سید تالیف حیدر
ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
اردوتحقیق و تدوین کا عمل: ضرورت و اہمیت
”یہ بات اپنی اولین صورت میں جان لینے کی ضرورت ہے کہ ’تحقیق‘کا اشتقاق ’حق‘ سے ہے۔اس ضمن میں ان تصورات کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے جو حق سے باطل کی طرف چلے جاتے ہیں اور محقق تلاش و جستجو اور فکر و فہم سے انھیں ثبوت فراہم کر کے دوبارہ حق کے زمرے میں لاتا ہے اور ایسے تصورات جدید ترین نہیں ہو سکتے چونکہ ان کے شاہد کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ جو حقیقت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ایسے موضوعات کو تحقیق طلب مو ضوع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے قدیم موضوعات کو تحقیق کی ذیل میں زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔وہ بھی ایسے موضوعات جو چند غلط بیانیوں کی بنیاد پر حقیقت تسلیم کر لئے جاتے ہیں۔محقق کا کام ان مفروضات کی اپنے دلائل سے تردید کر نا ہوتا ہے۔لہٰذا ان دلائل کی تلاش میں اسے کئی صحراوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔اردو میں اولا قدیم موضوعات پر تحقیق کا کام زیادہ ضروری ہے کیوں کہ انھیں موضوعات میں آمیزش ابطال کی گنجائش ہے۔80ء کی دہائی تک نئے نئے مخطوطات کو تلاش کر کے سامنے لانے کا رجحان بہت حد تک پایا جا تا تھا، بلکہ نئے موضوعات کو سامنے لانے کے لئے مخطوطات کو کھنگالنا ادبا، علمااپنا خاصہ سمجھتے تھے۔اس کے بعد اس رجحان میں کمی آنے لگی اور دھیرے دھیرے مخطوطات سے دلچسپی کا دور ختم ہونے لگا۔تحقیق تلاش و جستجو کا عمل ہے۔اس عمل میں محقق کو موضوع کی گہرائی میں اترنا پڑتا ہے۔سطحیت سے تحقیق کو اللہ واسطے کا بیر ہے۔اس لئے تحقیق میں کوئی بھی بات اس وقت تک اہم نہیں سمجھی جا سکتی جب تک محقق موضوع کا جائزہ ابتدا سے انتہا تک نہ لے لے۔اسی طرح تحقیق کی ضرورت کا احساس تحقیق کی طرف مائل کرتا ہے اور یہ احساس مطالعے کی کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔”
(ص:44،الیاس عندلب،تنویر احمد علوی کی دو کتابیں،جنگ پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان)
اردو زبان و ادب کی تاریخ تا حال جتنی مرتب ہوئی ہے، اس کے آئینے میں ہم تحقیق و تدوین کی لسانی اور ادبی قدر و قیمت کا اندازہ لگائیں تو احساس ہوتا ہے کہ تحقیق کے معیاری کردار کے بغیر کسی نوع کی تاریخ مرتب کرنا قطعی ممکن نہ ہوتا۔ تحقیق کی ضرورت یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں ہوتی ہے، لیکن جب ہم لسانی یا ادبی تحقیق و جستجو کی بات کرتے ہیں تواس کی اہمیت اور ضرورت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ تحقیق کے بغیر ہم کسی نوع کے تہذیبی تصور کو جلا نہیں بخش سکتے، بادی النظر میں یہ بات راست نہیں معلوم ہوتی۔ لیکن اگر ہم ذرا غور کریں تو محسوس ہوگا کہ کس طرح ایک تحقیقی مسئلہ انسانی سماج کی فکری نہج کو مرتب یا تبدل کر دیتا ہے۔ اردو میں تحقیق کا رواج بہت پرانا نہیں اس کے باوجود اس زبان کی ساخت اور اس کے قواعد کو مرتب کرنے والے عرصہ دراز سے اپنے تحقیقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی لسانی تشکیل میں کار فرما نظر آتے ہیں۔
گزشتہ سو برس میں ہم نے تحقیق کی بنیاد پہ ہی یہ جانا ہے کہ اردو جسے ہم ایک لشکری زبان کہتے چلے آئے ہیں یا اس کو دو آبہ گنگ و جمن کی زبان سے تعبیر کرتے ہیں اس کا رشتہ کس طرح قدیم شور سینی اور پراکرت سے ملتا ہے۔ پالی اور ماگدھی کس طرح اس کی رشتہ دار ہیں اور سنسکرت زبان کے اصول و قواعد سے اس نے کس قدر استفادہ کیا ہے۔ گررسن جو غیر منقسم ہندوستان کی زبانوں کا سب سے بڑا عالم تھا اس نے یہ بات اپنی تحقیق سے بتائی کہ اردو کس طرح کھڑی بولی اور برج کے ملنے سے وجود میں آئی اور انگریزی جو دنیا کی سب سے قدئم زبان ہے وہ اسی ہند آرائی خاندان السنہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے ذیل میں اردو آتی ہے۔ لسانی تاریخ کا ابتدائی عہد تحقیقی رویے سے آری تھا، لہذا ہم ایک زمانے تک یہ سمجھتے رہے کہ اردو زبان سندھ کے ساحلی علاقے میں پیدا ہوئی، دلی اور پنجاب کے گرد و نواح میں اس نے بولی سے زبان کی شکل اختیار کی اور عرب اور فارس سے آئے ہوئے صوفیہ یا ہندوستانی ناتھ پنتھیوں سے لفظیات مستعار لے کر اپنا کینڈا مرتب کیا۔ اسی ضمن میں جرجی زیدان کی تحقیق کا حصہ مزید شامل کر لیں تو سنسکرت سے عربی زبان کا اشتقاق بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ یہ مباحث روز اول سے تحقیق کے خوا ہاں تھے جس سے نہ صرف یہ کہ زبان کے صحیح جائے پیدائش کا علم ہوتا تھا بلکہ تہذیبوں کی قدامت کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ ہندوستان میں سید سلیمان اشرف بہاری وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے اپنی تحقیق سے جرجی زیدان جیسے لوگوں کی لسانی تحقیق کو رد کیا اور تہذیبی و لسانی تحقیق کو از سر نو مرتب کرنے کی سعی کی۔
اردو زبان کی تحقیق کا مسئلہ اس امر سے بھی جڑا ہوا ہے کہ ہندی پہ اس کو فوقیت دی جائے یا نہیں یا وہ زبان جسے ہم ہندی کہتے ہیں وہ اردو کی ہی ایک شاخ ہے، جس نے علاقائی اور پراکرت زبانوں سے تا دیر اپنا رشتہ قائم رکھا، اس تحقیق کو اگر ہم عمومی انداز میں متعصب ہو کر پیش کریں تو زبانوں کی سیاست بڑے مسائل پیدا کرنے کی موجب ہو جاتی ہے۔ لسانی تاریخ میں ترجیح اور تردید کے پہلووں سے قطع نظر اس امر کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ لسانی اشتفاق کس نوع کا ہے،اصوات کہاں سے آئی ہیں اور قواعد کے اصول کس طرح مرتب ہوئے ہیں۔ تحقیق ہی نے گزشتہ سو برس میں یہ مسئلہ تقریبا حل کر دیا ہے کہ ہندوستان میں ہم جن علاقائی زبانوں سے ایک لنگوا فرینکا بنانے میں ایک صدی تک لگے رہے اس نے کس زبان کی صورت میں اپنا وجود ظاہر کیا۔ سیاست ہو یا تنقید یہ دونوں میدان تحقیق کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے۔
زبانوں کی تحقیق یقینا ً ایک عرصہ دراز میں حل ہو تی ہے، لیکن لسانی تناظر میں جب ہم کسی صنف کو علم بلاغت کے بعد زیادہ ضروری سمجھتے ہیں وہ تحقیق کا علم ہی ہے۔ تحقیق ایک طریقہ کار ہے جو لسانی پیچیدگیوں کو حل تو نہیں کرتا، مگر ان کی ساخت کو تقریباً روشن کر دیتا ہے۔ ہیم چند جو کہ گجرات کا ایک بڑا قواعد نویس تھا اس نے اپنی چار کتابیں اسی ضمن میں تصنیف کی ہیں کہ زبان کا رشتہ اطراف، علاقائی اطوار، معاشرتی نظام حیات اور تحقیقی عمل سے کس حد تک وابستہ ہے۔ لسانی کشمکش جس نے نئے عہد میں بہت سی تہذیبوں کو ان کی حقیقت کا ادراک کروایا ہے یہ تحقیق کے ذر یعے ہی ممکن ہو سکا۔ ہم کسی بھی زبان کی تاریخ سے جب ایک خاص قسم کے تصور کو وابستہ کر دیتے ہیں جو تصور نہ صرف یہ کہ عوام الناس میں جگہ بنا لیتا ہے بلکہ اس تصور کی بنیاد پہ نئے عقائد اور خیالات جنم لینے لگتے ہیں تو تحقیق کی ضرورت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ مثلا ً یہ خیال کہ اردو زبان عربی اور فارسی کے ساتھ ہندی اور ترکی کے ملاپ سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک عوامی نظریہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ چونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس زبان میں ایسے الفاظ کی بھر مار ہے جوعام زندگی میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور جن کا اشقاق عربی یا فارسی سے ثابت ہوتا ہے اسی طرح ہندی اور ترکی کے الفاظ بھی رسم و رواج اور ہندوستانی سماج کا حصہ بن گئے ہیں، لہذا یہ فیصلہ سنانا آسان ہو جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ اردو کا رشتہ سنسکرت کے اصول و ضوابط اور ہندوستان کی علاقائی بولیوں، جن میں خطہ بہار اور صوبہ سرحد کی بولیوں کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے سب سے زیادہ گہرا ہے۔ آُ پ ان علاقائی زبانوں میں ویدک بھاشائیں بھی شامل کر لیں ساتھ ہی تت سم اور تت بھو، بدھ مت اور مہاویر، جینی بھاشائیں بھی شامل کر لیں تو اردو کا ایک بڑا ذخیرہ مرتب ہو جاتا ہے، یقیناً زندگی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس میں عربی اور فارسی الفاظ کے ساتھ ساتھ یورپی زبانوں مثلاً انگریزی، اطالوی، جرمنی اور فرانسسی کے الفاظ بھی شامل ہوتے گئے۔ اور یہ امر بھی جدید تحقیق نے ہی واضح کیا کہ اس زبان کو زبان بنانے میں فرانسسیوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے لسانی تحقیق کے وہ گوشے وا ہوتے ہیں جس زبان کے متعلق اصل صورت حال کا علم ہوتا ہے۔ زبان کیسے بنی؟ یہ سوال اتنا اہم نہیں جتنا اس نے کس طرح اپنی ارتقا کی منزلیں روز اول سے طے کرنا شروع کیں؟ یہ سوال اہم ہے۔ اردو کے ضمن میں اس ارتقائی عہد کی تاریخ کے بہت سے گوشے وقتاً فوقتا ً روشن ہوئے ہیں جنہیں لسانیاتی محققین نے روشنی عطا کی ہے۔ اس کام سے نہ صرف یہ کہ اردو کی صحیح تاریخ کا ہمیں علم ہو پایا ہے بلکہ اس کی وسعت اور قدامت کا احساس بھی بڑھا ہے۔
تحقیق کا عمل زبان کے ضمن میں جو کام کرتا ہے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ادب کی تحقیق کے مسائل ہوتے ہیں۔ کسی متن کی تحقیق کا مسئلہ ہمارے یہاں ابتدا سے رہا ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ یونانی ادیبوں نے سب سے پہلے متن کی تعمیر میں جن تحقیقی اصولوں کی بنا ڈالی بعد کے عہد میں دیر تک ان کی پیروی کی جاتی رہی۔ ارسطو ن اور افلاطون نے فکر کو جلا دینے کے ساتھ ساتھ تحقیق کے عمل کو بھی منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔ تحقیق کی تاریخ میں ہمیں دنیا کے قدیم ادب کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ دنیا کی جن تہذیبوں میں اول اول ادب لکھنا شروع کیا گیا جن میں سمیری، میسو پوٹامی، مصر ی اور ہندو روایتیں سب سے قدیم ہیں۔ ان قدیم فن پاروں میں یقیناً تحقیق کا التزام نہ کیا گیا لہذا ہم آج ایسے بے شمار متون کے متعلق کسی نوع کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کو تحریر کرنے والے کس تہذیبی پس منظر کے تھے، ترقیمے کا کوئی رواج اس عہد میں نہ تھا اور نہ ہی کسی نوح کے حواشی قدیم تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ دنیا کے سب سے قدیم حاشیے کہ طور پہ ایک یونانی ادیب دیو تیما کی تحریر کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیو تیما ایک مشہور یونانی ڈراما نویس تھی جس نے یونان کے بڑے دیوتاوں پہ ڈرامے تخلیق کیے تھے۔ تحقیق کی اہمیت کا احساس ہمیں یونانی ادیبوں نے اول اول دلایا۔ متن کی قرات کے مسائل نے جوں جوں ترقی کی توں توں ہم مزید مستحن فن پارے مرتب کرنے لگے۔ عرب کے صحراوں میں اسلامی حکومت کے قائم ہونے کے عہد میں تحقیق کی اہمیت کے اصل معنی سمجھ میں آنا شروع ہو گئے تھے اور دنیا کے تمام علوم سے متعلق اشخاص نے عباسیہ عہد تک تحقیق کی اہمیت کا اثر دیکھ لیا تھا۔ لیکن اس تحقیقی روایت میں جب ہم ہندوستانی اساطیری متون کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں بھی بعض نہایت مشروط اجزا جنہیں ہم آج جدید تحقیق کا آلہ کار تصور کرتے ہیں وہ ان میں پائے جاتے تھے۔ مثلاً اختلاف نسخ پہ کتب تحریر کرنے کا رواج قدیم ہندوستان میں ہمیں نظر آتا ہے، جس کا زیادہ استعمال ادبی متون کے بجائے معالجاتی متون میں رائج ہو چلا تھا۔ اس عہد کے بعض مخطوطات جو نیشنل آرکائیو آف انڈیا اور برٹش لائبریری میں موجود ہیں ان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
اردو کے ارتقائی عہد تک یورپ نے تحقیق کے بہت سے معیارات قائم کر لیے تھے۔ رومنوں کی کتب عربوں نے مرتب کر دی تھیں اور متوسط عہد میں ابن رشد کے تحقیقی اصولوں پہ فرانس میں ڈیکارڈ نے اپنی عمارت تعمیر کی تھی۔ یورپ نے ایک اہم کام تحقیق کے ضمن میں یہ کیا ہے کتابوں کے مختلف نسخوں کو ایک جگہ جمع کر کے صحت متن کے ساتھ کتب شائع کرنے کا رواج عمل میں لانے کی سعی کی۔ جسے بعد میں ہندوستانیوں نے شد و مد سے اپنا یا۔ ہندوستان کے پہلے پہلے تحقیقی متون کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں، لیکن اگر اس ی ارتقائی صورت کا معائنہ کریں تو فارسی اور ترکی کے وہ متون جو سلاطین کے عہد میں مرتب ہوئے ان پہ نگاہ جاتی ہے۔ عہد سلاطین میں تاریخ پہ کام ہونا شروع ہوا اور بابر کے عہد تک صحت متن کے ساتھ تواریخ کے بے شمار نسخے ہندوستان میں مرتب ہو چکے تھے۔’
ان روایتوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہندی اور اردو زبان میں بھی تحقیق کی سب سے بنیادی شرط یعنی اختلاف نسخ پہ اولین عہد میں فورٹ ولیم کالج کے زمانے میں کام ہونا شروع ہوا اور ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انگریزوں کی نگرانی میں کسی سو کتابوں کے صحیح نسخے مرتب ہوئے اور ادیبوں کے ساتھ ساتھ مورخین کی کتابوں پہ بھی کام ہونا شروع ہو گیا۔جو کام ادبی اور تاریخی متون کے ضمن میں اٹھا رہ سو میں ہوا اس کا اعادہ سائنسی متون کے ضمن میں اٹھارہ سو پچیس میں ٹیلر کی سر پرستی میں کیا گیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سائنسی متنون کا دنیا کے مختلف خطوں میں اتنا رواج نہیں تھا جتنا متوسط عہد تک مشرقی ممالک میں یہ متون رائج تھے۔ عرب اور ایران اور پھر ہندوستان میں سائنسی کتب پہ تحقیقی انداز میں اول اول کام ہوا۔ ادبی متون کو اور ان میں بھی قدیم داستانوں پہ جس عہد میں تحقیقی انداز کے ہلکے پھلکے کام ہو رہے تھے اس زمانے میں سائنسی متون کو جامعیت کے ساتھ مرتب کرنے کا خیال بھی مشرقی دنیا کو نہیں سوجھا تھا۔
ادبی تحقیق کو ایک موضوع کہ طور جد ید عہد میں برتنا شروع کیا گیا۔ اس کے لیے باقاعدہ شعبوں کا انتظام ہوا اور منظم انداز میں تحقیق کے عمل ارتقا کی منزلیں طے کی گئیں۔ تحقیق کی ضرورت کے پیش نظر جو کام ہوئے انہیں اگر نظر انداز کرتے ہوئے ہم صرف ادبی تحقیق کو پیش نظر رکھیں تو سب سے پہلے کتب کی ترتیب کا مسئلہ ہی سامنے آتا ہے۔ لہذ اہم متنی تحقیق کو سب سے اوپر رکھ سکتے ہیں، جس کی ارتقائی شکل تدوین کا عمل ہے۔ تحقیق کی ضرورت سب سے پہلے اسی عمل میں ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی کتاب یا تحریر لکھی ہے تو ہمیں یہ معلوم ہو کہ وہ کس شخص نے لکھی ہے۔ اس تحریر کا لفظ لفظ اس کا لکھا ہوا ہے یا کسی اور کا ہے، اگر کسی ایک مصنف کا ہے تو اس میں کسس طرح کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ زبان کس حد تک درست ہے۔الفاظ میں صحت الفاظ کا کتنا خیال رکھا گیا ہے۔ کتاب کا موضوع کیا ہے اور کتاب جس موضوع پہ لکھی گئی ہے کیا اسی نوع کی زبان اس کتاب میں موجود ہے۔ اس امر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب کو مکمل حصہ جس سے منسوب کیا جا رہا ہے اسی کا ہے یا اس میں کسی اور کا متن بھی شامل ہے۔ اگر یہ امر طے پا جاتا ہے کہ زبان کسی ایک شخص کی ہی ہے تو اس کے بعد لفظ کے ساتھ ایک تحریر کیے جانے کے طور پہ کام ہوتا ہے۔ کہ متن کس حد تک درست انداز میں لکھا گیا ہے اور اگر کوئی غلطی لکھنے میں راہ پا گئی ہے تو وہ کسی نوع کی دانستہ غلطی ہے یا اسے مرتب، کاتب یا متن تخلیق کرنے والے کے سہو سے تعبیر کیا جائے۔ کتاب کی اس بنیادی معلومات کے بعد کتاب کو جس نے تحریر کیا اور جس نے اسے مرتب کیا اس کے متعلق جاننے کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ کتاب کے کتنے نسخے بیک وقت موجود ہیں ا س کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیگر نسخوں کی تلاش کرنے کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ تحقیق میں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ کون سا نسخہ کس نے تحریر کیا یا کس نے اس کی کتابت کی بلکہ اس میں اسے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ جس شخص نے اسے مرتب کیا اس نے کس طرح اور کتنی صحت کے ساتھ اس کا متن تیار کیا ہے۔ مصنف کے منشا کے مطابق وہ متن کس حد تک ہے۔ کاتبوں کے تبدیلی بھی ایک نوع کا مسئلہ ہے۔ چونکہ تحقیق زیادہ تر قدیم متون میں ہوتی ہے اور اردو کے تمامی قدیم متون کا متن ایک سے زیادہ کاتبوں نے تحریر کیا ہوا ہے، لہذا یہ مسئلہ زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ تمام نسخوں میں منشائے مصنف کا کس حد تک خیال رکھا گیا ہے۔
اس کے بعد ایک سے زیادہ مصنفین کی کسی ایک کتاب پہ مزید یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کتاب کا کون سا حصہ کس مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ مثلاً ہم گیتا کے خوا ہ کتنے ہی نسخے جمع کر لیں یا وید وں کے ہمیں اس کا علم مکمل طور پہ نہیں ہو پاتا کہ اس کے مصنف ایک سے زیادہ ہیں یا کسی ایک شخص نے اسے تصنیف کیا ہے۔ الہامی کتب سے قطع نظر بعض قدیم تذکروں کے ساتھ بھی یہ مسئلہ ہے۔ مثلاً دلی کی تاریخ پہ ایک کتاب سر سید احمد خاں نے آ ثار الصنادید کے عنوان سے لکھی ہے جسے صہبانی نے ان کے ساتھ مل کے مرتب کیا ہے۔ اس میں صہبائی کا کیا کردار ہے اور سر سید نے کیا کچھ کیا اسے ایک شخص کے قوم کے مطابق نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیوں کہ بہت نسخوں میں تعصب کی بنیاد پہ کسی ایک شخص کے کیے ہوئے کام کو پوری طرح واضح کیے بغیر اس کا نام درج کر دیا جاتا ہے، قدیم تذکروں میں یہ کام اس طرح بھی کیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک عدد تذکرہ مرتب کیا تو اس کے تذکرے میں جتنے لوگوں کا ذکر ہے وہ زیادہ تر دوسرے تذکروں سے ماخوذ ہوتا ہے۔ لیکن بہت سیتذکر وں میں اس کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ کس تذکرے سے کسی شخص کا ذکر کس تذکرے میں پہنچا اور نیا تذکرہ مرتب کرنے والے نے کس حد دوسروں سے استفادہ کیا۔ یہ ہی عمل تاریخ کی کتب میں بھی ہوتا ہے۔ تاریخ فرشتہ اس کی بہت واضح مثال ہے جس میں د کنی عہد کی تاریخ سے قبل جتنے سلاطین اور بادشاہوں کا ذکر اس میں کیا گیا ہے وہ زیادہ تر دوسری تاریخی کتب سے ماخوذ ہے، مگر اس میں اس کا تذکرہ بہت کم کیا گیا ہے۔ یہ امر تحقیق کے عمل کو مزید جلا بخشتا ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ کس کتاب میں کسی شخص یا تاریخی واقعے کا اول اول تذکرہ ملتا ہے اور اس امر پہ مستقل کام کیا جائے۔ اس کی صحت کو دلائل سے واضح کیا جائے تاکہ نئی تاریخ لکھتے وقت قدیم ماخذات کو صحیح صحیح عمل پڑھنے والوں کو ہو سکے۔ قدیم تذکروں کا جہاں تک ذکر ہے اس میں گلشن ہند، مجموعہ نغز، گلشن بے خار، نکات الشعرا، تذکرہ عشقی، تذکرہ ہندی اور آب حیات تک میں ایسی بہت سی باتیں شامل ہیں کہ ان کے ماخذ کا علم ہم کو نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے لی گئی ہیں۔ تحقیق کر کے اسے واضح کرنے کا عمل نہایت ضروری ہو جاتا ہے تاکہ تاریخ ادب کو مرتب کر نے والے محققین کے عمل سے استفادہ کریں اور صحیح معلومات قارئین تک پہنچایئں۔ بعض اوقات کسی ایک واقعے کے تحقیقی عمل سے ایسی بات سامنے آتی ہے جو نئے لکھنے والوں کے ذہن کا معیار تبدیل کر دیتی ہے۔ تحقیق میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ پوشیدہ حقائق سامنے آئیں۔
تحقیق کے ضمن اختلاف نسخ اور لفظ کی تحقیق ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کون سا لفظ کس عہد میں کس طرح رائج ہوتا ہے اس کے متعلق محققین کو کلیتاً معلوم نہ ہوتو کسی طرح لفظ کی تحقیق کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ تحقیق کے عمل میں ایک لفظ کا کسی کتاب میں پایا جانا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہوتا۔ لغت کے ماہرین کسی لفظ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یا اس کی صحت کے کیا قاعدے بناتے ہیں یہ اہم ہوتا ہے۔ تحقیق میں لفظ کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں اور لفظ کی انہیں مختلف صورتوں سے رائج، صحیح، غلط اور غلط العام کے موضوع پہ کام کیا جاتا ہے۔ میر کے دیوان کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو اسے سمجھنا آسان ہوگا۔ مثلا ً آپ کسی لفظ کو میر کے دیوان میں دیکھیں تو اس کی صحت کے لیے آپ کو میر کے دیوان کے مختلف نسخے دیکھنے کی ضرورت ہوگی اگر کسی نسخے میں اس سے مختلف لفظ موجود ہے تو اس کی صحت کو دوسرے نسخے کی صحت سے ملا کر اس عمل کی تحقیق کرنی ہو گی کہ منشائے مصنف کیا ہو سکتا ہے۔ مثلاً خسرو کا ایک مشہور شعر ہے جس میں اس نے سانجھ کا لفظ استعمال کیا ہے یا رین کا اس پہ طویل بحث خسرو کے مدوین حضرات نے کی ہے۔ اگر ایک نسخے میں رین کا لفظ ہے اور وہ خسرو کے منشا سے میل کھاتا ہے تو سانجھ کے لفظ کو القط نہ کرتے ہوئے اسے حاشیے میں واضح کیا جاتا ہے لیکن اگر سانجھ کا لفظ اور رین کا لفظ یکساں طور پہ موجود ہوں تو ان کی صحت کے لیے اس عہد کی زبان کا مطالعہ کرنا ضرورت ہو جاتا ہے کہ اس عہد میں کس لفظ کو کثرت سے استعمال کیا جا رہا تھا۔ کسی لفظ کا تہذیبی پس منظر جاننے بغیر کوئی نسخہ تیار کرنے سے اغلاط کے راہ پا جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ میر کے دیوان کو مرتب کرتے وقت ظل عباس عباسی نے اس کا بھر پور خیال رکھا ہے اور درد کا دیوان مرتب کرتے ہوئے رشید حسن خان نے اختلاف نسخ کے تمام مسائل کو پیش نظر رکھا۔ کوئی لفظ اس وقت تک اپنی صحت میں کامل نہیں ہوتا جس تک کو کئی نسخوں میں جوں کا توں نہ ملے لیکن اگر اختلاف نسخ کسی سطح پہ ہو رہا ہے تو اس سے متن کی مزید توضیح کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً غالب کے کسی شعر میں ایک لفظ ایسا استعمال کیا گیا ہو جس میں گیرائی نہ ہو اور وہ زیادہ تر نسخوں میں موجود ہو، لیکن کسی ایک نسخے میں ایسا لفظ مل جائے جس سے یہ واضح ہو جائے کہ یہ لفظ غالب کی طبیعت کے عین مطابق ہے تو محقق کا فرض ہے کہ وہ غالب کے استعمال کردہ اس لفظ کو متن میں جگہ دے اور حاشیے میں اس بات کی وضاحت کر دے۔ تحقیق کا عمل اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ کام قاضی عبدالودو اور محمود شیرانی نے بہت کیا ہے۔ اختلاف نسخ میں ایک مسئلہ کسی کلام میں اضافی شرح کا بھی ہوتا ہے۔ مثلاً غالب کے یہاں یہ بہت ہے کہ جو شعر غالب کا نہیں ہے وہ اس کے نام سے منصوب کر کے دیوان میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ابن مریم ہو ا کرے کوئی اس بحر اور ردیف میں ایک غزل غالب کی ہے اور ایک داغ کی۔ اب اس میں داغ کے اشعار غالب کے کلام میں غالب کا کلام داغ کے کلام میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح قائم چاند پوری جو کہ میر درد کے شاگرد تھے ان کا دیوان اور میر درد کا دیوان جس مطلع سے شروع ہوتا وہ دونوں ایک ہیں کہ
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقی کہ خدا وند ہے تو لوح و قلم کا
یہ بات غور طلب ہے کہ قائم درد کے شاگرد تھے،لہذا عمومی انداز میں یہ کیا جائے گا یہ شعر درد سے منصوب کر دیا جائے گا۔ لیکن تحقیق میں اس امر کے ساتھ ساتھ کہ کون کس کا استاد ہے اور کس کا شاگر اس امر کی طرف توجہ کی جاتی ہے کہ دلائل کی بنیاد پہ کون سا شعر کس کا کہا جائے گا۔ اگر کوئی شعر طبیعتاً درد کا معلوم ہو رہا ہے تو وہ درد کا نہیں ہو جائے گا، بلکہ تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کر کے کہ فلاں شعر ان بنیادوں پہ فلاں شاعر کا ہے اس کی توضیح کی جا تی ہے۔
اسی طرح محمود شیرانی نے امیر خسرو کی ایک پوری کتاب کا ان کی تخلیق ہونے سے انکار کیا ہے اور دلائل و شو ہد سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو کتاب امیر خسرو کے نام سے موسوم کی گئی ہے وہ دراصل بعد کے عہد میں پائے جانے والے ایک خسرو نامی شاعر کی ہے جو امیر خسرو کے تیس سو برس بعد کا شاعر ہے۔ تحقیق کے عمل میں اختلاف نسخ اور لفظ کی تحقیق سے ایسے بہت سے قضیے پیدا ہو تے اور حقائق کی نئی ترتیب ہمارے تصورات کو بدل دیتی ہے۔ لفظ کی تحقیق میں صرف لفظ کس طرح برتا گیا ہے یہ دیکھ کر تحقیق کا کام نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اس کی زمانی ترتیب کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی لفظ جو میر کے یا مظہر جان جانا کے عہد کا ہے وہ امیر خسرو یا مسعود سعد سلمان کے زمانے کی تصانیف میں ملے تو اس پہ شک کیا جائے گا اور تحقیق کے ذریعے متن کی اصل صورت کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تحقیق کا کام اختلاف نسخ میں کسی ایک لفظ سے شروع ہو کر پوری کتاب پہ پھیل جاتا ہے اور اس سے محظوفات پہ کام شروع ہوتا ہے۔
اختلاف نسخ کے ساتھ ساتھ مصنف کے متعلق معلومات بھی اہم ترین گوشہ ہے۔ محققین نے اردو میں جو کام کیا ہے اس میں مصنفین کے متعلق معلومات بہم پہنچانے میں معرکے کی قواعد مرتب کی ہیں۔ تحقیق میں مصنف کے متعلق متن سے معلومات نکالنے کا طریقہ ابتدا میں رائج تھا۔ کون سا شعر کس کے مزاج کا ہے یہ عمل ایک عرصے تک رائج رہا۔ علاوہ ازیں مزاج کے باعث یہ بھی تحقیق کی جاتی تھی کہ کس علاقے کی لفظیات کس شاعر نے سب سے زیادہ برتی ہیں۔ نظامی عروصی سمر قندی نے اپنی مشہور کتاب چہار مقالہ میں اسی لئے کسی تخلیق کا ر پہ یہ شرط عائد کی تھی کہ اسے کم سے کم پانچ ہزار اشعار مع ان کے شاعروں کے اسما کے یاد ہونا لازمی ہے۔ آپ تصورکریں اگر کسی ایک شخص کو ا تنے اشعار ان کے خالقوں کے ناموں کے ساتھ یاد ہوں تو تحقیق کے عمل میں کتنی معاونت ملتی ہے۔ لیکن حافظے سے ہی بہت سے بڑے مسائل بھی سر اٹھاتے ہیں۔ اگر حافظے میں چوک ہو جائے تو مقدمہ مرتب کرنے میں بھاری اغلاط راہ پا جاتی ہیں۔ مصنف کے متعلق معلومات غلط پہنچتی ہیں اور اس کے مزاج کا تعین ہونے میں کئی اشعار مانع ہوتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ ہر مصنف کا ایک تہذیبی پس منظر ہوتا ہے۔ وہ اپنے تہذیبی پس منظر سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی ایک لغت مرتب کر تا ہے اور اس لغت کا فنی استعمال کر کے الفاظ کی بصیرت میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر کسی مصنف کے حالات زندگی ایک محقق کو معلوم ہیں تو اس کے لیے بڑی آسانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس عمل سے واقف ہو جاتا ہے کہ کون سا شاعر یا افسانہ نگار کس موضوع پہ شعر یا افسانہ خلق کر سکتا ہے۔ مثلا ً اگر میر کا ایک شعر غالب کے دیوان میں شامل کر دیا جائے تو اس کا امتیاز صاحب علم و بصیر محقق بہ آسانی کر لے گا۔ اسی طرح منٹو کا کوئی افسانہ اگر کسی تاریخی غلطی سے غلام عباس یا انور سجاد کے افسانوی مجموعے میں شامل ہو جائے تو اس کو بھی بہ نظر غائر، توجہ سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں کوئی محقق اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب اسے یہ معلوم ہو کہ منٹو کی ذہنی سطح کیا تھی وہ کن حالات میں زندگی گزار کر کس طرح سوچنے لگا تھا اور اس کے بالمقابل انور سجاد اور غلام عباس کے مسائل منٹو کے مسائل سے کس حد تک مختلف تھے۔میر کی صوتیات کے ضمن میں یہ کام ہوگا، مثلاً غالب کے یہاں جیسی فارسی تراکیب اور تراکیب کا مسلسل استعمال ملتا ہے وہ میر تقی میر کا خاصہ نہیں میر کے چھ دیوانوں میں ایک شعر بھی اتنا مغلق نہیں جتنے غالب کے اٹھارہ سو اشعار کے دیوان میں اول تا آخر بھرے پڑے ہیں۔
تحقیق کے عمل میں مختلف علوم کو جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک محقق کئی علوم جانتا ہے، اس سے اسے یہ آسانی ہوتی ہے اگر کوئی متن اس نوع کا ہے کہ اس میں مختلف علوم کی اصطلاحیں رقم کی گئی ہیں تو وہ انہیں الگ الگ شناخت کر سکے۔ تاریخ کی کتب سے کس طرح کسی ادبی متن میں استفادہ کیا جاتا ہے اس کی واقفیت بھی محققین کو ہوتی ہے یا جغرافیہ، سائنس، سماجیات، سیاست اور حساب کے قائدوں کی بھی ضرورت محققین کو ہوتی ہے۔ اسمائے اشیاء کے متعلق معلومات اور تہذیبی اقدار کا علم بھی محقق حاصل کرتا ہے۔ تحقیق کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ کئی علوم پہ دس سترس رکھنے کا رواج عام ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمومی مطالعے کا عمل بھی رائج ہوتا ہے۔ عمومی مطالعے سے محققین بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس سے موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور ایسے علوم کا علم ہوتا ہے جس کی ضرورت پیچیدہ متون کو واضح حد تک سمجھنے میں کام آتی ہے۔ کسی کتاب کی تدوین کے عمل میں اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ادبی فن پارہ ایسا ہے کہ اس میں طویل کہانی بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی مختلف اشعار کا جا بہ جا استعمال کیا گیا ہے تو عمومی مطالعے کہانی کے کرداروں کے پیشوں اور اشعار کے تخلیق کاروں کے بارے میں مزید معلومات از سر نو اکھٹا کرنے کی حاجت نہیں ہوتی۔ ایک محقق کو کئی شعر زبانی یاد ہوتے ہیں اور ان سے اپنا کام نکال لیتا ہے۔
محققین کا خطوط سے بھی راست واسطہ ہوتا ہے۔ وہ محتلف قسم کے قدیم خطوط سے واقف ہوتے ہیں۔ اس سے تاریخی عبارتوں کی شناخت تو ان کے لیے آسان ہو ہی جاتی ہے ساتھ ہی سماج میں ایک ایسی جماعت کا اضافہ ہوتا ہے جن سے قدیم مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اردو کی حد تک ہم دیکھیں تو خط شکست ایک نہایت مشکل خط ہے جسے سمجھنا آسان نہیں، عہد قدیم میں وراق اس خط کا استعمال کیا کرتے تھے جو ایک ایک دن میں اسی اسی کتابیں تحریر کرتے تھے۔ وراقوں کی تحریر میں خط نسق کا بھی استعما کیا گیا ہے۔ خطوط کی ان مختلف حالتوں میں تحریر کیے گئے ان متون میں جن میں نستعلیق کا استعمال ملتا ہے وہ زیادہ واضح اور قابل مطالعہ ہوتے ہیں۔ محققین کے لیے قدیم متن کے اصول کو جان کر انہیں نستعلیق میں مرتب کرنا ہوتا ہے تاکہ عوام الناس کسی متن سے استعفاد ہ کر سکے۔ محققین کے لیے تحریر کی مختلف حالتوں کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کی شکلوں کا جاننا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ انہیں قدیم متون میں کسی متن کے حصے میں سے دیگر زبانوں کے متون کو الگ کرنے میں آسانی پیش آئے۔ ایسی صورت میں عربی فارسی، سنسکرت اور اردو کے علاوہ، ہندی، ملالم، بنگالی اور گجراتی کے حروف مغالطے پیدا کر دیتے ہیں۔
موجودہ عہد میں تحقیق کے شعبے جب سے وجود میں آئے ہیں تحقیق کے معیار میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق کو ایک موضوع کے طور پہ پڑھایا جاتا ہے اور کسی متن کی تدوین کے اصولوں پہ نہ صرف یہ کہ کتابیں لکھی جارہی ہیں بلکہ اس کو مزید سیکھانے کے لیے اساتذہ اسباق تیار کرتے ہیں۔ موجودہ عہد میں موضوعات کی تحقیق کو زیادہ اعتبار حاصل ہوا ہے۔ کسی ایک نظریے یا شخصیت پہ تحقیق کرنے کا رواج عمل میں لایا جا رہا ہے۔ موضوعاتی تحقیق کے بہت سے فائدے ہیں کہ کسی ایک موضوع پہ جب محقق کام کرتے ہیں تو اس سے متعلق تمام حقائق نہ صرف یہ کہ پوری طرح واضح ہو جاتے ہیں، بلکہ مسلمات کا درجہ رکھنے والے حقائق بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے عمل میں کسی موضوع کو برتنے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کی شناخت کرنے میں مائل رجحان کام کرے، کسی ایک شخص کے کل اثاثے پہ تحقیق کا کام کرتے ہوئے یہ خیال پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس عہد کے تمام رسائل و جرائد، اہم کتب کا معائنہ کر کے اس کا ادراک حاصل کیا جائے کہ کوئی اس شخص کی تحریریں کہاں کہاں اور کتنے عرصے تک شائع ہوتی رہیں۔ علاوہ ازیں کون کون سے نظریا ت کسی ادیب کے عہد میں کام کر رہے ہیں جن سے کسی ادیب کی تحریریں متاثر ہوئی ہیں۔ تحقیق کے عمل میں یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ تحقیق صرف کسی شخص کی ذات تک نہ محدود رہے، بلکہ اس شخص کے اعمال کا احاطہ کرے۔ تحقیق کے عمل میں اس فعل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ کسی تحقیق سے کیا نتیجہ نکلے گا، بلکہ یہ دیکھنا زیادہ اہم ہوتا ہے کہ کس حد تک حقائق جمع ہو سکتے ہیں اور ان حقائق کی بنیاد پہ کس طرح نئے تصورات جنم لیتے ہیں۔ یک موضوعی تحقیق کے ساتھ ساتھ موجودہ عہد میں کثیر موضوعی تحقیقات کا یکساں اخراج بھی ایک طریقہ ہے جس سے تحقیق کے عمل کو جلا مل رہی ہے۔ اس امر میں مختلف موضوعات پہ مختلف حوالوں سے محققین تحقیق کرتے ہیں اور کسی ایک فن پارے کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ جدید یت کے عہد میں جب اردو میں نئے تصورات کا چلن عام ہوا تو کسی ایک موضوع پہ مختلف اشخاص کی ارا کو جمع کر کے اس نظریہ سازی کا کام کیا جانے لگا۔ مابعد جدیدیت کے عہد میں جب نظریات پہ قدغن لگنا شروع ہوا تو نئی تحقیق پرانی تحقیق کے مقابلے میں بالکل مٹے ہوئیحروف کی مانند ہو گئی۔ رد تشکیل میں نئے نظر یات کے پیش نظر یک موضوعی تحقیق کو القط کیا جانے لگا اور مظہریت اور وجودیت کے ضمن میں مغربی تصور تحقیق کا جو چلن مشرق میں رائج ہو رہا تھا، اس سے قطع نظر نئی تاریخیت کے نظریے کو فروغ دیتے ہوئے تحقیق کے عمل کو غیر مشروط انداز میں مرتب کرنے کی سعی کی گئی۔ التھوسے جو کہ مغرب کا ایک بڑا مفکر اور مابعد جدید ادیب تھا ان نے نظریات کو مشکوک بنا کر پیش کرنا شروع کیا اور دریدا کے خیالات کو عوامی زندگی میں شامل کرنے کے لیے نئی تاریخیت کے تصور کو ہوا دی جس کے زیر اثر وہ تمام مجتمع خیالات جن سے ایک تہذیبی، ادبی، لسانی اور سماجی پل تیار ہوتا تھا سب کی تردید ہو گئی۔ ایسے وقت میں نئی ساختیات نے لسانی بحث اور اس کے تحقیقی سرمائے کو مزید جھنجھوڑ کر یک لسانی تصور میں ضمن کرنے کی سعی کی۔
اکیسویں صدی میں تحقیق کے بحران کا مسئلہ جس تیزی سے سر اٹھا رہا تھا اور وہ تحقیق شہ پارے جو اٹھارویں صدی میں مرتب ہو کر نئی تحقیق کے لیے مشعل راہ کا کام کر رہے تھے، وہ تمام نظریات مابعد جدیدیت کی رو سے از کار رفتہ قرار دیئے جانے لگے۔ اس سے تحقیق کے میدان میں ایک طرف یک موضوعی تحقیق پہ سوال قائم ہوئے اور دوسری جانب نئی تحقیق کا اجتماعی تصور زوال پذیر ہونے لگا۔ یک موضوعی تحقیق جس نے بیسویں صدی کے نصب آخر میں اپنے پیر پھیلانا شروع کیے تھے اس پہ جدیدیت کہ عہد میں زیادہ کام ہوا۔ اگر ہم مغرب کے روشن خیالی کے عہد کو نظر انداز کر دیں جس میں اٹھا سو نوے کے بعد مارکسی اور رومانی کے ساتھ ساتھ جدید تحقیق نے اپنا کام شروع کیا تھا، تو خالص ہندوستانی اور بالخصوص اردو کا رویہ ہمارے لیے بہت سی مثالیں پیش کرتا ہے جس سے تحقیق کے یک موضوعی ر ویے کا ارتقا سمجھ میں آتا ہے۔
اردو میں سب سے پہلے قصیدے کو یہ شرف حا صل ہوا کہ اس کے متن کو تحقیقی انداز میں دیکھنے کی سعی کی گئی۔ مسیح الزماں نے مرثیے کے حوالیسے اپنی جدید تحقیق کا جو شہ پارہ مرتب کیا ہے اس میں اور گیان چید جین کے مثنویوں والے کام میں جیسا واضح فرق ہے اسی نوع کا تحقیق فرق قصیدے سے متعلق نظریات اور میں پروئی ہوئی لفظیات کے متعلق محمود الہی اور حالی، امداد امام اثر اور صاحب مراۃ الشعر کے یہاں ہے۔ جدید محققین نے قصیدے کو تہذیبی تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی لسانی تشکیل کے عمل کو جانچنے کے لیے مشرقی لفظیات کے ذ خیرے سے چنے گئے الفاظ کی نفسیاتی تحلیل پہ کام کیا جس سے کسی قصیدے کے مستحن پہلووں کے ساتھ ساتھ اس معائب بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ قصیدہ ایک ایسی صنف بن گیا کہ اس پہ کام کرنے والوں کو ایک جدید تناظر ملا، بلکہ وہ نئی زندگی کی علامتوں سے مزین نظر آنے لگا۔ قصیدہ نگارہ میں کردار کی بحث پہ امین قیسی کا مضمون اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ قصیدہ جس وقت ایک صنفی زوال سے جوجھ رہا تھا اسی وقت اس وہ ارتقا کی طرف مائل تھا۔کسی صنف کے متعلق تحقیق سے ایسے حقائق کا یکجا کر دینا ہی تحقیق کے عمل کا حاصل ہے۔
صنف کی جدید تحقیق سے اصناف کے متعلق نئے بالکل نئے تصورات قائم ہوئے ہیں۔ اصناف کے علاوہ نظریات جن میں فارسی گوئی، تصوف، ایہام گوئی، رد ایہام گوئی، اغلام بازی، علی گڑھ تحریک، ترقی پسند تحریک، رومانیت اور جدیدیت پہ بھی نئے تصورات کے تحقیق ہوئی ہے۔ جس میں اردو کی تاریخ کے ایسے گوشے وا ہوئے جن نظریات اور رجحانات کے متعلق مشکوک رویہ پیدا ہوا۔ اردو میں ترقی پسند تحریک کے زمانے میں تحقیق نے مارکسی رویے کے ساتھ جس طرح تحقیق کا نیا منظر نامہ تشکیل دیا اس سے پرولتاری اور بور ژوا تقسیم، سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے کلیشوں کو ادی فن پاروں تاش کر کے انہیں غیر مروج بنانے کی سعی کی گئی۔ اسی ضمن میں ترقی پسند تحریک کے عہد میں تانیثیت پہ جو کام ہوا اس نے معاشرے کے مختلف طبقات میں عورت کے تصور پہ سوال قائم کیے۔ اس کے متزلز وجود سے صدیوں سے جس نوع کی چشم پوشی کی جارہی تھی اس کو القط کیا اور نیا منظر نامہ تشکیل دینے کے لیے اس تعلیم کو کس طرح ختم کیا جاتا ہے اس پہ تحقیق کا عمل ہوا۔
اردو میں راشد الخیری اور نذیر احمد کے ناولوں سے جو فضا بنی ان کے کرداروں پہ پریم چند نے تحقیقی مضامین لکھے اور عصمت چغتائی اور رشید جہاں جیسیشخصیات کے لیے راہ ہموار کی۔ ترقی پسندوں کے تحقیق کام بھی اتنے ہی سماجی اور زمینی تھے جتنا ان کا ادبی میلان۔ وہ کسی ایسی تحقیق کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنے کے قائل نہیں تھے، جس سے بورژوا کو سماج سے ختم کیے جانے کا علان نہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک انتہا پسند رویہ تھا، لہذا ان کے بڑے محققین احتشام حسین کا نام سر فہرست آتا ہے وہ آہستہ آہستہ پس پردہ چلے گئے اور فیض احمد فیض جن کے یہاں نعروں کی یلغار زیادہ تھی وہ منظر نامے پہ آگئے۔ ترقی پسند محققین میں ایک بڑا نام خلیل الرحمن اعظمی کا بھی تھا جنہوں آتش کے کلام کی تدوین کی ان کے کل شعری اثاثے کو تحقیق کے اعلی اصولوں سے مزین کر کے مرتب کیا، لیکن اس کے باوجود اس کو خاطر خواہ پذیرائی نصیب نہ ہوئی اس کے بر عکس نیر مسعود کے انیس پہ کیے ہوئے کام کو بہت شہرت ملی جو جدیدیت کے زمانے میں کیا گیا تھا۔ انیس پہ نیر مسعود نے ستائیس پر کام کر کے ایک کتاب مرتب کی ، اپنی زندگی کے قیمتی سال قربان کر کے ایک بڑا تحقیقی کام جس طرح نیر مسعود نے کیا اس سے جدیدیت کے تحقیقی رویے کا علم ہوگا ہے۔ ترقی پسندوں میں ایسے اور بھی نام ہیں جن میں نیاز فتح پوری، ڈاکٹر اعجاز حسین، صفدر آہ، شہاب جعفری، الف۔د۔ نسیم اور علی سردار جعفری وغیرہ نمایاں ہیں۔ سردار جعفری نے ایک بڑا کارنامہ تدوین کا بھی انجام دیا تھا جس کے تحت انہوں نے میر یقی میر کا کلیات رائج الوقت تحقیقی اصولوں کے تحت مرتب کیا تھا۔
ترقی پسند وں کے بعد جدیدیت میں سب سے بڑا کام امام جدیدیت شمس الرحمن فاروقی کا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کے قدیم دواوین مرتب کیے، بلکہ نظریاتی تنقید کے اصولوں کی تحقیق کی اور وہ اصول جو شبلی کے زمانے سے اردو تنقید میں رائج تھے ان کو دلائل و براہین سے القط کیا۔ جدیدوں میں مغنی تبسم، محمود ہاشمی، محمود ایاز اور اعجاز صدیقی وغیرہ نے نہ صرف یہ کہ نئے اور پرانے موضوعات پہ تحقیق کی بلکہ تحقیق کے اصولوں پہ بحث کروائی اور اپنے رسائل میں اسے شائع کیا۔
رشید حسن خاں تمام جدید محققوں کے سر خیل کہے جا سکتے ہیں انہوں نے تیس برس میں میر امن کی باغ و بہار اور رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب کا جو متنی کارنامہ انجامن دیا جس سے تدوین کے اصولوں کی سب سے نمایاں مثال مرتب ہوئی ان کے کار ناموں کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رشید نے ایک طرف قدیم متون کی تدوین کی اور دوسری طرف جعفر زٹلی جیسے شعرا کے دیوان کو مرتب کیا جس سے اردو کی تاریخ کو ایک نیا موڑ نصیب ہوا۔ شمس الرحمن فاروقی نے بھی چرکین جیسے شاعر کا کلام جمع کر کے اس پہ بسیط مقدمہ لکھا اور جدید تحقیق کو مزید فروغ بخشا۔ جدیدیت کے عہد میں تراجم کی تحقیق کا کام بھی ہوا ہوا۔ مثلاً دی ٹیل آف گینجی جو دنیا کا پہلا ناول ہے اور جس کا ترجمہ گنجی کی کہانی کے نام سے احتشام حسین نے کیا تھا۔ اس کے متن کو جد یدیت کے بڑے شاعی امین سعیدی نے مرتب کیا اور اس امر کی جانب توجہ دلائی کہ احتشام صاحب نے کتنے مختلف نسخوں کو اپنے سامنے رکھ کر اس کتا ب کا ترجمہ کیا تھا، ساتھ ہی جا پان کے تاریخی مقامات اور اس کہانی کے کرداروں کا سماجی مطالعہ بھی اپنی کتاب میں پیش کیا ، جس سے نہ صرف یہ کہ ترجمہ شدہ متن کی اہمیت میں اضافہ ہوا بلکہ اس کہانی کا احیا بھی عمل میں آیا۔ ترجمے کے کاموں میں کارل مارکس کی نظموں کو مرتب کرنے کا کام، داس کیپٹل کت ترجمے کی تدوین اور سرمایہ جیسی کتب کو مدون کر کا کام بھی جدیدت کے عہد میں ہی ہوا۔
یہ امر نا قابل فراموش ہے کہ اردو میں تحقیق کی تفہیم نو میں مولوی عبدالحق کا کا رنامہ سب سے نمایاں ہے۔ جنہوں اردو کے قدیم متون کو مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ صوفیا کی تاریخ پہ اہم کتابیں مرتب کی جس اردو زبان کے اولین دور کے کئی حقائق جو پردہ خفا میں تھے وہ منظر عام پہ آئے۔ ان کے کاموں ایک کام ان تحقیقی اداروں کا نفاذ بھی ہے جس میں انجمن ترقی اردو کو سب سے بڑا مقاام حاصل ہے۔
تحقیق کا عمل ایک مشکل عمل ہے جس کے متعلق سید محمد ہاشم بالکل درست فرما یا ہے کہ:
”تحقیق نہایت مشکل اور بہت نازک کام ہے۔ بغیر کسی اصول و ضابطے کے اس کا وجود فرضی ہوگا۔ اس فن کے علما نے جن اصولوں اور ضابطوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے اس کا حوالہ وہ اپنی ترتیبوں اور تالیفوں میں بھی دیتے رہے ہیں، مخطوطوں کی ترتیب کے مقدمے میں انھوں نے اپنے طریقہ کار کی وضاحت بھی کی ہے۔ اس سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ان بزگوں کی ترتیب کے تریقے سے ہم آشنا ہو گئے۔ اس کی قدر و قیمت سامنے آ گئی، لیکن انہیں مستفید اصولوں کی حیثیت سے تسلیم کرنا زیادہ معاون ثابت نہیں ہو سکا اسی لیے اس کی پیروی کرنا بھی دشوار ہے وجہ یہ ہے کہ تحقیق کے دوران چند گونا گوں مسائل سے بھی نبرد آزماں ہونا پڑتا ہے، جس کا ذکر عموماً مقدمے میں نہیں کیا جاتا۔ان دشواریوں کے پیش نظر بعض لائق محققین نے اپنے مطالعے اور تجربوں کی روشنی میں تحقیق کے لیے باقاعدہ طور پر اصول وضع کیے ہیں۔”
(ص:7، مقدمہ، سید محمد ہاشم،تحقیق و تدوین، شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
تدوین کی قدر و قیمت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جس اس میں متن کی صحت کے ساتھ اس کے صوتی نظام کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے اور تواریخ کا بھی التزام کیا جائے۔ کسی متن کو مرتب کرنے میں زیادہ وقت اس وقت لگتا ہے جب اس کے مختلف نسخے تلاش کیے جا رہے ہوں، سب کی ترتیب اور فہرستیں مرتب کی جا رہی ہوں اور متن کا باریکی سے مطالعہ کر کے اس حشو و زوائد کو القط کیا جا رہا ہو۔ موجودہ عہد میں تدوین کے کام فروغ نصیب ہو رہا ہے کیوں ڈیجیٹل لائبریریز کی بھر مار ہے، کسی ایک نسخے کی جتنی بھی کاپیاں دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود ہیں ان تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ مائکرو فلم کے ذریعے کتب کی عمل بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ لہذ ا تدوین کے عمل میں جو مسائل بیسویں صدی کے نصف آخر تک تھے وہ اب نہیں ہے۔ اس ضمن میں مزید کام کرنے کے لیے محققین کو معاوضے بھی معقول ملتے ہیں، مگر کوئی اچھا کام سامنے نہیں آتا ہے۔ تدوین کا عمل ایک مستقل عمل ہے جس میں خواہ کتنی بھی آسانیاں نصیب ہو محقق کو مستقل اپنی لیاقت صرف کرنا ہوتی ہے۔ کسی متن کو کتنے حوالوں سے دیکھا جائے۔ اس کے حواشی و تعلیقات کس طرح مرتب کیے جائیں اور اس کے ترقیمے سے کس طرح مستفید ہوا جائے اس عمل کو سیکھے بغیر تدوین کے میدان میں پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ تنقید میں بہت سی آسانیاں ہے، لیکن تدوین کے کام میں یکسوئی اور دلجمعی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ باوجود اس کے تدوین کے کام میں شہرت کم ہے۔ اردو کے بڑے مدون جن میں امتیاز علی خاں عرشی اور مالک رام کا نام بہت نمایاں ہے انہوں نے کتنے دواوین مرتب کیے ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا، اس کے برعکس کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری اور شمس الرحمن فاروقی کے کاموں کو زیادہ ا ہمیت دی جاتی ہے، لہذا نئے محقق تدوین کے عمل کو اس طرح قبول نہیں کرتے جس طرح تنقید یا تخلیق کو کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں فراموش نہیں کرناچا ہیے کہ تنقید کا عمل جز وقتی ہوتا ہے اور تدوین اور تحقیق سے صدیوں استفادہ کیا جاتا ہے۔ اردو میں قاضی عبدالودود اور مولوی عبدالحق نے جو تدوینی کارنامے انجام دیئے ہیں انہیں اردو کے تمام سرمائے میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اردو میں تدوین کے کام کا فی زمانہ اس لیے بھی معیار کمزور ہوا ہے کہ اردو کے کلاسکی سرمائے سے نئے محققین کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جدید شعرا اور ادبا کو جاننا جتنا ضروری ہے اپنے قدیم شعرا کا تذکرہ کرتے رہنا بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے۔ اس لیے تدوین کے عمل کو فراموش کر کے ادبی سطح پہ کسی نوع کا عروج حاصل کرنا خاصہ سطحی عمل ہے۔
کسی زبان کے لیے تحقیق کا عمل جتنا ناگزیر ہے اتنا ہی کسی معاشرے کے لیے بھی ہے۔ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے، اگر ادبی متن کسی معاشرت میں صحت کے ساتھ مرتب ہوتے ہیں تو وہ معاشرت اس امر کی غماز ہوتی ہے کہ اس معاشرے میں موجود اشخاص حق پسند ہیں اور درست سے درست صورت حال کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایک معاشرہ اس وقت صحیح معنوں میں کامیاب معاشرہ گردانہ جاتا ہے جب اس میں چھو ٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اکائی کے ضمن میں تحقیق رویہ برتا جاتا ہے۔ ایسے سماج کو انصاف پسند سماج کہا جاتا ہے۔ یورپ کی ترقی اسی امر میں مضمر ہے کہ انہوں نے اپنے سماج میں ادب اور تاریخ کے متون کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھا، تعصب کو ختم کرنے کے لیے اصل صورت حال کو جاننے کی سعی کی اور اس کے بعد اس پہ کوئی رائے قائم کی۔ تحقیق اور بالراست ادبی تحقیق کا بادی النظری میں کوئی تعلق سماج سے نظر نہیں آتا، مگر چونکہ ادب سماج میں بہت خاموشی سے سفر کرتا ہے اس لیے وہ ذہنوں کو مرتب کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ اس میں اغلاط کا راہ پا جانا اس لیے زیادہ پریشانی کا عمل ہے کہ اگر اس میں کوئی شر پسند عنصر موجود ہو جو تاریخی اور زمانی ارتقا کے ساتھ در آیا ہے تو اسے درست نہ کر نے سے غلط فہمی کو جلا ملتی ہے۔ ہر وہ اغلاط نامہ جو کسی متن کی تفہیم میں جذب ہو تا ہے وہ نئی تفہیم کو پیدا کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ معاشرتی سطح پہ علوم کی ناقدری کا عمل اس سے مزید بڑھتا ہے اور ادب اور اخلاقیات سے عوام کو بیزاری ہونے لگتی ہے۔ یونان، روم، مصر، قدیم ہندوستان اور یورپ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے تحقیق کی اغلاط کے باعث نہ صرف یہ کہ بڑی بڑی جنگیں لڑیں، بلکہ اپنی نسل قعر مزلت میں دھکیل دیا اور انہیں کے درمیان جن اشخاص نے یہ کوشش کی کہ ان معاشرتوں کا رویہ اپنے ادب اور تاریخ کے تئیں سنجیدہ ہو تو انہوں نے خود کو از سر نو مرتب کیا اور سماج میں غلط فہمیوں کے راہ پا جانے کی شمع بجھا دی۔
اردو زبان کی موجودہ صورت حال میں اردو کی ایسی تاریخ مرتب کرنے کے لیے جس میں دونوں اقوام کی کار گزاریوں کو یکساں طور پہ محسوس کیا جا سکے، ہمیں اپنے کلاسکی سرمائے کو سنجیدگی سے پڑھنے اور ان کی تحقیق و تدوین کا کام کرنے کی ضرورت ہے، جس وقت تک ہم یہ نہیں سمجھ لیتے کہ تاریخی متون صرف تاریخ میں ہی نہیں بلکہ متحرک سماج میں بھی ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں اس وقت تک ہم کلاسکی متون کی طرف راغب نہیں ہوتے اور یہ ہی ذہنیت صحیح ادبی صورت حال سے تو ہمیں دور کرتی ہی ہے ساتھ ہی معاشرت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
اردو کے ادبی سرمائے میں مغربی محققین کا جو کارنامہ ہے اس سے بھی ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے اردو کا رشتہ عالمی منظر نامے سے جڑتا۔ یورپی اقوام اور بالخصوص فرانسسیوں کے ابتدائی کاموں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ہندو ادیبوں کے تحقیقی کارناموں کو نمایاں طور پہ سامنے لانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ایک عمومی نظریے کا رد ہوتا ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ مسلمانوں نے یقیناً اردو زبان کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ حقیقت کل نہیں بلکہ جزوی حیثیت کی حامل ہے۔
تحقیق کے عمل کے لیے بہت سے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک وہ وسائل مہیا نہ ہو اس وقت تک تحقیق کا کام مکمل کامیابی کے ساتھ کر پانا ممکن نہیں۔ اس لیے تحقیق جس طرح ایک منظم اور مصنف معاشرہ تشکیل دیتی ہے اسی طرح معاشرے میں پائے جانے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی تحقیق کے تئیں خود کو وقف کریں۔ ان وسائل کو مہیا کر نے میں ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنا کردار عمل میں لائیں اور وہ اشخاص جو معاشرے میں تحقیق کے کاموں میں کوشاں ہیں ان کے لیے کام کریں اور انہیں مالی پریشانی کا سامنا نہ ہونے دیں۔ حالاں کہ اب حکومتوں نے اب تحقیق کے لیے جس نوع کا رویہ اختیار کیا ہے وہ بھی کم خوش آئند نہیں،کیوں کہ محققین کو تحقیق کے لیے حکومت جو وظیفہ دیتی ہے اس سے محقق بہ آسانی اچھا تحقیق کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ موجودہ عہد میں تحقیق کے تئیں حکومتوں کے رویے سے زیادہ محققین کا رویہ پست نظر آتا ہے۔ اچھی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ عہد میں کن مسائل سے معاشرہ دو چار ہے اسے سمجھ کر تاریخی متون میں سے ایسی کتابیں چھانٹ کر انہیں از سر نو مرتب کیا جائے جس سے معاشرت میں پھیلی خرابیوں اور پر یشانیوں کو حل کرنے کا راستہ مل جائے۔
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بھی اس زبان سے وابستہ اردو شعبے اور ادارے روز افزوں کام کارنامے انجام دے رہے ہیں، ان میں تاریخی متون کے ساتھ ساتھ نئے متون پہ بھی کام ہو رہا ہے اور تحقیق کے ضمن میں نئے اصول بھی وضع کیے جارہے ہیں اس سے نہ صرف یہ کہ زبان کو ترقی نصیب ہورہی ہے، بلکہ محققین کو انعام و اکرام کے ساتھ مالی تعاون بھی دیا جاتا ہے جس سے محققین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اردو میں نہ صرف یہ کہ مرکزی حکومتیں فعال ہیں، بلکہ صوبائی حکومتیں بھی اس ضمن میں بڑا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ اردو میں تحقیق کا کام موجودہ عہد میں کہا جا سکتا ہے کہ بہتر انداز میں ہو رہا ہے، مگر اس میں مزید بہتری لانے کے لیے محققین کو اپنے عمل تحقیق پہ نظر کرنے کی ضرورت ہے۔
***