا نہیں ہونا چاہیے جس سے ابہام پیدا ہو۔ابہام ذہنوں کے بعد راستوں کو بھی دھندلا کردیتا ہے اس لیے کسی بھی پوشیدگی سے بچنا از حد ضروری ہے’’۔احسن اخفا کی باتوں کو سمجھنے سے معذور رہا اور اس نے چند ساعتیں سوچنے کے بعد اپنا دایاں ہاتھ کمانڈر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا:‘‘آپ اسلامی بھائی پر مستزاد میرے امیر بھی ہیں۔ اسلام نے امیر عساکر کی اطاعت کوضروری قراردیا ہے۔آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ علائم ورموز کوچھوڑ کر حکمیہ استفہام کی ڈگر اپنائیں’’۔
کمانڈر ‘‘احسن بات یہ ہے کہ دنیا گول اورلامحدود پرتوں کا مجموعہ ہے۔جس کی ہر پرت میں چکر صرف شریف اور سادہ طبع کے لیے ہے۔لوگوں نے حضرت عائشہ اور عثمان پر بھی سوال اٹھا دیے تھے اس لیے تضادی سورتحال سے پہلے سب کو بتا دو کہ پردہ نشین کو ن ہے اور اس پیکار میں کیوں شامل ہے؟’’۔احسن نے قہقہ بلند کرتے ہوئےجواب دیا‘‘کمانڈر صاحب وہ میری رفیقہ حیات اور فاطمہ بنت عبداللہ کی تصویر ثانی ہے’’۔
کمانڈر نے اس بات پر قلبی اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے عصر کے بعد درسی حلقے میں اس پر مزید بات اشارہ دیا۔کمانڈر نے سیف اللہ خان کو بلاکرفوجی اثاثہ احسن کو زیب کروانے کا فرمان جاری کیا۔احسن نے سٹور سے فوجی جیکٹ احسن کو پہنا کراس کی اندرونی جیبوں میں خنجر اوردستی پستول محصورکردیے اوراے آر15 رائفل ہاتھ میں تھمادی۔ان جنگی آلات نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ احسن اپنے جہادی بھائیوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔وہ تو اکیلا لڑنے کا مشن لے کر آیا تھا مگر شیروں کے جتھے میں مل شیر ببر شیر بن چکا تھا۔ننھا خادم کمانڈر کے اشارے پر احسن کو واپس مہمان خانے کی طرف لےگیا۔فاطمہ احسن کے جنگی لباس کودیکھتے ہی جوش سے اچھلنے لگی۔‘‘احسن مجھے اپنے خدا پر پورا یقین تھا کہ غیبی مدد آئے گی علی الرغم بےسروسامانی کے بھرپور آالات کے ساتھ تم لڑتے ہوئے دشمنوں کی صٖفوں کو چیرتے ہوئے شہادت کا جام نوش کروگے’’۔کارِزار کے آلات مومن کا زیور ہیں۔جس سے اس کے مقاصد کا حسن بڑھ جاتا ہے۔
بگرام سے پینتیس چالیس کلومیٹر دور کابل کی پہاڑیوں میں چھپا ہوا مجاہدین کا یہ فوجی مورچہ ،امریکی فوجیوں کے لیے بڑی آزمائش بنا ہوا تھا۔آمدورفت کی قلت کی وجہ سے پچھلے دس گیاروں سالوں سے مسلم مشاورتی کونسل محفوظ تھی ۔ہر نئے آنے والے مجاہد کو یہاں رکھ کر تربیت دی جاتی ،محاربائی اصول وضوابط میں پختگی پیدا کرنے کے بعد آزادی کا پروانہ تھمادیا جاتا تھا۔محاربے میں ہونے والی زخمیوں کو ادمال تک پناہ دی جاتی ۔کمانڈر صاحب کے حکم کی تعمیل میں احسن اورفاطمہ کومہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے نودن بیت چکے تھے۔فاطمہ نے پہلے دن ظہر کی نماز کے بعد مطعم کاچارج سنبھال لیا تھا۔ننھاخادم فاطمہ آپی کے ساتھ گھل مل گیا تھا ۔ابراہیم نے کھانا بنانا ترک کردیا تھا اورجنگی آلات اورلباس زیب تن کرلیاتھا۔
احسن نے ننھے خادم سے دریافت کیا کہ کل سے ہمارے ساتھی نظر نہیں آرہے؟اس نے بتایا کہ امریکی فوجیوں نے عمر الغازی کو شہید کردیا ۔کمانڈر صاحب الغازی کی لاش کی تلاش میں گئے ہیں اور آپ کے لیے پیغام چھوڑ گئے ہیں کہ مورچے پر رہیں ۔اس خبر کے بعد کمانڈر صاحب اور ان کے ساتھی ابھی تک لوٹ کر نہیں آئے تھے۔احسن کسی خبر کی تلاش میں سر شام ہی باہر نکل گیا۔قریب قریب پانچ کلومیٹر کی مسافت کے بعد احسن پہاڑی کھائی کے چھوٹے سے جنگل میں جانکلا۔رات کے اس پہر کابل کی سفید چوٹیوں سےلپٹ کر آنے والا اندھیاؤہڈیوں کے گودے کو پگھلا رہا تھا۔دور سے دیکھنے سے معلوم ہورہا تھا کہ پہاڑ سردی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے لرزہ براندام ہیں ۔گیدڑوں،لکڑبھگوں،سنگھاڑوں،جنگلی بلوں کا واویلا اپنے جوبن پرتھا۔متوقع آوازوں میں سے غیرمتوقع حملہ کی تلوار امریکی فوجیوں سے بھی زیادہ قریب تھی۔کسی بھی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے احسن نے کندھے پر رکھی بندوق کا رخ پشت کی جانت اور تلوار کوداہنے ہاتھ میں سجاتے ہوئے سامنے کی اور لہرادیا۔گرتے پڑتے قدم مزید ایک گھنٹے کے بعد ایک گھر کا سراغ پانے میں کامیاب ہوگئے۔گھرکی فصیلیں پرانے دور کی سرحدی دیواروں کی طرح اونچی اورچوڑی تھیں۔احسن نے پشت دیوار کے ساتھ ٹکادی۔اگلے ہی لمحے یوں محسوس ہوا جیسے دیوار بیچ میں سے ہٹ گئی ہے اور انسانی جسم فٹ بال کی طرح کھڑاک سے پشت پر آن لگا ہے۔رات کا سکوتی پہر،اجنبی دیس اورزبان کا مسئلہ درپیش،اس لیے دروازہ کھٹکھٹانا نازیبا حرکات میں شمار کیا جاتا۔مظلوم کی پکار،دکھی آہیں اورمذہب کی کشش یہ وہ ضرورتیں ہیں جن کے لیے موزوں اورناموزوں کے الفاظ واعمال طاق پر دھرے منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور لبیک کہنے والا بہت آگے نکل جاتا ہے۔‘‘تم لوگ ظالم ہو،چاہے ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کردو مگر مذہب اوروطن پر آنچ نہیں آنے دیں گی۔ایک لفظ بھی اسامہ کے متعلق نہیں بتائیں گی’’۔ان الفاظ کا کان میں پڑنا تھا کہ احسن حواس کھو بیٹھا اورسرپٹ دوڑ کر دروازے پر جا پہنچا۔لکڑی کے بڑے بڑے کواڑاندرونی جانب سے مقفل تھے۔دروازے کی کندہ کاری میں پاؤں پھنساتے ہوئے دیوار پھلانگنے میں کامیاب رہا۔
دو خواتین جن کے لباس زدوکوب کی وجہ سے چھلنی ہوچکے تھے اورنقاب علامت کے طور پر گلے میں پٹے بن کر لٹک ر ہے تھے۔ان کے پاؤں میں زنجیریں اور ہاتھ گرفتہ تھے۔احسن نے بلاپس وپیش لمبی داڑھی والے مولوی پرشمیرکے آہنی وار سے گردن کو جسم سے آزاد کردیا۔دونوں انگریز فوجی دیوار کےساتھ لٹکی ہوئی اپنی بندوقوں کی طرف بھاگے تو احسن نے وہاں کھڑے دونوں کی کھوپڑیوں کو بھون ڈالا۔ احسن نے پیچھے مڑ کر دونوں خواتین کے ہاتھ کھول دیے۔بڑی خاتون نے اپنا نقاب ٹھیک کرتے ہوئے کہا‘‘بھائی اللہ نے آپ کو اس فراست سے نوازا ہے جو چہرے سے گزرکراذہان کے محاسبے تک جا پہنچتی ہے’’۔باجی آپ لوگ اپنا پردہ درست کریں،میں جاتا ہوں۔عورتوں نے پردہ ٹھیک کرنے سے پہلے چیختے ہوئے کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔کمرے میں داخل ہوتے ہی‘‘اوئے کافروں نے دونوں ہی ذبح کردیے’’۔احسن کو لگا کوئی پالتو جانور تھے جن کو ذبح کردیا،وہ اجازت پاکر کمرے میں داخل ہوا تو منظر پر نظر پڑتے ہی،آنکھیں پتھرا گئیں،قدم ساکت ہوگئے،دل کی حرکت بےترتیب ہوگئی،دیکھتا ہوں،ظلم کی انتہا ہے،سات سال کا سیاہ بالوں،نیلی آنکھوں اور سرخ وسپید گالوں کا بچہ۔پانچ سال کی بچی،گلابی رنگ کی فراک میں جنت کا پھول دکھائی دے رہی تھی۔ایسے تروتازہ پڑے تھے جیسے گہری نیند سورہے ہوں۔شاید تلوار یا خنجر کی تیز دھار سے۔۔۔۔ایک خاتون نے دھاڑے مارتے ہوئے قینچی اٹھائی ہوئی اور ان تین مقتولین میں سے ایک کی داڑھی کترنا شروع کردی ‘‘اس کافر نے ظاہری حلیے کا جھانسا دے کر،تعاقب کرتے ہوئے امریکی کتوں سے پناہ لینے کے لیے ہم سے دروازہ کھلوایا تھا’’۔دوسری خاتون بچے کو سینے سے لگائے ہوئے بولی ‘‘بھائی ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں !،ان کافروں کے لیے مٹی کے ڈھیلوں سے بھی سستے ہیں اوران کے لیے ہمارا خون شکار کیے جانے والے جانوروں سے بھی ارزاں ہے۔اپنے ہی گھروں میں غلاموں سے بھی بدتر ہیں ،یاخدا ہمارے مسلمان حکمرانوں کی آنکھیں کھول دے یا ہمیں معدوم کردے’’۔احسن یہ سب دیکھ اورسن کر مسلم بہنوں کے سروں پر بس ایک بار ہاتھ رکھ سکا اور بےقابو دل کی دھڑکن لےکروہاں سے ایسے نکلا جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
فاطمہ عبادت کرتے ہوئے رب کے حضور لمبے لمبے سجدے کرتی اورآنکھوں کو نیل بنائے رکھتی۔جس شخص سے ایک پل کی بھی دوری نہیں ہوئی تھی اب اس کی صورت کےلیے آنکھیں اور آواز کے لیے کان ترس گئے تھے۔فاطمہ نے ننھے خادم کو بلاکر کہا:
‘‘چھوٹے بھائی آج کھانا نہیں بناتے’’۔
باجی! کیوں؟
‘‘پچھلے تین دنوں سے ہم دونوں کے سوا کسی نے ایک نوالہ بھی نہیں چکھا اور کھانا تو وافر مقدار میں پڑ ا ہوا ہے ’’۔
باجی یہ گھر نہیں ہے کارزار کا مہمان خانہ ہے جہاں کسی بھی وقت مہمان وارد ہوسکتے ہیں۔
‘‘مگر مجھے لگتا ہے اب اپنےمہمان شاید نہ لوٹیں، میرا دل بہت ادا س ہے’’
ننھا خادم‘‘باجی جو لوگ جہاد پر نکلتے ہیں ان کے لیے اداس نہیں ہواجاتا بلکہ دل سے شہادت کی دعا کی جاتی ہے’’۔
‘‘آپ بہت چھوٹے ہو ان باتوں کو نہیں جانتے۔میں موت سے خائف نہیں ہوں اور موت بھی وہ جو اللہ کی راہ میں ملے’’۔
باجی ! آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ احسن بھائی کے لیے اداس ہیں۔
ننھے خادم‘‘سنو!اس نے میرے ساتھ تیرے سال بتائے ہیں اور میرے جسم میں خون کی طرح بسا ہواہے۔آج میں یہاں ہوں تو اس کے مثالی خلوص کی وجہ سے۔جب میرے بطن سے اولاد کا منہ وہ نہ دیکھ سکا تو سب نے کہا کہ‘احسن تم دوسری شادی کرلو’ حتی ٰ کہ میں نے بھی اجازت دے رکھی تھی مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی اور ان باتوں سے بےنیاز رہا۔اب جب وہ جہاد کے لیے نکل رہا تھا تو میرے ساس سسر نے کہا کہ تم احسن کی نشانی کے طور پر ہمارے پاس رہ جاؤ مگر میں منکر ہوگئی’’۔
باجی!آپ تو مجاہد ہیں سو آپ کو ان کے شانہ بہ شانہ سیسہ پلائی دیوار بننا چاہیے یا ادا س ہونا چاہیے؟
‘‘ننھے خادم،میں مکمل مجاہد ہوں گھڑ سواری سے لے کر شمشیر زنی تک کے جنگی فنون سے آراستہ ہوں’’۔
باجی! آپ تو خواتین کی صلاح الدین ایوبی ہیں۔
ننھا خادم یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ وہی فاطمہ ہے جس نے اس کارزار میں پہنچنے تک کے نو دنوں کی مسافت میں سات معرکے لڑے اور ہر معرکے میں احسن کے شانہ بہ شانہ لڑ کر سترہ لوگوں کو واصل ِ جہنم کیا تھا۔فاطمہ چاہتی تھی کہ اس کارِزار میں بھی وہ اپنے شوہر کے ہمراہ کفارکے مخالف لڑتے ہوئے شہادت نوش کرے اور اچانک سے احسن کا غائب ہوجانا اور تین دن سے کسی خبر کا نہ آنا فاطمہ کے آخری خواب میں دراڑیں ڈال رہا تھا۔
احسن ، افغان گھر سے نکل کرتیسری رات بگرام ائیر بیس سے چودہ کلومیٹر دور امریکی فوج کی ایک چیک پوسٹ پر جاپہنچا۔احسن اس بات کوبالائے طاق رکھتے ہوئے کہ یہ دشمن کا ٹھکانہ ہے اور دشمن ہمہ وقت نظریں جمائے منتظر بیٹھا ہے۔احسن نے حلیہ بدلے ہوئے داڑھی والے مقتول امریکی(جاسوس) کا کارڈ جیب سے نکال لیا تھااور آئی ڈی نوٹ کرلی تھی۔
گارڈ:‘‘ہُو آر یو؟’’
احسن:‘‘الف سنگھ ہوں،افغان گھرانے پر ہیلی اور ریمنڈ کے ساتھ کےکچھ راز لینے گیا تھا’’۔
گارڈ نے ریسپشن سے فون کرکے میجر ریز وےکو اطلاع دی،میجر نے آوردہ کی آئی ڈی بتا کر ہیڈ آفس سے تصدیق کی تو انہوں نے کہا یہ ہمارا خاص مہمان ہے ،اسے خاص پروٹوکول دیا جائے اور مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔میجر ریز وے احسن کو لینے خود گیٹ پر آیا۔نصف بیضوی چکر کاٹنے کے بعد احسن اور میجر ریز وے ایک وسیع دالان میں داخل ہوئے،جس میں ہفت رنگ زندگی کی شعائیں پھوٹ رہی تھیں۔ان گنت ستون اس وسیع چھت کو اور فوجی بندوقوں کا تیر بنائے فرش کوسنبھالے ہوئے تھے۔صندل کی خوشبو بکھیرتی ہوئی انگیٹھی کے پاس شیشے کے بڑے سے ٹیبل کے شمالاً اورجنوباً دوکرسیاں سجی ہوئی تھیں۔میجر ریزوے نے احسن کو بیٹھنے کا تعظیمی اشارہ کیا۔دونوں کرسیوں کے عقب میں جلاد نما فوجی اونٹ کی کھال جیسے کوٹ پہنے بندوقیں تان کر مجسمے بنے کھڑے تھے۔ایک طویل قامت حسینہ آئی جس نے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے آداب پیش کیا اور ٹرے میں سے بادہ،کوک اور نیم گرم پانی کی تین صراحیاں اور دو جام ٹیبل پر سجائےاورپشت رخ قدم واپس کھینچ کر لوٹ گئی۔مسکراتی ہوئی دوسری حسینہ آئی جوگرم پانی سے احسن کے ہاتھ دلواکر لوٹ گئی۔دو ر چلا ضرور مگر احسن نے گلے کے درد اورمشرقی ہونے کا بہانہ کر ہاتھ پانی اور سادہ کوک تک ہی محدود رکھا۔میجر ریزوے کے اشارے پر ایک لڑکی کولایا گیا۔شاہی تخت نما چبوترے پر کھڑاکردیاگیا۔اس نے اپنے جسم سے لباس کھینچ کر ایسے الگ کیا جیسے قصاب بکرے کی کھال گوشت سے الگ کردیتا ہے۔مظلوم ومجبور جسم سے پھوٹنے والی حسن کی شعاؤں سے مہنگے ترین فانوس شکست خوردہ دکھائی دینے لگے۔میجر ریزوے، احسن کی موجودگی سے بےخبر ہوکراپنے پہلو میں موجود حسینہ کی آبرو ریزی پر اتر آیا۔احسن نے تھکاوٹ اور اگلے دن کے ٹارگٹ کا بہانہ کرتے ہوئے نیند کی فرمائش کی تو میجر ریز وے نے چبوترے کی رقاصہ کو رکنے کا اشارہ کیا اور کونے میں موجود غلام کوکہا‘‘مہمان کے سامنے رات کامال پیش کیا جائے’’۔تیکھے خطوط،کالی اور نیلی آنکھوں،شب گیر زلفوں،میانہ اورطویل قامتوں،گداز جسموں،گندمی اورسرخ وسپید رنگوں والی لڑکیوں کا ایک گروہ سامنے لا کھڑا کردیا۔ہماری روایتی مہمان نوازی کی ادنیٰ سی طرز قبول کیجیے۔مسیح مقدس نے یہ محروسہ مال ہم پر حلال کردیا ہے۔احسن نے سب پر نظر دوڑائی اور ایک ذہین اوربظاہر دلیر دکھائی دینے والی لڑکی کا انتخاب کیا۔میجرریزوے کے حکم پر لڑکی احسن کولے کرگیسٹ روم میں چلی گئی۔گیسٹ روم کا شیشہ،پردے،بیڈ اور مخملی چادریں سب شاہی منظر نامہ تھا۔
لڑکی نے حسبِ روایت احسن کی خدمت کرنا چاہی مگر احسن نے چھونے سے انکارکردیا۔احسن نے قرآنی آیت کی تلاوت کی تو لڑکی چھم چھم رونے لگی۔آیت کا مقصد یہ تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کوپہچان سکیں اوراپنی ذمہ داری نبھا سکیں ۔احسن نے کہا:‘‘آج ہمت دکھانا ہوگی اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مجھے ساری معلومات دو تاکہ ہم باقی مجبور ومظلوم لڑکیوں کو بھی یہاں سے نکالنے میں معاون بن سکیں۔لڑکی نے اعتبار کی دلیرانہ نگاہ سے احسن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:‘‘میری معلومات کے مطابق یہاں پر سترہ لڑکیاں قید ہیں اور آج کی رات میرے سمیت سولہ فری ہیں کیونکہ آج ہیڈ آفس میں کوئی مشن جاری ہے اور سارے آفیسرز اُدھر گئےہیں ، میجر ریز وے کے پاس سترھویں( نائلہ نامی) لڑکی ہے’’۔احسن نے صالحہ کو باقی لڑکیوں کو اپنے کمرے میں بلانے کے لیے بھیجا۔غلام کے سوال پر صالحہ نے غلام کو کہا کہ صاحب کو میں پسند نہیں آئی اس لیے وہ کسی اور کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔غلام نے ہنسی خوشی سب کو بھیج دیا۔احسن نے جہاد والی آیت پڑھ کر مختصر سا خطبہ دیا اور یہاں سے نکلنے کا عزم باندھنے پر آمادہ کیا۔سب کا اثبات دیکھ کر احسن کو خوشی ہوئی۔احسن نے سب سے باری باری گارڈ پر موجود فوجیوں اور اسلحے کی معلومات حاصل کی۔احسن نے کہا جب تک میں واپس آکر آپ کا دروازہ نہ کھولوں آپ نے آواز نہیں نکالنی،اگر میں پکڑا جاتا ہوں یا شہید کردیا جاتا ہوں تو آپ سب کہنا وہ دھوکے سے ہمیں یہاں بلاکرقید کرکے فرار ہونا چاہتا تھا۔احسن نے سب سے پہلے اندرون خانہ موجود تین فوجیوں کو کٹچن کے عقب میں تلوار سے موت کے گھاٹ اتارا اور پھر دالان کے دروازے پر موجود دو کالےفوجیوں کو دالان میں بلاکر واصل جہنم کیا۔ریسپشن کے آفسرکوفون کے بہانے ریسپشن میں داخل ہوکر منہ پر ہاتھ رکھ کر خنجر گھونپ کر زندگی سے آزاد کردیا۔احسن نے واپس گیسٹ روم میں آکر ساری صورتحال لڑکیوں کو بتائی تو ان میں سے کچھ تو بلبلا گئیں اورباقی جگمگا گئیں۔احسن نے صالحہ کوایک گارڈ کا پستول دیتے ہوئے کہا:‘‘ہم دونوں بیک وقت گولی چلائیں گے اور صدر دروازے کے دونوں طرف موجود دونوں گارڈ کو موت کی نیند سلائیں گے’’۔ باقی لڑکیوں کو نصیحت کی جونہی آپ گولی چلنے کی آواز سنیں دبے قدموں صدر دروازے کی طرف امڈ آنا۔صالحہ سولہ لڑکیوں کی قیادت کرتے ہوئے رپورٹنگ ہاؤس سے ذرا باہر جاکر احسن کا انتظار کرنے لگی۔احسن نے واپس جاکر میجر ریز وے کا دروازہ ناک کیا تو نائلہ نے دریافت کرتے ہوئے دروازہ کھولا،احسن نے پستول کی گولیوں کی بوچھاڑ سے میجر ریزوے کا سینہ چھلنی کردیا اور نائلہ کا بازو پکڑ کردروزے کی سمت بھاگ نکلا۔نائلہ نے بتایا ساتھ والے کمرے میں پانچ انگریز خواتین بھی ہیں۔احسن نے نائلہ کے ذریعے ان کا دروازہ کھلوایا اور بندوق کے بل بوتے پر سب سے موبائل فون لے کرکمرے میں واپس بند کرکے کمرا باہر سے مقفل کردیا۔
دوگھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد احسن لڑکیوں کے گروہ کو لے کر اسی افغان ہاؤس پہنچا جہاں دو راتیں پہلے امریکی فوجیوں اور ایک منافق نے قیامت صغریٰ برپا کردی تھی۔احسن اس گھر کو دیکھ کرحیران ہوا کہ دو بچوں کے ظالمانہ قتل کے بعد بھی اس گھر میں سناٹا چھایا ہواہے۔احسن نے صالحہ کو کہا کہ دولڑکیوں کے کندھوں پرپاؤں رکھ کرگیٹ کی مدد سے دیوار عبورکرو اور گھر میں موجود خواتین کو مقامی زبان میں اپنی مظلومیت بتانا کہ وہ باقی لڑکیوں کے لیے اپنا دروازہ کھول دیں۔احسن نے سب لڑکیوں کو نصیحت کی کہ دن کے اجالے میں موقع پاکر اپنے گھروں کو لوٹ جانا۔لڑکیاں گھر میں داخل ہوگئیں اور احسن دو معصوم کے خون پر یہ سناٹا دیکھ کر سینکڑوں سوال ذہن کے تاریک کوٹھرے میں رکھ کر مہمان خانے کی طرف بڑھ گیا۔
دن کی روشنی میں ڈھلوانی راستے سے اترتے ہوئے احسن کو دیکھ کرننھا خادم بھاگا بھاگا گیا اور فاطمہ کو دروازے پر لے آیا۔فاطمہ نے احسن کودیکھا تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔احسن نے ننھے خادم کو اٹھا کر گلے لگایا اور ماتھے پر خوب بھوسے دیے۔ننھا خادم کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ فاطمہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور احسن کا ہاتھ پکڑ کرسٹور روم میں لےگئی۔احسن حیرانی اور استفہامی اندار میں ایک بار فاطمہ کی طر ف دیکھتا اور دوسری بار لاشوں کے ڈھیر کی طرف۔‘‘کمانڈر صاحب اور باقی ساتھی لوٹ آئے ہیں جنھوں نے ان فوجیوں کے پرخچے اڑائے ہیں؟’’۔ننھا خادم:‘‘یہ آپ کی مجاہد بیوی کا کارنامہ ہے،یہ مجھے اندر بند کرکے باہر آکر ان سے لڑتی رہی تھی اور اِن کی ٹانگ پر بھی گولی لگی تھی’’۔احسن نے شکرانے کے لیے چہرہ آسمان کی طرف کردیا‘‘شکر ہے مالک تیرا ،میری گڑیا ظلم کو نہ صرف ناپسند کرتی ہے بلکہ اس کے خلاف تلوار لہرانے کایارا بھی رکھتی ہے،یااللہ جس طرح ہم میں بہت سے اوصاف اور ہمدردیاں یکساں رکھی ہیں اسی طرح موت کا وقت اور طریقہ بھی یکساں لکھ دے’’۔تینوں نے مل کرکھانا کھایا اور کمانڈر صاحب اور باقی ساتھیوں کے متعلق تبادلہ خیال کیا۔افسردہ ہوکر تینوں قہوے کے کپ ہاتھ میں لے کر باہر آگئے۔
شام تین بجے کا وقت تھا احسن شام کے کھانے اورا نگیٹھی کے لیے لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ بادلوں کی گرج کی وجہ سے فاطمہ دہل گئی اور احسن سے آکر لپٹ گئی۔احسن‘‘دشمنوں کے دھماکوں سے ڈری نہیں اور قدرت کے چھوٹے سے گولے سے سہم گئی ہو’’۔فاطمہ‘‘خدا کی چھوٹی سےچھوٹی آواز سے ڈرنا ایمان کی نشانی ہے’’۔احسن سن کرہنس رہا تھا اور اسی اثنا میں پہاڑی سے ننھا خادم بھاگتا،ہانپتا اور گرتا پڑتا پہنچا،احسن بھائی مورچے میں چلیں،مورچےمیں۔۔۔،وہ لوگ پہاڑی کی پشت پر پہنچ آئے ہیں۔احسن فاطمہ کو کہتا جاؤ دوربین اٹھا لاؤ۔اس سے پہلے فاطمہ احسن کوچھوڑ کردوربین کی طرف جاتی دو میٹر کے فاصلے پر گولہ آکر گرا جس نے زمین میں گڑا ڈال دیا اور فضا کودھواں دھواں کردیا۔ننھے خادم نے آخری سسکی لی اوربند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا کہ احسن بھائی اور فاطمہ آپی ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے ہیں اورنچلے دھڑغائب ہیں۔
***