You are currently viewing اردو افسانوں میں فرقہ وارانہ فسادات

اردو افسانوں میں فرقہ وارانہ فسادات

شیخ بدرالدین

ریسرچ اسکالر، اے۔ایم۔یو  ،علی گڑھ

اردو افسانوں میں فرقہ وارانہ فسادات

تقسیمِ ہند کے حوالے سے

اتنی بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کہی بھی کسی بھی طرح کا فسادات ہو یا جنگ ہو اس میں کسی ایک فرد یا ایک طبقہ یا ایک سماج کا نقصان نہیں ہوتا ہے بلکہ پورے انسانیت کا ہوتا ہے۔ آج کے دور میں جاری یوکرین (Ukraine) کا جنگ کو ہی لے لیجیے۔ اس جنگ میںظاہری طور پر صرف روس اور یوکرین شامل ہیں مگر اس جنگ سے پوری دنیا متاثر ہے۔

کسی بھی فسادات کا ذمہ دار چندلوگ ہوتے ہیں مگر اس کا نقصان پورے سماج کواٹھانا پڑتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کے دوران جو بھی  کچھ کشمیر میں ہوا۔ اس کا کوئی بھی انسان ہو یا مسلمان سمرتھن نہیں کرتا ہے۔ مگر ابھی ابھی جو فلم آئی ہے “THE KASHMIR FILES” اس میں ایسا دکھایا گیا ہے کہ یہ مسلمان ہی سارے فساد کا جڑ ہیں۔فلمیں تو بہت ساری آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ مگر جس طرح سیاسی کرن کیا جارہا ہے یہ غلط ہے۔ عام انسان تو عام انسان ملک کا وزیر اعظم بھی اس نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

اسی طرح تقسیم ہند کے دوران سرحد کے دونوں جانب ہونے والے فسادات پورے انسانیت کے

لیے شرم کی بات ہے۔ کس طرح بچے، بوڑھے، عورت، مرد، اور جوانوں کو قتل کر دئے گئے۔ جوان عورتوں اور لڑکیوں کی عصمتیں لوٹی گیئں۔ انسانیت کی تمام قدریں ختم ہوچکی تھی۔

افسانہ نگار بھی  اسی سماج کا ایک فرد ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور شدید ردِ عمل کا  اپنے افسانوں میں اظہار بھی کیا۔ جگدیش چندر دوھان لکھتے ہیں:۔

ــ’’ تقسیم ملک کا دور ایک طوفانی دور تھا ۔ جس نے بر صغیر میںایک ہیجان بپاکردیا تھا۔ ہر چیز زیر و زبر اور تہہ و بالا دیکھائی دیتی تھی۔ لاکھوں لوگ جن کا سیاست سے دور کا بھی واستہ نہ تھا اپنے آبائی اور پشتینی گھر بار ترک کرکے بے بسی، بے چارگی اور بے سروسامانی کے عالم میں اہل وعیال سمیت، ملک کے ان دیکھے دورافتادہ علاقوںمیں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ملک کے طول و عرض میں قتل و غارت لوٹ مار، آتش زنی اور عصمت دری کا بازار گرم ہوگیا یہ بربریت حیوانیت اور شیطنیت کا کھلا اور ننگا ناچ تھا۔

                  (کرشن چندر شخصیت اور فن، ص۴۳)

جب ہم اُس دور کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہیںتو پتا چلتا ہے کہ کچھ افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں یہ ظاہر کیا کہ سرحد کے دونوں طرف انسانیت کی تمام قدروں کا خاتمہ ہوگیا۔

مگر ایسے بھی افسانہ نگار تھے جنہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انسانیت ابھی بھی زندہ ہے۔ مگر اس کے چہرے پرکچھ وقتی داغ آگئے ہیں۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ صدیوں سے ایک ساتھ مل جل کر رہنے والے لوگوںکے بیچ انگریزوں نے نفرت کا جزبہ پیدا کیا اس لیے ان کی سازش کا پردہ فاش کرکے اخوت اور رواداری کا ماحول کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فرقہوارینہ فسادات تقسیم ملک کی وجہ سے ہوئے اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو فسادات اتنے بڑے پیمانے پر نہ ہوتے۔

تقسیم ہندکے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بعض پہلوئوں پر کرشن چندر نے کثرت سے افسانے لکھے۔ ’’ پیشاور ایکسپریس‘‘ ، امرتسر آزادی سے پہلے اور امرتسر آزادی کے بعد‘‘ایک طوائف کا خط‘‘ میرا بچہ وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں۔

کرشن چندر لکھتے ہیں ’’پیشاور ایکسپریس‘‘ کی خواہش تھی کہ نفرت اور خون کے بوجھ سے اسے چھٹکارا ملے۔ جب گاڑی پیشاور سے ہندومہاجرین کو لے کر ہندوستان کے لیے روانہ ہوئی تو اس نے راستے میں دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے۔

’’سب مرگئے، اللہ اکبر، فرش خون سے لال تھا اور جب میں پلیٹ فارم سے گزری تو میرے پاوں ریل کی پڑی سے پھسلتے جاتے تھے جیسے میں ابھی گرجائوں گی اور گر کر باقی زندہ مسافروں کو بھی ختم کر ڈالوں گی ‘‘        (کرشن چندر۔ ہم وحشی ہیں۔ ص۹۸)

فسادات کے موضوع پر لکھے کرشن چندر کے افسانوں کے متعلق سید وقار عظیم لکھتے ہیں:۔

’’ کرشن چندر نے یہ افسانہ کبھی ہندئوں اور سکھوں کے لیے اور کبھی مسلمانوں کے لیے،لیکن خود ہندو یا مسلمان ہوکر نہیں بلکہ انسان ہو کر  اور اسی لیے ان کے افسانوں میں ایک صحیح قسم کا جذباتی گہرائو بھی ہے۔درد کی کسک بھی ، لیکن جذبات کے بہائو پر عموماََ غور و فکر  نے اعتدال و توازن کے مہر ثبت کردی ہے۔ ان افسانوں میں بیان کی شگفتگی بھی ہے، طنز کی ہلکی سی لہر بھی اور مزاح کی معمولی سی چاشنی بھی‘‘۔

         (وقار عظیم:نیا افسانہ۔ ص۲۱۸)

’’لاجونتی‘‘ فسادات کے وقت مغویہ عورتوں کی کہانی ہے۔ جس میں راجندر سنگھ بیدی نے مذہب کی آڑ لے کر بیدی نے ان مغویہ عورتوں کو اپنانے سے انکار کرنے والے معاشرے کی بھی شدید مخالفت کی ہے۔

’’ ان بیچاری عورتوں کے اغوا ہوجانے میں ان کا کوئی قصور نہیں فسادیوں کی ہولناکیوں کا شکار ہوجانے  میں کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصورعورتوں کو قبول نہیں کرتا۔انہیں اپنا نہیں لیتا۔ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے۔

                                    (راجندر سنگھ بیدی:۔ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘۔ ص۱۲)

منٹو نے بھی افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ میںیہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس تقسیم کے خلاف دانشور اور عقلمند طبقہ ہی نہیں بلکہ پاگل تک اس بٹوارے کے سخت خلاف تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کا تقسیم صرف ملک کا تقسیم ہی نہیں بلکہ  یہ ایک معاشرہ اور تہذیب کا تقسیم تھا۔کتنی مائیں،بہنیں، کتنے رشتے دار ایک دوسرے سے جدا ہوئے، کتنے محبت کرنے والے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔

عصمت چغتائی کا افسانہ’’جڑیں‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو تقسیمِ ملک کے بعد ہونے والے کرب کو بیان کیا ہے۔ گھر چھوڑنے کا احساس گھر کے ہر ایک فرد کو ہوتا ہے۔ لیکن بوڑھی ماں کو سب سے زیادہ احساس ہوتا ہے۔بوڑھی ماں کی خاموشی سے ان کے اندر کے درد کرب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

’’ماںبیٹا‘‘ بھی حیات اللہ انصاری کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ اس افسانے میں بھی ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں کے مظالم کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اس افسانے میں انسانوں پر زبردست طنز کیا ہے جنہوں نے انسان پر ہی نا سمجھی کی وجہ سے ظلم ڈھائے ہیں۔

’’ ماں اگر تم بدلہ لے سکیں تو ہندئوں سے بدلہ لو گی‘‘

’’ دیکھتا نہیں ہے مورکھ۔ میں تجھے کتنا پیار کرتی ہوں‘‘

راموں کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے اور کہنے لگا شماکرو ماں۔ مجھ سے بھول ہوئی تم بدلہ لینا چاہتیں تو مجھ سے نہ لے لیتیں۔ تمہارے دل میں تو دیا ہی دیا ہے۔

ان افسانہ نگاروں نے انسان کی عظمت اور صالح انسانی قدروں پر جس طرح زور دیا اس میں فنیاعتبار سے کچھ کمی سہی لیکن انسان دوستی کی نظر سے یہ کوشیشں یقیناََ بہتر تھی۔ تقسیم ہند کے حوادث سے متاثر ہوکر جن افسانہ نگاروں نے افسانہ لکھے ان میں کرشن چندر ،بیدیؔ،منٹوؔ، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی،، خواجہ احمد عباس، قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہیں۔

***

Leave a Reply